اگلی صبح شہریار اور شہرذاد حنان کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ حنان، ماہین کو سہارا دےکر سیڑھیوں سے اترنے میں مدد کررہا تھا۔ ان دونوں کے چہرے مطمٸن اور آسودہ تھے۔ حنان کی نظر ان دونوں پر پڑی
”ارے۔۔۔۔تم لوگ“ اس نےماہین کو صوفے پر بیٹھاتے ہوۓ خوشگواری سے کہا
”ہاں بس ابھی ابھی ہی آۓ ہیں“ شہریار نے آگے بڑھ کر اس سے ہاتھ ملایا۔ جب تک شہرذاد اپنے ہاتھ میں پکڑی تھیلی سے چھوٹے بڑے بےشمار پیالے نکال کر ٹیبل پر رکھنے لگی
”یہ سب تم کیا لے آٸ ہو؟“ ماہین نے اس سے پوچھا
”ناشتہ“ اس نے مسکراتےہوۓ
”اس تکلف کی کیا ضرورت تھی“ حنان نے کہا تو وہ برا مان گٸ
”اس میں تکلف کی کیا بات ہے۔ ہم نے بھی ناشتہ نہیں کیا کہ آپ دونوں کے ساتھ ہی کرینگے“ حنان اور ماہین مسکراۓ
”چلو پھر تم ناشتہ لگاٶ۔ مجھ سے تو خوشبو سونگھ کر ہی رہا نہیں جارہا“ ماہین نے کہا تو شہرذاد نےجلدی سے برتن لگانے شروع کردیۓ۔ اتنی دیر میں علی بھی آگیا۔ وہ کل کے مقابلے میں آج کافی بجھا بجھا سا لگ رہا تھا۔ حنان نے پوچھا بھی لیکن اس نے طبیعت خرابی کا بہانہ بنا دیا۔ شہرذاد نے آواز دی تو وہ لوگ ناشتہ کی ٹیبل پر آگۓ۔ حنان، ماہین کو بھی لے آیا۔
”اس اتوار کو تم لوگ رات کے کھانے پر انواٸیٹڈ ہو میرے گھر پر“ ناشتے کے بعد شہریار نے کہا تو سب نے حیرت سے اسے دیکھا
”کیوں بھٸ خیریت؟“ علی نے پوچھا
”ان دونوں کے نکاح کی خوشی میں دعوت ہے“
”اچھا! بس یہی بات ہے؟“ ماہین نے شرارت سے پوچھا
”نہیں ایک اور بھی بات ہے۔۔۔۔۔۔بابا آج رات کو پاکستان آرہے ہیں اور اتوار کو ہماری۔۔۔۔۔۔۔“
”تمہاری شادی کی ڈیٹ فکس کر رہے ہیں، پتہ ہے۔۔۔۔۔کل سے ایک ہزار ایک مرتبہ سن چکے ہیں یہ بات“ حنان نے شرارت سے کہا تو وہ قہقہ لگا کر ہنس پڑا۔
”واہ۔۔۔۔۔مجھے تو یہ بات معلوم ہی نہیں تھی۔ بہت مبارک ہو تم دونوں کو“ ماہین نے خوشدلی سے کہا۔ شہرذاد بس ہلکا سا مسکراٸ نہ جانے کیوں اسکے چہرے پر وہ خوشی نہیں تھی جو ہونی چاہیے تھی۔
”علی اب تم بھی اپنا بندوبست کرلو۔ اسکے بعد تمہارا نمبر ہے“ حنان انجانے میں اسکے زخم چھیڑ گیا۔ وہ بس مسکرایا
”ہاں علی۔۔۔۔۔اب تو تم ہی کنوارے رہ گۓ ہو۔ بولو تو میں ڈھونڈو تمہارے لۓ کوٸ؟“ ماہین نے ہنستے ہوۓ پوچھا۔ علی نے دل ہی دل میں اسکے صدا یوں ہی ہنستے رہنے کی دعا کی۔
”اسکی ضرورت نہیں ہے بھابھی جی، یہ کام میں خود ہی کرلوں گا“ علی خود کو کمپوز کرلیا اور مسکراتے ہوۓ جواب دیا
”جلدی ڈھونڈ لینا بھاٸ۔۔۔۔ورنہ حنان نے تو قسم کھاٸ ہے کہ تیری شادی سے پہلے اپنا ولیمہ نہیں کریگا۔“ شہریار نے ٹیبل سے اٹھتے ہوۓ کہا۔ ایک خوشگوار ماحول میں ناشتہ کرنے کے بعد اب وہ لوگ چاۓ سے لطف اندوز ہورہے تھے۔
”ایک اچھی خبر ہے تم لوگوں کے لۓ“ اچانک ہی شہریار نے سب کو مخاطب کیا۔ ماہین اور شہرذاد ساتھ ہی ایک صوفے پر بیٹھی ہوٸ تھیں۔ اور وہ حنان اور شہریار ساتھ بیٹھے تھے جب کہ علی کاٶچ پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ کافی حد تک اپنی کیفت پر قابو پاچکا تھا
”اوہ میرے بھاٸ۔۔۔۔۔۔اور کتنی خبریں سناۓ گا آج کی تاریخ میں؟“ علی نے اسکا لتاڑا
”بس یہ آخری ہے“ اس نے ہنستے ہوۓ کہا
”اظہر کل رات گرفتار ہوگیا ہے“
”واقع؟ یہ تو سچ میں اچھی خبر ہے“ ان لوگوں نے ایک ساتھ کہا
”اور صرف یہی نہیں، وہ پولیس والوں کو مزید جراٸم میں مطلوب تھا۔ اور بھی بہت سے کیسسز کھلے ہیں اس پر“ وہ لوگ چند ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہی پھر شہریار اٹھ کھڑا ہوا اور شہرذاد کو بھی چلنے کا کہا
”کہاں بھاٸ؟“ حنان نے اسے اٹھتے دیکھ کر حیرت سے پوچھا
”شہرذاد کو لے کر جانا ہے شاپنگ پر“ اس نے جواب دیا
”جا بھاٸ۔۔۔۔تُو تو ابھی سے ہی جورو کا غلام نکلا“ علی نے کہا لیکن آواز آہستہ ہی رکھی کیونکہ سامنے ہی شہرذاد ماہین سے گلے مل رہی تھی۔ شہریار اور حنان ہنسنے لگے۔ آج بہت عرصے بعد وہ سب اکھٹے تھے اور بہت خوش تھے
———-*————-*————-*
حنان اور ماہین آفس سے واپس آرہے تھے کہ جب سگنل پر گاڑی رکی۔
”ماہی۔۔۔۔۔ذرا ایک منٹ رکنا میں ابھی آیا“ وہ کہہ کر سیٹ بیل کھولنے لگا
”کہاں جارہے ہو حنان؟“ اس نے پریشانی سے پوچھا
”وہ سامنے کچھ غریب افراد بیٹھے ہوۓ ہیں۔ میں انہیں صدقہ دے آٶں“ اس نے سامنے فوٹ پاتھ پر بیٹھے غریب افراد کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ کہا
”جلدی آنا سگنل کھلنے والا ہے“ اس نے کہا تو وہ سر ہلاتے ہوۓ باہر نکل گیا۔ اسکی عادت تھی وہ روزانہ صدقہ دیتا تھا، اور اسے یہ عادت بھی اسے دادی سے ہی آٸ تھی۔ وہ سامنے بیھی ایک کالی چادر میں لپٹی عورت کے پاس آیا۔ اس نے اپنا چہرہ ڈھکا ہوا تھا۔ حنان جلدی سے اسے پیسے دے کر مڑا جب ایک آواز نے اسکے پیر جکڑ لۓ
”حنان بھاٸ۔۔۔۔“ حنان ساکت رہ گیا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو جس عورت کو وہ پیسے دے کر جارہا تھا وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ مرجان تھی۔۔۔۔۔۔اسکی بہن مرجان
”آپ مجھے بھول گۓ بھاٸ اور اپنی زندگی میں مصروف ہوگۓ۔ اپنی خوشیوں میں آپ نے مجھے بھولا دیا۔ یہ دیکھیں میں کس حال میں پہنچ گٸ ہوں“ وہ شکوہ کررہی تھی اور حنان تو آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہا تھا۔ بےیقینی سی بےیقینی تھی۔ سوچا بھی نہ تھا کہ جس بہن کو وہ مردہ سمجھے بیٹھا تھا وہ اسے اس طرح ملے گی۔
”حنان۔۔۔۔حنان!“ ماہین اسے آوازیں دے رہی تھی۔ شاید سگنل کھل گیا تھا۔
”جاۓ بھاٸ۔۔۔۔چلے جاۓ واپس۔ آپ خوش رہیں اپنی زندگی میں اور بھول جاۓ مجھے“ وہ کہتے ساتھ ہی جانے کے لۓ مڑ گٸ“
”مرجان رکو۔۔۔۔کہاں جارہی ہو۔ پلیز رک جاٶ“ وہ اسکے پیچھے بھاگا
”حنان! حنان“ ماہین اسے پکار رہی تھی
”مرجان رک جاٶ۔۔۔۔۔مت جاٶ مجھے چھوڑ کہ۔۔۔۔۔پلیز واپس آجاٶ“ وہ روتے ہوۓ کہنے لگا
”حنان!۔۔۔۔۔حنان اٹھو!۔۔۔صبح ہوگٸ ہے“ ماہین کی آواز پر اس نے جھٹکے سے آنکھیں کھولی۔
”کیا ہوا ہے حنان کب سے آوازیں دے رہیں ہوں تمہیں، اٹھ کیوں نہیں رہے تھے؟“ اس نے پوچھا- حنان اٹھ کر بیٹھا۔ وہ اپنے کمرے میں تھا
”بس اٹھ ہی رہا تھا“ اس نے جواب دیا
”اچھا جلدی تیار ہوکہ آٶ کیونکہ ہمیں آفس جانا ہے اور پھر آج شہریار کے گھر ڈنر بھی تو ہے“ اس نے یادہانی کراٸ
”اوکے۔۔۔۔تم جاٶ میں تیار ہوکر آتا ہوں“ اس نے مسکراتے ہوۓ کہا تو ماہین اٹھ کر چلی گٸ
”تو یہ خواب تھا۔۔۔۔۔“اس نے سوچا ”پر میں نے مرجان کو اتنے برے حال میں کیوں دیکھا؟ اور اس نے ایسا کیوں کہا کہ میں اسے بھول جاٶ؟“ وہ الجھ گیا، دل پر بہت سا بوجھ پڑھ گیا۔ وہ یہ خواب ماہین سے شٸیر کرسکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ایک بار پھر سے ماہین اپنے آپ کو مجرم سمجھے۔ وہ خاموشی سے اٹھ کر تیار ہونے چلا گیا۔ کچن میں کھڑی ماہین اپنے آنسو صاف کۓ کیونکہ وہ حنان کو نیند میں مرجان کا نام لیتا ہوا سن چکی تھی۔ گوکہ حنان اسے معاف کرچکا تھا اور اس تمام واقعہ سے اسے برالذمہ قرار دے چکا تھا لیکن کہیں نہ کہیں ماہین کہ ایسا لگتا تھا کہ وہ ان سب کی ذمہ دار ہے
———*————–*————-*
”اسلام وعلیکم فاطمہ کیسی ہو؟“ وہ اپنے کل کے انٹرویو کی تیاری کر رہی تھی جب اسکی سابقہ کولیگ نے اسے فون کیا۔
”ٹھیک ہوں تم سناٶ“
”میں بھی ٹھیک ہوں۔ تمہیں ایک بات بتاٶ۔ ماہین میم کی شادی ہوگٸ ہے سرشاہ سے“
”کون سر شاہ؟“ اس نے حیرت سے پوچھا
”ہماری کمپنی کے شیٸر ہولڈر“
”اچھا نٸے ہیں کیا؟“
”نہیں نہیں پرانے ہیں۔ دو سال پہلے انکا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور وہ چودہ ماہ ہسپتال میں رہے تھے۔ کمپنی تو انہوں نے چار ماہ پہلے ہی جواٸن کرلی تھی لیکن میرے جیسے تمام ایمپلاٸ جو کہ پانچ چھ ماہ پہلے ہی یہاں آۓ ہیں انہوں نے اسے آج دیکھا ہے۔ کیونکہ وہ ایمپلاٸز کے سامنے نہیں آتے تھے کیونکہ وہ ہمارے آفس آنے سے ایک گھنٹہ پہلے ہی آجاتے تھے اور سارے ورکز کے چلے جانے کے بعد جاتے تھے۔ اس دوران وہ اپنے روم سے نہیں نکلتے تھے۔ لیکن آج میں نے انہیں دیکھا۔ یار! وہ تو سر علی اور سر شہریار جتنے ہی ہینڈسم اور ڈیشنگ ہیں“ وہ تفصیل سے بتا رہی تھی لیکن فاطمہ کو ان سب میں کوٸ دلچسپی نہیں تھی۔
”اور سننے میں آیا ہے کہ اس ماہ تک سر شہریار کی بھی شادی ہونے والی ہے۔ بس اب سر علی ہی رہ گۓ ہیں۔ ہاۓ کاش! انکی نظر کرم مجھ پر پڑھ جاۓ کسی طرح“ اس نےمزے سے کہا لیکن فاطمہ کو منہ ہی کڑوا ہوگیا
”خدا حافظ“ وہ ارے، ارے کرتی رہ گٸ لیکن فاطمہ نے فون بند کردیا۔ وہ تو علی کو انکار کرچکی تھی ناں تو پھر اسے اس لڑکی کی بات بری کیوں لگی۔ وہ چاہے جس سے بھی شادی کرے، جسے بھی پسند کرے اب فاطمہ کا تو اس سے کوٸ لینا دینا نہیں ہے ناں! تو پھر کیوں لگا اسے برا؟ تو کیا اسے بھی علی سے۔۔۔۔۔۔؟
———-*————-*————-*
ماہین تیار ہورہی تھی اور حنان لاٶنج میں بیٹھا اسکا انتظار کررہا تھا۔ اس نے مرجان کے جانے کے بعد سے آج پہلی بار اسے خواب میں دیکھا۔ کچھ منظر دماغ میں تازہ ہونے لگے
آج سے دوسال پہلے کا وہ دن جب مرجان آخری بار اس سے ملنے آٸ تھی۔ وہ آفس سے گھر پہنچا تو اسے دیکھ کر حیرت سے بت بن گیا کیونکہ وہ بنا کسی اطلاع کے آٸ تھی
”بھاٸ! بھوت دیکھ لیا کیا؟“ اس نے حنان کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجاتے ہوۓ شرارت سے کہا تو وہ ہوش میں آیا
”مرجان! تم کب آٸ؟“ اس نے خوشی سے کہتے ہوۓ اسکو اپنے ساتھ لگالیا
”بس آپکی یاد آرہی تھی تو ملنے چلی آٸ لیکن دو گھنٹےبعد واپسی جانا ہے“
”اتنے جلدی کیوں؟“
”میں تو بس آپ سے اور بھابھی سے ملنے آٸ ہوں۔ ایک توآپ نے بھی ضد لگالی ہے کہ بھابھی کی کوٸ تصویر نھیں بھیجے گے، ورنہ مجھے یہاں نہیں آنا پڑتا“
”تو میں نے یہ بھی تو کہا تھا کہ اسے وہیں لاٶں گا تم سے اور دادی سے ملوانے“
”تو لاۓ کیوں نہیں اب تک میں تو بھابھی کو دیکھنے کے لۓ بےچین ہورہی ہوں“
”بس موقع ہی نہیں مل سکا کہ اسے لاہور لاتا اور شاید تم آج بھی اس سے نہ مل پاٶں کیونکہ وہ ایک ڈنر پر انواٸیٹ ہے اور وہیں گٸ ہوٸ ہے“
”اوہو۔۔۔۔۔خیر کوٸ بات نہیں۔“
”اچھا تمہیں پتہ ہے میں نے آج میکرونی بنایا ہے“ حنان اسے کچن میں لے آیا
”کیا؟ آپ نے بنایا“ وہ حیرت سے بولی
”دیکھ رہی ہو تم، تمہارے شہزادے جیسے بھاٸ کو گھر کے کام کرنے پڑھ رہے ہیں“ اس نے منہ بسورتے ہوۓ میکرونی گرم ہونے رکھ دیا
”تو میرے شہزادے جیسے بھاٸ اپنے لۓ شہذادی لے آۓ ناں جلدی سے“ اس نے مسکراتے ہوۓ کہا تو حنان ہنس پڑا
”حنان چلو دیر ہورہی ہے“ ماہین نے آکر اسکا کندھا ہلایا تو وہ یادوں سے باہر آیا
”ہاں چلو“ اس نے گاڑی کی چابی اٹھاٸ اور ماہین کے ساتھ باہر نکل گیا
”کتنی خواہش تھی اسکی کہ وہ دادی اور مرجان کو اس گھر میں لاۓ اور وہ تینوں ساتھ رہے اس گھر میں لیکن انسان کی بعض خواہشات پوری ہونے کے لۓ نہیں ہوتی
——-*—————*————–*
اس وقت وہ سب شہریار کے ڈیڈ کے ساتھ موجود تھے۔ وہ ایک انتہاٸ نفیس انسان تھے۔ شہریار اپنے ڈیڈ کو ہمیشہ سے آٸیڈیالاٸز کرتے آیا تھا۔ اور وہ واقعی متاثرکن شخصیت کے مالک تھے۔
شادی کی ڈیٹ اس مہینے کے آخری ہفتے کی رکھی گٸ تھی۔ اس وقت سب ساتھ بیٹھے میٹھے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ سب ہی موجود تھے سواۓ شہرذاد کے۔۔۔۔۔
وہ اپنے بابا کے کمرے میں موجود تھی۔
”اس دن کا ہم نے شدت سے انتظار کیا تھا۔ آج وہ موقع آہی گیا۔ جب ہم سب کے سامنے آپ کے جرم کا اعتراف آپ ہی کی زبان سے کراۓ گے۔“ اس نے دل ہی دل میں کہا اور ارتضٰی صاحب کے دراز کی طرف بڑھی اور وہاں سے ایک ریولور نکالا
”آج آپ سے آپکا جرم قبول کروانے کے لۓ ہمیں جو بھی کرنا پڑا ہم وہ کریں گے“ اس نے ریولور لوڈ کرتے ہوۓ کہا۔ گن اور پسٹل وغیرہ چلانا اسے اسکے بابا نے سکھاٸ تھی۔ وہ آہستہ مگر مضبوط قدم اٹھا تی لاٶنج کی طرف بڑھنے لگی۔ جہاں سے سب کے بولنے کی آوازیں آرہیں تھیں
”کتنی خوشی ہے ناں آپ کے چہرے پر، بس یہ خوشی کچھ پل کی مہمان ہے۔ ہمارے گھر کی خوشیاں چھیننے والے، ہمارے بھاٸ اور بہنوں جیسی دوست سوہا کے قاتل۔ آج ہم آپ سے ساری خوشیاں چھین لے گے۔“ اس نے ایک عظم سے دل میں کہا اور لاٶنج میں آگٸ
لاٶنج میں شہریار، حنان اور علی کے ساتھ کھڑا تھا جب کے انکے پیچھے ماہین ارتضٰی اور مصطفٰی صاحب کے ساتھ کھڑی تھی۔ سب کے ہاتھ میں کولڈرنک تھی۔ شہرزاد خاموشی سے لاٶنج میں آکر کھڑی ہوگٸ۔
”تم اتنی دیر سے کہاں تھی شہی۔۔۔۔۔“ شہریار کی نظر اس پر پڑی تو پوچھ بیٹھا۔ اس نے جواب دینے بجاۓ اپنے دوپٹے میں چھاٸ ہوٸ ریوالور اپنے سامنے کھڑے شخص پر تان لی۔ جو جہاں تھا وہیں کھڑا رہ گیا۔
”یہ۔۔۔۔۔۔یہ تت۔۔۔۔۔یہ تم کیا کر رہی ہو شہی۔۔۔۔۔پاگل تو نہیں ہوگٸ ہو“ شہریار نے گھبراتے ہوۓ پوچھا
”آج ہم آپ سے اپنے بھاٸ کی موت کا بدلہ لینے آۓ ہیں“
”واٹ؟ کس قسم کی باتیں کررہی ہو۔۔۔۔۔؟“
”آج ہم آپ سے اپنے بھاٸ کے قتل کا اعتراف کرواۓ بغیر نہیں رہیں گے“
” میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ گن نیچے کرو شہی۔۔۔۔۔“ شہریار نے سختی سے کہا باقی سب کو تو سانپ سونگھ گیا تھا۔ اور شہرزاد، اسکے سر پر تو خون سوار تھا۔ ایک جنون تھا اسکی آنکھوں میں
”آپ اپنا جرم قبول کر رہے ہیں یا ہم آپ کی جان لے لیں؟“ اس نے چلاتے ہوۓ پوچھا
”کیا؟“ شہریار سمیت سب ششدرہ رہ گۓ
”ہم چھ سالوں سے یہ راز اپنے سینے میں چھپاۓ بیٹھے ہیں۔ لیکن اب اور نھیں، ہم اپنے بھاٸ کے قاتل کو اسطرح آذاد نہیں پھرنے نہیں دینگے۔ ہم۔۔۔۔ شہرزاد ارتضٰی۔۔۔۔۔اپنے بھاٸ، اور سوہا کے قتل کے چشم دید گواہ ہیں۔ اور اس بنا پر ہمیں اگر آپ کی جان بھی لینا پڑے تو ہم وہ بھی گے لیں گے“ اس نے انتہاٸ دہشت ناک انداز میں کہا
”تم ایسا نہیں کرسکتی۔۔۔۔“شہریار نے بےیقینی سے کہا
”ہم ایسا کر سکتے ہیں۔۔۔۔“اس نے چبا چبا کر کہا
————*————*————*
سر سید اشرافیہ اور اجلافیہ دو قومی نظریہ
یہ حضرت جنگ آزادی کے دوران ایسٹ انڈیا کمپنی کے وفادار رہے۔ سر سید اور ان جیسے قماش کے لوگوں...