زندگی درجہ بہ درجہ تنظیم ہے۔ جین کروموزوم میں ہیں۔ کروموزوم خلیے میں ہیں۔ خلیے جاندار میں ہیں۔ جاندار خاندان یا معاشرے یا دوسرے گروہوں میں ہے۔ اس تنظیم کے ہر حصے میں مقابلہ ہے۔ اخلاقیات کی سٹڈی ان میں دو سطحیں اہم ہیں۔ فرد اور گروہ۔
جب گروپ مقابلہ کرتے ہیں تو زیادہ منظم اور آپس میں متحد گروپ عام طور پر جیت جاتے ہیں۔ لیکن ایک گروپ کے اندر خودغرض مفت خورے آگے نکل جاتے ہیں۔ یہ گروپ سے فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ اس میں خود حصہ کم ڈالتے ہیں۔ بہادر فوج جیت جاتی ہے لیکن اس بہادر فوج میں پیچھے چھپ جانے والے بزدل زندہ رہتے ہیں، واپس گھر آتے ہیں اور اپنی نسل آگے بڑھاتے ہیں۔
یہاں جینیات میں ملٹی لیول سلیکشن کا بڑا مضبوط پریشر ہر سطح پر ہے۔ اپنی جان پر کھیل کر قربانی دینے والی خاصیت اپنی ٹیم کو جتوا سکتی ہے لیکن فرد کو نہیں۔ اس کا مطلب فرد کی سطح پر سلیکشن پریشر ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ ایسی خاصیت محض چند ہی انواع میں ملتی ہے۔ ایسا صرف اسی وقت ممکن ہے جب ایک گروپ کے اندر اندر مقابلے کا تقریباً خاتمہ ہو گیا ہو اور تمام سلیکشن صرف گروہوں کی آپس میں ہو۔ شہد کی مکھیاں، چیونٹیاں اور دیمک ایسے team player ہیں۔ ایک گروہ میں سب ہمیشہ کے لئے اکٹھے اور متحد۔ خواہ اس کا مطلب اپنی آبادی کے لئے جان دینا ہی کیوں نہ ہو۔ (انسان بھی خود کش حملہ آور بن سکتے ہیں لیکن اس کے لئے بہت سی تربیت، پریشر اور نفسیاتی کھلواڑ درکار ہے۔ یہ ہمارے لئے آسان نہیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بار گروہوں میں آپس میں اکٹھے رہنا آ جائے اور دوسرے گروہوں سے مقابلہ ہونے لگے تو پھر گروپ سلیکشن کام دکھاتی ہے۔ متحد گروہوں کو خودغرض انفرادیت پسندوں کے اکٹھ پر برتری حاصل ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گروہی رویے کا پہلا محرک تو یہ ہے کہ تنہا رہ جانے والے کے زندہ رہنے اور اپنی نسل آگے بڑھانے کے امکان روشن نہیں۔ دوسرا محرک ادلے کا بدلہ ہے۔ جو لوگ دوسروں کی مدد کرتے ہیں، امکان ہے کہ ضرورت کے وقت انہیں مدد ملے گی۔
لیکن ان سب سے زیادہ اہم “سماجی اقدار” اور اخلاقیات کی ڈویلپمنٹ ہے۔ اپنے ساتھیوں سے تعریف اور الزام تراشی کے بارے میں متفکر ہونے کا جنون۔
جن میں شرم نہ ہو، تعریف حاصل کرنے کی لگن نہ ہو، حیا نہ ہو، تضحیک کا خوف نہ ہو ۔۔۔ ایسوں کے لئے سماجی روابط، دوست اور ازدواجی ساتھی ملنے کا امکان مسدود ہو جاتا ہے۔
اور پھر، اگر ہمارے فرائض اور اصول مقدس ہو جائیں تو پھر یہ اخلاقیات کی تکمیل کرنے والا قدم ہے۔ اب موثر گروہ اور معاشرہ بن سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم ان سب کو اکٹھا دیکھیں تو پھر گروہوں میں مفت خوری پرکشش نہیں رہتی۔ ایسی فوج میں جہاں پر غیرت کو تقدیس حاصل ہو۔ وفاداری اور حب الوطنی جیسی اقدار اس میں رچی بسی ہوں۔ ایس فوج میں جنگ کی صورت میں پیچھے رہ جانے والے بزدل واپس جا کر اگلی نسل پیدا نہیں کر سکیں گے۔ یا تو ان کی اپنے ساتھیوں کے ہاتھوں پٹائی ہو گی یا پھر انہیں پیٹھ میں گولی مار دی جائے گی۔ بچ بھی جانے پر غدار کی گروہ میں کوئی وقعت نہیں ہو گی۔ یہ جین آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔
افواج ہوں یا موثر گروہ، ان کے پاس خودغرضی کچلنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں۔ اور جب بھی کوئی گروہ خودغرضی سے نمٹنے کا طریقہ تلاش کر لیتا ہے، طاقتوں کا توازن کئی سطح پر اس کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ فرد کی سطح کی سلیکشن کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، وفاداری اور تقدیس کی اگر جینیاتی بنیاد ہے تو گروہی مقابلہ بازی کے ماحول میں ایسے جین اگلی نسل میں زیادہ نمایاں ہو جائیں گے۔ جن گروہوں میں ایسی خاصیتیں عام ہوں گی، وہ ایسے گروہوں کی جگہ لے لیں گے جہاں پر یہ عام نہیں، خواہ اس خاصیت کے لئے فرد کو کچھ قیمت بھی دینا پڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت عرصے تک سائنس میں جانوروں کے رویے میں اخلاقیات کے بارے میں عجیب خیالات حاوی رہے۔ مثال کے طور، ایک جانور اتنی زیادہ گھاس نہیں چرتا کہ اس کی کمی نہ ہو جائے یا ایک خاص حد سے زیادہ بچے پیدا نہیں کرتا تا کہ خوراک کی کمی نہ ہو۔ اس سے بھی بلند و بانگ دعوے کئے گئے۔ جانور اپنی نوع کا خیال کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جانور ایکوسسٹم کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہ دعوے سادہ لوحی پر مبنی تھے۔
جو ایسی حکمتِ عملی اپنائے گا، اپنے پیچھے کم اولاد چھوڑ سکے گا اور جلد ہی زیادہ خودغرض جانور اس کی جگہ لے لیں گے۔ مفت خوری کے مسئلے کا حل ان خیالات میں نہیں تھا۔
یہ سادہ لوح سوچ عام رہی۔ اس کو چیلنج کرنے والی پہلی کتاب Adaptations and Natural Selection تھی جو 1966 میں شائع ہوئی۔
تنوع کے فقدان کا عذاب
لاہور ایئرپورٹ سے فلائی کرنے والا ہوموپاکیئن دو تین گھنٹے بعد دوبئی یا دوحہ میں اترتا ہے تو ایک مختلف...