ڈاکٹر رضوان اسد خان ایک چائلڈ سپیشلسٹ ہیں، اس وقت سعودی عرب میں بطور کنسلٹنٹ کام کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دینی امور، حالات حاضرہ، سیاست اور ادب میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ دور حاضر کے باطل افکار، مثلاً سیکولر ازم، لبرل ازم، فیمن ازم اور الحاد کس طرح مسلم نوجوانوں کو متاثر کر رہے ہیں اور ان کے حملوں سے بچاؤ کی کیا تدابیر ہیں، یہ ان کا خاص موضوع ہے جس پر وہ وقتاً فوقتاً لکھتے رہتے ہیں۔
فلسطین کے موضوع پر تحریر کردہ ڈاکٹر رضوان اسد خان کا افسانہ “الوداع” حقائق اور سچے واقعات پر مبنی ایک بہترین افسانہ ہے۔ اس افسانے میں رضوان اسد خان نے ایک ایسی داستان تیار کی ہے جو تنازعات سے متاثرہ علاقوں، خاص طور پر فلسطین میں لوگوں کو درپیش تلخ حقائق کو بیان کرتی ہے۔ ایک ماں اور اس کے بیٹے کی باہمی گفتگو کے ذریعے رضوان اسد خان جنگ کے افراتفری کے درمیان معصوم شہریوں کی طرف سے برداشت کی گئی جدوجہد کی ایک واضح تصویر پیش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ رضوان اسد خان اپنی کہانی کا آغاز یوں کرتے ہیں ” پہلا دن: “ماما، میں نے کل سے کچھ نہیں کھایا۔ مجھے شدید بھوک لگ رہی ہے۔” “اچھا میری جان، میں کچھ کرتی ہوں۔” دو دن بعد: “ماما، مجھے ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہا۔ مجھ سے چلا بھی نہیں جا رہا۔ کیا کہیں سے بھی کھانے کو کچھ نہیں آیا؟ کیا ساری دنیا نے ہمیں بھلا دیا ہے؟” “نہیں بیٹا۔ دنیا والے تو بہت زیادہ امداد بھیج رہے ہیں۔ لیکن یہ ظالم فوجی اسے ہم تک پہنچنے نہیں دے رہے۔ یہ ہمیں بھوکا رکھنا چاہتے ہیں۔” “لیکن کیوں، ماما؟ ہم بچوں نے انکا کیا بگاڑا ہے؟” “بیٹا، وہ ہم سے ڈرتے ہیں۔” (حیرت سے): “وہ کیسے ماما۔ سارے ہتھیار اور طاقت تو انکے پاس ہے۔” “وہ جانتے ہیں کہ اگر یہ بچے بڑے ہو گئے تو یہ اس شدید ترین ظلم کو کبھی نہیں بھولیں گے جو یہ ہم پر کر رہے ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ شدت سے بدلہ لیں گے جس شدت سے ہمارے کچھ بھائیوں نے نہایت کمزوری کے باوجود انہیں ناکوں چنے چبوا دئیے ہیں۔ تو پریشان نہ ہو، میں پھر سے کچھ تلاش کرنے جاتی ہوں۔”
کہانی دل دہلا دینے والے جنگوں کے ایک سلسلے کے ذریعے سامنے آتی ہے، جس میں بھوک، مایوسی اور بالآخر قربانی کے وسیع موضوعات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار احمد مصیبت کے وقت لچک کی علامت بن جاتا ہے، بھوک کے خلاف اس کی جدوجہد سیاسی بحران کی لپیٹ میں آنے والے لاتعداد لوگوں کی حالت زار کی عکاسی کرتی ہے۔ رضوان اسد خان لکھتے ہیں ” پانچویں دن: اب 4 سالہ احمد خوراک کی مسلسل عدم دستیابی کی وجہ سے نہایت کمزور ہو گیا تھا۔ اب تو اس سے نہ بولا جاتا، نہ ہلا جاتا۔ اکثر آنکھیں موندے لیٹا رہتا یا درد سے کراہتا رہتا۔ آنکھیں اندر کو دھنس چکی تھیں اور جسم کی ساری ہڈیاں باقاعدہ گنی جا سکتی تھیں۔ اس کی ماں ایک ماہر نرس تھی اور جانتی تھی کہ اس کے بچے کے جسم نے اسکے دل اور دماغ کو زندہ رکھنے کیلئے، خوراک کی عدم دستیابی کے چند گھنٹوں بعد ہی جگر میں ذخیرہ شدہ نشاستہ کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ اور اگلے 24 گھنٹوں سے پہلے ہی یہ ذخیرہ ختم ہو چکا تھا۔ پھر چربی کی باری تھی۔ لیکن چربی اس میں تھی ہی کتنی !! بس اس نے تین دن بھی نہ نکالے۔ حالانکہ بڑوں میں تو کئی کئی دن نکل جاتے ہیں۔ وہ خود بھی تو بغیر کھائے زندہ تھی اب تک۔۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ اگلے چند دنوں میں احمد کا جسم اسکے پٹھے اور ہڈیوں کو گھلانا شروع کر دے گا۔ اور قحط میں مبتلا شخص کیلئے یہ مرحلہ سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ایک سست لیکن نہایت اذیت ناک موت۔..!!! احمد بھی ان 23 بچوں کی طرح بھوک کے ہاتھوں ایک الم ناک موت کا شکار ہو جائے گا، جو اب تک اس مہلک ہتھیار کا نوالہ بن چکے تھے۔ اور وہ جانتی تھی کہ اگر وہ بچ بھی گیا تو اس صورت حال کے اثرات اس کی باقی ماندہ زندگی کو بھی متاثر کریں گے۔ وہ کبھی بھی اپنی ذہنی اور جسمانی نشوونما کی تکمیل تک نہیں پہنچ پائے گا۔ اس کا قد چھوٹا رہ جائے گا، دماغ کمزور اور جسم قوت سے عاری رہے گا۔۔۔”
احمد کی جسمانی اور جذباتی تندرستی کے بتدریج بگاڑ کو واضح تفصیل کے ساتھ پیش کرتے ہوئے رضوان اسد خان نے طویل تنازعات کے نفسیاتی نقصان کو مہارت سے بیان کیا ہے۔ اپنے بچے کی حفاظت کے لیے ماں کا غیر متزلزل عزم مایوسی کے درمیان امید کی کرن کا کام کرتا ہے، جو کہ تاریک ترین وقت اور جنگ کے دنوں میں بھی انسانی روح کی لچک کو ظاہر کرتا ہے۔ رضوان اسد خان لکھتے ہیں ” نہیں، نہیں۔۔۔۔ وہ اسکا تصور بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اگر اسکا لخت جگر اگلے مرحلے تک پہنچ گیا تو پھر اسے خوراک مل بھی گئی تو کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اسکا جسم اتنا کمزور ہو چکا ہو گا کہ خوراک کو قبول کرنے اور ہضم کرنے سے انکار کر دے گا۔ یہ خوراک اس کیلئے زہر بن جائے گی۔ اسے کسی ہسپتال کے آئی سی یو میں، ماہر ڈاکٹروں کی زیر نگرانی ہی کچھ دیا جا سکے گا۔ لیکن کون سا ہسپتال؟ کون سا آئی سی یو اور کون سے ماہرین؟ سب کچھ تو ملبے کے ڈھیر تلے دب چکا تھا۔۔۔!!! اب تو اسکے آنسو بھی سوکھ چکے تھے۔۔۔ بھوک اور پیاس کے ساتھ، کھانے کی تلاش میں چکر لگا لگا کر، اور ہر بار مایوس لوٹ کر وہ تھک چکی تھی۔۔۔ گر چکی تھی ایسے میں اور تو اسے کچھ سجھائی نہ دیا۔ بے اختیار اس نے موبائل پکڑا، ڈھانچہ بنے احمد کی تصویر لی اور ایک عالمانہ ویبسائٹ کو ارسال کر کے مفتی صاحب سے پوچھا: “کیا اس حالت میں مَیں اپنے جسم کا ایک حصہ کاٹ کر اپنے بچے کو کھلا سکتی ہوں؟!!!!”
سخت ترین حالات کی منظر کشی اور جذباتی نثر کے ذریعے رضوان اسد خان قارئین کو جنگ اور نقل مکانی کی تلخ حقیقتوں کے بارے میں غیر آرام دہ سچائیوں کے ساتھ سامنا کرتے ہیں۔ بیانیہ محض کہانی یا افسانہ سنانے سے بالاتر ہے، دنیا بھر میں تنازعات کے علاقوں میں پیدا ہونے والے انسانی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ہمدردی، خلوص، اور ٹھوس اقدام کی فوری ضرورت پر ایک طاقتور تبصرہ کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ رضوان اسد خان رقمطراز ہیں ” مزید 3 دن گزر گئے۔ ایک امدادی ٹیم کسی نہ کسی طرح وہاں پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ لیکن سامنے کا دل خراش منظر بھی انہیں دہلا نہ سکا۔۔۔ کیوں کہ وہ اب اس قسم کے مناظر کے عادی ہو چکے تھے۔۔!!!
ماں، اپنے ڈھانچہ بنے احمد کی لاش سے لپٹی بے ہوش پڑی تھی اور عجیب بات یہ تھی کہ اسکے چہرے پر ایک حسین مسکراہٹ تھی۔۔۔امدادی ٹیم نے فوراً انکی تصویر لی اور امدادی کارروائی شروع کر دی۔ ایک اور تصویر سوشل میڈیا کے ذخیرے میں شامل ہو گئی۔ لیکن وہ بھی جانتے تھے کہ یہ بھی محض ایک کارروائی ہے اور بس۔۔۔!!! بعد میں خدیجہ، احمد کی ماں، نے امدادی نرس کو اپنی مسکراہٹ کی وجہ سے آگاہ کیا: “وہ خواب میں انتہائی خوبصورت فرشتوں کو، انتہائی خوبصورت اور خوشبو دار لباس میں، احمد کی روح کو اپنے ساتھ لے جاتے دیکھ رہی تھی۔ احمد بہت خوش تھا۔ شاید وہ اپنا سارا درد بھول چکا تھا۔ وہ مجھے الوداعی انداز میں ہاتھ ہلاتے کہہ رہا تھا کہ ماما، آپ فکر نہ کریں، میں بہت جلد جنت الفردوس کے دروازے پر آپ کا استقبال کروں گا۔ اور میں اللہ جی کو شکایت لگاؤں گا کہ ہم کس حال میں تھے اور یہ کہ ساری دنیا اپنی مستیوں میں مست رہی اور ہمارے لیے کچھ بھی نہ کیا۔۔۔!!!”
افسانہ “الوداع” ناقابل بیان مصیبت کے عالم میں انسانی روح کی لچک کو ایک خوبصورت خراج تحسین ہے۔ رضوان اسد خان کا شاہکار افسانہ اپنی کہانی سنانے اور گہری بصیرت کے ذریعے قارئین کو چیلنج کرتا ہے کہ وہ جنگ کے دوران انسانی جان کی قیمت اندازہ لگائیں اور ہماری بڑھتی ہوئی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی اس بے بس اور مطلبی دنیا میں زیادہ سے زیادہ افہام و تفہیم اور یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے ناگزیر سچائیوں کا سامنا کریں اور اپنے مسلمان اور مظلوم فلسطینی بہنوں کے لیے آواز بنیں۔
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...