ماہین تیار ہوکر کمرے سے باہر آئی تھی اسکا رخ اب کچن کی جانب تھا نوشین کے لنچ کا انتظام کرنے آئی تھی۔
محمد دین!
جی میڈم ۔محمد دین جو کچن میں اپنے کام میں مصرف تھا ماہین کے آواز دینے پر سر اٹھا کے دیکھنے لگا۔
میری دوست آرہی ہے لنچ پہ اسکے لیے اچھا سا کھانا بنا دو۔
جی آپ بتایے کیا بنانا ہے میں بنانا شروع کرتا ہوں۔
ہمم ایک کام کرو بریانی کوفتے پاستہ اور میٹھے میں لب شیریں بنا دو۔
جی میڈم۔
دیڑھ گھنٹے تک بن جائے گا کیا کیوں وہ ایک دیڑھ گھنٹے میں پہنچ جائے گی۔
جی میڈم فکر مت کریں میں سارا کھانا بنا لونگا۔
چلو میں بھی تمہاری مدد کردیتی ہوں۔
نہیں نہیں آپ ارام کریں میں بنا لونگا فکر مت کریں ویسےبھی میری بہن ارہی ہے نہ وہ میری مدد کردے گی۔
بہن کیوں آرہی ہے؟
سر نے لیڈی سروینٹ کا انتظام کرنے کے لیے کہا تھا اسلیے میں نے اسکو بلا لیا۔
اچھا ٹھیک ہے کچھ مدد چاہیے ہو تو بتا دینا ۔
اوکے۔
ماہین واپس کمرے میں آئی اور بیڈ پر بیٹھ چکی تھی۔
ماما میری دوستیں آرہی ہیں انکے لیے کھانا بنادیں پلیز۔
ارے بیٹا پلیز کی ضرورت ہے میں اپنی بیٹی کی دوستوں بہت اچھا سا کھانا بناتی ہوں ۔
تھینک یو ماما۔ماہین انکے گلے لگ کے کہنے لگی تھی۔
ماہین کو اپنا ماضی یاد آیا تو اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے ۔
ماما پاپا آئی مس یو سو مچ۔
وہ روتی ہوئی بولی تھی ۔
اور پھر اٹھ کر اپنا موبائل اٹھایا تھا اور نمبر ملانے لگی تھی۔
بیل کے دو منٹ بعد فون اٹھایا گیا تھا۔
ہیلو۔دوسری طرف سےآ واز آئی تھی۔
ماہین اپنے منہ پہ ہاتھ رکھے رورہی تھی اسنے اتنے دنوں بعد اپنی ماں کی آواز سنی تھی۔
ہیلو کون ہے۔
وہ مسلسل خاموش تھی۔
ہیلو کون۔
ماہین ماہین بولو بیٹا۔
ماما کیسی ہیں آپ پاپا کیسے ہیں اور آپ کیسے پہچانی کہ میں ہوں۔
میری بیٹی کی سانسیں بھی پہچان سکتی ہوں میں ماں ہوں نہ آپکی۔
آئی مس یو ماما پاپا کیسے ہیں آپ مجھ سے ناراض ہیں ؟
بیٹا تمہارے پاپا کو بہت صدمہ لگا تھا تم سے محبت جو اتنی کرتے تھے انھیں یقین نہیں تھا تم ایسا کروں گی انکا بھروسہ ٹوٹا ہے اسلیے ناراض ہیں وہ لیکن ماں باپ بچوں سی زیادہ دن ناراض نہیں رہ سکتے تم فکر مت کروں سب ٹھیک ہوجائے گا۔
اوکے ماما اپنا اور پاپا کا خیال رکھیے گا۔
آپ بھی اپنا خیال رکھنا بیٹا۔
الله حافظ۔
ماہین نے کہنے کے ساتھ فون کاٹا تھا اور وہ مزید رونے لگی تھی
زبیر کمرے میں داخل ہوا تھا واش روم جانے لگا تھا کے اسکی نظر روتی ہوئی ماہین پر گئی تھی اور وہ اسکے پاس آیا تھا۔
کیا ہوا تم رو کیوں رہی ہو۔وہ بے تاب سا پوچھنے لگا لہجے میں فکر تھی
کچھ نہیں ہوا۔اسنے بےزاری سے جواب دیا تھا
پلیز بتاؤ کیا ہوا ہے ماہین ۔
آپکو کیو اتنی فکر ہورہی ہے میری ۔
میری اس حالت کے زمہ دار آپ ہی ہیں مجھے میرے ماں باپ سے دور کرنے والے انکا بھروسہ اور مان ٹوٹا آپکی وجہ سے معاف نہیں کرونگی آپکوں۔وہ روتے ہوئے بولی تھی۔
میں سب ٹھیک کر دونگا وعدہ کرتا ہوں بھروسہ رکھوں مجھ پہ ۔وہ اسکا چہرہ ہاتھ میں لیتے ہوئے بولا تھا۔
بھروسہ اور آپ پر کیا بات ہے نہ۔وہ تنظیہ ہنسی تھی ۔
ماہین آئی پرامس بہت جلد تمہیں تمہارے ماں باپ کے پاس لے کر جاؤ گا بس تم رونا بند کروں۔وہ اسکے آنسو صاف کرتا ہوا بولا تھا۔
ماہین اسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی-
۰۰۰۰۰۰۰۰۰-
نوشین ماہین کے گھر آنے کے لیے تیار ہورہی تھی اسنے سمپل ٹوپ اور جینس پہنا تھا بال شانوں پر بکھرے ہوئے تھے ہلکا سع میک کیا تھا وہ بہت پیاری لگ رہی تھی اسنے اپنا ہینڈ بیگ اور موبائل اٹھایا تھا اور ہاسٹل سے باہر نکلی تھی۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ماہین زبیر کی کہی باتوں کے بارے میں سوچ رہی تھی اسکی آنکھوں میں پتہ نہیں کیوں اسے سچائی نظر آرہی تھی۔
میں کیوں سوچ رہی ہوں اسکے بارے میں اتنا۔۔وہ اپنی سوچ کو جھٹکتی ہوئی بولی تھی اور منہ تکیے میں دیے لیٹ گئی تھی۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
نوشین ماہین کے بتائے ہوئے اڈریس پر پہنچ چکی تھی اور باہر کھڑے ہوکے ماہین کو فون ملارہی تھی۔
ہیلو ماہین میں پہنچ گئی ہوں۔
اندر آگئی ۔دوسری طرف سے ماہین بولی تھی۔
نہیں باہر ہی ہوں ابھی دروازے پر۔
ارے اندر تو آجاؤ نہ۔
اچھا آرہی ہوں۔نوشین فون کان سے لگائے اندرکی طرف بڑھ رہی تھی وہ گھر کے اندر آئی ۔
تمہارا روم اپر ہے؟
ہاں پر تم روکوں میں آتی ہوں نیچے۔
اچھا جلدی آؤ نہ۔
ہاں بس آئی ۔
آؤچ!!!!!!!!!نوشین جو بے دھانی میں اندر آرہی تھی کسے کے لمبے چوڑے وجود سے ٹکرائی تھی اور اسکا موبائل نیچے گرا تھا۔
ذین جو لاؤنچ کی طرف آرہا تھا کسی لڑکی کے بےدھانی میں چلنے کی وجہ سے بری طرح ٹکرایا تھا اور اسے نیچے سے اپر تک دیکھ رہا تھا۔
اندھے ہو نظر نہیں آتا کیا۔نوشین ذین کو گھورتی ہوئی بولی تھی۔
ارے واہ اسے کہتے ہیں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے اندھوں کی طرح خود چل رہی ہوں اور بول مجھے رہی ہوں۔وہ غصے سے اس اجنبی لڑکی کو دیکھتا ہوا بولا تھا جو اپنی غلطی اس پر تھوپ رہی تھی۔
ہیلوں مسٹر زبان سنبھال کے سمجھے۔
تم ہو کون اور میرے گھر میں کر کیا رہی ہوں ۔۔وہ اسے گھورتا ہوا بولا تھا۔
یہ زبیر احمد کا گھر ہے اور آئی ڈونٹ تھینک تم زبیر احمد ہوں۔
او اب سمجھا تم وہ نئی نوکرانی ہوں جو زبیر نے بلوائی تھی پر ایکشن تو مالکنوں والے ہیں۔وہ مسکراتا ہوا بولا تھا۔
نوکرانی!!!وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی۔
ذین بھائی یہ نوکرانی نہیں میری دوست نوشین ہے مجھ سے ملنے آئی ہے۔۔ماہین جو ابھی آئی تھی ان دونوں کی تکرار کو دیکھتے ہوئے بتانے لگی تھی۔
تمہاری دوست۔۔وہ ماہین کو دیکھتے ہوئے نوشین کی طرف دیکھتا ہوا بولا تھا جو اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
جی ذین بھائی ۔
او سوری ماہین مجھے غلط فہمی ہوئی ۔
کوئی بات نہیں ۔
وہ نوشین دیکھ کر مسکراتا ہوا آگے بڑھا تھا۔
چل اندر چلیں۔ماہین نوشین کا ہاتھ پکڑ کر بولی تھی۔
پہلے یہ بتا یہ کون ہے۔وہ منہ بناتی ہوئی بولی تھی۔
ارے یہ ذین بھائی ہیں زبیر کے بھائیوں جیسے ہیں۔
مجھے نوکرانی کہا بدلہ تو میں لے کر رہوں گی۔وہ دانت پیستی ہوئی بولی تھی۔
ارے یار غلطی سے بول دیا انھوں نے چھوڑ نہ۔
نہیں چھوڑ رہی میں بدلہ لے کر رہوں گی۔
اچھا نہ اندر تو چل۔ماہین اسے کمرے میں لے آئی تھی ۔
۰۰۰۰۰۰۰۰
تمہاری بیوی کی کوئی دوست آئی ہوئی ہیں اپر ۔ذین مسکرا کر زبیر کو بتانے لگا جو ابھی گھر آیا تھا۔
ہاں بتایا تھا اسنے نوشین ہے وہ۔
نوشین۔ذین مسکراتے ہوئے اسکا نام لینے لگا۔
کیا بات ہو تم کیوں اتنا مسکرارہی ہوں ۔وہ ذین کا چہرہ دیکھتا ہوا پوچھنے لگا تھا۔
کچھ نہیں بھائی۔
کچھ تو ہے۔
ارے ابھی سے کہاں ابھی تو ملیں ہے۔وہ مسکرا کے کہنے لگا جس پر زبیر نے اسے ایک مکا مارا تھا۔
ہاں تو بتاؤں تمہاری طبیعت کیسی ہیں۔نوشین ماہین سے پوچھنے لگی۔
اب ٹھیک ہے۔
کیسے ہوا یہ سب ایسا کیا ہوا تھا کہ تم ہاسپٹل پہنچ گئی۔نوشین جانچتی نظروں سے پوچھنے لگی۔
بس کیا بتاؤں ۔وہ افسردہ ہوئی تھی ماہین کو بتاتے ہوئے شرم آرہی تھی کہ زبیر نے اسکے ساتھ کیا کرنے کی کوشش کی تھی ۔
تم تو۔مجھ سے ہر بات شیئر کرتی تھی اپنی ہر پربلم مجھے بنا کسی جھجھک کے بتا دیتی تھی یار کیا میں اب تمہاری اچھی دوست نہیں ہوں۔
ایسی۔کوئی بات نہیں بس سمجھ نہیں آرہا کے کس طرح بتاؤں۔
ااچھا بتاؤ کیا ہوا ایسا کیا ہوا جو تمہیں اتنا شوکٹ لگا کے تمہاری یہ حالت ہوئی ۔
ماہین نے۔ساری باتیں نوشین کو بتائ تھی اور اسکی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔
یہ تو بہت غلط کیا وہ اسنے وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے اک تو تم سے زبردستی شادی اور زبردستی کرنے کی کوشش تم اسکے ساتھ رہ کیو رہی ہو۔
تو کیا کروں شادی کوئی مزاق نہیں ہے میرے ماں باپ میری۔شکل۔نہیں دیکھنا چاہتے اور تم جانتے ہو نہ اسے کہ وہ کیسا ہے اگر ماما پاپا کو سچ بھی بتا دوں تو کیا وہ انہیں چین سے۔رہنے۔دے گا وہ کبھی مجھ طلاق نہیں دے گا۔
میں بات کرتی ہوں اس سے کے کم۔سے کم تھوڑی تو شرم کریں ایسی حرکت تو نہ کریں۔
نہیں تم کوئی بات نہیں کروں گی اتنی مشکل سے سب ٹھیک ہوا ہے اسکا بیہویر بھی ٹھیک ہے میں نہیں چاہتی پھر سے سب بگڑ جائے پلیز۔وہ التجا کرتے ہوئے بولی۔
اچھا ٹھیک ہے میں نہیں کر رہی بات یہ بتاؤ یونی کب سے آؤ گی۔
کل سے آؤ گی انشاءاللہ ۔
ہمم او کے۔۔
ماہین میڈم کھانا تیار ہے اجائے آپ لوگ زبیر سر اور ذین سر ڈائنگ ٹیبل پر آپ۔لوگوں کا ویٹ کر رہے ہیں۔محمد دین دروازہ بجا کر بولا تھا۔
آئے محمد دین تم جاؤ۔
اوکے میڈم۔
چل کھانا کھاتے ہیں ماہین نوشین کا ہاتھ پکڑ کے کہنے لگی۔
نہیں مجھے اس انسان کے ساتھ بیٹھ کے نہیں کھانا جس نے مجھے۔نوکرانی کہا تھا۔وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
ماہین نے۔بہت مشکل سے اپنی ہنسی کنٹرول کی تھی۔
یار ان کو غلط فہمی ہوگئی تھی چھوڑ نہ ۔
یہ کوئی غلط فہمی نہیں ان کو میں کس اینگل سے نوکرانی لگتی ہوں۔وہ آنکھیں پھاڑے کہنے لگی۔
اچھا میری ماں چل لے پلیز اللہ کا واسطہ۔ وہ ہاتھ جوڑے ہوئے بولی تھی۔
اچھا تمہاری وجہ سے چل رہی ہوں میں بس۔
ہاں نہ چل۔
وہ لوگ کمرے سے باہر نکل کر نیچے ڈاینگ پر آئی تھی زبیر کی نظریں ماہین پر تھی وہ آج اسکوں بہت حسین لگ رہی تھی۔
زبیر اسکو اشارے سے اپنے برابر والی چیئر پر بیٹھنے کا کہنے لگا جس پر ماہین نے اسے زبان دکھا کر نفی میں سر ہلایا تھا اور زبیر کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔
ذین نے نوشین کی طرف دیکھا تھا تو اسکے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی جس پر نوشین نے اسے گھور کے دیکھا تھا اب وہ لوگ کھانے میں مصروف ہوچکے تھے۔
نوشین کوفتے لوں نہ۔ماہین اسکے آگے کوفتے کرتی ہوئی بولی۔
ہاں ہاں آپ پہلی بار ائی ہو ٹھیک سے کھاؤ۔ذین اسکی دیکھتا ہوا بولا۔
میں ابھی لے لوں گی۔ وہ ماہین کو کہہ کر زبیر کو گھور کے رہ گئی ۔
لگتا ہے آپکی دوست ہم سے ناراض ہے۔زین ماہین سے۔بولا تھا۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں ذین بھائی ۔
ناراض کس بات پر ۔زبیر ذین سے کہنے لگا۔
وہ دراصل ہم نے غلطی سے انہیں نوکرانی سمجھ لیا تھا۔۔ وہ اپنی۔مسکراہٹ دباتا ہوا بولا نوشین کا دل کیا کسی چیز سے اسکا سر پھاڑ دے۔
آپ کی تو آنکھیں خراب ہے تھوڑی سی ۔نوشی غصے سے بولی تھی۔
نہیں میری آنکھیں بلکل ٹھیک ہیں ۔وہ مسکراتا ہوا بولا تھا۔
بس کریں آپ لڑنا مت شروع کریے گا اب پلیز۔ماہین انکو شروع ہوتا دیکھ کر بولی تھی۔
اچھا میں چلتی ہوں ماہین اب کل یونی میں ملیں گے ۔نوشین کھانے سے فارغ ہوکر بولی تھی۔
اوکے ٹیک کیر۔
تم بھی اپنا خیال رکھنا۔
نوشین ماہین سے گلے مل کر جا چکی تھی ذین کی نظریں اس پر تھی۔
میں ایک کام سے جارہا ہوں اوکے ۔۔زبیر ماہین کو بتاتے ہوئے گھر سے باہر نکلا۔
ماہین اپنے روم میں آئی تھی اور کل۔یونی جانے کے لیے اپنا بیگ ریڈی کرنے لگی پھر وہ چینج کرتی بیڈ پر لیٹ گئ تھی تبھی اسکا موبائل بجا تھا اسنے اپنا موبائل اٹھایا تو زبیر کالنگ لکھا آرہا تھا۔
ابھی گئی پندرہ منٹ ہی ہوئے ہیں انہیں ۔وہ بڑبڑاتی ہوئی کال اٹھانے لگی۔
ہیلو اسلام علیکم۔
وعلیکم اسلام۔
جی۔بولیں۔
وہ تمہاری دوائی کا ٹائم ہو گیا ہے اسی لیے فون کیا تھا دوائی کھاؤ جا کے۔
جی کھا رہی ہوں اور کوئی حکم ۔
نہیں باقی سب آکر وہ اسکو تنگ کرتا ہوا بولا تھا۔
ہاں بس چپ رہے آپ تو۔وہ منہ بناتی بولی تھی۔
اچھا اللہ حافظ اکر بات کرتا ہوں۔
اللہ حافظ۔
اسنے فون بند کر کے سائڈ پر رکھا تھا۔
زبیر رات کے آٹھ بجے گھر میں آیا تھا اور کمرے میں آکر اسنے دروازہ لاک کیا تھا سامنے ہی ماہین موبائل پر مصروف تھی اسنےاپنا ہاتھ میں پکڑا ہوا شوپر سائڈ پر رکھا تھا اور ماہین کے پاس پہنچا تھا۔
کھانا کھا لیا ۔
جی کھا لیا ۔وہ زبیر کی طرف دیکھتی کہنے لگی۔
اور دوائی ؟
جی۔کھا لی۔وہ پھر سے موبائل میں مصروف ہوچکی تھی۔
کبھی شوہر سے بھی پوچھ لیا کرو کھانے کا کچھ خدمت کر لیا کروں ۔وہ طنز کرتا ہوا بولا۔
او سوری کھانا لاؤ اپکے لیے۔ وہ اٹھ کر بولی تھی۔
ہاں لاؤ بھوک لگی ہے۔
ماہین کچن سے کھانا لے کر کمرے میں آئی تھی اور زبیر کو کھانا دے کر صوفے پر بیٹھ چکی تھی۔
زبیر کھانا کھانے کے بعد برتن بھجوا کر آیا تھا اور ڈورلوک کر کے شوپر اٹھایا تھا اور ماہین کی طرف بڑھا تھا۔
یہ پہن کر آؤ۔وہ ماہین کے آگے شاپ کرتا ہوا کہنے لگا ۔
یہ کیا ہے۔وہ شاپر کو دیکھ کر کہنے لگی ۔
دیکھ لو خود ہی۔
اسنے شاپر سے ایک پیک نکالا تو اسکی آنکھیں پھٹی رہ گئی ۔
نائٹی۔ماہین کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا۔
ہاں نائٹی پانچ منٹ میں پہن کر آؤ۔
میں نہیں پہن سکتی یہ۔وہ اسے گھورتی ہوئی بولی۔
کیوں نہیں پہن سکتی۔وہ جانچتی نظروں سے اسے دیکھتا ہوا بولا تھا۔
کیوں کے میں اسکرح کے کپڑے نہیں پہنتی۔
اپنے شوہر کے سامنے پہن رہی ہو کسی اور کے نہیں ۔وہ اسے زور دیتا ہوا بولا تھا۔
میں نہیں پہن سکتی زبیر پلیز۔وہ اسکو دیکھتی ہوئی بولی تھی۔
جاؤ یا میں خود پہناؤں تمہیں پھر زیادہ شرم آئے گی۔وہ اسے دھمکی دیتا ہوا بولا تھا۔
زبیر پلیز۔
لگتا ہے ہے مجھے خود ہی پہنانا پڑے گا۔ وہ کہتے ہی آگے بڑھا تھا۔
مںیں جارہی ہوں پہنے ۔وہ کہتے ہوئے اندر بھاگی تھی اور پیچھے سے زبیر کا قہقہہ گونجا تھا۔
ماہین واش روم میں آکر نائٹی کھول کر دیکھنے لگی تھی ریڈ کلر کی نائٹی جس کے کندھوں پر صرف اسٹیپ تھے اور وہ گھٹنوں تک تھی ماہین کو بہت شرم آرہی تھی وہ کافی دیر سے واش روم کھڑی تھی باہر جانے کی اسکے اندر ہمت نہیں ہوری تھی۔
تم خود باہر آنا پسند کرو گی یا میں کی سے لوک کھول کر خود ہی اندر آجاؤ۔
باہر سے زبیر کی آواز آئی تھی جس پر ماہین کانپتے ہاتھوں سے دروزہ کھولتی باہر نکلی تھی۔
زبیر اسکے حسن کے حسار میں کھوتا چلا گیا تھا اسکے نظریں اسکے سراپے پر اٹک چکی تھی اسکا دودھیاں جسم لال کلر لیں دمک رہا تھا اسکے اور نازک سی سراہی دار گردن پر اسکی نظر اٹکی تھی ۔
وہ اپنے سینے کو بازوں سے چھپانے کھڑی تھی جب زبیر اسکے قریب آیا تھا اور اسے کمر سے پکڑتا ہوا بیڈ پر لے گیا تھا تھا اور سے نرمی سے اسےبیڈ پر لٹایا تھا ماہین کا دل باہر نکلے کے لیے مچل رہا تھا جانے کیوں زبیر آج ایسا کرہا تھا ۔
زبیر کی نظریں ماہین کے سراپے پر تھی وہ اپنی انگلی اسکے اسکے ہاتھ پر سے پھیرتا ہوا شولڈر تک لایا تھا اور اسکے نائٹی کے اسٹیپ پر پھیر رہا تھا اب وہ اسکے قریب ہوتا ہوا اسکے کندھوں پر اپنے ہونٹ رکھ چکا تھا۔
زبیر کی گستسخیاں بڑھ رہی تھی ماہین کو اپنی جان نکلتی محسوس ہورہی تھی اسکا دل باہر نکلے کے لیے ڈھڑک رہا تھا۔
زبیر نے اسکے کندھے سے ہونٹ ہٹائے تھے اور اب وہ اسی سراہی دار گردن پر پہنچ چکا تھا وہاں اپنے ہونٹ رکھ چکا تھا ماہین کو سمجھ نہیں آرہا تھا اسے کیسے روکے آج وہ بے قابوں ہورہاں تھا ۔
زبیر اب اسکے ہونٹوں کے قریب آیا تھا اور اسکے ہونٹ کے تل کو انگلی سے چھوا تھا وہ اسکے بے حد قریب تھا وہ دھیرے دھیرے اسکے ہونٹوں پر جھک رہا تھا۔
زبیر!!!!!ماہین اسکے اپنے ہونٹوں پر جھکتا دیکھ کر ہمت کر کے بولی تھی۔
جی زبیر کی جان ۔اس نے اسکے چہرے پر نظر ماری تھی تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ کیا کرہا ہے وہ ماہین کو دیکھ کے بے قابوں ہو چکا تھا۔
وہ میں یہ کہہ رہی تھی کہ مجھے وہ۔
جی بولوں کیا ۔وہ ماہین کی گھبراہٹ سمجھ چکا تھا اور وہ ماہین سے شرارت کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
مجھے وہ بھوک لگی ہے۔ماہین کو کچھ سمجھ نہیں آیا تو اس نے جو منہ میں آیا بول دیا۔
او بھوک لگی اب کیا کریں۔وہ شرارت سے بولا اور پھر سے ماہین کے ہونٹوں پر جھکا تھا ماہین نے اسکے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھا تھا جو زبیر نے چوم لیا تھا۔
بھوک لگی ہے نہ کھانا چاہیے۔وہ پھر سے بولی تھی۔
آپ نے تو کھانا کھایا تھا نہ پھر کیوں بھوک لگرہی ہے۔
اب لگ رہی ہے تو کیا بھوکی مر جاؤ بولا نہ کھانا چاہیے ۔ماہین غصہ دے بولی تھی۔
اچھا منگواتا ہوں۔وہ مسکراتا ہوا اٹھا تھا اور موبائل اٹھا کر محمد دین کو فون ملایا تھا۔
ہیلوں جی سر بولیں۔
محمد دین کچھ کھانے کے لیے لے کر آؤ میرے روم میں۔
اچھا سر لاتا ہوں ۔
زبیر نے فون سائڈ پر رکھا تھا اور ماہین پر نظر ماری تھی جو اپنی بگڑی سانسیں درست کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
تمہیں بھوک لگی ہے اور مجھے پیاس۔وہ اسکے قریب ہوتا ہوا شرارت سے بولا۔
تت تو پپ پانی پی لیں نہ۔۔وہ گھبراتے ہوئے بولی تھی۔
مجھے تمہاری پیاس لگی ہے۔وہ ااسکی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا تھا۔
ٹک ٹک ٹک۔سر کھانا۔محمد دین دروازہ بجاتے ہوئے بولا ۔
زبیر نے تھوڑا سا دروازہ کھول کر کھانا لیا تھا اور پھر سے بند کر دیا اب ماہین کے قریب پہنچ کر اسنے کھانا ماہین کو دیا تھا۔
یہ لو کھانا کھا لو۔
ماہین کھانے کو دیکھنے لگی کیونکہ اسکو تو بلکل بھوک نہیں تھی ۔
کیا ہوا دیکھتی ہی رہو گی یا کھاؤ گی بھی۔
جی کھارہی ہوں۔ماہین کھانا کے چھوٹے چھوٹے نوالے کھارہی تھی اور زبیر اسے دیکھ کر اپنی ہنسی دبائے بیٹھا تھا کیوں کے ماہین کی شکل دیکھ کر صاف لگ رہا تھا کہ اسے بلکل بھوک نہیں ہے۔
بس پیٹ بھر گیا ۔اہین تھوڑا سا کھا کر بولی۔
ارے تمہیں تو بہت بھوک لگی تھی نہ پورا کھاؤ شاباش رات کو بھوکا نہیں سوتے۔وہ اسے تنگ کر رہا تھا۔
ماہین منہ بنائے پھر سے کھانا شروع ہو چکی تھی مسکل سے آدھے گھنٹے میں اس نے کھانا ختم کیا تو زبیر نے برتن بھجوائے تھے۔
اور کچھ چاہیے۔وہ اسکے قریب ہوتا ہوا بولا۔
جج وہ پپ پانی۔وہ گھبراتی ہوئی بولی ۔
زبیر نے شائڈ ٹیبل سے اسے پانی دیا تھا ۔
اور کوئی بہانہ مجھے دور کرنے کا ۔وہ اسکے کان۔کے پاس سرگوسی کرتا ہوا بولا۔
وہ وہ میں بہانہ نہیں بنارہی تھی۔وہ جیسے چوری پکڑی جانے پر گھبراتے ہوئے بولی تھی۔
اچھا تو پھر لیٹ جاؤ۔وہ اسے بہت تنگ کررہا تھا آج ماہین کی برداشت سے باہر ہوا تو اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔
رونا مت رونا مت پلیز۔ وہ اسکی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آتے دیکھ کر جلدی سے بولا اور اسکے آنسو صاف کرنے لگا۔
اس سے پہلے ماہین ہچکیوں پر آتی زبیر اسے چپ کرا چکا تھا۔
آگر تم نہیں چاہتی تو میں تمہیں نہیں چھوؤں گا جتنا تنگ کرنا ہے کرلو اپنے شوہر کو جس دن تم میری پناہوں میں آؤ گی اس دن میری شدتیں کیسے برداشت کرو گی جب تک تمہارا دل راضی نہیں تب تک کے لیے چھوڑرہا ہوں اسکے بعد میں نہیں چھوڑوں گا۔وہ اسکے کان میں سرگوشی کرتا ہوا بولا۔
زبیر ماہین کو چھوڑ کے کر بیڈ کی دوسری سائڈ پر لیٹ گیا تھا ماہین ابھی بھی ویسے ہی ساکت بیٹھی تھی اسکے کانوں میں زبیر کےالفاظ گونج رہے تھے۔
سو جاؤ ۔وہ ماہین کو ساکت بیٹھا دیکھ کر بولا تھا اسکی آواز سے ماہین ہوش میں آئی تھی۔
عالمی دنوں پر اردو کی پہلی منفرد کتاب صحت اور آگہی
صحت عربی زبان کے لفظ ’’صَحَّ‘‘سے مشتق ہے۔جو درست اور صحیح کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔جسم کی وہ کیفیت...