جوہرِ جہانِ غالب
(ایوان برائے تفہیماتِ غالب)
غزل نمر 01
از دیوانِ غالب برائے شرح و نقد
غالب کی پہلی غزل کے دو اشعار پر سائنس کے نکتہء نظر سے گفتگو:
گفتگو: افتخار راغب، دوحہ، قطر
حالاں کہ یہ بات بعض ادبیبوں اور شاعروں کو آسانی سے ہضم نہیں ہوتی لیکن اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ غالب کے اشعار میں سائنس کی باتیں بھی ہیں اور اس نظر سے غالب کا مطالعہ کرنے والوں کو بہت ساری صداقتوں کا علم بھی ہوتا رہتا ہے اور اس زاویے سے غور کرنے پر بہت سارے مشکل فہم اشعار آسانی سے دامِ ادراک میں بھی آتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں. اس سلسلے میں بعض کتابیں بھی لکھی جا چکی ہیں جن میں دو اہم کتابیں محمد مستقیم صاحب کی ہیں جن کا نام "غالب ایک سائنس دان" اور "غالب کی نئی دنیا" اور حیدرآباد دکن کے محترم وہاب قیصر کی کتاب "غالب اور سائنس" شامل ہیں. محمد مستقیم صاحب جن کا تعلق سیوان، بہار سے میری مرحومہ دادی اور نانی کے پھوپھی زاد ہیں جو اللہ کے فضل سے با حیات ہیں. اللہ انھیں صحت و تندرستی کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے. (آمین). آپ نے اپنی کتابیوں میں غالب کے اردو اور فارسی کے متعدد اشعار پر گفتگو کی ہے جن میں بعض غزلوں کے کئی اشعار بلکہ پوری پوری غزلیں بھی ہیں. آپ نے سائنس دان کا مختصر تعارف اس کی تھیوری اور پھر غالب کے اشعار کی تشریح کی ہے. کہیں کہیں اشعار کا منظوم انگریزی ترجمہ بھی کیا ہے. اپنی دوسری کتاب میں آپ نے ماسثر رام چندر کا ذکر کیا ہے جو غالب کے بہت اچھے دوست تھے اور دہلی کالج میں اردو زبان میں سائنس پڑھاتے تھے. رام چندر نے بعد میں عیسائی مذہب قبول کر لیا تھا جس کی وجہ سے ان کو دہلی سے کان پور سکونت اختیار کرنی پڑی تھی. ان کے علاوہ کئی دیگر انگریزوں سے غالب کی دوستی کا ذکر ملتا ہے. اس وقت انگلیڈ سائنس میں بہت آگے تھا. یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ غالب نے ان سب سے سائنس کے متعلق معلومات حاصل کی ہو. آخر غالب نے انگریزوں کی سائنسی علوم سے مرعوب ہوکر ہی تو کہا تھا کہ
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
وہاب قیصر نے بھی اپنی کتاب میں دہلی کالج کا قیام اور اس کے اثرات کا ذکر کیا ہے۔ متعدد شارحین و ناقدینِ غالب نے بھی جگہ جگہ کہیں واضح تو کہیں اشارے میں غالب کے بعض اشعار میں سائنسی مضامین کا ذکر کیا ہے۔
آئیے اب غالب کی پہلی غزل کے دو اشعار کو سائنسی نکتہء نظر سے دیکھتے ہیں:
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
بس کہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیرِ پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
اس غزل میں اسد تخلص کے ساتھ ایک اور مقطع تھا جس کو غالب نے دیگر تین اور اشعار کے ساتھ حذف کر دیا تھا: مقطع تھا:
وحشتِ خوابِ عدم شورِ تماشا ہے اسد
جو مزہ جوہر نہیں آئینہء تعبیر کا
ممکن ہے زیرِ بحث مقطع اور شعر غالب نے بعد میں کہے ہوں اور پرانا مقطع نکال دیا ہو.
اب آئیے دونوں اشعار پر غور کرتے ہیں. پہلے شعر میں غالب کہہ رہا ہے کہ آگہی جس قدر بھی کوشش کر لے میں جس دنیا کی بات کر رہا ہوں اس کے مدعا کو پانا عنقا ہے یعنی نایاب و کمیاب ہے.
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غالب ذرہ یعنی ایٹم (Atom) کے اندر کی دنیا کی بات کر رہا ہے اور اشارہ الیکٹران کی طرف ہے جس کی تلاش کی کوشش غالب کے زمانے میں عروج پر تھی. مقطع میں اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے غالب الیکٹران کی کیفیت کو بیان کر رہا ہے جو ایٹم کے اندر ہوتا ہے. ایٹم کے مرکز پر نیوٹران اور پروٹان ہوتے ہیں اور الیکٹرانس مختلف مداروں میں مرکز کا طواف کرتے رہتے ہیں. الکیٹران پر منفی برق ہوتی ہے اور پروٹون پر مثت، اسی وجہ سے وہ بے تاب ہوکر مرکز کا طواف کرتا رہتا ہے اور اس کے گھومنے کی کیفیت آتش زیرِ پا کی سی ہوتی ہے. وہ جس آربٹ یا مدار میں گھومتا ہے وہ حلقہ ہے جو موئے آتش دیدہ یعنی آگ دیکھا ہوا بال کی طرح ہوتا ہے جو حلقہ کی شکل اختیار کیا ہوتا ہے. الیکٹران اس حلقے کے اندر اسیر ہوتا ہے ایک مدار سے دوسرے میں لڑھکتا رہتا ہے۔
اس ضمن میں چند باتیں اور ذہن میں رکھنے کی ہیں. غالب کی پیدائش کے سات آٹھ سال بعد 1805 میں ایٹم انگلیڈ میں دریافت ہوا. تقریباً 1835 کے بعد سے الیکٹران کی تلاش شروع ہو گئی تھی جس کی دریافت یا تصدیق غالب کے انتقال کے بعد 1897 میں ہوئی. تقریباً پچاس سال کا عرصہ الیکٹران کی تلاش میں گزرا۔ کیا اس عرصہ میں دہلی میں مقیم اہلِ علم و دانش اس موضوع پر گفتگو نہیں کرتے ہوں گے؟ ممکن ہے کہ غالب انگریزوں اور دیگر سائنس کے جاننے والوں سے اس کے متعلق معلومات حاصل کرتے رہے ہوں. جن اہلِ ادب کے ہونٹوں پر یہ باتیں پڑھ کر تبسم کی لکیریں ابھر رہی ہوں ان کی خدمت میں غالب کا ایک شعر پیش کرتا ہوں جو غالب نے ٹیلیویژن اور ریموٹ کنٹرول کے ایجاد سے تقریباً ڈیڑھ صدی قبل کہا تھا اور اس میں بھی الیکٹران کے فسوں گرانہ کمال کا ذکر ہے:
اس چشمِ فسوں گر کا اگر پاوے اشارہ
طوطی کی طرح آئنہ گفتار میں آوے
مزید تفصیل کے لیے میرا مقالہ "اشعارِ غالب میں سائنس کے تابندہ ذرات" ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ جو انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے۔