"سوچنا بھی مت کہ میں ویٹ کروں گی "
"لگی شرط ؟" احسن دھیرے سے مسکرایا
" آپ کچھ کر ہی نہیں سکتے " اس نے بڑھ چڑھ کر کہا تھا احسن نے دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ لیا تھا اور بڑی آہستگی سے اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیے وہ محسوس کر سکتا تھا کہ فاطمہ کانپ رہی ہے
اپنے ہاتھ اس نے ہٹائے نہیں تھے اور مسلسل اسے ہی دیکھ رہا تھا جس کی نظریں زمین پر جمی ہوئی تھیں
" اب بھی آرام سے نہیں بیٹھو گی کیا؟ " احسن کی بات پر وہ بپھری تھی اس نے سختی سے احسن کے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ آزاد کروایا
" آپ ہی ایسی چیپ حرکت کر سکتے ہیں اور کیا توقع کی جا سکتی ہے ؟"
" میں اس سے بھی زیادہ چیپ حرکت کر سکتا ہوں ؟" احسن نے زو معنی لہجے میں کہا تو اس نے احسن کو گھورا
اور آرام سے جا کر صوفحے پر بیٹھ گئی ، احسن نے بھی ہنستے ہنستے ہوئے جلدی جلدی کام نبٹانا چاہا کیونکہ دیرتو کافی ہو گئی تھی
فاطمہ بار بار احسن کی طرف دیکھ رہی تھی کہ کب کام ختم ہوں وہ کاغذات اٹھائے اور اس سے صبر نہیں ہو رہا تھا کچھ۔لمحات بعد احسن کا کام ختم ہو گیا تو اس نے سارا کچھ سمیٹا
" آ جاؤ فاطی لیٹ جاؤ آ کے " احسن نے اس کی طرف دیکھا تو بے یقینی نے بھنویں اچکائے یعنی وہ کب کی سو چکی ہے فاطمہ کا ایک بازو نیچے لٹک رہا تھا ،آدھی لڑھک رہی تھی احسن نے آہستگی سے اسے بازوؤں میں اٹھایا اور بیڈ پر لٹا دیا اس کے چہرے سے لٹیں پیچھے کرتے وہ تھوڑا سا اس پر جھکا تھا اور اپنے حق میں سے کچھ حصہ جتا گیا تھا اسے وہ اس وقت بلکل ایک معصوم سی پڑی لگ رہی تھی اس کے اوپر چادر دیتا وہ ساتھ ہی لیٹ گیا تھا اور اسے دیکھتے ہوئے سوچنے لگا تھا کہ پتہ نہیں کب وہ اس کے دل کی دھڑکن بن چکی تھی اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ فاطمہ سے اس قدر محبت کرنے لگے گا ، لائٹ آف کرتے اس نے بھی یہ سوچ کر آنکھیں موند لی تھیں کہ وہ اس رشتے کو ضرور اور بہت جلد مضبوط کرے گا
_________
احسن آفس سے تھکا ہارا واپس آیا تھا ، فاطمہ ٹی وی لاؤنج میں صوفحے پر پڑی سو رہی تھی ۔۔۔احسن بھی پاس پڑے صوفحے پر بیٹھ گیا تھا ، احسن نے ایک دو دفعہ اسے آواز بھی دی تھی لیکن شاید وہ گہری نیند میں تھی اس لیے نہیں اٹھی تھی احسن کے سر میں شدید درد تھا اس نے فاطمہ کو اٹھانے کے لیے ٹی وی آن کر۔کے اس کا والیوم تھوڑا تیز کر دیا تھا ۔۔اور وہ اسے جگانے میں کامیاب ہو گیا تھا ، وہ زرا سا کسمسائی تھی
آ۔۔آپ کب آئے ؟ " بالوں کو جوڑے کی شکل میں باندھتی وہ اٹھ گئی تھی جبکہ نیند سے آنکھیں بند ہو رہی تھیں
" میں ابھی آیا ہوں ایک کپ چائے پلا دو پلیز " احسن نے ماتھے کو انگلیوں سے دبایا
"اگر سر میں درد ہو رہا ہے تو کم از کم ٹی وی کا والیوم تو کم کر دیں ،میرے سر میں درد کروانے کا ارادہ ہے کیا " فاطمہ کو غصہ تھا کہ اس نے مجھے کیوں اٹھا دیا لیکن احسن خاموش رہا تھا جس سے فاطمہ مزید تپ گئی اور ریمورٹ پکڑ کر خود ہی ٹی وی بند کر دیا
" چائے بنا دو پلیز " احسن نے ایک دفعہ پھر کہا تو فاطمہ کو کچن میں جانا پڑا تھا
ساس پین چولہے پر چڑھا کر وہ فریج میں سے دودھ نکالنے لگی ۔۔۔نیند اس قدر ٹوٹ کر رہی تھی کہ آنکھیں بار بار بند ہوتیں
۔۔۔چائے تیار ہونے پر وہ مگ میں ڈال رہی تھی جب ہاتھ کا توازن نہ رہا اور چائے ہاتھ پر گر گئی ۔۔۔ابلتی گرم چائے اس کے حواس کھونے میں کافی تھی فاطمہ نے زور سے چیخ ماری تھی مگ میں چائے تو ڈال لی تھی لیکن ہاتھ جل چکا تھا احسن جو ابھی ابھی لیٹا تھا فاطمہ کی آواز سن کر وہ بھاگتا ہوا کچن میں آیا تھا ، فاطمہ نے اپنے ہاتھ پر دوپٹہ رکھا ہوا تھا اور پھونکیں مار رہی تھی جبکہ آنکھوں سے آنسو مسلسل گر رہے تھے
" فاطی کیا ہوا ہے ؟تم ٹھیک تو ہو ۔۔۔کیا کرتی ہو یار ہاتھ دکھاؤ مجھے اپنا " اس نے دوپٹہ پیچھے کیا تھا اور اس کا ہاتھ دیکھنے لگا سفید کلر کے ہاتھ پر ریڈ کلر صاف واضح ہو رہا تھا جلن شدید تھی احسن نے فاطمہ کو پاس پڑی چئیر پر بٹھایا اور ٹیوب ڈھونڈنے لگا تھا لیکن جب کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے تب وہ ملتی بھی تو نہیں ۔۔۔احسن نے ایک باؤل لیا اس میں تھوڑا پانی ڈالا اور فاطمہ کا ہاتھ اس میں ڈبو دیا
" ایک سوری یار ۔۔میرے سر میں درد ہو رہا تھا اس لیے تمہیں چائے بنانے کا کہا مجھے پتہ ہوتا تو میں کبھی بھی نہ کہتا " احسن نے شرمندگی سے کہتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے اس کے آنسو صاف کیے تھے
" درد ہو رہا ہے کیا ؟ " وہ اسے پوچھ رہا تھا جو اس کی اس قدر کئیر کرنے پر حیران تھی اور حیرانگی سے زیادہ وہ شاکڈ تھی کہ احسن اس کے لیے پریشان ہے آج سے پہلے تو وہ یہ سب ڈرامہ سمجھتی رہی تھی
" ہاں درد تو ہو رہا ہے ۔۔" اس نے احسن کی طرف خالی نظروں سے دیکھا تھا
" آؤ میں تمہیں جیل لگا دیتا ہوں کمرے میں پڑی ہوئی ہے " اس نے فاطمہ کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا تھا
" آپ کی چائے " فاطمہ نے پاس پڑے چائے کے مگ کی طرف اشارہ کیا
" فکر نہ کرو چائے تو میں ضرور پیوں گا اور دل و جان سے پیوں گا اس کی خاطر ہی میری بیگم نے ہاتھ جلایا ہے تو کیا میں اسے ضائع کر دوں ؟ " اس نے کہتے ہوئے پاس پڑے مگ کو بھی پکڑ لیا تھا اور فاطمہ کو کمرے میں لے آیا تھا اسے بیڈ پر بٹھا کر سب سے پہلے اس نے جیل ڈھونڈی تھی اور اس کے ہاتھ پر لگائی
" لیٹ جاؤ فاطی ۔۔آرام کر لو آئی نو تمہیں بہت نیند آئی ہے " اس نے فاطمہ کو لیٹنے کا کہا تھا تو وہ بھی چپ چاپ لیٹ گئی جبکہ احسن جو کہ سر درد کا شکوہ کر رہا تھا چائے پی کر وہیں بیٹھا بیٹھا ٹیک لگا کر سو گیا ۔۔۔اور سوئے سوئے نہ جانے کب وہ فاطمہ کے کندھے پر سر رکھ کر لیٹ گیا تھا ۔۔۔فاطمہ سے بھلا یہ وزن برداشت ہونا تھا ؟ کبھی بھی ایسا ممکن نہیں تھا اس کی نیند ایک بار پھر ٹوٹی تھی اس نے آہستگی سے اس کا سر اپنے کندھے سے اٹھایا اور تکیے پر رکھ دیا ابھی وہ اٹھنے ہی لگی تھی جب احسن نے اسے بازو کے گھیرے میں لیا تھا اور ایسا صرف نیند میں ہی ہوا تھا فاطمہ کے گرد احسن کا بازو تھا لیکن نہ وہ اب اس کا بازو پیچھے ہٹا سکتی تھی اور نہ ہی وہ اٹھ سکتی تھی کیونکہ ایسا کرنے سے وہ اٹھ سکتا تھا اور وہ نہیں چاہتی تھی ایسی حالت میں احسن اٹھے ۔۔
اس لیے وہ بھی وہیں لیٹی رہی اور بار بار اس کا بازو ہٹانے کی کوشش کرتی لیکن ہر بار کوشش ناکام ہو جاتی
احسن کے موبائل پر مسلسل میسجز آ رہے تھے جو خاموشی میں سکون توڑنے کے لیے کافی تھے کیونکہ آواز لاؤڈ تھی اس لیے فاطمہ نے احسن کے موبائل کو سائلنٹ کرنا چاہا تھا لیکن نہ جانے کیوں وہ اس کے میسجز چیک کرنے لگی حالانکہ ایسا کرنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا میسجز ثانیہ کے نام کے تھے فاطمہ کی نظریں اور تیزی سے میسج چیک کرنے لگی تھیں
احسن کہا ہو ؟ واہ بھئی کام نکلوا کر تم تو بھول ہی گئے " اس طرح کے اور بھی تین چار میسج تھے فاطمہ شادی سے پہلے بھی ایک دفعہ ثانیہ کو احسن کے ساتھ لنچ کرتا دیکھ چکی تھی اس کے دل کو کچھ ہوا تھا شاید یہ جیلسی تھی ،
اس نے احسن کو اس طرح کے میسج کیوں کیے ؟کیا احسن کا کوئی تعلق ہے ثانیہ سے ؟ ایسے کئی سوال فاطمہ کے زہن میں آ رہے تھے سیل فون بند کر کے وہ اب مسلسل یہی سوچ رہی تھی ایک دم سے وہ احسن کا بازو ہٹا کر اٹھی تھی اور جا کر نیچے کارپٹ پر بیٹھ گئی اسے بہت عجیب لگ رہا تھا بے بسی سی تھی کہ وہ اب کیا کرے ؟احسن نے اس سے شادی کیوں کی ۔۔۔ سوچ سوچ کر اس کا دماغ تھک چکا تھا اور کچھ نہ بن سکا تو رونے لگ گئی ۔۔جلدی میں اس کا بازو جھٹک کر اٹھنے سے احسن کی نیند ڈسٹرب ہو چکی تھی وہ اٹھ گیا تھا اسے اندازہ تھا کہ شاید نیند میں ایسا کرنے کی وجہ سے فاطمہ یوں غصے میں اٹھی ہے ۔۔۔احسن نے ادھر ادھر نظریں گھمائی تو وہ اسے کارپٹ پر بیٹھی نظر آئی
" فاطی ایسے کیوں بیٹھی ہو ؟ اور تم رو کیوں رہی ہو ؟ "
"کچھ نہیں ہوا مجھے ہاتھ مت لگائیں آپ " فاطمہ نے احسن کے ہاتھ جھٹک دیے تھے احسن نے نا سمجھی سے اس کی طرف دیکھا
" میں سمجھا تھا یہ ہچکچاہٹ صرف وقتی ہے میں اسے تمہاری شرم سمجھتا رہا اور تم اس حد تک مجھ سے نفرت کرنے لگو گی میں نہیں جانتا تھا " احسن نے تاسف سے سر ہلاتے ہوئے کہا
" بس کریں آپ ۔۔ہر وقت مجھے ہی الزام ۔۔کبھی آپ نے اپنی طرف بھی دیکھا ہے ؟ آپ نے مجھ سے شادی کیوں کی ہے ؟ بتائیں کس چیز کا بدلہ لیا ہے مجھ سے ؟" وہ ہزیانی انداز میں چیختی اس کا کارلر مٹھیوں میں جھکڑے پوچھ رہی تھی
" کیا مطلب کیوں کی ھے شادی ؟اور کونسا بدلہ ؟پاگل ہو گئی ہو کیا " احسن کو اس کی کم عقلی پر غصہ آرہا تھا یعنی حد ہو گئی بے وقوفی کی ۔۔
ہاں میں پاگل ہو گئی ہوں اور جو آپ کر رہے ہیں میرے ساتھ وہ کیا ہے ؟" وہ چیخی تھی
" کیا کیا ہے میں نے تمہارے ساتھ ؟ بتاؤ مجھے کونسا دھوکہ دے دیا تمہیں؟" احسن نے اسے دونوں کندھوں سے پکڑ کر جھنجوڑا تھا
" ثانیہ کون ہے ؟ اس کا آپ کے ساتھ کیا رشتہ ہے " فاطمہ کے زہن میں جو تھا بلآخر وہ بول گئی تھی
" ثانیہ میری دوست ہے اس کے علاوہ ہمارا کوئی رشتہ نہیں " احسن نے صفائی دی تھی لیکن وہ مانتی تو تب نا
" جھوٹ مت بولیں میں سب جانتی ہوں " کہہ کر وہ جانے لگی تھی جب وہ اس کو کلائی سے پکڑ کر روک چکا تھا
" کیا جانتی ہو تم ؟مجھے بھی تو پتہ چلے آخر کہ میری بیوی ایسی کیا بات جانتی ہے جو اسے میرے پاس آنے سے روکتی ہے " احسن نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے طنز کیا
" کیا اتنا کافی نہیں نہیں کہ میں جانتی ہوں؟اور کیا یہ بھی کافی نہیں کہ مجھے پتہ ہے کہ آپ نے صرف ماموں کہ کہنے پر مجھ سے شادی کی ہے " فاطمہ نے الٹا اسی سی سوال کیا تھا جو اس کی باتیں سن سن کر پاگل ہو رہا تھا
" تم پاگل ہو گئی ہو اور کچھ نہیں " احسن نے بے بسی سے ماتھے کو مسلا
" بہت شکریہ بتا نے کے لیے کہ میں پاگل ہوں ۔۔۔اگر آپ سچے ہی ہیں تو میں ماموں مامی سے پوچھ لیتی ہوں وہ تو ثانیہ کو جانتے ہی ہوں گے " وہ جتاتے ہوئے آگے بڑھی تھی جب احسن نے ایک دفعہ پھر اس کو بازو سے پکڑ کر روک دیا
" تم امی ابو سے کوئی بات نہیں کرو گی ۔۔یہ ہمارا آپس کا مسئلہ ہے " احسن نے ہاتھ اٹھا کر وارن کیا تھا لیکن فاطمہ کہاں چپ رہنے والی تھی
" اس کا مطلب آپ کو ڈر ہے کہ آپ کے راز نہ کھلیں "
" مجھے کوئی ڑر نہیں ہے ۔۔۔تم اپنے مفروضے اپنے پاس رکھو "
" تو اگر ڈر نہیں ہے تو بتانے کیوں نہیں دیتے " فاطمہ نے تو آج عہد کر لیا تھا کہ وہ کچھ نہ کچھ کر کے چھوڑے گی
احسن نے اس کو سختی سے کندھوں سے پکڑا اور اپنے نزدیک کیا
" تمہارا کیا خیال ہے میں تم پر اپنا حق کیوں نہیں جتاتا ؟ ہاں بتاو مجھے ؟" احسن نے غصے سے اس کو اپنے قریب کیا
" کیوں کہ میں ہی ایسا نہیں چاہتی ۔۔میں جانتی ہوں کہ آپ کی اور میری شادی مجبوری کی ہے اگر آپ کو ثانیہ پسند تھی تو آپ اس سے ہی شادی کرتے نا " "واہ تم نے تو صحیح لاجک نکالا ہے ۔۔۔۔ داد دینا پڑے گی تمہیں تو ۔۔۔میں اگر چاہوں تو ابھی اسی وقت اپنا حق استعمال کر سکتا ہوں کیوں کہ مجھے اختیار ہے لیکن پتہ ہے کیا جب یہ تمہارا دماغ درست ہو گا نا پھر کچھ سوچوں گا " احسن نے اس کو جھٹکتے ہوئے کہا اور اسے وہاں ہی چھوڑ کر کمرے سے نکل گیا جبکہ وہ وہی کھڑی تپتی رہی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" فاطمہ بیٹا احسن ابھی تک نہیں آیا کال کرو اسے زرا ۔۔پہلے تو کبھی بھی ایسا نہیں ہوا مجھے تو اتنی پریشانی ہو رہی ہے " آنسہ بیگم نے تفکر سے فاطمہ کو کہا تھا جو بظاہر بہت مصروف دکھائی دے رہی تھی
اب وہ کیا بتاتی کہ ان دونوں کی لڑائی ہوئی تھی صبح
" ممانی میں کرتی ہوں کال پھر بتاتی ہوں " اس نے کوئی بیس دفعہ کال کی تھی لیکن وہ بار بار کاٹ دیتا تھا پھر اس نے میسج سینڈ کیا تھا
" ممانی پریشان ہو رہی ہیں آپ کب آئیں گے ؟ میں ان کے کہنے پر ہی میسج کر رہی ہوں " لیکن اس نے رپلائے بھی نہیں کیا تھا
" کیا کہا احسن نے ؟ کب آئے گا وہ " رقیہ بیگم نے دوبارہ پوچھا تھا تو اسے جھوٹ بولنا پڑا
" ان کی میٹنگ ہے آج کہہ رہے ہیں تھوڑا لیٹ آؤں گا "
" شکر ہے میری تو جان نکلی جا رہی تھی ۔۔ آؤ اب تم بھی کھانا کھا لو وہ تو کھا کر ہی آئے گا
" جی ممانی مجھے بھوک نہیں ہے آپ کھا لیں میں تھوڑی دیر تک کھا لوں گی "
" چلو ٹھیک ہے لیکن یاد سے کھانا بیٹا" رقیہ بیگم کو لگا تھا شاید احسن گھر جلدی نہیں آیا اسی لیے فاطمہ پریشان ہے لیکن فاطمہ کو تو اسی بات کا غصہ تھا کہ وہ کال کیوں نہیں اٹینڈ کر رہا اور دل کے کہیں ایک کونے میں پریشانی بھی تھی اور پھر خیال بار بار ثانیہ کی طرف چلا جاتا کہ شاید احسن اس کے ساتھ ہو ۔؟اس شاید کے بعد ایک لمبا سوالیہ نشان تھا جس سے آگے اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آگے کیا کرنا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کا نہ جانے کونسا پہر تھا جب احسن گھر آیا تھا نہ کوئی کھانا نہ پانی صرف اس وقت وہ سونا چاہتا تھا کمرے میں داخل ہوا تو وہ پہلے سے ہی براجمان تھی احسن نے اپنے آنے کا ظاہر نہیں کروایا تھا تکیہ سیدھا کر کے اس نے بڑے سکون سے سر رکھا تھا لیکن تکیہ اتنا سخت تھا کہ وہ دوبارہ بے چینی سے اٹھا دوسری جانب نظر دوڑائی تو خیر سے نرم والا احسن کا تکیہ فاطمہ کے سر کے نیچے تھا احسن نے اس سے پوچھنے کا تکلف کیے بنا اس کے سر کے نیچے سے تکیہ اٹھا لیا تھا کیونکہ اسے اپنے تکیے کے علاوہ نیند نہیں آتی تھی ۔۔۔احسن کے کھینچنے سے فاطمہ کی نیند ٹوٹ گئی تھی اس نے خونی آنکھوں سے احسن کو گھورا اور پھر اس کی طرف جھپٹی تھی
" تکیہ واپس کریں ۔۔۔آپ نے نیند خراب کر دی ہے " بولنے کے ساتھ ساتھ وہ کھینچ بھی رہی تھی لیکن احسن خاموش تھا بنا کچھ بولے وہ سر کے نیچے تکیہ رکھ کر لیٹ چکا تھا
" یہ آپ اچھا نہیں کر رہے " فاطمہ کو اپنی بے عزتی محسوس ہوئی تھی وہ بولی جا رہی تھی لیکن احسن خاموش تھا اس نے فاطمہ کی طرف دوسرا تکیہ دھکیلا تھا لیکن اس نے غصے سے آگ بگولا ہوتے ہوئے دوبارہ اس کی طرف پھینک دیا اور جلتی بھنتی اپنے دوپٹے کو گول شکل میں دے کر سر کے نیچے رکھا اور لیٹ گئی تھی لیکن ظاہر ہے ایک دفعہ نیند ٹوٹ چکی تھی اس لیے دوبارہ مشکل سے ہی آنی تھی اس نے پیچھے مڑ کر احسن کی طرف دیکھا جو فل نیند کے مزے لے رہا تھا فاطمہ نے آہستگی سے تکیہ کھنچنے کی کوشش کی لیکن سر ہونے کے ساتھ ساتھ احسن نے اپنا بازو اس طرح اوپر رکھا تھا جیسے وہ تکیہ پکڑ کر سو رہا ہو ۔۔۔فاطمہ کو کوئی صورت نظر نہ آئی تو آہستگی سے اس نے اپنا سر بھی تکیے پر رکھ لیا مگر کچھ ٹیڑھا کرکے ،تا کہ احسن کو پتہ نہ چلے۔۔۔۔
___________
صبح جب فاطمہ کی آنکھ کھلی تو فورا سے پہلے وہ وہاں سے اٹھی تھی اگر احسن کو پتہ چل جاتا تو نہ جانے کتنے طنز اسے سننا پڑتے ۔۔۔
فاطمہ اب بنا کہے ہی احسن کی ہر چیز تیار کر دیتی ہوتی تھی ۔۔۔اسے کسی بھی چیز کے لیے فاطمہ کو ایک سے زیادہ بارنہ کہنا پڑتا ۔۔فاطمہ کو بھی عادت پڑتی جا رہی تھی اس نے سمجھ لیا تھا کہ یہ سب اب اس کی زمہ داری میں شامل ہے ۔۔۔احسن اٹھ کر فریش ہونے گیا تھا جب فاطمہ اس کے کپڑے نکال رہی تھی ۔۔۔اسی دوران احسن کا فون بجا تھا فاطمہ نے پہلے سوچا تھا کہ وہ کال اٹینڈ کر لے کیونکہ کال ثانیہ کی تھی اور اسے تو پہلے ہی اس پر کافی غصہ تھا کچھ سوچ کر اس نے موبائل اٹھایا ہی تھا۔لیکن کال بند ہو چکی تھی ۔۔۔۔احسن کو آواز تو آ رہی تھی لیکن ظاہری بات تھی وہ ریسیو نہیں کر سکتا تھا ہاں البتہ باہر آتے ہوئے اس نے دیکھ لیا تھا کہ فاطمہ اس کا۔موبائل دیکھ رہی ہے ۔۔۔۔اور احسن کو اسی بات پر غصہ آیا تھا اس دن ۔۔کہ وہ میسجز پڑھ کر غلط ججمنٹ کر لیتی ہے احسن کے آنے پر فاطمہ نے جلدی جلدی سیل اس کے تکیے کے پاس رکھ دیا اور خود کمرے کی چیزیں ترتیب دینے لگی ۔۔۔
احسن نے سیل پکڑ کر سب سے پہلے پاسورڑ لگایا تھا اور پھر بڑے ریلیکس طریقے سے وہاں سیل چھوڑ کر خود آئنینے کے سامنے کھڑا ہو کر بال بنانے لگا ساتھ ہی ساتھ وہ گنگنا بھی رہا تھا شاید اسی بات کی خوشی تھی کہ اس نے پاسورڈ لگا کر بڑا تیر مار لیا ہے ۔۔احسن جاتے ہوئے کھل کر مسکرایا تھا فاطمہ نے حیرانگی سے اسے دیکھا کہ آخر وہ اتنا خوش کیوں ہے ۔۔۔اس کی نظر بیڈ پر پڑے موبائل پر گئی تو فورا موبائل اٹھایا لیکن پاسورڈ کا آپشن دیکھ کر اس کاسارا موڈ خراب ہو گیا ۔۔۔۔تو یہ بات تھی جس کی وجہ سے وہ مسکرا رہا تھا ۔۔۔موبائل کث وہی پھینک کر وہ نیچے ناشتہ کرنے گئی تھی ۔۔۔احسن نے ایک دو دفع اس کی طرف دیکھا تھا لیکن اس نے ایسے کوئی تاثرات نہیں دیے ۔۔۔ناشتہ کر کے وہ چپ چاپ کمرے میں گئی تھی اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ ثہ اس بارے میں احسن سے کوئی بات نہیں کرے گی ۔۔۔احسن بھی اس کے پیچھے ہی کمرے میں گیا تھا
" فاطی ادھر آؤ بات سنو " اس نے فاطمہ کو کوموں میں مصروف دیکھا تو بلایا لیکن وہ خاموش رہی تھی کوئی جواب نہ ملا تو وہ خود ہی اس کے پاس گیا
" فاطی بات سنو نا پلیز " اس نے فاطمہ کا ہاتھ پکڑا تو فاطمہ نے چھڑوا لیا
" کہیے سن رہی ہوں " فاطمہ کی کمر احسن کی جانب تھی اس نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی جاجب کیا اور اس کے تاثرات کا جائزہ لیتے ہوئے بولا
" میں جانتا ہوں تم مجھ سے کیون ناراض ہو لیکن تم میری بات بھی تو نہیں سمجھتی نا "
"مجھے کوئی حق نہیں آپ سے کچھ پوچھنے کا " اس نے خفگی سے کہا تھا لیکن احسن کے دل کو شدت سے کچھ ہوا اس نے فاطمہ کو اپنے اور قریب کیا تھا اور اس کے باپوں کو سہلاتے ہوئے اس کو اپنے ساتھ لگا لیا
" میری زندگی ہو تم ۔۔۔میں تمہارے بغیر کچھ بھی نہیں ہوں۔۔۔سارے حق تمہارے ہی تو ہیں" اس نے فاطمہ کو سامنے کیا اور اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیے
فاطمہ کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئی تھیں اس نے اس سے الگ ہونے کی کوشش کی تھی لیکن احسن نے اسے الگ نہیں ہونے دیا تھا
" کیوں کرتی ہو ایسے میرے ساتھ " احسن نے روہانسے لہجے میں اس کے کانوں میں سرگوشی کی تھی۔