ہوش میں آتے ہی لاشعور سے شعور کی طرف بڑھتے ذہن نے اسے احساس کرایا وہ اس ویران گلی میں جانے کتنی دیر سے بے ہوش پڑا تھا۔اس کے گھر والے فکر مند ہونگے ۔ بمشکل اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر اس نے پاس پڑا اسمارٹ فون اٹھایا اور وقت پر نظر ڈالی۔ اسمارٹ فون کی ٹوٹی ہوئی اسکرین کے پیچھے گھڑی ڈیڑھ بجا رہی تھی۔دکھتے بدن اور زخمی چہرے کے ساتھ بمشکل آدھے گھنٹے بعد وہ آفندی حویلی پہنچنے میں کامیاب ہوپایا تھا۔ حسب توقع رات کے اس پہر صحن کی ساری بتیاں روشن تھیں۔ حریم سمیت اس کے والدین از حد فکر مند اس کے منتظر تھے۔ایک پیر کو گھسیٹنے کے انداز میں چلتا ہوا وہ صحن کی کرسی پڑھ ڈھے گیا۔لمبی لمبی سانسیں لے کر اس نے خود کو نارمل کرنے کی سعی کی مگر وہ اپنی کوشش میں ناکام ہوا تھا۔ ماتھے پر آئی چوٹ کے راستے خاصہ خون بہہ گیا تھا۔ تیز رفتار سے دھڑکتا دل متنبہ کررہا تھا کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
“حیدر میرے بچے ، یہ کیا ہوگیا؟”
“کہاں تھے تم حیدر ؟ کیا ایکسڈنٹ ہوا ہے تمہارا؟”
آمنہ بیگم اپنے بے ساختہ آنسوؤں کو روک نہیں پائیں جبکہ آفندی صاحب ازحد فکرمند حیدر کے جواب کے منتظر تھے۔ حریم ساکت کھڑی پھٹی پھٹی آنکھوں سے حیدر کے زخمی چہرے کو دیکھ رہی تھی ۔
“میرا خیال ہے یہ ہمارے ہمسایوں کی عنایت ہے۔اس درجہ کی بزدلی کا مظاہرہ کرکے اگر وہ سوچ رہے ہیں کہ میں اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جاؤں گا، تو ان سے بڑا احمق کوئی نہیں ہے اس دنیا میں ۔ خان زادوں سے اسقدر اوچھی حرکت کی توقع نہیں تھی مجھے۔ایسا کرکے انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ فی الوقت وہ چاروں خود کو بے بسی کی انتہاؤں پر محسوس کر رہے ہیں۔سانپ کی دم پر پیر رکھا جائے تو ڈسنا اس کی عین فطرت ہے ۔اب تو اس کھیل میں اور مزا آئیگا۔ صدا کے احمق ان خان زادوں نے ان پیشہ ور بدمعاشوں کو میرے پیچھے لگانے سے قبل ایک بار بھی نہیں سوچا کہ اس حادثہ کے بعد چاہے وہ خودکو کتنا ہی لاتعلق ظاہر کرنے کی کوشش کرلیں، میری اس حالت کودیکھ محلے والوں کا سیدھا شک انہیں پر جائے گا اور اس سے میرا کیس اور مضبوط ہو جائے گا۔”
ماتھے سے بہتے ہوئے خون کو شرٹ کی بازو سے پونچھتے ہوئے وہ تھکن زدہ لہجے میں گویا ہوا۔
اسے سہارا دے کر کمرے کی طرف لے جایا گیا ۔ اس ساری کارروائی کے دوران حریم خاموش تماشائی بنی کھڑی رہی۔آنسو ایک تواتر سے اس کا چہرہ بھگو رہے تھے۔وہ ساکت کھڑی صحن کے فرش پر خون سے بنے جوتوں کے نشان اور خون کے قطروں سے صحن کے دروازے سے کرسی تک بنی خون کی لکیر کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔وہ اپنے زخمی بھائی کے پیچھے نہیں بھاگی تھی۔کیسے جاتی وہ اپنے بھائی کے پاس، اسکی اس حالت کی ذمہ دار وہ خود تھی۔خون کو فرش سے صاف کرتے ہوئے مستحکم فیصلے کے ساتھ اس نے اپنے آنسوؤں کو پونچھا تھا۔وہ اس کھیل کا اختتام چاہتی تھی۔ اس جنگ کو ختم کرنا چاہتی تھی، جسے اس کا بھائی تنہا لڑ رہا تھا۔
خان حویلی میں صبح کا ناشتہ کیا جارہا تھا۔ حویلی کے سبھی مکین ڈائنگ ٹیبل کے گرد اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ناشتہ کے ساتھ انصاف کر رہے تھے سوائے شفق کے۔وہ پہلے بھی کبھی اس منظر کا حصہ نہیں ہوا کرتی تھی۔ کچن میں موجود چھوٹی سی میز کے مقابل کرسی پر براجمان وہ چائے پی رہی تھی دفعتاً اپنے بڑے بھائی کی آواز اسکی سماعت میں اتری ۔ الفاظ تھے کی کیا، اسے لگا گویا پگھلا ہوا سیسہ اس کے کانوں میں انڈیل دیا گیا ہو۔
“غالباً آفندی خاندان کے چشم وچراغ بستر سے اٹھنے کی ہمت نہیں جٹا پا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مزید ڈائیلاگ بولنے کے لیے جناب حاضری لگانے نہیں آئے۔”
“آپ فکر نہ کریں بھائی، کل رات اس کی وہ درگت بنی ہے کہ آج کےبعد ہمارے خاندان کی تو کیا ، اس شہر کی کسی لڑکی سے عشق لڑانے کی جرات نہیں کرپائے گا وہ ہیرو۔ بہت اچھا کام کیا کل ہمارے آدمیوں نے ۔ایک سے زائد ہڈیاں تو یقینا ٹوٹی ہوگی اس مجنوں کی ۔کچھ روز بستر پر رہے گا تو ساری عاشقی اور عہد وپیماں فراموش کربیٹھے گا ۔پھر میں دیکھوں گا، جب بذات خود وہ شفق سے رشتہ جوڑنے سے انکار کرے گا تب اس محلے میں کس کی زبان کھلتی ہے اس کی حمایت میں۔”
اس کے چاروں بھائی با آوازبلند اظہار خیال کر رہے تھے۔حیدر پر تشدد کرانے پر کوئی داد دے رہا تھا تو کوئی داد وصول رہا تھا۔تاہم خان زادوں کی بیویاں بےہنگم فلک شگاف قہقہے لگا کر اپنی خوشی کا اظہار کر رہی تھیں۔چند لمحے لگے تھے اسے پوری بات سمجھنے میں۔ الفاظ تھے کے چابک۔ اسکا وجود جیسے زخم زخم ہوگیا۔ غصہ، بےبسی نفرت، حقارت کئی جذبات نے گویا بیک وقت یلغار کی تھی۔وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی ڈائننگ ہال میں چلی آئی ۔چند لمحے شعلہ بار نگاہوں سے باری باری وہ اپنے بھائیوں کی سمت دیکھتی رہی۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس گھر کو آگ لگا دے۔ہر شئے کو جلا کر راکھ کر دے۔ یہ کیا کر بیٹھے تھے اسکے بھائی۔اس شخص کو تشدد کا نشانہ بناڈالا جو ان کی اپنی بہن کی جنگ لڑ رہا تھا۔ اب کیسے سامنا کر پائےگی وہ حریم کا؟جن بھائی بہن کے احسانوں کے بوجھ تلے وہ دبی تھی۔ آج ان ہی بھائی بہن کی گنہگار بن بیٹھی ۔ آج پہلی بار اسے اپنی اور حریم کی پہلی ملاقات پر،ان دونوں کی سالوں پرانی دوستی پر افسوس ہوا تھا۔
“تم یہاں کھڑی کیوں منحوسیت پھیلا رہی ہوں؟ دفعان ہوجاؤ ہماری نظروں کے سامنے سے۔ہم تمہاری شکل تک نہیں دیکھنا چاہتے۔”
لمبی لمبی سانس لیتی شعلہ بار نگاہوں سے شفق کو اپنی طرف دیکھتا پاکر عرفان بھائی نے تضحیک آمیز لہجے میں کہا۔
انکی بات کے جواب میں وہ ایک دم سے آگے بڑھی اور نفاست سے میز پر سجے میز پوش کا کنارہ تھام کر اسے پوری قوت سے اپنی طرف کھینچ لیا۔میز پر سجے برتن میزپوش کے ساتھ ترتیب وار زمین بوس ہونے لگے ۔کانچ کے برتنوں کی سنگ مرمر کے فرش سے ٹکرانے کی آواز نے ڈائننگ ہال میں عجیب سا شور برپا کر دیا۔اس کی اس حرکت پر سبھی مارے حیرت کے اٹھ کھڑے ہوئے۔
چاروں خان زادے بے ضرر سی نظر آتی اپنی بہن کی جرات پر انگشت بدنداں تھے۔
“یہ کیا بدتمیزی ہے شفق ؟ہوش میں تو ہو تم؟ تمھاری ہمت کیسے ہوئی اپنے بھائیوں کے مقابل کھڑے ہو کر طوفان بدتمیزی برپا کرنے کی؟ کیوں اپنی موت کو دعوت دے رہی ہو؟
زندگی پیاری نہیں ہے کیا تمھیں؟ ”
ریحان بھائی غیض و غضب کی تصویر بنے دھاڑے تھے۔
” نہیں چاہیے مجھے ایسی زندگی جسے آپ جیسوں کے ساتھ بسر کرنا پڑے۔ یہ بدتمیزی ہے اور جو آپ لوگوں نے حریم کے بھائی کے ساتھ کیا وہ کیا تھا ؟ بددیانتی ، بزدلی ، کم ہمتی، دھوکہ بازی۔اتنے سال آپ لوگوں کے ساتھ بسر کرتے ہوئے بھلے ہی مجھے آپ سبھی ظالم و سفاک اور بےحس معلوم ہوتے تھے مگر مجھے یہ احساس کبھی نہیں ہوا کہ آپ چاروں بزدل ہیں۔ مگر آج ,آج اندازہ ہورہا ہے۔ آپ لوگ اسقدر بزدل ہیں کہ عمرمیں آپ سے کئی سال چھوٹے ،تنہا ، نہتے لڑکے سےڈر گئے۔ اس کی جرات اور اس کے ارادوں نے آپ لوگوں کو بزدلی بھرا یہ قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا۔بلآخر آپ چاروں کی رگوں میں بھی وہی خون دوڑتا ثابت ہوا جو ان خان زادوں کی رگوں میں دوڑتا تھا جنھوں نے غیرت کے نام پر اپنی ہی بہن کو قتل کر دیا تھا۔آپ لوگ بھی چھپ کر وار کرنے والوں میں سے نکلے۔ مقابلہ کرنے کی نہ تو آپ لوگوں میں ہمت ہے نہ ہی حیثیت۔آپ لوگوں نے ثابت کردیا کہ بہادری اور غیرت کے علمبردار نام و نہاد خان زادے بھی شب خون مارنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔”
دمہ کے مریض کی طرح سانس لیتی ہوئی وہ چیخ چیخ کر بولی تھی۔آنسو ایک تواتر سے اس کا چہرہ بھگو رہے تھے۔
اس کی جرات اور الفاظوں نے گویا شعلہ کو ہوا دی۔غیض و غضب کی تصویر بنے خان شایان نے گدی سے پکڑ کر اسے اپنی طرف گھسیٹا۔اس سے قبل کہ وہ مزید کسی ردعمل کا اظہار کرتے میز کے کنارے پر ڈولتا چاکو شفق نے سرعت سے اٹھا لیا۔
“مجھ پر ہاتھ اٹھا کر خود کو میری نظروں میں مزید مت گرائیں بھائی۔ یہ لیں چھری اور ایک ہی بار میں میرا قصہ تمام کر دیں۔یقین جانیے مجھے اس زندگی سے ذرہ برابر بھی دلچسپی نہیں ہے۔اگر خود کشی جائز ہوتی تو آپ کی یہ بہن جس کا وجود آپ سبھی کے لیے ناقابل برداشت ہے،آج آپکے سامنے نہ کھڑی ہوتی۔میں خود کو مار لینے سے قاصر ہوں کیونکہ میرا خدا مجھے اس کی اجازت نہیں دیتا۔ساری زندگی سکون کا ایک لمحہ بھی آپ لوگوں نے مجھے نصیب نہ ہونے دیا۔ آج مجھے مار کر مجھے ابدی سکون پہنچا دیں ۔ اپنے بھائی ہونے کا فرض ادا کر دیں ۔میں جینا نہیں چاہتی۔ جن دو شخصیتوں کی بدولت میں جی رہی تھی۔ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی سعی کر رہی تھی۔ ان دونوں کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہی میں۔ان کے بغیر یوں بھی میری زندگی کسی عذاب سے کم نہ ہو گی ۔مجھے اس عذاب سے نجات دلادیں۔”
اپنے بھائی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں وہ لرزتی ہوئی آواز مگر مضبوط و بےخوف لہجے میں بولی تھی۔
اپنی بہن کے الفاظ سن کر شایان بھائی گویا کرنٹ کھاکر پیچھے ہٹے تھے۔ وہ بے یقینی سے اس کند چھری کی طرف دیکھ رہے تھے جو ان کی بہن نے انکی طرف بڑھائی تھی۔باقی تین بھائیوں کا بھی حال مختلف نہ تھا ۔چاروں خان زادے ساکت کھڑے پورے قد سے لرزتی اپنی بہن کو دیکھ رہے تھے۔ اس کے متورم چہرے پر وہی جذبات رقم تھے جو لٹے ہوئے مسافر کے چہرے پر نظر آتے ہیں۔ جو حالت نزع میں آخری ہچکی کے منتظر شخص کے چہرے پر دکھائی دیتے ہیں۔ اس نازک موقع پر چاروں بھابیاں چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہی تھی۔وہ بخوبی واقف تھیں کہ برسوں سے چپ شاہ کا روزہ رکھتی آئی ان کی نند کا یہ شدید ردعمل ان کے شوہروں پر مثبت یا منفی طریقے سے اثر انداز ہوگا۔مگر اس شدید ردعمل کا اثر بھی شدید ہوگا چنانچہ اس معاملے سے دور رہنے میں ہی انکی عافیت پوشیدہ تھی۔ لہٰذا چاروں خواتین خاموش تماشائی بنی اپنے اپنے شوہروں کے فق پڑھتے چہروں کو دیکھتی رہیں۔
بھائیوں کے جانب سے مزید کوئی ردِعمل نہ ہوتا دیکھ وہ تھکے ہوئے مسافر کی مانند گھٹنوں کے بل فرش پر بیٹھ گئی۔ چاکو اس کے ہاتھ کی گرفت سے آزاد ہو کر عرفان بھائی کے قدموں کے پاس آرکا وہ بدک کر پیچھے ہٹے تھے۔
“کوئی اس قدر ظالم کیسے ہو سکتا ہے ؟ کوئی اس قدر بے رحم کیسے ہو سکتا ہے؟ اتنے اچھے لوگوں کے ساتھ کوئی اتنا برا سلوک کیسے کر سکتا ہے ؟ اس دنیا میں اچھے لوگوں کے ساتھ برا ہی کیوں ہوتا ہے ؟ کیا ضروری ہے کہ اچھے اعمال کا صلہ جنت ہی میں ملے ،اس دنیا میں اچھے اعمال کا صلہ کیوں نہیں ملتا ؟
کیا نیکیوں کے اجر کے حصول کے لیے مرنا ضروری ہے ؟ اس دنیا میں نیکی کا بدلہ کیا بدی کی صورت میں ہی ملتا رہے گا ؟
میں حریم کا سامنا کیسے کروں گی ؟ کیا کہوں گی اس سے ؟ اس کے بھائی کی اس حالت کا ذمہ دار کون ہے ؟
اے کاش ! میں پیدا ہی نہ ہوتی۔ خان زادوں کی بہن نہ ہوتی۔ میرے خدا ! اس خاندان کی بیٹی بنانے سے بہتر تھا تو مجھے اس دنیا میں ہی نہ بھیجتا۔ جب تو نے اس خاندان سے بیٹی نام کی رحمت چھین لی تھی تو آخر کیوں تو نے مجھے اس خاندان کی بیٹی بنا کر بھیجا؟ اگر یہ آزمائش ہے تو کیسی آزمائش ہے جو میری برداشت سے باہر ہے؟ تو ،تو اپنے بندوں کو ان کی برداشت سے زیادہ نہیں آزماتا۔ میرے خدا! میں کیا کروں؟کہاں جاؤں؟
اے کاش ! میں اپنے وجود کو مٹا پاتی۔اے کاش حریم سے ملاقات سے قبل مجھےموت آجاتی۔”
فرش پر گھٹنوں کے بل بیٹھی اپنے چہرے کو ہاتھوں سے چھپائے وہ روتی جا رہی تھی۔خود کے ہونے پر افسوس کرتی جا رہی تھی۔وہ اپنے حواس کھو رہی تھی۔اسکی بڑبڑاہٹ بتدریج دھیمی ہوتی جا رہی تھی۔ چند لمحوں کے گزر جانے کے بعد اسکا وجود دائیں طرف لڑھک گیا۔ چاروں خان زادے بے ساختہ اپنی بہن کی طرف بھاگے تھے۔
۔وہ لمحہ ہدایت کا لمحہ تھا۔ضمیر کے بیدار ہونے کی گھڑی تھی۔
زندگی پاؤں کی ٹھوکر پہ ہمیں رکھتی ہے
اسکا انداز نہیں یار شریفوں جیسا
********
وہ کالج جانے کی تیاری کر رہی تھی ۔حیدر سنگھار میز سے ٹیک لگائے اس کی کاروائی کو دیکھ رہا تھا۔
” میں غور کر رہا ہوں کل رات سے تم خاصی چپ چپ سی نظر آ رہی ہو۔ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کل تمہارا بھائی عشق میں مار کھانے والے عاشقوں کی فہرست میں شامل ہوگیا۔مجھ غریب نے تمہاری دوست کے جھوٹے عشق میں اتنا کچھ سہا ہے جو شاید ہی کسی سچے عاشق نے سہا ہوگا ۔آخر مسئلہ کیا ہے ؟ تم مجھے ٹھیک نہیں لگ رہی ۔”
اس نے حریم کے بدلے ہوئے رویہ کے متعلق استفسار کیا۔
“مسئلہ کوئی نہیں ہے بھائی۔ بس آپ کے لیے فکر مند تھی۔ اب آپ کی حالت میں سدھار آرہا ہے تو میں بھی بہتر محسوس کر رہی ہوں۔جہاں تک خوش ہونے کا سوال ہے، تو ہاں مجھے خوشی نہیں ہو رہی اور کیوں نہیں ہو رہی اس کی وجہ آپ جانتے ہیں۔آپ نے جو کچھ میرے لئے کیا ہے اس دنیا میں شاید ہی کسی بھائی نے اپنی بہن کے لئے کیا ہوگا اور اب تک آپ نے جو کچھ کیا وہ کافی سے زیادہ ہے۔ شفق کی آزادی کے لئے ، میری خوشی کے لئے میں نہیں چاہتی آپ مزید کوئی قربانی دیں۔ اپنی جان خطرے میں ڈالیں۔”
اس کے ماتھے پر ضرب کی صورت میں لگی سفید بینڈیج پر نگاہیں مرکوز کیے حریم نے بات سمیٹنی چاہی۔
“میں کچھ سمجھا نہیں تم کہنا کیا چاہ رہی ہوں؟”
حیدر الجھن میں گرفتار ہوا۔
“مجھے دیر ہو رہی ہے بھائی۔ کالج سےلوٹنے کے بعد بات کرتے ہیں۔”
کسی بھی جذبے سے عاری سپاٹ چہرے کے ساتھ کہتی وہ واک آؤٹ کرگئی۔حیدر اس کی پشت کو دیکھ کر رہ گیا۔
*******
پیلی دھوپ زرد ہوتی جا رہی تھی۔فضا کی گرمائش بھی خاصی کم ہو چکی تھی۔شام کے چار بج رہے تھے ۔خان حویلی میں خطرناک حد تک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اس گھر کےسبھی مکین اپنی اپنی خواب گاہوں میں دبکے بیٹھے تھے۔ بچے اس یاسیت زدہ ماحول سے اوب کر موقع پاتے ہی چھت پر چلے گئے تھے۔ دفعتاً دروازے کی دستک نے فضا کے سکوت کو توڑا۔
دروازہ کھولنے پر عبایہ میں ملبوس لڑکی کو اپنی چوکھٹ پر ایستادہ دیکھ خان عرفان قدرے حیران ہوئے۔
“آپ کی تعریف ؟معاف کیجئے گا میں نے آپ کو پہچانا نہیں”۔
دروازے پر ایستادہ لڑکی کو کوئی قریبی رشتہ دار سمجھ کر خان عرفان نے اسے پہچان نہ پانے کے جرم میں پیشگی معذرت طلب کی تھی۔
ان کے سوال پر اس لڑکی نے نظریں اٹھا کر براہ راست انھیں دیکھا تھا۔ سیاہ چمکدار بڑی بڑی آنکھیں۔جن میں غصہ اور جنون ہلکورے لیتا دکھائی دیتا تھا۔ان آنکھوں کو وہ پہلے بھی دیکھ چکے تھے۔مگر کہاں ؟ انہیں یاد نہیں آیا ۔ جانے کیوں انھیں دروازے پر ایستادہ شخصیت سے خوف محسوس ہوا تھا۔
“میرا نام حریم آفندی ہے۔میں افتخار آفندی کی بیٹی ، حیدر آفندی کی بہن اور خان شفق کی دوست ہوں۔کچھ ضروری باتیں کرنے کی غرض سے میں یہاں آئی ہوں۔ کیا میں اندر آ سکتی ہوں ؟”
مضبوط وہ بے خوف لہجے میں دیا گیا تعارف سن کر حیرت کے سمندر میں غوطہ زن وہ بےساختہ دو قدم پیچھے ہٹے تھے۔راستہ ملتے ہی وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی صحن عبور کر تی ہوئی مرکزی ہال میں آ رکی۔
” چند انکشافات ہیں جو میں شفق کے تمام بھائیوں کی موجودگی میں کرنا چاہتی ہوں۔ بہتر ہوگا آپ اپنے چھوٹے بھائیوں کو بھی بلوالیں۔”
سنگل صوفے پر بیٹھتے ہوئے وہ مستحکم لہجے میں گویا ہوئی۔ایک بار پھر ان بڑی بڑی سیاہ آنکھوں نے ان کی طرف دیکھا ،انھیں یاد آگیا تھا۔ سیاہ روشن آنکھیں جن میں جذبات کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دیتا تھا۔ وہ نظر جس کی مقابل تاب نہ لا پاتا تھا۔
حیدر آفندی ۔۔۔
ان دونوں کی آنکھوں میں کس قدر مشابہت تھی۔وہ سوچے بغیر نہ رہ سکے۔
کچھ ہی دیر بعد چاروں خان زادے حریم کے مقابل صوفے پر براجمان دکھائی دیتے تھے۔تاہم خان زادوں کی بیویاں بن بلائے ہی منظر نامے میں کود کر صوفے کے پیچھے کھڑی کینہ توز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے سرگوشی کے انداز میں تبادلہ خیال کررہی تھیں۔
“جو کچھ میں کہنے جا رہی ہوں میں چاہتی ہوں کہ آپ سبھی تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے میری پوری بات سنیں۔میں بمشکل آپ سبھی کا آدھا گھنٹہ لونگی۔ اس دوران نہ تو کسی کو مداخلت کرنے کی اجازت ہے نا ہی میری تذلیل کرنے کی۔کیونکہ میرا بھائی خود تو آپ کی مار برداشت کر سکتا ہے مگر میری ذرا سی بھی تذلیل کرنے والے کو وہ نہیں بخشتا۔ لہٰذا آپ لوگوں کی عافیت اسی میں ہیں کہ میرے یہاں سے واپس لوٹ جانے تک شرافت کے جامے میں رہیں۔
میں شفق سے چار سال قبل چھت پر ملی تھی۔اس وقت وہ رو رہی تھی۔بچپن سے لیکر جوانی تک ہم دونوں بھائی بہن یہی سنتے آئے تھے کہ ہمارے ہمسائے ہمارے حریف ہیں۔ہمیں ان سے کوئی سروکار نہیں رکھنا ہے۔خان حویلی اور آفندی حویلی کو باہم جوڑتی دیوار کے نزدیک بھی جانے سے گریز برتنے کی ہمیں تاکید کی جاتی تھی۔ سب کچھ جانتے بوجھتے اس روز روتی ہوئی سنہری گڑیا جیسی لڑکی کو میں نظر انداز نہ کر سکی۔مجھے بھول گیا کہ وہ روتی ہوئی لڑکی ہمارے حریفوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔مجھے بھول گیا کہ دو چھتوں کو جوڑتی درمیانی دیوار کے نزدیک جانا ان دونوں حویلیوں کے مکینوں پر حرام ہے اور اس شام مشہور زمانہ ممنوعہ دیوار کو عبور کر میں نے شفق کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔اس دن کے بعد سے ہر گزرتے دن کے ساتھ ہماری دوستی گہری ہوتی چلی گئی۔وہ مجھ سے اس کا ہر غم شیئر کرتی۔اپنے بھائیوں کی بے رخی ، بھابھیوں کی سازشیں ، طعنے ، اعتراضات۔ یوں سمجھ لے اس کی زندگی کے ہر باب سے میں واقف تھی۔اس قدر گھٹن زدہ ماحول میں سانس لینے کے باوجود ۔ اپنی اب تک کی ساری عمر ایک قیدی کی طرح بسر کرنے کے باوجود شفق نے کبھی آپ لوگوں کو غلط نہیں ٹھہرایا۔کبھی یہ نہیں کہا کہ اس کے بھائی ظالم یا سفاک ہیں ۔اس کے ساتھ آپ لوگوں کے ناروا سلوک کے متعلق سن کر میں آپ سب کو کوستی، اس لمحے اس کی طرف سے جواب آتا کہ غلطی آپ لوگوں کی نہیں ہیں۔ اس کے تیئں آپ لوگوں کی بے رخی، بےجا بندشیں جائز ہے۔ اس خاندان کی ایک بیٹی کی طرح کہیں وہ بھی خان خاندان کو زمانے کے سامنے رسوا نہ کردے یہی خوف آپ لوگوں کو اس سے نفرت کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔بقول اس کے اگر اس خاندان کی ایک بیٹی فرار نہ ہوتی تو شاید آج اسکی زندگی مختلف ہوتی۔اس کے بھائیوں کا برتاؤ مختلف ہوتا۔جو کچھ ہو رہا ہے اس میں قصور تقدیر کا ہے اور کسی کا نہیں ہے اور میں خاموش ہو جاتی۔ پھر میں نے اس کی تاریک زندگی میں امید کا روشن جگنو چھوڑ دیا۔میں اسے مستقبل کے سہانے خواب دکھانے لگی۔ ایک شہزادے کا خواب، جو اسے اس قفس سے رہا کرکے لے جائے گا۔ہم دونوں خوش کن مستقبل کے تصور سے ہی بہت خوش تھیں کہ اچانک کچھ روز قبل عبداللہ کی شکل میں ہمارے سہانے خواب کی بھیانک تعبیر دیکھ میں دہل کر رہ گئی۔ مجھے اندازہ ہے ، عبداللہ کو اپنے منگیتر کی صورت میں دیکھ کر شفق کے دل کی کیا کیفیت ہوئی ہوگی اور یقین ہے کہ شفق کو عبداللہ اپنے شوہر کی طور پر پسند نہیں آئے ہونگے۔ باوجود اس کے حسب توفیق اس نےاس رشتے کے لیے ہاں کر دی۔ ویسے بھی اسے انکار کرنے کا حق ہی کہاں حاصل تھا۔اسے تو بس فیصلہ سنایا گیا تھا۔ مگر میں شفق جتنی بہادر نہیں ہوں۔عبداللہ مجھے قطعاً پسند نہیں آئے تھے۔ بالخصوص شفق کے مقابلے تو بالکل نہیں۔ میں چاہ کر بھی شفق کے لئے کچھ نہیں کر پا رہی تھی۔ میں شفق کے ساتھ ہورہی ناانصافی اور اپنی بےبسی کے غم میں بیمار پڑگئی۔اور جب حیدر بھائی کو ساری حقیقت کا علم ہوا تب انہوں نے شفق کی رہائی کے لیے ایک پلان بنایا۔شاید آپ لوگ میری بات کا یقین نہیں کریں گے مگر حقیقت یہی ہے کہ شفق کی آزادی کے لئے تشکیل دیے گئے اس ڈرامہ سے قبل بھائی اور شفق نے ایک دوسرے کو دیکھا تک نہ تھا۔وہ دونوں بس ایک دوسرے کے نام سے واقفیت رکھتے تھے۔گزشتہ کچھ سالوں میں میرے اور شفق کے مابین گھنٹوں گفتگو ہوتی تھی۔ لیکن اس گفتگو میں میرے بھائی کا ذکر نہیں ہوتا تھا۔کیونکہ جب کبھی میرے اور بھائی کے درمیان محبت و خلوص کے رشتہ کا میں ذکر کرتی، شفق کا احساس محرومی سوا ہوجاتا۔ لہذا میں نے اس کے سامنے اپنے بھائی کا ذکر کرنا چھوڑ دیا۔شفق اس قفس میں رہنے کے عادی ہو گئی تھی۔حق خود ارادیت کے لیے لڑنے کا حوصلہ اس میں نہیں تھا۔گرمیں شفق کے شادی کو لے کر شدید ذہنی دباؤ کے زیر اثر بیمار نہ پڑتی تو یقیناً شفق اب تک عبداللہ کے ساتھ رخصت ہوچکی ہوتی۔
ساری عمر کسی مجرم کی مانند اسے اس حویلی کی چار دیواری میں قید رکھا آپ لوگوں نے۔ برسوں پہلے اس خاندان کی بیٹی سے سرزد ہوئی خطا کی سزا آپ اس معصوم کو دیتے رہے جبکہ شفق کیا، وہ لڑکی بھی اتنی بھیانک سزا ڈیزرو نہیں کرتی تھی جو اسے دی گئی۔ مانا کہ اس نے گھر سے فرار ہوکر اپنے خاندان کو رسوا کیا۔ نادانی میں نہایت ہی غلط قدم اٹھا لیا۔ مگر کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس لڑکی کو بغاوت پر اکسانے کے لیے خان زادے زیادہ ذمہ دار تھے۔ نکاح جیسے پاکیزہ بندھن میں بندھنا ان دونوں کے لئے اس قدر مشکل بنا دیا گیا کہ انہیں فرار کے راستے کا انتخاب کرنا پڑا۔میں خود ارینج میرج کو لو میرج پر فوقیت دیتی ہوں۔ قصداً کسی نا محرم سے ملنا ، باتیں کرنا میرے نزدیک بھی گناہ ہے۔لیکن اگر دو لوگوں سے یہ گناہ سرزد ہو چکا ہے تو انہیں نکاح جیسے پاکیزہ بندھن میں باندھنے کے بجائے گھر سے فرار ہونے پر اور ماں باپ کی نافرمانی جیسے کبیرہ گناہوں کی طرف کیوں دھکیل دیتے ہیں آپ جیسے لوگ۔۔۔
اس کی بات پر عرفان بھائی نے مضطرب ہو کر پہلو بدلا تھا۔
خیر ماضی کو چھوڑیں حال کی بات کرتے ہیں۔تو حیدر بھائی کا پلان یہ تھا کہ شفق کے ساتھ ان کا نام جڑ جانے کے نتیجے آپ لوگوں کو شفق کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دینا پڑتا۔ کیونکہ پہلے ہی یہ خاندان اپنی ایک بیٹی کو محبت کے جرم کی پاداش میں قتل کر دینے کے حوالے سے خاصا بد نام ہے۔اس دفعہ چاہ کر بھی خان خاندان کچھ نہیں کر پاتا۔اب زمانہ بدل چکا ہے۔معاشرے کے ذہن بدل چکے ہیں۔ایسے میں چاروناچار آپ لوگ شفق کو آفندی خاندان کے حوالے کردیتے بعد ازاں شفق کو حق حاصل ہوتا۔ چاہے وہ اپنی پسند سے شادی کرے یا تعلیم حاصل کرے۔ وہ اپنے فیصلوں میں خود مختار ہوتی۔منصوبہ کا مقصد شفق کو خان حویلی سے آزاد کرانا تھا اسے آفندی خاندان کی بہو بنانا نہیں۔ حسب توقع پلان ٹھیک جا رہا تھا عین ممکن تھا کہ فتح بھی ہماری ہوتی اور یہ کھیل جاری رہتا ۔اگر آپ لوگ میرے بھائی کو تشدد کا نشانہ نہ بناتے۔
اس کا ایک ایک لفظ خان زادوں کے دماغ پر ہتھوڑے کی مانند برس رہا تھا۔ یہ کون سی کہانی سنا رہی تھی وہ لڑکی۔
“یقین جانیے شفق مجھے بے حد عزیز ہے مگر اس کی رہائی کی قیمت میں اپنے عزیز ترین بھائی کی جان سے نہیں چکا سکتی۔آپ لوگوں سے کچھ بعید نہیں، کل بھائی کو زخمی کیا تھا آئندہ ان کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ ذرا سی بات پر کسی کی بھی جان لینے پر تل جانے والے خان خاندان کی مرد حضرات نہیں جانتے کہ جان کی قیمت کیا ہوتی اور میں یہ خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ میں اس ڈرامے کا اختتام چاہتی ہوں۔ جس خاندان نے اپنی ہی بیٹی کا قتل کردیا ہو اس سے اچھائی کی امید بھی کیسے کی جاسکتی ہے۔
اس کھیل کا آغاز ہم نے کیا تھا۔ میں چاہتی ہوں اس کا اختتام آپ لوگ کریں۔میرے بھائی کو مزید پریشان کرنے کی کوشش نہ کریں۔ وعدہ کرتی ہوں میں آپ سب سے، آج کے بعد ان دونوں خاندان کے درمیان کسی قسم کا تعلق باقی نہیں رہےگا نہ دوستی کا نہ دشمنی کا۔ آج کے بعد میں شفق سے نہیں ملونگی۔ بھائی بھی اب شفق کی شادی کے معاملے سے دور رہیں گے۔یوں بھی شفق اور بھائی کے معاشقے کی داستان فرضی تھی۔میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتی میری عزیز ترین دوست کو یوں بیچ منجدھار میں تنہاچھوڑ دینے کا خیال بھی میرے لیے کس قدر اذیت ناک ہے ۔مگر میں کیا کروں میں مجبور ہوں۔ بعض اوقات بالکل ایک سی محبت دو انسانوں پر بالکل مختلف انداز میں اپنا اثر دکھاتی ہے۔میری محبت نے میرے بھائی کو مضبوط اور بلند حوصلہ بنادیا اور اس نے وہ کرگزرنے کا عہد کیا جس کےلیے چٹان جیسا حوصلہ درکار ہوتا ہے۔اس کے عین برعکس میرے بھائی کے تیئں میری محبت نے مجھے بزدل بنا دیا۔جرات اور حوصلے کا وہ کھیل جس کا آغاز میرے بھائی نے کیا تھا، اپنے اختتام کو پہنچنے سے قبل ہی میری بزدلی اور کم ہمتی کی نذر ہوگیا۔ہمیں شکست ہوئی۔
اپنی بات ختم کرنے سے قبل بس ایک گذارش کرنا چاہوں گی۔ آپ لوگوں کو خدا کا واسطہ ، اپنی فرشتہ صفت بہن کو بہن نہ سہی انسان تو سمجھیں۔ محبت نہ سہی اسے عزت تو دیں۔ اس معصوم کو اسکی بھابیوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں ۔ خون کا رشتہ ہوتے ہوئے بھی جب آپ لوگوں کو شفق کی کوئی پرواہ نہیں ہے تو یہ خواتین اس معصوم کا کیا احساس کرینگیں جو دوسرے گھر سے رخصت ہوکر خان حویلی میں آئی ہیں ۔شاید آپ لوگ نہیں جانتے فرنیچر سے بھرے ایک کمرے اور زیورات سے لدی ایک تجوری کے پیچھے آپ کی بیویاں شفق سے کس قدر حسد اور نفرت کرتی ہیں۔
“ہائے ! توبہ کسقدر کذب بیانی سے کام لے رہی ہے یہ لڑکی ۔خدا گواہ ہے۔۔۔۔”
“آپ سبھی خواتین اسی وقت اندر جائیں”۔
حریم کی اس درجہ کی صاف گوئی پر بڑی بھابی فوراً بولی تھی۔جبکہ عرفان بھائی نے ان کی بات ختم ہونے سے قبل ہی دھاڑنے کے انداز میں انہیں باہر کا راستہ دکھا دیا۔یوں بھی بھری محفل میں ان کی لالچی فطرت کا راز افشاں ہوا تھا۔ وہاں کھڑے رہنے کا حوصلہ شاید ہی کسی میں تھا۔ خان عرفان کی دھاڑ سنتے ہی چاروں بوتل کے جن کی مانند غائب ہوئی تھیں۔حریم نے انہیں یکسر نظرانداز کرتے ہوئے سلسلہ کلام جوڑا۔
“حریم کی والدہ کا چھوڑا ہوا سارا سامان اور زیور براہ کرم آپ اپنی بیویوں میں تقسیم کردیں۔مگر خدارا شفق کی زندگی آسان کردیں۔مجھے یقین ہے آپ لوگ کبھی تسلیم نہیں کریں گے کہ آپ سبھی شفق کے ساتھ ایسا سلوک اسی لیے روا رکھے ہوئے ہیں کیوں کہ آپ سبھی کو یہ خوف لاحق ہے کہ ایک نا ایک دن وہ بھی بغاوت کر بیٹھے گی۔خان خاندان کا نام مٹی میں ملا دے گی۔ بلکہ آپ لوگ اپنے بدصورت رویوں کو مذہبی شدت پسندی کے پیچھے چھپا لیں گے۔دنیا والوں کے سامنے خود کو حق بجانب ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔حالانکہ یہ آپ سب بھی جانتے ہیں، دنیا والے بھی جانتے ہیں اور شفق بھی جانتی ہیں کہ ہمارا مذہب لڑکیوں کو چوبیسوں گھنٹے گھر میں قید کرکے رکھنے کا حکم نہیں دیتا ،انھیں تعلیم کے حصول سے منع نہیں کرتا۔خوبصورت اور نوجوان لڑکی کی شادی عمر رسیدہ اور کم صورت شخص سے کرانے کی اجازت نہیں دیتا۔ہمارا مذہب دنیا کے کسی بھی بھائی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اپنی ہی بہن کے اوپر زندگی کادائرہ تنگ کر دے۔ہمارا مذہب حق تلفی کا حکم نہیں دیتا۔ آپ چاروں کی توجہ اور محبت پر شفق کا حق ہے۔اس کا حق ادا کریں اور اس خوف کو دل و دماغ سے نکال پھینکے کہ آپ کی بہن بغاوت کرکے اس خاندان کو رسوا کرے گی۔جب سے اس نے ہوش سنبھالا ہے، بہترین دینی کتابوں کا مطالعہ کرتی رہی ہے ۔آپ لوگوں کو کیا لگتا ہے ؟کیا وہ نہیں جانتی اسلام کیا ہے؟ اس کے حقوق کیا ہیں؟ اگر بغاوت ہی کرنا ہوتی تو وہ کب کی کر چکی ہوتی۔وہ فطرتاً ہی باغی نہیں ہے۔اگر ہوتی تو یہ جانتے ہوئے کہ اس کے حقوق کیا ہیں ،خان حویلی میں قید ہو کر نہ رہتی۔ آپ سبھی کے بدصورت رویوں کو برداشت نہ کرتی۔اس کی جگہ کوئی بھی عام انسان ہوتا تو بغاوت ہی کرتا مگر وہ عام نہیں ہے۔وہ تو نہایت ہی معصوم، فرشتہ صفت لڑکی ہے۔ میں محض چار سالوں میں اسے پہچان گئی۔ آپ لوگ اتنے سال اس کے اسقدر قریب رہتے ہوئے اس کے باطن کو کیسے نہ دیکھ سکے۔
اس کے الفاظ سن کر چاروں خان زادوں نے اپنی نظریں فرش پر ٹکا دیں۔
آپ سب یہی سوچ رہے ہوں گے ناں کہ شفق کے تئیں آپ لوگوں کی نفرت و بے رخی کے متعلق جانتے ہوئے بھی میں آپ لوگوں سے یہ سب کیوں کہہ رہی ہوں؟
وہ لحظہ بھر کو رکی۔
” وہ اس لیے کیوں کہ میں جانتی ہوں آپ لوگ شفق سے محبت کرتے ہیں۔اس دنیا کے ہر بھائی کے دل میں اپنی بہن کے لئے محبت کے جذبات ہوتے ہیں۔پھر چاہے وہ اس جذبے کے اوپر کتنی ہی نفرت کے ڈھیر لگالے محبت ختم نہیں ہوتی۔آپ لوگوں کی شفق کے تئیں محبت ذلت اور رسوائی کے اندیشہ و خدشات کے نیچے دب گئی ہے۔وہی بد صورت خدشات جو بچپن سے لے کر جوانی تک آپ سبھی کے ساتھ پل کر جوان ہوئے ہیں۔ کوشش کریں محبت پر چڑھے اس غلاف کو توڑنے کی۔ بہنیں بھائیوں کا وہ بچپن ہوتی ہیں جو تاحیات ان کے ساتھ رہتا ہے۔اپنی بہن سے اتنی ہی محبت کریں جتنی آپ اپنے کھوئے ہوئے بچپن سے کرتے ہیں۔ شفق کا ماضی اس کے بھائیوں کی مرہون منت تاریک رہا ہے لہذا آپ لوگوں کو چاہیے کہ اس کے حال کو خوشیوں سے بھر دے تاکہ وہ اپنے تاریک ماضی کو فراموش کرسکے اورمستقبل میں آپکے ساتھ کھڑی رہ سکے۔محض میرے آنسوؤں کو دیکھ میرے بھائی نے اس خطرناک ڈرامہ کی منصوبہ بندی کی۔محض میری خوشی کے لئے اس نے تنہا آپ چاروں سے دشمنی مول لی۔محض میری محبت میں اس نے تشدد تک سہا۔
یقین جانیے ،جتنی محبت میرا بھائی مجھ سے کرتا ہے ، اس کا ایک فیصد بھی آپ چاروں شفق سے کرنے لگے تو اس کی زندگی جنت بن جائے گی۔”
اس سے قبل کہ وہ اپنی بات کے اختتام پر صوفے سے کھڑی ہوتی مرکزی ہال کی چوکھٹ کو عبور کرتا تقریبا دوڑتا ہوا وہ حریم کے نزدیک پہنچا ۔اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں۔اس کے انداز سے واضح تھا وہ پریشانی ،عجلت اور گھبراہٹ میں اپنی بہن کو ڈھونڈتا ہوا یہاں پہنچا تھا۔
“حریم فوراً گھر چلو ،ابھی۔۔۔۔”
حریم کا بازو پکڑ کر اسے صوفے سے کھڑا کرتے ہوئے وہ برہم لہجے میں بولا۔
“ہاں بھائی چلتے ہیں شفق کے بھائیوں سےکچھ ضروری بات کرنا تھی، سو کر لی۔”
پرسکون انداز میں کہتے ہوئے اس نے باری باری نقاب سے جھلکتی آنکھوں سے خان زادوں کے چہرے پر نظر ڈالی تھی۔
وہ دونوں ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ کھڑے تھے۔خان زادوں کو وہ دونوں فی الوقت کسی اور ہی دنیا کی مخلوق معلوم ہو رہے تھے۔ان کے وجود سے نور پھوٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔کیسے بھائی بہن تھے وہ دونوں۔ کیسی محبت تھی ان کی۔
بے مثال ۔۔۔۔۔۔
لازوال ۔۔۔۔۔۔۔
ساکت کردینے والی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسحور کردینے والی ۔۔۔۔۔۔ ۔۔
دلوں کو بدلنے والی۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں ہم قدم خان حویلی کی دہلیز عبور کرگئے۔خان زادے اپنی اپنی نشست پر بیٹھے رہ گئے۔ ساکت، بے حس و حرکت گویا کسی سحر میں گرفتار ہوں۔
******
کیا کرنے کی کوشش کر رہی تھی تم حریم ؟ کیا ضرورت تھی تمہیں خان حویلی جانے کی ؟ کیا کرلیتی تم اگر خان زادے تمہاری تذلیل کرتے ؟ کسی سے اجازت طلب کیے بغیر تم نے اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا ؟
بولو۔۔۔۔ جواب دو۔۔۔۔”
صحن کی دہلیز عبور کرتے ہی حیدر کا ضبط جواب دے گیا ۔وہ جیسے پھٹ پڑا۔
اس کے کسی بھی سوال کا جواب دیے بغیر وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ہوئی صحن کی کرسی کے نزدیک پہنچ کر گرنے والے انداز میں کرسی پر بیٹھ گئی۔ چند گہری سانسیں لیکر چہرے سے نقاب ہٹایا اور میز پر رکھے پانی کے گلاس میں پانی انڈیل کر لبوں سے لگا لیا۔اس کی پیشانی عرق آلود تھی۔گلاس کو تھامے ہوئے اسکے ہاتھ کی واضح لرزش کو حیدر دیکھ سکتا تھا۔وہ بمشکل ہی ایک گھونٹ حلق سے نیچے اتار پائی تھی۔
حیدر کی آواز سن کر آمنہ بیگم حواس باختہ سے صحن میں آئی تھیں۔
“کہاں چلی گئی تھی تم حریم؟ پچھلے دو گھنٹوں سے ہم سبھی پاگلوں کی طرح تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔تمہیں اندازہ بھی ہے تمہاری یہ حرکت کسقدر پریشانی کا سبب بنی ہے۔کالج سے نکلے ایک گھنٹہ ہو گیا تھا اور تمہاری کوئی خبر نہ تھی۔وہ تو بھلا ہو صفدر کا جس نے تمہیں خان حویلی کے دروازے پر دیکھ لیا تھا۔”
پچھلی کچھ گھنٹوں سے سر پر سوار پریشانی اب غصہ کی صورت میں باہر نکل رہی تھی۔ آمنہ بیگم نے شانوں سے پکڑ کر اسے جھنجھوڑ ڈالا۔
“ہمیں تو گمان تک نہ گزرا تم خان حویلی کی دہلیز عبور کرنے کی ہمت کرو گی۔کیوں گئی تھی تم وہاں ؟بولو ۔۔۔۔
جواب دو ۔۔۔۔۔۔”
حریم کو ہنوز خاموش پاکر آمنہ بیگم مزید بگڑیں۔
چند لمحوں کے گزر جانے کے بعد اس کے ساکت وجود میں جنبش ہوئی۔اپنی جھکی ہوئی گردن اٹھا کر اس نے باری باری اپنی ماں اور اپنے بھائی کی طرف دیکھا ضبط کی طنابیں ہاتھوں سے چھوٹنے لگیں۔ بہت دیر سے روکے ہوئے آنسو بند توڑ کر سیلاب کی مانند بہہ نکلے۔وہ با آواز بلند ہچکیوں کے ساتھ رونا شروع ہوگئی۔
“سب ختم ہو گیا ۔سب ختم ہو گیا بھائی۔میری جذباتیت کی بدولت اس کھیل کا آغاز ہوا تھا۔ میری جذباتیت کی نتیجے ہی یہ کھیل اپنے انجام کو پہنچا۔میں نے انھیں ساری حقیقت سے آگاہ کر دیا۔ محبت اور نفرت کے مابین ہو رہی اس جنگ میں محبت کو شکست ہوئی ۔ہمیں شکست ہوئی۔ہم ہار گئے بھائی۔شفق ہار گئی۔میں نے شفق کو کھودیا۔ میں اپنی دوست کے لیے کچھ نہیں کر سکی۔بیچ منجدھار میں تنہا چھوڑ دیا اسے میں نے۔میں بہت بری ہوں ، بزدل ہوں ،ڈرپوک ہوں۔میں نے آپ کی ساری ریاضت ضائع کردی۔آپکی قربانی رائیگاں گئی۔
خوش ہوجائیں مام، شفق اب اس گھر کی بہو کبھی نہیں بن سکے گی۔میری بھابھی کیا ،اب وہ میری دوست بھی نہیں رہی۔سب ختم ہو گیا”۔
وہ زار زار روئے جارہی تھی۔حیدر سرعت سے اس کے نزدیک پہنچا۔اپنی بہن کی گریہ وزاری کی وجہ جان کر اسے زبردست قسم کا دھچکہ لگا تھا۔اس کے سینے سے لگی وہ بلک رہی تھی۔
بعض اوقات ہم کتنی ہی کوششیں کر لیں ۔ کتنے ہی ہاتھ پاؤں مارلیں ۔ آنسو بہالیں حالات ہمارے قابو میں نہیں آتے۔کچھ بھی ہمارے موافق نہیں ہوتا۔اسے اپنے ہی الفاظ یاد آئے تھے جو اس نے کچھ روز قبل حریم سے کہے تھے۔اس وقت اس نے ان الفاظ کے بعد کچھ مثبت باتیں بھی کہی تھیں۔ خدائی مصلحت کا ذکر بھی کیا تھا ۔لیکن فی الوقت اسے محض منفی باتیں ہی یاد آئیں تھیں۔حریم کے سر کو سہلاتے ہوئے اس نے ٹھنڈی آہ بھرکر آسمان کی طرف دیکھا۔
وہ ٹھیک ہی کہہ رہی تھی کھیل ختم ہوا تھا۔
******
قہقہے کھوکھلے ہونٹوں پہ ہنسی مصنوعی
دکھ کے آزار میں ماحول لطیفوں جیسا
اس رات آفندی خاندان کے تین افراد ایک دوسرے سے نگاہیں چرا رہے تھے۔اس کے برخلاف حریم خود کو نارمل ظاہر کرنے کی بھر پور کوشش کر رہی تھی اور اس کی یہی کوشش سے واضح تھا کہ وہ ٹھیک نہیں تھی۔وہ رات حیدر آفندی نے آنکھوں میں کاٹی تھی۔حریم کی خوشی ، شفق کی رہائی، اس کے خوابوں کی تکمیل سب کچھ دھرا کا دھرا رہ گیا۔اس کی زخمی حالت کودیکھ اس کی بہن خوفزدہ ہو گئی۔اپنے عزیز ترین بھائی کو کھو دینے کا خوف اپنی عزیز ترین دوست کو رہائی دلانے کی دیرینہ خواہش پر حاوی ہوگیا۔ نتیجتاً عین جنگ کے درمیان ہری جھنڈی لہرا کر حریم نے گویا جنگ ہی ختم کر دی تھی۔اب وہ چاہ کر بھی شفق کے لئے کچھ کر پانے سے قاصر تھا۔ شفق کی مدد کرنے کا فیصلہ اس نے اپنی بہن کی تسکین کے لیے کیا تھا اور اب اس کھیل کو ختم کرنے کا فیصلہ بھی اس کی بہن کا ہی تھا مگر جانے کیوں اس کا دل مضطرب تھا۔
ایک غیر شناسا درد اس کے دل کو اپنے حصار میں لیے ہوئے تھا۔جانے کیوں اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس نے شفق کو دھوکا دیا ہے۔وعدہ خلافی کی ہے ، بے وفائی کی ہے۔ حالانکہ وہ سارے وعدیں، وہ ساری باتیں جو اس نے خان حویلی کے تمام مکینوں کے سامنے کہی تھی سراسر جھوٹ پر مبنی تھیں۔ درحقیقت اس نے شفق سے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔ ان دونوں کے عشق کی داستان فرضی تھی۔ ایسے میں بے وفائی کاتو سوال ہی نہیں اٹھتا تھا۔شفق حقیقت سے واقف تھی تو پھر اسے اپنا آپ قصوروار کیوں محسوس ہو رہا تھا؟ اس کی سماعت میں شفق کی آواز کیوں گونج رہی تھی۔اس کے حواسوں پر خان شفق کیوں سوار تھی؟اپنی کیفیت کو سمجھ پانا اس کی فہم وفراست سے بالاتر تھا۔ یہ احساس جرم تھا یا کچھ اور۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح آفندی حویلی میں غیرمعمولی خاموشی کا راج تھا۔
سارے گھر کو گویا یاسیت نے اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔حریم کالج نہیں گئی تھی ۔خاموشی کے ساتھ ناشتہ کرنے کے بعد حیدر گھر سے باہر نکل آیا۔زندگی میں پہلی دفعہ سکون کی تلاش میں وہ اپنے ہی گھر سے باہر نکلا تھا۔صبح دھیرے دھیرے سرکتی ہوئی شام سے جا ملی۔حریم اپنے کمرے میں بند تھی۔آمنہ بیگم شام کی چائے بنا رہی تھیں۔ دفعتاً فضا کے سکوت کو لینڈ لائن فون کی گھنٹی نے توڑا تھا۔
آمنہ بیگم نے فون کان سے لگایا ریسیور سے آتی آواز غیر شناسا تھی۔
“السلام وعلیکم آنٹی، حریم کو بلادینگی پلیز۔میں حریم سے بات کرنا چاہتی ہوں؟ ”
وعلیکم السلام بیٹی ، دراصل حریم کی طبیعت ناساز ہے ۔فی الوقت وہ تم سے بات نہیں کر سکے گی ۔کیا تم رامین بات کر رہی ہو؟”
انہیں خوشگورار حیرت نے آن گھیرا ۔مقابل کی آواز میٹھی اور لہجہ کھنک دار تھا۔انہیں اندازہ نہیں تھا حریم کی دوست کی آواز اس قدر پرکشش ہوگی۔
“میں شفق بول رہی ہوں آنٹی۔وہ دراصل آج حریم مجھ سے ملنے نہیں آئی اسی لئے مجھے فون کرنا پڑا۔ براہ کرم آپ اسے چھت پر آنے کےلئے کہہ دیں۔مجھے اس سے نہایت ہی اہم بات کرنی ہے۔ یقین جانیے جو خبر میں اسے سنانے والی ہوں اسے سنکر اسکی طبیعت بالکل ٹھیک ہوجائےگی۔”
اس نے ملتجایانہ انداز میں کہا۔ جانے کیوں وہ اس لڑکی کو انکار نہ کر سکی۔ غیر ارادتاً اسے مثبت جواب دے کر ان کے قدم حریم کے کمرے کی طرف بڑھے تھے۔
ابھی کل ہی کی بات تھی کہ حریم نے اپنی اور شفق کی دوستی کے خاتمہ کا فیصلہ لیا تھا اور اسی میں ان کی اولاد کی بہتری تھی۔یہ جانتے بوجھتے جانے کیوں انہوں نے اپنی بیٹی تک اسکی دوست کا پیغام پہنچایا تھا۔وہ اپنے ہی کیفیت پر متحیر تھی۔اور ان کی بیٹی جس نے کل ہی اپنی دوستی ختم کرنے کا فیصلہ لیا تھا۔ پیغام سنتے ہی بنا چپلوں کے چھت کی سمت دوڑ پڑی تھی۔ چند سیڑھیاں عبور کر جانے کے بعد حریم کو اپنی بے اختیاری کا احساس ہوا۔اسی لمحے اسے شفق سے کبھی نہ ملنے کا وعدہ یاد آیا تھا جو اس نے خود سے کیا تھا اور یہ بھی کہ اس دوستی کے خاتمے کا باضابطہ اعلان اس نے سب کے سامنے کیا تھا۔
“وہ مام ۔۔۔۔۔۔۔ دراصل ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ آخری دفعہ ہے جب میں اس سے مل رہی ہوں۔ پرامس ۔۔۔۔۔۔۔ پکا پرامس۔۔۔۔
میں آج بھی اس سے ملنے نہ جاتی ،لیکن کیا ہے نا ،اس سے قبل اس نے کبھی فون نہیں کیا مجھے۔
عین ممکن ہے بہت کوئی اہم بات کرنا ہوگی اسے۔ سن لینے میں کیا حرج ہے۔”
کھسیانے لہجے میں کہتے ہوئے وہ مسکرادی۔
اس کی مسکراہٹ کو دیکھ آمنہ بیگم نے خدا کا شکر ادا کیا۔
“میرے خدا ، میرے بچوں کی زندگیاں آسان کر دے ۔ان کی زندگیوں کو خوشیوں سے بھر دے۔”
بے ساختہ ان کے دل سے دعا نکلی ۔
محض ملاقات کی خبر سن کر حریم کے مرجھائے ہوئے چہرے پر مسکان بکھر گئی تھی۔جانے کیوں انہیں لگ رہا تھا جیسے شفق سے ملاقات کے بعد ان کی بیٹی کی طبیعت ٹھیک ہو جائے گی۔انھیں احساس ہوگیا تھا خان خاندان کی بیٹی ان کی بیٹی کے لیے کس قدر اہمیت رکھتی ہے۔
وہ جونہی چھت پر پہنچی شفق کو آفندی حویلی کی چھت پر ایستادہ دیکھ وہ تحیرزدہ اس کے نزدیک چلی آئی۔اس کے دائیں ہاتھ میں فرینچ فرائس کا باؤل تھا اور چہرے پر مسکراہٹ ۔جبکہ آنکھوں میں آنسوں جھلملا رہے تھے۔
اس کو نزدیک پاتے ہی شفق نے اسے اپنے ساتھ بھینچ لیا۔
“سب ٹھیک ہو گیا حریم ،ہم جیت گئے۔ تم بھائی بہن کی محبت اور خلوص نے میرے بھائیوں کے دلوں کو بدل دیا۔ تاریک رات کے بعد روشن صبح ضرور آتی ہے ۔ نیک بندوں کو اپنی نیکی کا صلہ اس دنیا میں بھی ملتا ہےحریم۔بس ہمیں خدا کی ذات پر کامل یقین ہونا چاہئے۔ مثبت حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔کل تمھارے خان حویلی سے چلے جانے کے بعد میرے چاروں بھائی میرے کمرے میں آئے تھے۔ گذشتہ 18 سالوں میں میرے بھائیوں نے کبھی میرے کمرے کی دہلیز عبور نہیں کی تھی۔مگر کل تو کرشموں کا دن تھا ۔معجزوں کی رات تھی۔ کل جب مجھے خبر ہوئی کہ میرے بھائیوں نے تمہارے بھائی کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے تو میرا ضبط جواب دے گیا اور جانے کیا کچھ کہہ سنایا میں نے انھیں۔ یوں سمجھ لو برسوں سے میرے اندر پک رہا آتش فشاں باہر نکل گیا۔
اس کے بعد میں بے ہوش ہوگئی۔صبح سے شام ہو چکی تھی میں اپنے کمرے میں پڑی بخار میں پھنک رہی تھی۔نقاہت کے مارے میں اپنی آنکھیں تک کھولنے سے قاصر تھی دفعتاً سرد ہاتھوں کا لمس میری پیشانی پر محسوس ہوا۔میں نے آنکھیں کھولیں تو کیا دیکھتی ہوں عرفان بھائی میرے سرہانے بیٹھے رو رہے تھے۔ریحان بھائی ، ذیشان بھائی اور شایان بھائی بھی سر جھکائے کھڑے تھے۔ان کے چہروں پر شرمندگی ، تاسف ، پچھتاوا کئی جذبات کا تاثر تھا۔ وہ چاروں ساری رات میرے پاس بیٹھے رہے۔ میری پیشانی پر ٹھنڈی پٹیاں رکھتے جاتے اور اپنے گزشتہ رویوں کی معافی مانگتے جاتے۔ مجھے تو اپنی سماعت و بصارت پر یقین نہیں آرہا تھا۔کل رات میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا خدا کے ایک کن سے دل کیسے بدل جاتے ہیں۔ تقدیریں کیسے پلٹ جاتی ہیں۔زندگی کیسے سنور جاتی ہے۔
وہ چاروں ساری رات مجھ سے معافی مانگتے رہے۔ وعدیں کرتے رہے مجھے محبت دینے کے ، ایک بہتر مستقبل دینے کے ، بہتر زندگی دینے کے اور جانتی ہو فضا میں بلند ہوتی فجر کی اذانوں کی صدائیں سن کر اپنی نشست سے اٹھتے ہوئے عرفان بھائی نے آخری بات کیا کہی ؟
وہ پل بھر کو رکی۔
انہوں نے کہا ” وہ تاحیات کوشش کرینگے کہ ان کی میرے تئیں محبت تمھارے بھائی کی تمھارے تئیں محبت کا ایک فیصد کہلانے کے قابل بن سکے ۔”
بھیگی آواز اور پرمسرت لہجے میں شفق نے گویا دھماکہ کیا تھا۔
حریم ورطہ حیرت میں مبتلا بول ہی نہیں پا رہی تھی۔حیرت سی حیرت تھی ، بے یقینی سی یقینی تھی ۔
کیا معجزے یوں بھی ہوا کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
دعائیں یوں قبولیت کا مقام پالیتی ہیں۔۔۔۔۔۔ ۔
محبتیں یوں بھی امر ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شفق کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے وہ مسکرا دیں۔ ایک آنسو اسکے آنکھ سے ٹوٹ کر رکھ رخسار پر آرکا۔بعض اوقات کچھ خوشیاں ، کچھ کیفیات ، کچھ جذبات کا اظہار کرنے کے لیے الفاظ چھوٹے پڑ جاتے ہیں۔ایک مسکراہٹ اور بھیگی ہوئی پلکیں سب کچھ بیان کر دیتی ہیں۔
دونوں مل جل کے کریں جیت کو اپنی تقسیم
کیوں نہ اس بار جمے کھیل حلیفوں جیسا
*******
نہایت ہی غیر متوقع خوشی آفندی حویلی کے صحن میں چپکے سے اتری تھی۔حریم خان حویلی میں وقوع پذیر ہوئے معجزاتی واقعہ کو اپنے بھائی اور والدین کے گوش گزار کر ایڑیاں اٹھا ئے ہوئے پنجوں کے بل مرکزی ہال کے چکر کاٹ رہی تھی۔ خوشی اس کے چہرے سے پھوٹی پڑ رہی تھی۔دائرے کی صورت میں گول گول گھومتی ہوئی جوں ہی وہ ڈھیلے ڈھالے انداز میں صوفے سے ٹیک لگا کر کھڑے حیدر کے نزدیک پہنچی ہوا میں معلق اس کا دایاں ہاتھ حیدر نے حسب عادت تھام لیا۔ اب وہ دائرے کی صورت میں ایک ہی جگہ گھومتی جارہی تھی۔ حیدر نے اس کی شہادت کی انگلی تھام رکھی تھی۔چند لمحوں کے گزر جانے کے بعد حیدر نے اس کا بازو تھام کر اسے رکنے پر مجبور کر دیا ۔ورنہ وہ گرجا تی مگر نہ رکتی۔ خوشی کے موقع پر مشہور زمانہ پارٹی ڈانس کا یہ اسٹیپ کاپی کرنا حریم کی عادت تھی اور اس میں اس کا بھائی اس کا ساتھ نہ دے یہ ناممکنات میں سے تھا۔
“بس کر دو حریم آج کے لیے اتنا سیلیبریشن کافی ہے۔تم خود کو تھکا رہی ہو۔ خوشی میں تم بھول رہی ہوں کہ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔”
حریم کو صوفے پر بٹھاتے ہوئے حیدر نے پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا۔
“میں بالکل ٹھیک ہوں بھائی۔ ایسے موقعوں پر کون کافر بیمار ہوتا ہے۔ ابھی تو سیلیبریشن کا آغاز ہوا ہے۔ ابھی تو میں نے آپ سبھی کے لیے اپنے نازک ہاتھوں سے بریانی پکانی ہے ۔آفندی حویلی کے کچن کی رونق بڑھانی ہے۔ مین کورس کے بعد آئے گی ڈیسرٹ کی باری اور وہ ہوگا گاجر کا حلوہ۔۔۔۔۔۔۔”
ایک ہی گھونٹ میں پانی کا گلاس خالی کرکے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
اس کے نیک ارادے جان کر اس سے قبل کہ کوئی احتجاج کرتا وہ کچن کی جانب دوڑ پڑی آمنہ بیگم اسکے پیچھے گئی تھیں۔
رات دس بجے کے قریب حریم کا جشن اختتام کو پہنچا تھا۔حریم کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ۔وہ خوش تھا ۔اسے خوش ہونا بھی چاہیے تھا۔ اس کھیل کا اختتام ان کی توقع کے متضاد خوشگوار ہوا تھا۔اس کے خوش ہونے کے لئے یہی وجہ کافی تھی کہ حریم ازحد خوش تھی۔مگر جانے کیوں ایک انجانا سا درد اسے خوش ہونے نہیں دے رہا تھا۔ ناقابل فہم اضطراب اس کے وجود کو اپنے حصار میں لیے ہوئے تھا۔عجیب سا خالی پن تھا ۔ عجیب سی بے سکونی تھی۔
وہ تھکے ہوئے مسافر کی مانند بستر پر ڈھے گیا۔
“حریم سے ملاقات سے قبل میری زندگی بالکل تاریک تھی۔روشنی کی کوئی کرن دور دور تک دکھائی نہ دیتی تھی۔مجھے لگتا تھا اسی طرح ایک دن میری موت آجائے گی ۔مجھے کوئی خوشی نصیب نہیں ہو گی۔ شاید میری زندگی میں آزمائشیں ہی لکھی ہیں ۔ پھر اچانک ایک شام حریم میری زندگی میں چلی آئی۔ میری ویران اور ساکت زندگی میں وہ ہوا کے اس جھونکے کی مانند داخل ہوئی جو اپنے ساتھ لا تعداد پھولوں کی خوشبوئیں اور بے شمار تتلیاں لے کر آتا ہے۔خوشی کا احساس کیا ہوتا ہے۔ خواب دیکھنا کس قدر پر لطف ہوتا ہے۔ پرامید ہونا کس قدر دلکش ہوتا ہے ۔اس کا اندازہ مجھے حریم سے ملنے کے بعد ہوا۔اس سے دوستی کے بعد مجھے لگا اب میں سکون سے مر سکوں گی۔اپنی پوری زندگی میں محض ایک خوشی دیکھنے کا میرا خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا۔ حریم کو میری زندگی میں لاکر خدا نے میرے گزشتہ زندگی کے حوالے سے سارے گلے شکوے دھو دیے تھے۔میرا خیال تھا میری زندگی میں اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے۔مجھے زندگی سے مزید کچھ نہیں چاہیے تھا۔مگر کاتب تقدیر نے ابھی اور خوشیاں دیکھنی لکھی تھیں میرے نصیب میں ۔ مجھے مزید نعمتوں سے نوازنا تھا اور پھر میں آپ سے ملی۔ مجھے آپ کی حریم کے تیئں محبت دیکھنے کو ملی۔ بھائی بہن کی محبت کی آخری حد کیا ہوتی ہے یہ جاننے کا موقع ملا۔میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی جب آپ میرے لئے میرے بھائیوں کے مدمقابل کھڑے ہوگئے تھے، اس وقت میں کس قدر محفوظ محسوس کر رہی تھی۔ حالانکہ میں بخوبی واقف تھی کہ وہ ساری باتیں، وہ سارے وعدیں فرضی تھے۔آپ یہ کھیل حریم کے لئے کھیل رہے تھے۔ وہ ساری ہمت وہ، حوصلہ ،وہ جذبہ قربانی صرف اور صرف آپ کی بہن کے لئے تھا۔آپ شفق کے لئے کچھ نہیں کر رہے تھے۔باوجود اسکے نجانے کیوں میں اسقدر پرسکون اور مطمئن تھی۔آپ دونوں بھائی بہن غیر معمولی ہیں۔غیر معمولی تبدیلیاں لانے کی قابلیت رکھتے ہیں۔آپ اور حریم کسی اور ہی دنیا کی مخلوق معلوم ہوتے ہیں۔آپ دونوں سے ملاقات سے قبل میرے پاس شخصیت کے نام پر آنسو ، ناامیدی اور خود ترسی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔پھر میں حریم سے ملی اور میری زندگی سے آنسو اور ناامیدی ایک دم سے غائب ہو گئے۔حریم کی بدولت میں آپ سے ملی اور میری خود ترسی کے احساس کی جگہ خود اعتمادی نے لے لی ۔ آپ دونوں کی مرہون منت خان شفق کی شخصیت مکمل ہوگئی۔آپ دونوں سے ملاقات میری زندگی کا سب سے خوبصورت باب ہے۔”
اس کے ذہن میں رات کی ویرانی اور تاریکی میں گونجتی شفق کی آواز نے چکر لگایا وہ بے اختیار اٹھ بیٹھا۔
وہ تقریبا ایک گھنٹہ سے چھت کے چکر کاٹ رہی تھی۔ نیم تاریکی میں ڈوبی آفندی حویلی کی چھت پر اس کی نگاہیں ثبت تھیں۔ سر شام اس کی ملاقات حریم سے ہو چکی تھی، فی الوقت وہ کسی اور کی آمد کی منتظر تھی۔ جبکہ اس وقت چھت پر اس شخص کی آمد کا امکان ایک فیصد سے بھی کم تھا۔اسی ایک فیصد امکان کے سہارے وہ پرامید نگاہوں سے آفندی حویلی کی چھت کی سمت دیکھے جارہی تھی۔
“حریم کی واحد عزیز ترین دوست کی زندگی میں وقوع پذیر ہوئی اس معجزاتی تبدیلی کے حوالے سے مبارکباد دینے ہی سہی وہ آئے گا۔”
اس وقت چھت پر حیدر کی آمد کے کئی جواز وہ ڈھونتی رہی مگر وہ نہیں آیا تھا۔
ہاں اب کیوں آئے گا وہ ؟وہ تو یہاں اپنی منصوبہ بندی کو کارگر بنانے ،اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کی غرض سے آیا کرتا تھا ۔ اب وہ نہیں آئے گا۔اب اسے شفق سے کیا سروکار۔ایک بار پھر میں اس کے لیے وہی خان زادی بن جاؤں گی جو اس کے نزدیک محض حریم کی دوست تھی۔جس کے نام کے علاوہ وہ اس لڑکی سے کوئی واقفیت نہیں رکھتا تھا۔ اس کی زندگی سے خان شفق کا باب ختم ہوا۔”
یاسیت کے سمندر میں اترتی وہ خود سے مخاطب ہوئی، دفعتاً منجھلی بھابی کی آواز اس کی سماعت میں اتری وہ اسے پکار رہی تھیں۔
بادل نخواستہ اس نے اپنے قدم زینے کی طرف بڑھائے تھے۔
جانے سے قبل آخری دفعہ اس نے مڑ کردیکھا۔ نگاہ پھر ناکام لوٹی تھی۔
اب تو یہ عشق توانائی گنوا بیٹھا ہے
بوڑھے احساس کی مانند ضعیفوں جیسا
*******
نظم کی اقسام
♧ نظم کی اقسام پابند نظم، آزاد نظم، نظم معّریٰ، اور نثری نظم۔ ~ پابند نظم : پابند نظم میں...