کسی نیم تاریک کمرے میں موجود واحد لوہے کی چارپائی پر سر ہاتھوں میں دیے بیٹھا وہ شخص زید ہی تھا۔ وہ اسکے سر اٹھائے بنا اسے پہچان سکتی تھی۔ اسکا سفید اوور آل پاس ہی پڑا تھا۔ ویڈیو ختم ہونے سے تین سیکنڈ قبل اسنے سر اٹھا کر ایک نظر سی سی ٹی وی کیمرے کو دیکھا تھا۔
ڈاکٹر سعدیہ کے چند ماہ قبل کہے الفاظ کانوں میں گونجے، ” یو آر ڈینجرس فار ہم”
“آر ڈینجرس فار ہم۔۔”
” ڈینجرس فار ہم۔۔”
سن ہوتے دماغ کے ساتھ اسنے اس ای میل کا سبجیکٹ پڑھا۔
24 Hours!
چوبیس گھنٹے کا وقت دیا تھا انہوں نے اسے اور زید کو۔
اسے چوبیس لمحے لگے تھے فیصلہ کرنے میں کہ کیا زیادہ ضروری ہے۔
زید سے زیادہ اہم کچھ نہیں تھا۔
وہ اپنی جان پر اپنے کام کو فوقیت دے سکتی تھی پر کسی اور کی پر نہیں۔ زید کی پر تو بالکل نہیں۔
لیپ ٹاپ پر کھلا وہ آرٹیکل ایک لمحے کی تاخیر کے بنا حذف کیا اور یہ کرنے کی اطلاع اس ای میل کے رپلائی میں دی۔
ای میل اور جس نمبر سے کال آئی تھی وہ ٹریس کرنے کو آگے بھیجا۔ اب؟
اب اور کیا کرے وہ؟
اسنے ابراہیم حسین کو کال ملائی۔
انھیں بتانا ضروری تھا۔
ضبط سے آواز کا توازن قائم رکھتے انہیں اطلاع کی جس کے جواب میں انہوں نے اسے بہت مدھم آواز میں وہ تفصیلات انہیں فارورڈ کرنے کا کہا۔
ایک لفظ تسلی وہ ایک دوسرے کو نہیں دے پائے۔ منیزے کے پاس تھی ہی نہیں اور انہوں نے دینا نہیں چاہی۔
انہیں پہلی بار سعدیہ کی بات ٹھیک لگی تھی۔
منیزے کو انکی خاموشی بھالے سی ضمیر میں کھبتی محسوس ہوئی۔
” یو آر ڈینجرس فار ہم۔۔”
♤♤♤♤
پولیس اسٹیشن سے وہ ابراہیم حسین کے ساتھ لوٹی تھی۔ سارا راستہ خاموشی کی نظر ہوا۔
آج دوسرا دن تھا۔
اسکی گاڑی منیزے کے آفس کے قریب ایک پھولوں کی دکان کے باہر کھڑی ملی تھی۔
وہ اسکے لیے پھول خریدنے اترا ہوگا۔ چار ٹیولپس۔ ایک سفید، ایک سرخ، ایک گلابی اور ایک پیلا۔۔
یہ خبر نیزے سی کہیں اندر گڑھی۔ نجانے دل میں یا ضمیر میں، شاید دونوں میں۔
اسکا فون اور والٹ بھی گاڑی سے ہی ملے تھے۔ اسے فون سے ٹریس کرنے کی امید نے اسی کے ساتھ دم توڑا۔
چوبیس گھنٹے بڑھ کر چھتیس ہو گئے تھے اور زید کی کوئی خبر نہیں تھی۔ ہر مطالبہ ماننے کے بعد یہ دیر، یہ اچھی علامت نہیں تھی۔
کل سے سارے شہر کی فورس متحرک تھی۔
ابراہیم حسین نے اپنے تعلقات کو اپنے بیٹے کو ڈھونڈنے کے لئے بروئے کار لانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔
تھانے کے چکر وہ مسلسل کاٹ رہی تھی پر زید کے گھر جانے کا حوصلہ وہ خود میں نہیں پاتی تھی۔
آج تھانے سے نکلتے ہوئے اسکی گاڑی جواب دے گئی تو ابراہیم نے اسے اپنے ساتھ چلنے کا کہا تھا۔
وہ مان گئی۔
وہ اس خاندان کا حصہ تھی کب تک وہ ڈاکٹر سعدیہ کا سامنا نہ کرتی؟ وہ ایک دفعہ انہیں دیکھ لیتی تو شاید وہ فیصلہ آسان ہو جاتا جو وہ زید کی واپسی پر کرنے کا سوچ رہی تھی۔
وہ لان میں بچھی کرسیوں پہ گیٹ پر نظر گاڑے بیٹھی تھیں۔ انہیں ابراہیم حسین نے گھر پر رہنے پر کیسے راضی کیا تھا یہ وہ ہی جانتے تھے ورنہ انکا بس چلتا تو وہ شہر میں پیدل نکل جاتیں۔ ہر گھر جا کر اسکا پوچھتیں۔ اس کروڑوں کی آبادی والے شہر کا ہر گھر ڈھونڈنا پڑتا وہ تب بھی ڈھونڈتیں۔۔
انہیں کار سے اترتے دیکھ وہ انکی طرف آئیں تھیں۔
” ابراہیم۔۔۔ زید؟”
انکا بازو تھامے وہ سوال کر رہی تھیں۔
انکے غم سے سیاہ پڑتے چہرے پر جواب ڈھونڈنا کوئی اتنا بھی مشکل نہیں تھا۔
سعدیہ نے بے یقینی سے نفی میں سر ہلاتے انکا بازو چھوڑا۔
” یہ کیا کر رہی ہے آپ کے ساتھ؟ اب کیا رہ گیا ہے؟ سب تو کر چکیں تم۔۔ دیکھو میرے ہاتھ، میرا گھر۔۔ سب خالی ہے۔۔ زید نہیں ہے۔۔میرے پاس نہیں ہے وہ۔۔”
انکی نظر اب منیزے پر پڑی۔
وہ اپنے خالی ہاتھ اسے دکھاتیں، اپنے گھر کی طرف اشارہ کرتیں اس سے پوچھ رہی تھیں۔
اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
وہ اس لمحے کے لیے خود کو تیار کر کے آئی تھی پر سعدیہ کا حلیہ، انکا چہرہ اس سے کچھ دیکھا نہیں گیا۔
ایک دن میں اس قدر سیاہ ہلکے کسی چہرے پر کیسے پڑ سکتے تھے؟
بیٹوں کی گمشدگی پر ماؤں کے پڑ جاتے ہونگے۔
” مجھے بتاؤ میں اپنا بیٹا کہاں سے لاؤں اب؟ میری زندگی ہے وہ، اتنا قیمتی۔۔ اتنا اہم اور اور تم نے اسکی زندگی اپنے ایک ورک اسائنمنٹ کے لئے داو پر لگا دی۔۔”
وہ اسے الزام دے رہی تھیں۔
اسے آج پچھلی دفعہ کی طرح برا نہیں لگا، الزام نہ لگا۔
اسکا دل کیا وہ سعدیہ کے گلے سے لگ کر بہت روئے۔ انہیں بتائے کہ زید کی گمشدگی اسے کس قدر ہراساں کئے ہوئے ہے، وہ اسے کتنا یاد آرہا ہے۔ اسکی سلامتی کی دعاؤں وہ آتی جاتی سانسوں کے ساتھ کس شدت سے مانگ رہی ہے۔ انکا غم سانجھا تھا لیکن اسے تھامنے کو وہاں کوئی تیار نہ تھا وہ ملزم تھی۔ انکی مجرم تھی۔
اسکا دل کیا چاہ رہا اس سے کسی کو کیا فرق پڑتا۔
“تم۔۔تم اس کی زندگی میں ہونا ڈیزرو ہی نہیں کرتی تھیں، تمھیں نہیں ہونا چاہیے تھا، تم اسکی سب سے بڑی غلطی ہو۔۔ جاو یہاں سے۔۔ اسکی صحت، اسکا کیرئیر اور اور اب اسکی زندگی۔۔ تم نے سب تباہ کر دیا ہے۔”
اسے کہنی سے پکڑ کر سعدیہ نے دروازے کی طرف دھکیلنا چاہا تو ابراہیم نے انکے ہاتھ پر ہاتھ رکھے انہیں روک لیا۔
“مجھے زید ڈھونڈ دیں ابراہیم۔۔ میں سانس نہیں لے پا رہی ہوں۔۔ ورنہ مجھے بھی مار دیں۔۔ میں۔۔ میں کیا کروں گی اس کے بغیر۔۔”
وہ انکا وہی ہاتھ تھامے بلک بلک کر رو دی تھیں۔
” آپ جائیں یہاں سے پلیز۔۔”
سعدیہ کو بازوؤں میں بھر کر بمشکل سنبھالتے انہوں نے ضبط سے سرخ پڑتے چہرے سے اسے جانے کو کہا۔
انکے پاس مروت کرٹسی کچھ بھی نبھانے کی قوت نہیں بچی تھی۔ انکا بیٹا لاپتہ تھا، بیوی انکی آنکھوں کے سامنے حواس کھو رہی تھی۔ ان دو لوگوں کو نکال دو تو انکی زندگی میں بچتا ہی کیا تھا؟
آج پولیس کہہ رہی تھی انہیں اپنے بیٹے کو مردہ خانوں میں بھی ڈھونڈنا چاہیے اور سڑک پر پڑی لاوارث لاشوں کا سراغ بھی لگایا جانا چاہیے۔
وہ اس وقت ہر چیز کے باوجود کیسے کھڑے تھے کوئی ان سے پوچھتا۔
منیزے چہرے پر مردوں سی سفید نیلاہٹ لیے جانے کے لیے پلٹی۔
” سب ڈھونڈ رہے ہیں اسے ۔۔وہ مل جائے گا۔۔ سعدیہ یوں مت کریں۔۔ مجھے خود کو ایسے دیکھنے کی تکلیف مت دیں۔۔ میں پہلے ہی ٹوٹ رہا ہوں۔۔ ہمارے بیٹے کو ڈھونڈنے دیں مجھے۔۔ ”
اسے ابراہیم حسین کی نم اشکوں سے تر آواز اپنے پیچھے سنائی دی۔ اسنے مڑ کر نہیں دیکھا اس چٹان جیسے انسان کو روتا دیکھ لیتی تو خود کو معاف نہیں کر پاتی تاحیات۔
♤♤♤♤♤
درمیانے طبقے کے اس محلے میں فجر کی آزان رات کے دن میں مدغم ہو جانے کا اعلان کر رہی تھی۔
فاروق احمد جماعت کے لئے مسجد تک گئے تھے۔ وہ وضو کر کے سفید دوپٹہ ہاتھ میں لیے گم سم سی برآمدے کے تخت پر بیٹھی تھی۔
یہ آج تیسری فجر تھی اور زید کی کوئی خبر نہیں آئی تھی۔
آنکھوں سے اسکی صورت ایک لمحے کو ہٹ رہی تھی نہ ذہن سے خیال۔
ڈاکٹر ابراہیم کے منع کرنے کے بعد وہ دوبارہ وہاں نہیں گئی تھی۔ وہ چلی بھی جاتی تو سعدیہ ابراہیم کا رونا دیکھ پاتی اور نہ ابراہیم حسین کا بجھا ہوا نڈھال انداز۔
وہ جو اسکے لئے دنیا میں روشنی کا سبب تھا ان دونوں کے لئے پوری دنیا تھا۔
وہ اسے کیسے واپس لائے؟ وہ سب کر دیکھ چکی تھی۔ اپنے سورس استعمال کر چکی تھی، خود ان لوگوں سے ملنے کی کوشش کر چکی تھی۔
تبھی بیرونی دروازہ کھلا۔
شاید ابا واپس آگئے تھے وہ دروازہ جاتے ہوئے پوری طرح سے بند نہیں کرتے تھے۔
ہاتھ میں پکڑی سفید چادر کو دیکھتے اسنے نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔
” منیزے۔۔”
یہ آواز۔۔اسنے نظر اٹھائی تو اسے موجود پاکر خود بھی کھڑی ہوگئی۔
اسے وہ گاڑی جس میں لے جایا گیا تھا وہی اس علاقے کے مین روڈ پر اتار گئی تھی بلکہ پھینک گئی تھی۔ بنا فون اور والٹ کے پیدل منیزے کا گھر ہی قریب ترین تھا۔
اسنے ان لوگوں کو گاڑی میں بات کرتے سنا تھا کہ منیرے انکا مطالبہ مان گئی تھی۔
” آئی ایم سوری۔۔ میری وجہ سے آپ کی دو ماہ کی محنت۔۔”
منیزے نے کتنی تاکید کی تھی وہ پھر بھی دو ہفتے میں ہی اسکی بات ان سنی کرتا بے دھیانی میں اپنی کار لے کر نکل گیا تھا۔
اسے اپنی اور آتا دیکھ اسنے معذرت کرنی چاہی تھی۔ بات مکمل نہیں ہو پائی۔ وہ اس کے بالکل قریب آکر رکی۔ دونوں ہاتھوں میں چادر سختی سے بھینچے اپنی پیشانی اسکے سینے سے لگائی۔
لفظ غائب ہوئے۔
وہ بالکل ساکت کھڑی تھی۔ اگر زید کو اپنی شرٹ اس جگہ سے بھیگی ہوئی محسوس نہ ہوتی جہاں منیزے کی آنکھیں تھیں اسے پتا بھی نہ چلتا کہ وہ رو رہی ہے۔
” آپ مصیبت ختم ہونے کے بعد کیوں روتی ہیں؟”
اپنا ہاتھ اسکے گرد پھیلاتے سر جھکائے وہ پوچھ رہا تھا۔ اسے تھامنے والا آگیا تھا۔
وہ جانتا تھا وہ ان دنوں نہیں روئی ہوگی۔
مضبوط لوگوں کا المیہ۔
اسکی بات پر منیزے نے ہاتھ میں پکڑی چادر چہرے پر رگڑی۔
” کوئی سیرئیس قسم کا ٹیکنیکل فالٹ ہے۔۔”
اسنے اسے ہنسانا چاہا۔
آواز بھاری سی ہو رہی تھی۔
“تم ٹھیک ہو؟ تمھیں چوٹ تو نہیں آئی کوئی؟ انہوں نے تمھیں مارا۔۔”
خیال آنے پر اسنے سر اٹھایا۔
ہاتھ سے اسکے چہرے کو چھوتے جیسے زخم ٹٹولنے چاہے۔
زید نے اپنے چہرے سے اسکا ہاتھ ملائمت سے ہٹاتے اپنے ہاتھ میں لیا۔
“میں ٹھیک ہوں۔۔دیکھیں۔۔ بالکل ٹھیک۔۔”
مسکرا کر تسلی دی۔ ایک قدم پیچھے ہو کر اسے خود کو ٹھیک سے دیکھ کر تسلی کرنے کا موقع دیا۔
” تمھاری آواز۔۔؟”
اسکی تسلی نہیں ہوئی تھی۔
آخری دفعہ پانی شاید اسے کل عصر کے وقت دیا گیا تھا مزید گھر، ہاسپٹل، گاڑی ہر جگہ اے سی چلتا تھا، ٹھنڈے ماحول سے اچانک بند دھیمے پنکھے والی حبس زدہ کوٹھڑی میں لے جائے جانے سے گلا دکھ رہا تھا۔
سرد گرم کا اثر۔
” پانی۔۔”
شدید پیاس کا احساس اسکے توجہ دلانے پر پھر جاگا۔
” میں لاتی ہوں تم۔۔ تم بیٹھو۔۔”
اسے اپنی سابقہ جگہ پہ تخت پر بٹھاتے مسلسل اسے دیکھتے وہ پانی لینے فرج کے پاس رکھے ڈسپنسر کی طرف بڑھی۔
جیسے وہ نظروں کا حصار نہیں باندھے گی تو وہ غائب ہو جائے گا۔
دو طویل دنوں پر محیط رات کے بعد بالآخر سورج نکل آیا تھا۔ اسکی نرم مدھم کرنوں میں پرانے دنوں کی تابناکی نہیں تھی۔ گزری سیاہ رات کے پردے میں تقدیر کے ساتھ ایک سودا ہوا تھا۔ وصل کے بدلے سالمیت خریدی گئی تھی۔ دل رہن رکھا گیا تھا اور دھوپ کا روپہلا پن بھی۔ پانچ سال بعد آج بھی وہ یونہی گروی پڑے تھے۔
♤♤♤♤♤♤♤
فون مسلسل بج رہا تھا۔ اسنے نہیں اٹھایا۔
اب واٹس ایپ میسج کی موصولی کی اطلاع کی گھنٹی بجی۔
اسنے آفس میں بیٹھے لکھتے ہوئے ٹیبل پر رکھے فون کو ایک نظر دیکھا۔
زید ہی تھا۔
” کیا بیمار کی عیادت ویادت کرنا اب فیشن نہیں رہا؟”
ساتھ میں ایک اداس لٹکے چہرے والا ایموجی۔
اسکا خراب گلا اچھے خاصے بخار میں تبدیل ہوگیا تھا۔
منیزے نے سیکیورٹی ایشو کا بہانہ کر کے اسے کہہ دیا تھا کہ وہ اگلے چند دن نہیں ملیں گے۔ وہ اس کی کالز بھی کم اٹھاتی تھی اب۔
چار کالز کرتا تو ایک اٹھائی جاتی دو منٹ بات کر کے مصروفیت کا عذر دے کر فون کاٹ دیا جاتا۔
اسنے اسے ایک دفعہ بھی کوئی الزام نہیں دیا تھا منیزے جانتی تھی اسے اس طرز کا کوئی خیال چھو کر بھی نہیں گزرے گا۔ وہ جو یوں موت سے زندگی چرا کر پلٹا تھا اسنے پہلے الفاظ اس سے معذرت کے کہے تھے کہ اسکا کام ضائع ہو گیا۔ سعدیہ ٹھیک کہہ رہیں تھیں وہ کہاں لائق تھی ایسی محبت کے۔
اسے نہیں ہونا چاہیے تھا اسکی زندگی میں۔
وہ چلی جائے گی۔ کیسے؟ یہ سوچنا تھا۔
ڈاکٹر ابراہیم نے اسے زید کے واپس آجانے کے بعد بھی کوئی کال نہیں کی تھی۔
وہ بھی اسے قصوروار سمجھتے تھے۔
ٹھیک بھی تھا اس کا قصور نہیں تھا وہ جانتی تھی پر وہ اس بات کو بھی جھٹلا نہیں سکتی تھی کہ جو بھی تھا وجہ وہی تھی۔
انوسٹیگیٹو جرنلزم میں پڑھا تھا کبھی کہ ایک دفعہ حادثہ ہوتا ہے، دوسری دفعہ اتفاق اور تیسری دفعہ پیٹرن۔۔ اسکی ذات سے زید کو نقصان ہونا بھی پیٹرن ہی تھا۔ وہ اب اور آگے کس چیز کا انتظار کرتی یقین کرنے کو؟ اسکی مرنے کا؟
وہ کہہ رہا تھا کہ ان لوگوں نے اسے چھوڑتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اسکا باپ اتنا اثر و رسوخ استعمال نہ کر رہا ہوتا وہ اسے کل ہی مار کر پھینک دیتے۔
اسکا قتل تمام صحافیوں کے لئے پیغام ہوتا کہ کیا نہیں کرنا ہے، کسے نہیں چھیڑنا ہے۔
اس سے جڑا یہ تعلق زید کے لئے امربیل ثابت ہو رہا تھا۔ اسکی بقاء کو خطرے میں ڈالتے خود پھل پھول رہا تھا۔
اسے نہیں پتا تھا وہ کیا کہہ کر اسے خود سے دور کرے کہ وہ مان جائے۔ انکا تعلق اتنا مضبوط تھا کہ وہ اسکے ہر بہانے، ہر حیلے کے پار سچ دیکھ سکتا تھا۔
یہ لائحہ عمل ابھی طے کرنا تھا۔
آج کل وہ ابا کا سامنا بھی کم کرتی تھی۔
وہ اسکی خالی آنکھیں پڑھ لیتے تو وہ کیا جواب دیتی۔ ایک ماہ تک چینل کے ساتھ کانٹریکٹ ختم ہو رہا تھا۔ وہ ابھی سے اپنی سی وی مختلف جگہ بھیجنا شروع کر چکی تھی۔
مستقبل اسکے لئے کیا لانے والا تھا وہ انجان تھی پر اس پر چھائے سیاہ بادل کسی اچھائی کا گمان رکھنے نہیں دیتے تھے۔
زید نہ رہتا اس میں تو اس نے کیا اچھا ہونا تھا اور کیا روشن۔۔
♤♤♤♤♤♤
حال
سمندر آج بپھرا ہوا تھا۔
لہروں کا شور بارش کی کن من سے مل کر کسی نئے طرز کی موسیقی کو ایجاد کرنے کے درپے تھا۔
سیاہ بادل دن اور رات کے تمام فرق مٹاتے آسمان پر سایہ فگن تھے۔
رہائشی عمارت میں داخل ہوتے اسنے چھاتا بند کیا اور لفٹ کی جانب بائیں طرف راہداری میں مڑگیا۔
اسے واپس آئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا۔
منیزے سے اس آخری ملاقات کے دو دن بعد وہ لوٹ آیا تھا۔
وہ شہر اسکے لئے نہیں رہا تھا اب۔
ہر بار نئے انداز میں دل توڑتا تھا۔ جفا کرتا تھا اور پھر تجدید جفا۔
مام اس سے پوچھتی رہ گئیں تھیں پر وہ ایک لفظ بھی نہیں کہہ پایا۔
اگلے دن اسے سامان باندھتا دیکھ انھیں اپنا جواب مل گیا تھا۔
جینز، شرٹ پر چمڑے کی ہیئت کے سیاہ جیکٹ کے اوپر موٹا گرم لمبا سیاہ اوور کوٹ پہنے ایک ہاتھ میں چھاتا پکڑے دوسرا کوٹ کی جیب میں ڈالے وہ اب لفٹ میں داخل ہو رہا تھا۔
ایک بار پھر دل کے بجائے رستا زخم لے کر اس شہر آیا تھا وہ۔
یہاں کام اتنا تھا کہ درد محسوس کرنے کی فرصت نہیں تھی پر آج شدید مصروفیت میں بھی تاریخ پر نظر پڑ ہی گئی تھی۔
یہ ظلم ہوا تھا۔
پچیس فروری کا یہ دن سات سال قبل زندگی میں اہم ہوا تھا۔
فارم پر دستخط کرتے تاریخ دیکھی تو وہ دستخط یاد آئے جو آج کے دن گزرے زمانوں میں کرتے اسنے خود کو زمین کے چہرے پر وہ شخص محسوس کیا تھا جس کی قسمت کا ستارہ سب سے زیادہ تابناک تھا، روشن، درخشاں۔
وہ ستارہ جو گزرے پانچ سال سے مدھم تھا اور ہفتہ بھر پہلے ٹوٹ کر ہمیشہ کو کہیں گم ہوا تھا۔
لفٹ اسکے اپارٹمنٹ کی منزل پر رکی۔
امید نہیں رہی تھی تو یہ کسک کیسی تھی؟
شاید صرف امید ٹوٹی تھی محبت اب بھی قائم تھی۔ ہر چیز کے باوجود۔ وہ بدگمان نہیں ہوتی تھی۔ ہو ہی نہیں سکتی تھی۔
یہ ڈھٹائی اسی جذبے کا خاصا تھی پر آج کے دن تو یہ کسک بنتی تھی۔
یہ ایک دن حق رکھتا تھا کہ اسے اس ایک جذبے کے نام کیا جائے پھر چاہے اس پر رویا جائے یا اس کے سخت جان ہونے پر داد دی جائے۔ اسنے اسے اذیت دینے کا فیصلہ کیا تھا، اس کے ہوتے ہوئے اس کے مرگ کا سوگ منانے کا اہتمام کیا تھا۔
شہر پر اکثر چھائے بادلوں جیسا ایک نادیدہ سیاہ ٹکڑا اسکے سر پر بھی ہمہ وقت موجود تھا جیسے جس میں سے وہ غیر مرئی آنسو برستے تھے جو اسنے نہیں بہائے تھے۔
میں جانتا ہوں کہ تمھیں میں یاد آتا ہوں
اور وہ تعلق جو ہمارے درمیان تھا
اب بھی ہے
کیونکہ میرا دم اس ڈور کے کھنچ جانے سے گھٹ رہا ہے جو ہمیں جوڑے ہوئے
اور یہ تکلیف دہ ہے۔۔
(انگریزی نظم کا ترجمہ)
اپنے گھر کے دروازے کے سامنے کھڑے اسنے چابی برآمد کی۔
نظر دروازے کے ساتھ موجود گملے کے پاس رکھے آرائشی پتھروں پر پڑی۔ وہ اپنی جگہ سے ہلے ہوئے محسوس ہوئے۔ پاوں سے انکی جگہ درست کرتے چابی لگائی۔
اندر داخل ہوکر بلب جلانے کو سوئچ بورڈ پر ہاتھ رکھتے ایک نظر ہال سے ملحقہ کچن پر ڈالی۔
کافی کی طلب ہوئی۔
چھے گھنٹے آپریشن تھیٹر میں گزار کر گھر آیا تھا۔
آج نیند یوں بھی نہیں آنی تھی کافی پی لیتا تو وہ ایک فیصد امکان بھی صفر ہو جاتا پھر تھکن کیسے اترتی؟
کچھ سوچتے ہوئے وہ کچن کی طرف بڑھا۔
پانی گرم کرنے کو کیٹل کا بٹن دبایا اور کوٹ کی اندرونی جیب سے ایک خاکی لفافے میں لپٹا سینڈوچ برآمد کیا۔
اتنے میں سعدیہ کی کال آگئی۔
وہ جب سے آیا تھا وہ دن میں دو تین دفعہ فون کیا کرتی تھیں۔ وہ ڈر گئیں تھیں اسکے چہرے پر نقب لگائے بیٹھی تاریکی سے۔
ان سے بات کرتے اپنا مخصوص کپ ہولڈر سے نکالنا چاہا تو وہ وہاں نہیں تھا۔
نظر گھمائی تو سنک کے پاس رکھا نظر آیا۔
وہ شاید جاتے ہوئے یہاں چھوڑ گیا تھا۔
اسنے سبز چائے کے پتے کپ میں ڈالے اور کیتلی سے کھولتا پانی اس میں انڈیلا۔
چائے کے گھونٹ بھرتے وہ انھیں آج کی کامیاب سرجری کی تفصیل بتا رہا تھا جسکی عموماً کامیابی کی شرح دس فیصد سے بھی کم تھی۔
اس کے پاس بتانے کو، بات کرنے کو اپنے پیشے کی تفصیلات کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
وہ خوش ہوئیں تھی۔
والدین کے لیے کامیابی ایک اچھا وقتی بہلاوہ ثابت ہوتی ہے۔
چائے سینڈوچ سے فارغ ہو کر اسنے سونے کے ارادے سے کمرے کا رخ کیا۔ آٹھ گھنٹے میں دوبارہ ہسپتال پہنچنا تھا۔
کوئی ہلکے ڈوز کی خواب آور دوا لینے کا سوچتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف جاتے وہ ٹھٹھکا۔
سفید ٹائلز پر کیچڑ سے اٹے چھوٹے پہیوں کے نشان مدھم ہونے کے باوجود واضح تھے۔ اسنے الجھتے ہوئے دروازہ کھولا۔
کمرہ گھپ اندھیرے میں لپٹا تھا۔
مڑ کر بورڈ پر بتی جلانے کو ہاتھ رکھا۔
سب روشن ہوگیا۔
وہ پلٹا تو سامنے موجود منظر نے بے یقین کیا۔
لمحے ساکت ہوئے۔
وقت نے اگلا قدم نہ اٹھایا۔
تخیل تصور بن کر مجسم ہوجائے تو وقت کے ساتھ لہو کی گردش بھی تھم جاتی ہے۔
یہ تھکاوٹ کے سبب تھا یا وہ پاگل ہو رہا تھا؟ hallucinate کر رہا تھا؟
معالج کو علاج کی ضرورت ہونے لگی تھی۔
وہ منظر تصور تھا، تخیل یا پھر سراب؟
جو بھی تھا بہت انمول تھا وہ پلک جھپک کر اسے ہوا میں تحلیل کرنے سے ڈرا اور پھر اسی خوف میں آنکھ جھپکی۔
سب اب بھی ویسا ہی تھا۔
کچھ بھی تحلیل نہیں ہوا۔
یقین کرنے کو دو قدم آگے بڑھائے۔
پھر بھی کچھ نہ بدلا۔
وہ اپنی بے یقینی کا کیا کرے؟
سیاہ جینز، سرمئی لانگ کوٹ، سرخ مفلر اور ٹخنوں سے چند انچ اوپر آتے کوٹ شوز میں اسکے پلنگ پر اسکے تکیے پر سر رکھے کروٹ کے بل جوتوں سمیت لیٹی گہری نیند میں ڈوبی وہ منیزے تھی۔
کوئی خواب نہیں منیزے ہی تھی۔
جس نے چند روز قبل اس سے تعلق برقرار رکھنے کو اپنی غلطی کہا تھا۔ جو اسے الزام دیتی سالوں پہلے اس کی زندگی سے چلی گئی تھی۔
♤♤♤♤♤♤
زاہد سرفراز زاہد ۔۔۔ فن نعت گوئی کا خوبصورت نگینہ
محمد زاہد سرفراز کا ادبی نام زاہد سرفراز زاہد ہے۔ آپ کا شمار عہدِ حاضر کے نوجوان شعرا میں نعت...