سبطین اور مہر کی شادی کو ابھی کچھ دن ہی ہوئے تھے،وہ دونوں شادی کے بعد بہت خوش تھے،مہر ساس اور سسر کے ساتھ وقت گزارتی اور ان کی خدمت کرتی وہ گھر کے ماحول میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ مہر کی ساس بہت ہی باپردہ اور خوش اخلاق تھی اور سسر پانچ وقت کے نمازی اور پرہیزگار انکا صرف ایک ہی بیٹا تھا سبطین جو بہت ہی سلجھا ہوا اور فرمانبردار بیٹا تھا۔۔ یہ لوگ زیادہ امیر نہیں تھے بس صبر اور شکر کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے۔۔۔ مہر اک غریب گھرانے کی لڑکی تھی اور اسکی خواہشات اوقات سے بڑھ کر تھی۔۔ مہر سوچتی تھی سب اسکی ساری خواہش پوری ہوگی لیکن سبطین کی اتنی آمدنی نہیں تھی کہ وہ فضول کے خرچے برداشت کرتا۔۔ شادی کے کچھ مہینوں بعد دونوں کے بیچ چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہونے لگی جسکی وجہ سے مہر کی ساس تھوڑی پریشان سی رہتی تھی۔۔۔۔
مہر کے پڑوس میں اک عورت رہتی تھی جسکی صرف ایک ہی بیٹی تھی وہ عورت محلے میں جادوگرنی کے نام سے مشہور تھی۔۔ روزانہ رات کو مہر اور سبطین کی لڑنے کی آوازیں اس تک پہنچتی رہتی تھی کیوں کے رات اسکا چلہ کرنے کو وقت ہوتا تھا۔۔ اسے اپنے خطرناک چلہ کے لئیے اک عورت کی ضرورت تھی جو شادی شدہ ہو اور اپنی اور اپنے بچے کی روح اپنی مرضی سے شیطان کو دے دیں۔۔۔ جسکے بدلے وہ دنیا کی ہر چیز حاصل کر سکتی تھی۔۔۔۔۔
اب اسے اپنے چلے کو مکمل کرنے کے لئیے مہر کی ضرورت تھی۔۔ لیکن اسے پتہ تھا کے وہ اتنی آسانی سے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ مہر کی ساس اک دیندار عورت تھی اور روزانہ صبح فجر کے بعد گھر کا حصار کرتی تھی۔۔
مہر کو قابو کرنے کے لئیے کئی بار اسنے اپنے موکل بھیجے لیکن کوئی بھی حصار کے پار نہیں جا سکا اس وجہ سے وہ بہت غصہ تھی۔۔وہ گھر کے اندر مہر کو قابو نہیں کر سکتی تھیں اس لئیے اس نے مہر پہ نظر رکھنا شروع کردی کہ کب وہ باہر جاتی ہے۔۔
مہر کی شادی کو کچھ مہینے ہی ہوئے تھے اس لئیے اسکی ساس اسے اکیلے نہیں جانے دیتی تھی۔۔
اک دن مہر کو گھر کا سامان لینے اکیلے بازار جانا پڑا۔۔
اس عورت کے موکل نے اسے فوراً آ کر بتایا کے مہر ابھی باہر اکیلی نکلی ہے۔۔۔ اس عورت کے چہرے پہ اک شیطانی مسکراہٹ آ گئی۔۔۔ اور آنکھوں کی پتلیاں گھما کے کچھ پڑھنے لگی۔۔۔۔۔
کچھ ہی دیر بعد کمرے میں دھواں سا بھر گیا اور اک انتہائی خوفناک سا کالا وجود اسکے سامنے آ گیا!!!
اس عورت نے گرج دار آواز میں کہا جا کہ مہر کو قابو کرو اور اس سے گھر کا حصار ختم کرواؤ!!!!!
یہ کہتے ہی وہ غائب ہو گیا ۔۔۔۔
مہر بازار سے جلدی جلدی سامان خرید کر گھر کی طرف نمجا رہی تھی۔۔ راستے میں اچانک ہی مہر کے سامنے اک فقیر آ گیا اور کچھ کھانے کے لئیے مانگنے لگا۔۔۔ مہر اسے اچانک سے اپنے سامنے دیکھ کر گھبرا گئی اور دوسری طرف ہو کر آ گے بڑھ گئی۔۔۔
پیچھے سے اس فقیر نے آواز دی!!” تیری ساری خواہشات پوری ہو سکتی ہے جو چاہے گی وہ ملے گا”
مہر مڑ کر فقیر کو دیکھتی ہے اور بولتی ہے تم تو خود فقیر ہو مجھے کیا دوگے؟؟؟؟ اس پر وہ فقیر قہقہ لگا کر ہنستا ہے ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔
تو چاہے تو تجھے سب مل سکتا ہے یہ کہ کر فقیر کچھ پڑھتا ہے اور اسکے ہاتھ میں اک سونے کی انگوٹھی آجاتی ہے۔۔۔
یہ سب دیکھ کے مہر دنگ رہ جاتی ہے اور جلدی سے انگھوٹی فقیر کے ہاتھ سے لے کر پہن لیتی ہے۔۔ کہتی ہے اور کیا دے سکتے ہو؟؟؟!
فقیر اسے اک پانی کی بوتل دیتا ہے اور کہتا ہے رات میں پورے گھر کی دیواروں پہ چھڑک دینا یاد سے۔۔ میں کل آؤ گا تیرے گھر اور ہاں خبردار!!! جو تو نے کسی کو بتایا اس بارے میں۔۔ یہ کہ کر فقیر غائب ہو جاتا ہے۔۔۔
مہر گھر پہنچتی ہے اور رات کو سب کے سونے کے بعد پورے گھر کی دیواروں پہ وہ پانی چھڑک دیتی ہے۔۔
اصل میں وہ فقیر اس جادوگرنی عورت کا بھیجا ہوا شیطانی جن تھا جس نے مہر کو اپنی باتوں میں پھنسایا تھا۔۔۔وہ جانتا تھا کہ مہر لالچی عورت ہے وہ جلدی مان جائے گی۔۔اور وہ پانی جو اس نے گھر کی دیواروں پہ چھڑکنے کے لئیے دیا تھا وہ نجس پانی تھا اسے چھڑکنے سے گھر ناپاک ہو گیا اور اس کا گھر میں گھسنے کا راستہ کھل گیا ۔ اب جب تک گھر کی دیواریں پاک نہیں ہو جاتی حصار کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔۔ مہر نے اپنی لالچ کے چکر میں اپنے ساتھ پورے گھر والوں کی جان کا سودا کردیا۔۔۔۔
ادھر وہ جن خوش ہوکے اس عورت کے پاس جاتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ کام ہو گیا۔۔۔۔ بدلے میں وہ عورت جن کو کالے کتے کا سر دیتی ہے۔۔۔” جا آج تیری دعوت ہے تو نے مجھے خوش کر دیا” ہاہاہاہاہاہا۔۔
اب میں "آزور” کو قابو کرلوں گی اور زیادہ طاقتور بن جاؤ گی کوئی میرا مقابلہ نہیں کر سکتا۔۔
آزور اک شیطان جن ہوتا ہے جو "گد” کی صورت میں ہوتا ہے یہ عورت اس جن کو قابو کر کے اپنی کالا علم بڑھانا چاہتی تھی۔۔
اسے قابو کرنے کے دوران اسے شیطان کو اک عورت اور شیرخوار بچے کی روح بھینٹ کرنی پڑے گی اسی صورت میں شیطان آزور کو قابو کرنے میں اسکی مدد کرے گا۔۔۔
آج رات میں اپنے چلے کا پہلا عمل شروع کرونگی۔۔ لیکن سب سے پہلے مجھے مہر کو قابو کرنا پڑے گا اور اسے اک بجے کو جنم دینا پڑے گا جو شیطان کا ہوگا۔۔
رات کو جب مہر سوئی تو اسے اس فقیر کا انتظار تھا جس نے کہا تھا!!! میں آؤنگا۔۔ انتظار کرتے کرتے مہر کی آنکھ لگ گئی۔۔۔
رات کے 2 بج رہے تھے وہ جادوگرنی آنکھوں کی پتلیاں گھما کے کچھ پڑھتی ہے۔۔۔ کمرا پھر دھوے سے بھر جاتا ہے اور اک کالا سا ہیولہ سامنے آتا ہے ۔۔۔۔
تو جا آج مہر کے گھر اور اسے ڈرا اور اسکے گھر والوں کو تکلیف دے۔۔۔
ہیولہ مہر کے گھر پہنچتا ہے۔۔ وہ سو رہی ہوتی ہے آہستہ سے وہ اسکے بیڈ کے اک طرف کھڑا ہو جاتا ہے۔۔۔
مہر، مہر، مہر۔۔۔۔ آواز سے مہر کی آنکھ کھل جاتی ہے اور اسے سامنے اک انتہائی کالی سی کوئی مخلوق نظر آتی ہے جسکے دانت نوکیلے اور بڑے ہوتے ہیں جو منہ سے باہر آ رہے ہوتے ہیں اور ان سے خون ٹپک رہا ہوتا ہے اسکی آنکھیں الو کی آنکھوں کی طرح گول اور سرخ ہوتی ہیں۔۔ خوف سے مہر کی آواز اسکے گلے میں ہی گھٹ جاتی ہے اور وہ اسی وقت گر کر بیہوش ہو جاتی ہے۔۔۔
گرنے کی آواز سے سبطین کی آنکھ کھل جاتی ہے جب وہ مہر کو بیہوش دیکھتا ہے تو جلدی سے اسے اٹھا کے بیڈ پہ لٹاتا ہے اور منہ پر پانی کے چھینٹیں مارتا ہے مہر ہلکی سی آنکھ کھولتی ہے اور جیسے ہی اسے وہ خوفناک کالی مخلوق یاد آتی ہے خوف سے پسینہ پسینہ ہو جاتی ہے مہر کی ایسی حالت دیکھ کر سبطین تھوڑا گھبرا جاتا ہے اور پوچھتا ہے مہر کیا ہوا ہے تمھیں؟؟؟؟ کیوں ڈر رہی ہو؟؟؟؟ مہر روتے ہوئے سبطین کے گلے لگ جاتی ہے۔۔۔۔ سبطین دوبارہ پوچھتا ہے بتاؤ تو کیا ہوا ہے؟؟؟؟ مہر روتے ہوئے وہ وہ وہ وہاں بیڈ ک ک کے پااااس وہ وہ ڈراؤنا سا کالا خوفناک چہرے والی کوئی مخلوق کھڑی تھی۔۔۔۔۔
سبطین کو یقین نہیں آتا لیکن مہر کی حالت دیکھ کر وہ سمجھتا ہے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ لیا ہوگا۔۔وہ مہر کو دم کرتا ہے اور کہتا ہے کچھ نہیں ہوگا تم سو جاؤ میں جاگ رہا ہوں کوئی نہیں آئے گا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد مہر سو جاتی ہے۔۔۔
وہاں سبطین کے ماں، باپ کمرے میں سو رہے ہوتے ہیں ا چانک سبطین کے باپ کو ایسا لگتا ہے کوئی بھاری سی چیز ان کے سینے پہ بیٹھ گئی ہے اور انہیں سانس لینے میں تکلیف ہو رہی ہوتی ہے۔۔۔۔ درد کی شدت کی وجہ سے ان کی آواز نہیں نکلتی اور زور سے بیڈ پہ ہاتھ مارنا شروع کر دیتے ہیں اور دل میں سورہ الناس کی تلاوت شروع کرتے ہیں آہستہ آہستہ انھیں لگتا ہے بوجھ کچھ کم ہو رہا ہے وہ تھوڑی تیز آواز میں پڑھنے لگتے ہیں انکی آواز سے بیوی کی آنکھ کھل جاتی ہے جب وہ انھیں اس حال میں دیکھتی ہیں تو سبطین جو آواز دیتی ہے۔۔۔ سبطین، سبطین جلدی آو!!!!! ماں کی آواز سن کر سبطین بھاگتا ہوا آتا ہے اور جلدی سے باپ کو اٹھا کر بٹھاتا ہے اور پانی پلاتا ہے ۔۔۔
طبیعت تھوڑی بحال ہونے کے بعد وہ سمجھ جاتے ہیں یہ کوئی ہوائی مخلوق تھی جس نے ان پر حملہ کیا لیکن کوئی ڈر نہ جائے اس لئیے کسی کو کچھ نہیں بتاتے۔۔۔
وہ جادوگرنی پوری رات اپنے چلے میں مصروف رہتی ہے صبح اسے مہر کے گھر جو کچھ ہوا سبکی خبر اسکے موکل اسے دیتے ہیں ۔۔ اک زوردار قہقہہ لگا کر ہنستے ہوئے کہتی ہیں” شاباش میرے چیلوں تم لوگوں نے دل خوش کر دیا آج رات تم لوگوں کو کالا بکرا ملے گا کھانے میں ہاہاہاہاہاہاہا!!!!!!
ادھر رات جو کچھ بھی ہوا مہر اسے نظر انداز کرتے ہوئے فقیر کی بارے میں سوچنے لگتی ہے کہ وہ کیوں نہیں آیا؟؟؟؟
ابھی مہر اس فقیر کے بارے میں سوچ رہی ہوتی ہے کہ باہر سے کسی کے دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آتی ہے ۔۔ اتنی صبح کون آ گیا؟؟؟؟؟ مہر پوچھتی ہے کون ہے؟؟ کسی کا کوئی جواب نہیں آتا!!! غصے سے دروازے کو کھول کر کہتی ہے کیا منہ میں زبان نہیں ہے جو بول نہیں رہے۔۔۔۔ اچانک بولتے ہوئے سکتے کے عالم میں دیکھتی ہے سامنے فقیر کھڑا ہوتا ہے۔۔۔
فقیر طنزیہ مسکراہٹ لئیے کہتا ہے کیا ہوا؟؟؟ کل سے میرا انتظار کر رہی ہے۔۔۔ مہر بولتی ہے تم کیوں نہیں آئے ۔۔ فقیر کہتا ہے زیادہ سوال مت کر!!!! اور اپنی پھٹی ہوئی جیب سے اک کاغذ نکال کر مہر کو دیتا ہے اور کہتا ہے اس میں اک عمل ہے جو تجھے چالیس دن تک ٹھیک 12 بجے اپنے گھر کی چھت پہ کرنا ہے اور ہاں اک بات کان کھول کر سن لے اس بات کا زکر کسی سے نہیں کرنا ورنہ تیرے ساتھ جو ہوگا اسکی زمہ دار تو خود ہوگی سمجھی!!!! اور کچھ سامان ہے اس عمل کے لئیے یہ لے اور ڈرنا مت جو کچھ اس تھیلی میں ہے وہ عمل کے لئیے ضروری ہے اس عمل کے بعد تو حاملہ ہو جائے گی اور تیرا بچہ ہی اس دنیا میں آکے تیری قسمت بدلے گا۔۔۔ اب جا اور یاد رکھ جو میں نے بتایا ہے رات ٹھیک 12 بجے۔۔۔۔ یہ کہ کر فقیر پلٹتا ہے اور آنکھوں کے سامنے غائب ہوجاتا ہے ۔۔
مہر کو یہ سب کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا ہوتا لیکن پیسے کی لالچ میں وہ سب کرنے کے لئیے تیار ہوتی ہے۔۔۔ اندر آکے جلدی سے وہ تھیلی بیڈ کے نیچے چھپا دیتی ہے اور ناشتہ کرنے چلی جاتی ہے۔۔۔
تھوڑی دیر بعد مہر کے سسر کمرے سے نکل کہ اس رات والے واقعے کے بارے میں اپنے استاد سے بات کرنے کے لئیے باہر جا رہے ہوتے ہیں کہ جیسے ہی مہر کے کمرے کے سامنے سے گزرتے ہیں انھیں غلاضت کے ہونے کا احساس ہوتا ہے اور منفی دباؤ سا محسوس ہونے لگتا ہے لیکن وہ اپنا وہم سمجھ کر اپنے استاد سے ملنے نکل جاتے ہیں۔۔۔
اس جادوگرنی کی بیٹی اپنی ماں کے پاس بیٹھ کر کالا عمل سیکھ رہی ہوتی ہے اور اسے اپنی ماں کی طرح ہی طاقت کا نشہ ہوتا ہے اور اک شیطان کو پہلے ہی قابو کر چکی ہوتی ہے اب وہ اک دیوی کو قابو کرنے کے لئیے عمل شروع کر چکی ہوتی ہے۔۔۔۔
مہر کی ساس کو کچھ دنوں سے مہر کی حرکتوں پر شک ہوتا ہے کہ یہ کچھ برا کر رہی ہے اور گھر میں عجیب سی منہوسیت پھیلی ہوئی ہے دیواروں سے بھی اک گند کی بدبو آتی ہے وہ اس بارے میں مہر سے دو ٹوک بات کرنے کا ارادہ کر کے مہر کے کمرے کی طرف جاتی ہے کہ اچانک ہی انھیں مہر کے کمرے سے اک ہیولہ تیزی سے نکل کر چھت کی طرف جاتا ہوا نظر آتا ہے۔۔
مہر کی ساس اک دم گھبرا کر پیچھے ہٹتی ہیں اور پھر کچھ سوچ کر اپنا حصار کر کے چھت کی طرف آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے چلنے لگتی ہیں دل میں انجانہ سا خوف ہوتا ہے کہ اسوقت کون ہے جو اس قدر تیزی سے چھت کی طرف بھاگا ہے جب کہ اک انسان اتنی پھرتی سے نہیں بھاگ سکتا یہ سوچتے ہوئے پہلی سیڑھی پر جیسے ہی قدم رکھتی ہیں گرل کا دروازہ انتہائی زور سے اک دم دھماکے کے ساتھ بند ہوتا ہے جیسے کسی نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ دروازے کو دھکا دیا ہو۔۔ مہر کی ساس ڈر کر فوراً اپنے کمرے کی طرف جاتی ہے اور دروازہ بند کر کے بیڈ کے اک طرف بیٹھ کر تسبیح پڑھنا شروع کر دیتی ہیں۔۔۔
تھوڑی دیر کے بعد دروازے کے نیچے سے انھیں اک پرچھائی نظر آتی ہے وہ ڈر کے خود میں سمٹ جاتی ہے ایسا لگتا ہے جیسے باہر کوئی جنگلی جانور غرا رہا ہو۔۔۔ خوف سے ان کا دل بیٹھ رہا ہوتا ہے اور اللہ سے دعائیں مانگتی ہیں ۔۔۔ یا اللہ!!!!!! کسی کو میری مدد کے لئیے بھیج۔۔۔
کچھ منٹ کے بعد ہر طرف خاموشی ہو جاتی ہے جیسے اس گھر میں کسی انسان کا وجود ہی نہیں ہے۔۔۔ وہ سایہ بھی اب نظر نہیں آتا ۔۔۔ اک آہ !!!!! لے کے روتے ہوئے دعا کرتی ہیں۔۔ اے خدا!!!! اس مشکل سے ہمیں نکال دے اور ہمیں اپنی پناہ میں لے لے۔۔۔۔۔۔
مہر رات ہونے کا انتظار کرنے لگتی ہے آج اس نے کھانے میں نیند کی گولیاں ملا دی تھی تا کہ کوئی اسے چلے کے دوران تنگ نہ کر سکے۔۔۔
رات ہوتے ہی مہر 12 بجنے سے پہلے ہی تھیلی نکال کر چھت کی طرف چلی جاتی ہے چاند کی روشنی کافی ہوتی ہے اس لئیے مہر موم بتیاں وہی رکھ دیتی ہے۔۔ تھیلی سے سامان نکال کر سامنے رکھتے ہی اسکے ہاتھ، پیر پھول جاتے ہیں سامنے اک کالے بکرے کا سر اور انسانی کھوپڑی اور کسی جانور کی ہڈیاں ہوتی ہیں ۔۔۔
اپنے ڈر کو قابو کرنے کے بعد کاغز نکال کر منتر پڑھنا شروع کر دیتی ہے آدھے گھنٹے بعد اسے محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی اسکے پیچھے کھڑا ہوا ہے اور آواز بکرے کی نکال رہا ہے ۔۔۔ وہ خوفزدہ ہو کر آنکھیں بند کئیے اپنا منتر پڑھتی رہتی ہے ۔۔۔ آج کا عمل مکمل ہو جاتا ہے اور خوشی سے سامان تھیلی میں ڈال کر چھپا دیتی ہے اور سکون سے سو جاتی ہے۔۔۔
ادھر وہ جادوگرنی رات اپنا چلہ مکمل کر رہی ہوتی ہے کہ اسکے اک موکل کی وجہ سے آج اسکا چلہ خراب ہو جاتا ہے ۔۔ غصے سے اسکا چہرہ سرخ ہوتا ہے اور اک ہڈی پہ منتر پڑھ کہ اس موکل کی طرف پھینکتی ہے اور وہ بری طرح جل کے راکھ ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔
مہر کے سسر اپنے دوست کے پاس جاتے ہیں جو امام مسجد ہوتے ہیں ۔۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنا مسئلہ لے کر ان کے پاس پہنچتے ہیں جو لوگوں سے دینی معاملات پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔۔۔ فراغت کے بعد امام صاحب ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور انھیں سوچتا ہوا دیکھ کر اپنی موجودگی ظاہر کرنے کے لئیے کھنکھارتے ہیں۔۔ اہم اہم!!!!!!!
وہ فوراً ہی سر اٹھا کر دیکھتے ہیں تو امام صاحب پوچھتے ہیں کیا ہوا بھئی پریشان لگ رہے ہو۔۔۔ کیا سوچ رہے تھے؟؟؟؟
امام صاحب کل رات میرے ساتھ عجیب سا واقعہ ہوا میں رات کو سو رہا تھا تو مجھے ایسا لگا جیسے کوئی بھاری سی چیز میرے سینے پر بیٹھ گئی ہو،مجھے تکلیف ہو رہی تھی لیکن میں کچھ کر نہیں پا رہا تھا۔۔ پھر سورہ الناس کی تلاوت کے بعد طبعیت بحال ہوئی اور مجھے اپنے گھر بھی کسی ہوائی چیز کے ہونے کا احساس ہوتا ہے۔۔
امام صاحب انکی ساری بات غور سے سننے کے بعد اک لمبی سانس لیتے ہوئے کہتے ہیں” میاں ہو سکتا ہے کوئی شریر جن رات میں آپ کو تنگ کرنے کی نیت سے آیا ہو اور وہی رک گیا ہو” ۔۔
امام صاحب کھڑے ہو جاتے ہیں اور انھیں اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کر کے آ گے بڑھ جاتے ہیں وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے چل دیتے ہیں اپنے آستانے پہنچ کر اندر داخل ہوتے ہوئے انھیں اک طرف بیٹھنے کا اشارہ کر کہ کر اپنے صندوق سے اک کاغذ نکال کر اسکے چاروں کونوں پر اک زاویہ کھینچتے ہیں اور موڑ کر سبز رنگ کے کپڑے میں انھیں دیتے ہیں دیتے ہیں ۔۔۔۔” میاں یہ تعویذ اپنے گلے میں پہن لینا انشاء اللہ برے اسرات سے محفوظ رہیں گے”..
امام صاحب کا شکریہ ادا کر کے اپنے گھر کی طرف نکل جاتے ہیں ۔۔ گھر پہنچ کر سیدھا کمرے کی طرف بڑھتے ہیں تو چھت کی سیڑھیوں کی طرف اک ہیولہ پہ نظر پڑھتی ہے جو وہاں چکر کاٹ رہا ہوتا ہے اور پھر تیزی سے سبطین کے کمرے کے اندر چلا جاتا ہے۔۔۔
اتنا تو انکی سمجھ میں آچکا ہوتا ہے جو بھی چیز ہے اسکا تعلق سبطین اور مہر سے ہے ۔۔۔
وہ فوراً کمرے میں داخل ہوتے ہیں تو بیگم کو پریشان دیکھ کر پوچھتے ہیں کیا ہوا کیوں پریشان ہو اتنا؟؟؟؟؟
وہ کہتی ہے مجھے اس گھر سے خوف آنے لگا ہے یہاں اک کالا ہیولہ منڈلاتا رہتا ہے جو ڈرانے کی کوشش کرتا ہے۔۔ اور وہ ہیولہ مہر کے کمرے سے نکلتا ہے۔۔۔ یا اللہ!!!! میرے بچوں کی حفاظت فرما آمین!!!..
اوہ خداااااا حالات واقعی خراب ہیں تم فکر نہیں کرو کل امام صاحب کو گھر لے آؤ گا وہ اس مسئلے کا حل نکالے گے۔۔۔
رات کھانے کی تیاری کرتے ہوئے مہر دل ہی دل میں خوش ہوتی ہے کہ کل اسکا چلہ مکمل ہو گیا اور بس کچھ ہی دنوں میں میری قسمت بدل جائے گی ۔۔۔ یہ سوچ کر اک مسکراہٹ اسکے چہرے پر آ جاتی ہے۔۔۔
لیکن اسے کیا پتہ یہ کتنی بڑی مشکل میں پھنسنے والی ہے اپنی اور پورے گھر والوں کی زندگی خطرے میں ڈال چکی ہے اور آنے والے بچے کی بھی۔۔۔۔۔
سبطین گھر میں داخل ہوتے ہوئے سلام کرتا ہے۔۔۔ اسلام وعلیکم!!!!! وعلیکم السلام بیٹا!!!! آج اتنی دیر کردی آنے میں؟؟؟ جی امی!! آج کام زیادہ تھا اس لئیے دیر ہو گئی ۔۔۔
جا بیٹا !! منہ ہاتھ ڈھولے میں کھانا لگواتی ہوں ۔۔۔
مہر کی ساس آواز دیتی ہے مہر بیٹا!! سبطین آ گیا ہے جلدی سے کھانا کھا دو۔۔۔ کافی آواز دینے کے بعد جب مہر کا کوئی جواب نہیں آتا تو وہ خود اٹھ کر کچن کی طرف جاتی ہے ۔۔۔
ارے کیا ہو گیا؟؟! سن کیوں نہیں رہی۔۔۔
مہر ساس کی آواز پر چونکتیے ہوئے خیالوں کی دنیا سے باہر آتی ہے ۔۔ جی امی!!!!! آپ کچھ بول رہی تھی؟؟
میں کب سے آوازیں دے رہی ہوں کہاں کھوئی ہوئی ہو جلدی سے کھانا نکالو سبطین آ گیا ہے۔۔ یہ کہتے ہوئے وہ کچن سے باہر نکلتی ہے تو سامنے مہر کمرے سے نکلتی ہوئی نظر آتی ہے جسے دیکھ کر وہ خوف سے وہی جم جاتی ہے ۔۔۔
ساس کو اس حالت میں دیکھ کر مہر تیزی سے ان کی طرف بڑ جاتی ہے ۔۔ امی کیا ہوا آپ کو؟؟؟ مہر کو اپنے قریب آتا دیکھ کر چیختی ہے۔۔۔ تو شیطان ہے میرے پاس نہیں آ دور ہٹ مجھ سے کیوں میرے گھر پہ حاوی ہو رہی ہے۔۔۔
ماں کی آواز سن کر سبطین بھاگتا ہوا باہر آتا ہے اور دیکھتا ہے وہ مہر پر چیخ رہی ہوتی ہے۔۔۔
امی امی!!! کیا ہوا کیوں دانٹ رہی ہے مہر کو؟؟؟
سبطین اسے گھر سے نکال دے یہ شیطان ہے میری مہر پہ قبضہ کیا ہوا ہے اسنے۔۔ مہر کچن میں ہے یہ شیطان ہے ۔۔۔ وہ ہزیانی کیفیت میں بولے جا رہی تھی ۔۔۔
سبطین اپنی ماں کو بانکے کمرے میں لے جاتا ہے اور بیڈ پر بٹھا کر کہتا ہے امی ایسا کیوں بول رہی تھی آپ میں جب کمرے میں گیا تو مہر پہلے سے ہی کمرے میں موجود تھی پھر وہ کچن میں کیسے ہو سکتی ہے ؟؟ آپ کو وہم ہوا ہوگا ۔۔ آپ آرام کریں میں آج آپ کے ساتھ کھانا کھاؤ گا بسس۔۔۔۔
وہ خاموش ہو جاتی ہے اور سبطین کھانا لینے چلا جاتا ہے۔۔ کچن میں مہر کھانا نکال رہی ہوتی ہے سبطین کو دیکھ کر غصے میں کہتی ہے یہ کیا بولے جا رہی تھی آپ کی امی ؟؟ میں انھیں شیطان لگتی ہوں؟؟؟ مجھے پتا ہے مجھ پر الزام لگا کر مجھے اس گھر سے نکالنا چاہتی ہیں وہ لیکن آپ اک بات کان کھول کر سن لیں!!! یہ میرا گھر ہے اور میں یہاں سے کہی نہیں جانے والی اور آئندہ اگر انھوں نے مجھ پر الزام لگایا تو اچھا نہیں ہوگا۔۔۔۔
یہ کہ کے مہر پیر پٹختی ہوئی باہر چلی جاتی ہے اور سبطین کھانا نکالنے لگتا ہے۔۔۔
رات سبطین اپنی ماں کو کھانا کھلانے کے بعد کمرے میں چلا جاتا ہے جہاں مہر اس سے ناراض سرخ چہرہ لئیے بیٹھی ہوتی ہے ۔۔ سبطین مہر پہ اک نظر ڈال کر اسکے پاس بیٹھ جاتا ہے۔۔
کیا ہوا ہے تمہیں؟؟؟ اب تک منہ پھلا کے بیٹھی ہو۔۔۔ مہر امی پریشان ہیں اس رات بابا کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے دیکھ کر ڈر گئی ہیں تمہیں تو انکا خیال رکھنا چائیے اور تم یہاں غصہ کر رہی ہو۔۔ اگر امی کچھ کہ بھی دیں تو دل پہ نہیں لینا کبھی وہ بڑی ہے تم سے پیار کرتی ہیں بس تھوڑی پریشان ہیں ٹھیک ہو جائیں گی۔۔ چلو اب سو جاؤ جلدی سے میں بھی سو رہا ہوں ۔۔۔
سبطین،مہر کوکہ کے سونے کے لئیے لیٹ جاتا ہے ۔۔ لیکن مہر کا تو چلے کا ٹائم ہونے والا ہوتا ہے،وہ سبطین کے سونے کا انتظار کرتی ہے ۔۔ جب سبطین سو جاتا ہے مہر بیڈ کے نیچے سے تھیلی نکال کے چھت کی طرف دبے پیر سے بڑھنے لگتی ہے کہ باہر سسر کے نظر مہر پر پڑ جاتی ہے۔۔۔
ارے مہر بیٹا!!!! اتنی رات کو چھت پہ کیوں جا رہی ہو کوئی کام ہے تو بتاؤ میں کر دیتا ہوں۔۔۔ نہیں نہیں ابو!!! بسس میں سبطین کی شرٹ دھو کے ڈالی تھی وہ لینے جا رہی ہوں بس ابھی لے کر آجاؤنگی ۔۔۔ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ مہر اپنے ہاتھوں میں لئیے تھیلے کو اپنے پیچھے چھپا لیتی ہے۔۔۔
ابو آپ جائیں امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے میں ابھی لے کر نیچے آجاتی ہوں۔۔۔ ٹھیک ہے بیٹا جاؤ۔۔
مہر جلدی سے چھت کر پہنچ کر دیوار کے پیچھے سے سسر کے جانے کا انتظار کرنے لگتی ہے۔۔۔ اور اک آہ لے کر کہتی ہے!!!!! اففففف!! آج میں کھانے میں نیند کی دوائی ملانا کیسے بھول گئ۔۔ یہ سب اس بڑھیا کی وجہ سے ہوا ہے۔۔ اپنی ساس کو کوستے ہوئے مہر اسبات کا پتا کرنے سیڑھیوں سے تھوڑا نیچے اترتی ہے کہ ابو جی چلے گئے یا نہیں۔۔۔۔
پوری طرح مطمئن ہونے کے بعد مہر تھیلا کھول کے سامان نکال رہی ہوتی ہے کہ اچانک اس فقیر کو سامنے دیکھ کر چیخ کو روکتے ہوئے منہ پر ہاتھ رکھ لیتی ہے۔۔۔
تم تم یہاں کیسے آئے؟؟؟؟!
فقیر کی آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہی ہوتی ہیں اور چہرہ انتہائی خوفناک سا ہو جاتا ہے اور مہر کو گھورتے ہوئے کہتا ہے۔۔ ” کیا میں نے تجھے نہیں کہا تھا چلہ ٹھیک بارہ بجے شروع کرنا ہے تو نے دیر کردی اب اپنا انجام سوچ لے میں تیری کوئی مدد نہیں کر سکتا اب ” یہ کہ کر فقیر غائب ہوجاتا ہے مہر جلدی سے کمرے کی طرف بھاگتی ہے۔۔
گھڑی میں ساڑھے بارہ بج رہے ہوتے ہیں خوف سے مہر پسینہ پسینہ ہو جاتی ہے پتا نہیں اب کیا ہوگا میرے ساتھ۔۔۔۔
ابھی سوچ ہی رہی ہوتی ہے کہ کسی عورت کے رونے کی آواز اسے سنائی دیتی ہے ۔۔ وہ کہتی ہے اتنی رات میں کون رو رہا ہے؟؟؟
آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی کمرے سے باہر جھانکتے ہے تو رونے کی آواز چھت سے آ رہی ہوتی ہے۔۔
ابھی تو میں چھت سے ہی آئ ہوں وہاں تو کوئی نہیں تھا۔۔۔ ڈرتے ہوئے چھت کی طرف بڑھتی ہے۔۔۔
کون ہے وہاں؟؟؟ کون ہے؟؟! مہر کے پوچھنے سے رونے کی آواز میں تیزی آ جاتی ہے۔۔۔
چھت پر پہنچ کر چاروں طرف نظریں گھما کر دیکھتی ہو کونے میں اک عورت بیٹھ کر رو رہی ہوتی ہے۔۔
مہر پوچھتی ہے کون ہو اور یہاں کیوں رو رہی ہو؟؟..
مہر اس عورت سے پوچھتی ہے یہاں کیوں رو رہی ہو؟؟ مہر کے پوچھنے سے وہ عورت اور تیز آواز میں رونا شروع کر دیتی ہے۔۔ مہر اس عورت کے پاس جا کر کھڑی ہو جاتی ہے جیسے ہی مہر اسکے قریب جاتی ہے وہ اپنا سر آٹھا کر اسے دیکھتی ہے۔۔۔
اسکا چہرہ انتہائی بھیانک ہوتا ہے چہرے پر کٹ لگے ہوتے ہیں جیسے کسے نے چھری سے چہرے کو کاٹا ہو اور زبان منہ سے باہر نکلی ہوئی ہوتی ہے آنکھوں کی پتلیاں سکڑی ہوئی ہوتی ہے۔۔۔ مہر چیخ کر نیچے کی طرف بھاگتی ہے لیکن اسکے پیر وہی جم جاتے ہیں جیسے کسی نے جکڑ لئیے ہو۔۔ وہ عورت مہر کے قریب آ رہی ہوتی ہے۔۔
سبطین مہر کی چیخ سن کر چھت کی طرف بھاگتا ہوا آتا ہے اسے دیکھ کر وہ عورت غائب ہو جاتی ہے اور مہر سبطین کو دیکھ کر وہی گر جاتی ہے اسے ہوش نہیں آتا سبطین فوراً اسے ہسپتال لے کر جاتا ہے وہاں اسے ڈاکٹر خوشخبری دیتے ہیں ۔۔۔ مبارک ہو مہر پریگننٹ ہے !!!!
سبطین مہر کو لی کر گھر پہنچتا ہے وہاں اسکے ماں باپ پریشانی سے چکر کاٹ رہے ہوتے ہیں سبطین کو دیکھ کر پوچھتے ہیں اتنی رات میں کہا گئے تھے تم دونوں؟؟؟؟
سبطین انھیں چھت والی بات نہیں بتاتا کہ فضول میں پریشان ہو جائیں گے۔۔
وہ مہر کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تھی اس لئیے اسے ہسپتال لے کر گیا تھا۔۔ مبارک ہو مہر پریگننٹ ہے!!! یہ سن کر مہر کی ساس ساری باتیں بھول کر اسے گلے سے لگا لیتی ہیں اور ڈھیر ساری دعائیں دیتی ہیں۔۔۔
سبطین مہر کو کمرے میں لے کر جاتا ہے کمرے میں داخل ہوتے ہی اک ناگوار سی بو انھیں محسوس ہوتی ہے ۔۔۔۔ مہر منہ پر ہاتھ رکھ کر کمرے سے نکل جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اور سبطین اندر دیکھتا ہے کہ کس وجہ سے یہ بو آ رہی ہے۔۔۔
سبطین کے ماں باپ کو بھی بدبو محسوس ہوتی ہے تھوڑی دیر کے بعد سبطین ہاتھ میں اک تھیلی لئیے باہر آتا ہے اور اسے کھول کر دیکھتا ہے اس میں بکرے کو سر ہوتا ہے ۔۔
سبطین کی ماں یہ دیکھ کر ڈر جاتی ہیں یہ تو کالے جادو کا سامان ہے یہ مہر کے کمرے میں کیسے ؟؟؟؟
مہر کے سسر اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں کیونکہ کل وہ تھیلی مہر کے ہاتھوں میں دیکھ لیتے ہیں جسے میر چھپانے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے۔۔۔
مہر سسر کے اس طرح دیکھنے سے سمجھ جاتی ہے اور فوراً کمرے میں جا کر دروازہ بند کر دیتی ہے۔۔
سبطین تھیلی کو باہر پھینک کر اندر آ جاتا ہے۔۔۔ سب کافی پریشان ہوتے ہیں۔۔ میر کے سسر اسی وقت امام صاحب سے ملنے کے لئیے ان کے آستانے پہنچ جاتے ہیں لیکن انھیں وہاں پتہ چلتا ہے امام صاحب اک مہینے کے لئیے کسی کام سے باہر گئے ہوئے ہیں۔۔
صبح مہر کے ماں باپ اس سے ملنے آتے ہیں کیونکہ سبطین نے صبح ہی انھیں خوشخبری سنادی تھی۔۔۔ مہر بہت خوش ہوتی ہے اور سبطین سے اپنے گھر جانے کی اجازت کے کر کچھ دنوں کے لئیے رکنے چلی جاتی ہے۔۔ اپنے گھر پہنچ کر مہر اندر داخل ہوتی ہے اسکے پیچھے اسکی ماں دیکھتی ہے مہر کے پیروں کے پیچھے کوئی خونی پیر کے ساتھ چل رہا ہو۔۔۔ اور اک ہیولہ مہر کے پاس نظر آتا ہے
مہر کو کمرے میں بٹھا کر اسکی ماں کچن میں کھانا نکالنے چلی جاتی ہے کھانا نکالتے ہوئے اسے محسوس ہوتا ہے جیسے پیچھے کوئی کھڑا ہوا ہو وہ مڑ کر دیکھتی ہے تو پیچھے کوئی نہیں ہوتا اسے وہم لگتا ہے۔۔ کھانا نکالنے کے بعد ٹرے اٹھا کر جیسے ہی پیچھے مڑتی ہے اچانک مہر کو سامنے دیکھ کر گھبرا جاتی ہے اور ٹرے ہاتھ سے چھوٹ کر گر جاتی یے۔۔۔
مہر پوچھتی ہے کیا ہوا؟؟؟ اسکی ماں جواب دئیے بغیر ہی جلدی سے کھانا سمیٹنے لگتی ہے کہ کمرے سے مہر کی آواز آتی ہے ماما جلدی کھانا لائیں بہت بھوک لگ رہی ہے۔۔
مہر کی آواز سن کر وہ سر اٹھا کر سامنے دیکھتی ہے وہاں اک خوفناک چہرے والی عورت کھڑی مسکرا رہی ہے اسکی آنکھیں خوف کی شدت سے بڑی ہوکر پھیلنے لگتی ہیں جیسے ابھی باہر نکل آئیں گی۔۔
وہ بھیانک عورت آپنا اک ہاتھ آگے بڑھا کر اسے بالوں سے ہوا میں اٹھا لیتی ہے درد کی شدت سے اسکی زور دار چیخ بلند ہوتی ہے مہر ماں کی چیخ سن کر کچن کی طرف بھاگتی ہے وہاں پہنچ جو منظر اسے نظر آ تا ہے وہ دیکھ کر اسکی روح جسم سے نکلنے والی ہوتی ہے۔۔۔
مہر کی ماں کی ہاتھ اور پیر مڑ چکے ہوتے ہیں اور سر سے بالوں کو اس طرح کھینچا ہوتا ہے کہ کھال بھی ساتھ نکلی ہو۔۔۔ گردن ٹوٹ کر پیچھے کی طرف مڑی ہوتی ہے۔۔۔
ماں کی یہ حالت دیکھ کر اسکی زوردار چیخ نکلتی ہے اور رونا شروع کر دیتی ہے ۔۔ دروازے سے آتے ہوئے مہر کے باپ کو چیخ سنائی دیتی ہے وہ فوراً اندر کی طرف بھاگتے ہیں مہر کو بار بار آواز دیتے ہوئے کچن پہنچتے ہیں وہاں کا حال دیکھ کر وہ خود کچھ لمحوں کے لئیے سکتے کی کیفیت میں آجاتے ہیں اور پھر خود کو سنبھال کر مہر کو کمرے میں لے جاتے ہیں اور پولیس کو فون کر کے گھر کا ایڈریس بتاتے ہیں ان کے مطابق کسی نے مہر کی ماں کو بہت ہی بے رحمی سے مارا ہے۔۔۔
پولیس کے پہنچنے تک وہ فوراً سبطین کو دو کر کے گھر پلالتے ہیں تاکہ وہ مہر کو سنبھال سکے۔۔ کچھ ہی دیر میں پورے محلے میں یہ بات پھیل جاتی ہے عورتیں گھروں سے نکل کر تعزیت کے لئیے پہنچتی ہے وہاں کا منظر دیکھ کر سب ہی خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔۔۔
کوئی کہتا ہے یہ تو انسان نہیں کر سکتا یہ کسی آسیب یا شیطان کا چکر لگتا ہے۔۔ کوئی کہتا ہے کالے جادو سے مارا گیا ہے اسے۔۔۔
سبطین کے گھر پہنچتے ہی پولیس وہاں پہلے سے موجود دی مہر کی ماں کی لاش پوسٹ مارٹم کے لئیے لیب بھیج دی گئی تھی۔۔۔ مہر کی حالت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے سبطین اسے فوراً ہسپتال لے گیا وہاں ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق مہر کو سکون چائیے تھا اس لئیے سبطین اسے واپس گھر کے آیا۔۔
مہر کی ماں کا سنکر اسکی ساس مہر جو گلے لگائیں اسے تسلی دینے لگی اور سبطین مہر کو گھر چھوڑ کر پولیس اسٹیشن جانے کے لئیے نکل گیا ۔۔ کیونکہ اسے پولیس نے معلومات کے لئیے بلایا تھا۔۔
پولیس اسٹیشن پہنچ کر اسے انتظار کرنے کا کہا گیا ۔۔ ایک گھنٹہ گزر گیا لیکن کسی نے اسے نہیں بلایا سبطین غصے سے کرسی سے اٹھا اور بغیر بتائے اندر چلا گیا ۔۔ جہاں کانسٹیبل اپنی کرسی پہ بیٹھا آرام سے گانا سننے میں مصروف تھا۔۔ اسے دیکھ کر سبطین کا خون کھول گیا اور اسنے تیز آواز میں کہا۔۔ ” وہاں میری ساس کو کسی نے مار دیا، میری بیوی کی طبیعت خراب ہیں ،میرے سسر اکیلے ہیں گھر پہ اور آپ مجھے یہاں بلا کر گانے سننے میں مصروف ہے”..
سبطین کے چیخ کر کہنے سے کانسٹیبل غصے سے اپنی جگہ سے اٹھا اور اسکا کالر پکڑ کر دھاڑا!!!! ” تیری ہمت کیسے ہوئی مجھ پر چیخنے کی اور تو یہاں کمرے میں کیسے آ گیا؟؟؟ بہت چربی چڑھی ہے رک ابھی تیری ساری اکڑ نکالتا ہوں”.. یہ کہ کر سبطین جو کھینچتا ہوا جیل کی طرف لے کر جا رہا تھا کہ وہاں اک آفیسر آگیا۔۔۔ اور پوچھنے لگا کیا ہے یہ سب؟؟؟؟ ۔۔۔ سبطین بولنے لگا تو اسے کانسٹیبل نے فوراً چپ کروادیا۔۔ لیکن آفیسر کے کہنے پہ سبطین نے اسے سب کچھ بتا دیا۔۔۔
اب وہ آفیسر اس کانسٹیبل کو گھورتا ہوا کہنے لگا تمہاری ڈیوٹی کیا ہے اور تم کیا کر رہے ہو ۔۔ میں ابھی آگے تمھاری شکایت کرتا ہوں۔۔۔ یہ سنتے ہی وہ ڈر گیا اور معافی مانگنے لگا۔۔ اس پر اک نظر ڈال کر وہ سبطین کولئیے اپنے آفس میں آ گیا اور کچھ سوال پوچھ کر اسے گھر جانے کی اجازت دیتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ ” تم فکر نہیں کرو اب سے یہ کیس میرے حوالے”… اسکا شکریہ ادا کر کے سبطین اپنے سسر کے پاس جانے کے لئیے نکل گیا۔۔۔
وہاں مہر کو کھانا کھلانے کے بعد مہر کی ساس اسے آرام کرنے کا کہ کر اسے کمرے میں چھوڑ گئی ۔۔۔
تھوڑی دیر کے بعد مہر کے چلانے کی آواز سن کر وہ فوراً کمرے میں گئی وہاں اک کالا سا بلا اپنے منہ میں اک کبوتر لئیے کھانے میں مصروف تھا وہ بلا عام بلوں سے کافی بڑا تھا اور اسکی آنکھ دن میں بھی چمک رہی تھی جیسے آنکھوں سے آگ نکل رہی ہو۔۔۔۔ وہ کودتا ہوا ا چانک کمرے سے نکل کر چھت کی طرف بھاگ گیا اور مہر سکتے کی حالت میں بس اسے دیکھتی رہ گئی۔۔
مہر کی ساس یہ سب دیکھ کر ڈری سہمی خاموشی سے کمرے کی طرف چلی گئی۔۔ مہر کو ان کا رویہ پراسرار سا لگا کیونکہ وہ ایسے حالات میں بہت زیادہ پریشان ہو جاتی تھی۔۔
سبطین جب سسر کے پاس پہنچا تو وہ تدفین کی تیاریاں مکمل کر چکے تھے پولیس نے بھی لاش شام تک ان کے حوالے کرنے کا کہ دیا تھا۔۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق کسی نے مہر کی ماں کو پوری طاقت سے اٹھا کر زمین پر پٹخا تھا اور گردن توڑ دی تھی۔۔ جب ان کے ساتھ یہ سب ہوا اسوقت انکی آنکھیں خوف سے باہر نکل آئ تھی اسکا مطلب انھوں نے اپنے سامنے کسی انتہائی خوفناک چیز کو دیکھا تھا۔۔ ڈاکٹر کے مطابق کسی انسان میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ کسی کو اس قدر شدت سے زمین پر دے مارے کہ اسکے جسم کی ساری ہڈیاں ٹوٹ جائیں۔۔ اسبات پر یقین کرنے مشکل تھا۔۔
پولیس کو لگتا تھا کہ پہلے کسی نے انھیں اونچی جگہ سے زمین پر پھینکا اور پھر گھر میں لاکر یہ ناٹک کیا کہ انکی موت اسی گھر میں ہوئی ہے اور وہ کسی جن میں انھیں مارا ہے۔۔ سارا کیس پولیس کو پلین کیاہوا قتل لگ رہا تھا ۔۔پولیس کا سیدھا شک مہر پہ گیا کیونکہ صرف وہ ہی تھی اس گھر میں جب اسکی ماں کا قتل ہوا لیکن مہر سے پوچھنے پر اس نے صرف اتنا بتایا کہ وہ اپنے ماں کی چیخ سن کر کچن میں گئی تھی اور وہاں پہلے سے ہی انکی ایسی حالت تھی اور کچھ ہی لمحوں میں کوئی انسان اتنی بے رحمی سے کسی کس نہیں مار سکتا۔۔۔ جب کہ مہر حاملہ بھی ہے۔۔
مہر کی ماں کی تدفین کردی گئی اور سوئم بھی ہو گیا۔۔ پولیس کے لئیے یہ کیس اک پہیلی بن گیا تھا کسی کو خلاف کوئی ثبوت نہیں تھے۔۔ کچھ ہی مہینوں میں کیس پ۔د کر دیا گیا۔۔۔
مہر کے گھر کے حالت بھی کافی خراب رہتے تھے روز ہی کوئی سایہ انکا جینا حرام کرتا رہتا ۔۔ امام صاحب کا بھی انتقال ہو گیا تھا،واپس گھر آتے ہوئے راستے میں انھی اٹیک پڑا جسکی وجہ سے امام صاحب وہی دم ٹوڑ گئے۔۔ کتنے لوگوں کو بلایا لیکن کوئی اس ہیولے کو اس گھر سے نہیں نکال سکا۔۔
مہر نے بھی اس فقیر اور اپنی کرتوت کا گھر والوں کو بتا دیا تھا جسکی وجہ سے سبطین مہر سے شدید ناراض تھا اور کءج مہینوں سے بات بھی ہند کردی تھی۔۔ مہر کی ڈیلیوری کا وقت قریب آ رہا تھا۔۔
وہاں اس عورت کا چلہ دس بار خراب ہو چکا تھا تیسری بار خراب ہونے کی صورت میں اسے اپنی جان گنوانی پڑھتی اب اسکے زہن میں اک خبیث چال گھومنے لگی۔۔ اور شیطانی مسکراہٹ لئیے اپنی نئی چال کے بارے میں سوچنے لگی۔۔
صبح ہوتے ہی اک ضعیف عورت کا روپ لے کر مہر کے گھر کے سامنے کھڑی دروازہ کھٹکھٹانے لگی۔۔۔
مہر کے ساس نے پوچھا کون ہے؟؟؟؟ نحیف سی آواز آئی کھولو بٹیا!!!!!
دروازہ کھلتے ہی تھوڑا آگے بڑھ کر گھر کے اندر کھڑی ہو گئی اور مہر کی ساس سے کہنے لگی میں دائی ہوں اور حاملہ عورتوں کے خیال رکھتی ہوں۔۔۔
گھر کی اندر جاتے ہی مہر کی ساس سے کہنے لگی میں دائی ہوں اور حاملہ عورتوں کا خیال رکھتی ہوں۔۔ سنا ہے تیری بہو بچہ جننے والی ہے۔۔ ایسی حالت میں کمر درد اور جسم کے اعضاء کو مالش کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ بچہ جننے میں آسانی ہو ۔۔ اگر تو کہے تو میں روز آ کر مالش کر دیا کرونگی۔۔ پہلا بچہ ہے تیرا جو دل چاہے دے دینا میں پیسے نہیں لیتی۔۔
پہلے تو مہر کی ساس کسی اجنبی عورت کو اس طرح گھر میں بلانے سے ہچکچا رہی تھی لیکن اس نے بتایا کہ محلے میں کتنی ہی حاملہ عورتوں کی مالش کر چکی ہو چاہو تو پوچھ لینا۔۔۔ یہ کہنے پر مہر کی ساس اسے اندر لے گئی اور کمرے میں بٹھا دیا ۔۔۔ یہی بیٹھیں میں مہر کو لے کر آتا ہوں۔۔ اتنا کہ کر وہ مہر کو لینے چلی گئی اور سوچنے لگی آج شام محلے کی عورتوں سے اسکے بارے میں پوچھونگی۔۔۔
تھوڑی دیر بعد مہر کو ساتھ لئیے اس کمرے میں آ گئی۔۔ مہر کو دیکھتے ہی آسکی آنکھوں میں عجیب سی کشش دکھائی دی جسے مہر کی ساس بھانپ گئ لیکن آپنا وہم سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔۔
اسنے زمین پر چٹائی بچھائی اور مہر کو اس پر لٹا دیا اور اپنی پوٹلی سے اک تعویذ نکالی جس پر شیطان کا نام ہجوں میں لکھا ہوا تھا۔۔ مہر کی ساس کو کچھ سمجھ نہیں آیا کیا لکھا ہے لیکن پوچھنے پر وہ عورت کہنےگی کے نظر بد کا تعویذ ہے اس حالت میں گندی نظر جلدی لگتی ہے۔۔ وہ تعویذ مہر کے گلے میں ڈال کر اسے نا اتارنے کی ہدایت دیتی اپنی پوٹلی سے تیل نکال کر مہر کو کروٹ لیٹنے کا کہتے ہوئے کمر کی مالش کرنے لگی ۔۔۔
مہر کو سکون ملنے لگا اور وہ گہری نیند سو گئی مہر کی ساس کو اسنے کہا کہ اک تھال میں تھوڑی لکڑیاں جلا کر لاؤ مجھے دھونی دینی ہے وہ لکڑیاں جلانے کچن میں چلی گئی۔۔۔ نظر بچتے ہی اسنے فوراً نہ کو سیدھا کیا اور پیٹ سے کپڑا ہٹا کر انگلی سے اک زائچہ کھینچا اور ہلکی آواز میں پیٹ پکڑ کر منتر پڑھنے لگی۔۔
اچانک مہر کی آنکھ پیٹ میں ہوتے شدید درد سے کھل گئی وہ پیٹ پکڑ کر تڑپنے لگی کہ مہر کی ساس کمرے میں پہنچ گئی۔۔ مہر کی ایسی حالت دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی۔۔
لیکن تھوڑی دیر کے بعد درد اچانک خود ہی غائب ہو گیا۔۔ دائی کہنے لگی ارے کچھ نہیں ہوا بٹیا ایسے میں درد ہو جاتا ہے۔۔ اور یہ کہتے ہوئے کل آنے کا کہ کر چلی گئی۔۔۔
اصل میں اسنے مہر اور اسکے بچے پر قابو کرنے کا منتر پڑھا تھا۔۔ اب وہ جب چاہے مہر کو اپنے قابو میں کر کے کام نکلوا سکتی تھی۔۔
رات کو کھانا کھانے کے بعد مہر سبطین کے ساتھ کمرے میں بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔۔۔ دونوں کو ایسا محسوس ہوا جیسے کمرے کے دروازے پر کھڑا کوئی اندر جھانک رہا ہے۔۔ مہر نے سبطین سے پوچھا!!! کیا آپ کو کوئی جھانکتا ہوا نظر آیا؟؟؟ سبطین نے کہا ہاں!!! ایسا لگا کہ کوئی جھانک رہا تھا ۔۔ ہو سکتا ہے امی آئی ہوں اور ہمیں باتیں کرتے دیکھ کر چلی گئی ہوں۔۔ تم روکو میں دیکھ کر آتا ہوں ہو سکتا ہے امی کو کوئی کام ہو۔۔
سبطین باہر امی کے کمرے کی طرف گیا لیکن کمرے میں تو اسکے ماں اور باپ دونوں سو رہے تھے۔۔ وہ تھوڑا پریشان ہوا کی اگر امی سو رہی ہیں تو کمرے میں جھانک کون رہا تھا؟؟۔
اسے لگا گھر میں کہی چور نہ گھس گیا ہو وہ یہ سوچتے ہوئے پورے گھر میں چور کو ڈھونڈنے لگا لیکن گھر میں تو کوئی نہیں تھا۔۔ اسنے سوچا چھت پہ بھی دیکھ لیتا ہوں لیکن وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔۔ وہ پر سکون ہوتا اپنے کمرے کی طرف جانے لگا کہ اسی وقت کچن سے برتن گرنے کی آواز سنائی دی۔۔ وہ فوراً جب کی طرف گیا وہاں مہر چولھے کے پاس کھڑی ہو کر دودھ گرم کر رہی تھی۔۔ سبطین نے مہر کی آواز دی ۔۔ مہر ، مہر !!! لیکن اسنے کوئی جواب نہیں دیا۔۔ سبطین مہر کے پاس گیا اور دیکھا دودھ ابل رہا ہے لیکن مہر بلکل ہی پتلے کی طرح کھڑی ہے۔۔ اسنے جلدی سے چولھا بند کیا اور مہد سے کہنے لگا کیا ہو گیا ہے تمھیں ابھی تو دودھ پیا تھا پھر دوبارہ کیوں گرم کر رہی ہوں؟؟ دیکھو کتنا سارا دودھ ابل گیا دھیان کہا ہے تمھارا؟؟؟
لیکن مہر نے کوئی جواب نہیں دیا بس پتلے کی طرح کھڑی رہی۔۔
اچانک کمرے سے مہر نے تیز آواز میں کہا سبطین کہا رہ گئے جلدی آؤ کمرے میں مجھے سونا ہے۔۔ سبطین نے حیرت سے کمرے کی طرف دیکھا جہاں سے ابھی مہر کی آواز آئی تھی۔۔ پھر جیسے ہی اسنے سامنے دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا۔۔ مہر غائب ہو چکی تھی۔۔ خوف سے سبطین کے پسینے چھوٹ گئے اور وہ بھاگتا ہوا کمرے میں گیا اور جلدی سے کنڈی لگا دی۔۔ مہر نے جب اسکی ایسی حالت دیکھی تو پریشانی سے پوچھنے لگی کیا ہوا اتنا گھبرائے ہوئے کیوں ہو اور امی کیا کہ رہی تھی؟؟؟؟
سبطین کی ڈر سے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔۔ مہر کے بار بار پوچھنے پر بس اتنا کیا کہ اس گھر میں تمھارے جیسی اک عورت ہے اور بیہوش ہو گیا۔۔۔۔
سبطین کی حالت دیکھ کر مہر بہت پریشان ہو گئی تھی وہ فوراً جسکی اپنی ساس کو بلا کر لے آئی ۔۔۔
جب مہر کے ساس،سسر کمرے میں پہنچے تو سبطین ہوش میں آ چکا تھا لیکن اسکا چہرہ زردی مائل ہو رہا تھا اور چہرے پہ خوف واضح دکھ رہا تھا۔۔ سبطین کی ماں اسے دیکھتے ہی سینے سے لگا کر رونے لگی۔۔۔ کیا ہوا میرے بچے کو؟؟؟؟ مہر بتاؤ نہ اسنے کیا دیکھ لیا ہے جو اسکی حالت ایسی ہو گئی ہے اور تم کیا تھی اسوقت ؟؟؟
مہر نے ابھی کچھ دیر پہلے جو ہوا تھا سب اپنے ساس کو بتا دیا۔۔ اسکی ساس آپنے شوہر سے کہنے لگی دیکھا!!! میں نے کہا تھا نا س گھر میں کوئی آسیب ہے لیکن اپ سن ہی نہیں رہے تھے اب دیکھ لیں اپنی آنکھوں سے سبطین کی حالت!!!! روتے ہو ان کا ہورا بہت بھیگ گیا تھا اور دم کر کر کے اپنے بیٹے پر دعاؤں کا ورد کر کے پھونک رہی تھی۔۔ کچھ دیر میں سبطین کی حالت تھوڑی بحال ہوئی تو مہر اس سے پوچھنے لگی۔۔ آپ نے مجھےکیسے دیکھا تھا جبکہ آپ تو خود مجھے کمرے میں چھوڑ کر گئے تھے نہ پھر وہاں کسے دیکھا آپ نے؟؟؟؟؟
مہر کے پوچھنے پر سبطین کہنے لگا جب میں چھت سے نیچے آرہا تھا تو تم۔کچن میں کھڑی دودھ ابال رہی تھی میں تمہیں کافی آواز دی لیکن تم تو جیسے سن ہی نہیں رہی تھی۔۔ پھر کمرے سے تمھاری آواز آنے لگی تو میں نے سامنے دیکھا تم وہاں نہیں تھی۔
مہر ہنسنے لگی.۔۔ ہاہاہاہاہاہاہا!!!!! بس اتنی سی بات پہ آپ ڈر گئے اتنا ہاہاہاہاہاہاہا!!! آپ کو وہم ہو گیا ہوگا بھئی… مجھے لگا کوئی چڑیل دیکھ لی تھی جبھی ایسی حالت ہو گئی۔۔۔
مہر کے مزاق اڑانے پر سبطین ناراض ہو کے جانے لگا۔۔۔
مہر نے جلدی سے آواز دی ۔۔ آرےےے!!!! میں بس آپ کا موڈ ٹھیک کر رہی تھی اور آپ ناراض ہو گئے۔۔ اچھا !!! آجائیں اب کچھ نہیں کہوں گی۔۔
مہر اور سبطین تو سو گئے لیکن سبطین کے ماں ،باپ پریشانی سے اک دوسرے کو دیکھتے لیکن کوئی کچھ کہ نہیں رہا تھا۔۔ نیند دونوں کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔
آدھی رات کو چکی تھی اور وہ عورت اپنا چلہ شروع کرتی مہر کو قابو کرنے کے لئیے تیز آواز میں منتر پڑھ رہی تھی۔۔اچانک مہر کی سانس پھولنے لگی اور وہ گھبرا کر کمرے سے باہر آئی تھی کہ اک بت کی مانند سیدھی ہو گئی جیسے الرٹ ہو جاتے ہیں۔۔ پھر سیدھا چلتی ہوئی گھر کا دروازہ کھول کر اس جادوگرنی کے گھر کی طرف چلنے لگی آگے دروازے پر پہنچ کر دروازہ کھولتی وہاں جا کر بیٹھ گئی جہاں ہو چلہ کر دی تھی۔۔۔
اک شیطانی سی مسکراہٹ لئیے وہ مہر کو دیکھتی اسکے گلے میں اک ہڈیوں کی مالا ڈال ڈال چکی تھی۔۔ اور اسکا سیدھا ہاتھ اٹھا کر سب سے چھوٹی انگلی پر کٹ لگا ۔۔ تین ، چار خون کے قطرے اک پیالے میں لئیے اور اس میں اک کاغذ رکھ کر جلا دیا ۔۔ اور زور سے ہاتھ ہوا میں لہرایا اک الو اڑتا ہوا اسکے ہاتھ پہ پیٹھ گیا اسنے اسے گلے سے پکڑا اور فوراً سے اسکی گردن اڑادی اور سارا خون اسی پیالے میں جما کر کے مہر کے منہ سے لگا دیا۔۔
خون کا پیالہ مہر کے منہ سے لگا تو اسنے ایک ہی گھونٹ میں پورا پیالہ ختم کر دیا جیسے صدیوں کی پیاسی ہو۔۔
پھر مہر وہاں سے خود ہی اٹھی اور کسی روبوٹ کی طرح چلتی ہوئی اپنے کمرے میں آ کر سو گئی۔۔
صبح مہر کی آنکھ نہیں کھلی تو سبطین اسے سوتا چھوڑ کر خود ہی ناشتہ کرنے کے بعد کام پہ چلا گیا۔۔ مہر کی ساس تو پہلے ہی پریشان تھی انھوں نے بھی مہر کو نہیں جگایا۔۔۔ دن کے 1 بجے مہر کی آنکھ کھلی اس نے گھڑی پر نظر دوڑائی تو وہاں 1 بج رہے تھے۔۔ اسکے منہ سے اک آہ نکلی..افففف!!! آج میری وجہ سے سبطین بغیر ناشتہ کئیے کام پہ چلے گئے اور مجھے جگایا بھی نہیں ۔۔ افسوس کرتی وہ اٹھی اور باتھ روم جانے لگی۔۔ اچانک گزرتے ہوئے اسکے نظر ڈریسنگ کے شیشے پر گئی۔۔ کچھ دیر تو سکتے کی حالت میں کھڑی رہی جیسے شیشے میں اسکا نہیں کسی اور کا عکس دکھ رہا ہو پھر آہستہ آہستہ چلتی ہوئی شیشے کے سامنے کھڑی ہو گئی اور حیرانی سے اپنے چہرے کو دیکھنے لگی جہاں اسکے منہ پرسوکھا ہو خون لگا ہو تھا۔۔ مہر کو پتا بھی نہیں تھا کہ اسکے ساتھ رات میں کیا کچھ ہو گیا وہ تو ان سب سے انجان بس اپنے چہرے کو ہی گھورے جارہی تھی کہ اسکی ساس نے آواز دی۔۔ مہر،مہر آجاؤ باہر !!!! دائی آئی ہے اج تم دیر تک سوتی رہی ہو اس لئیے میں نے اسے اک بارواپس کر کے دوپہر میں آنے کا کہا تھا وہ انتظار کر رہی ہے تم جلدی سے مالش کروالو آج ڈاکٹرنی کے پاس بھی جانا ہے ۔۔
مہر ساس کی ہدایت سنتی سب نظر انداز کر کے باتھ روم چلی گئی وہاں سے واپس آنے کے بعد وہ جلدی سے دوسرے کمرے میں گئی جہاں دائی اسکا انتظار کر رہی تھی۔۔۔
مہر کو دیکھتے ہی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگی۔۔۔ ” کیا ہوا بٹیا تھکی تھکی سی لگ رہی ہو چہرہ بھی مرجھایا ہوا ہے تیری طبیعت تو ٹھیک ہے نہ” ؟؟؟
اسکے بلانے پر مہر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اسکے پاس بیٹھ گئی۔۔ اسنے اک ہاتھ مہر کے پیٹ پر اور دوسرا کمر پر رکھ کر کچھ پڑھا جسکی وجہ سے مہر کی طبیعت تھوڑی بحال ہو گئ۔۔۔لیکن مہر کو اسے ث کر عجیب سی وحشت ہوتی تھی خوف آتا تھا اسکا ضمیر بار بار اسے اس عورت سے دور رہنے کے لئیے کہتا تھا۔۔ لیکن وہ ساس کی وجہ سے مجبور تھی۔۔۔
وہ عورت مہر کی مالش کر کے جانے لگی تب اک دم اسکی نظر مہر کے سیدھے پیر کی جانب گئی جہاں اسنے اک کالا دھاگہ باندھا ہو تھا ۔۔ وہ آسیب اور جادو سے حفاظت کا تھا۔۔ جسے اسکی ساس آج صبح سوتے ہوئے اسکے پیر میں باندھ گئی تھی۔۔۔
غصے کو قابو کرتی وہ عورت مہر سے کہنے لگی اسے اتار دے میں نے پہلے ہی تیرے گلے میں دھاگہ ڈال دیا تھا۔۔
مہر کی ساس پیچھے کھڑی سن رہی تھی انھوں نے کہا کہ یہ آسیب اور جادو سے حفاظت کے لئیے اسے پہنایا ہے مجھے لگتا ہے ہمارے گھر میں آسیب ہے۔۔
اس نے فوراً بات کاٹ کر کہا کہ میں نے جو دھاگہ ڈالا ہے مہر کے گلے میں وہ ہر چیز سے حفاظت کرے گا آپ اس دھاگے کو نکال دیں ورنہ اسکا اثر ختم ہو جائے گا۔۔۔
اسکے اسطرح کہنے پر انھوں نے وہ دھاگہ مہر کے پیر سے نکال دیا اور لے گئی۔۔ وہ عورت اپنی چال چل کر فاتحانہ انداز میں گھر سے نکل گئی۔۔۔
اسکے جانے کے بعد اسکی ساس نے کہا تم جلدی سے کھانا کھا لو پھر ڈاکٹرنی کے پاس چلتے ہیں۔۔ ان کی بات سنتی مہر کچن میں کھانا کھانے چلی گئی اور پھر جلدی سے تیار ہو کر اپنی ساس کے ساتھ ہسپتال جانے کے لئیے گھر سے نکل گئی۔۔
وہ دونوں ہسپتال پہنچ کر انتظار کرنے لگے۔۔مہر کا نمبر آنے میں ابھی کافی وقت تھا۔۔ اسلیئے وہ دونوں ہسپتال کے باہر پیڑ کے نیچے بیٹھ کر باتیں کرنےلگے۔۔
مہر اور اسکی ساس پیڑ کے نیچے بینچ پر بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے کہ اچانک ہی اک ملنگ مہر کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور اسے گھورنے لگا۔۔ مہر اس ملنگ کو دیکھ کر گھبرا گئی تو اسی وقت اسکی ساس آگے بڑھ کر پوچھنے لگی۔۔ کیا ہوا ؟؟؟ کیوں کھڑے ہو یہاں؟؟ کیا چائیے تمھیں اس طرح کیوں گھر رہے ہو؟؟؟ لیکن وہ ملنگ بنا کچھ بولے بس مہر کو ہی گھورے جا رہا تھا۔۔ اسکے اس طرح دیکھنے سے مہر پوری پسینے میں نہا گئی اور ڈر کی وجہ سے کانپ رہی تھی۔۔۔
مہر کی ساس نے جلدی سے اپنے بیگ سے کچھ پیسے نکالے اور اس ملنگ کو دینے لگی کہ شاید یہ یہاں سے چلایا جائے۔۔لیکن پیسے دیکھتے ہی وہ زور زور سے ہنسنے لگا۔۔ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا!!!!
اسنے مہر کا بازو زور سے پکڑا اور کہنے لگا انھی پیسوں کی وجہ سے رونے اس فقیر کی بات مانی تھی نہ ہاہاہاہاہاہاہا!!!
غلط کیا تو نے بہت غلط کیا!! نہیں بچ پائیں گی اب تو اور نہ تیرا یہ بچہ۔۔۔
اب یہ تیرا بچہ نہیں ہے یہ شیطان کا بچہ ہے کھو دیا تو نے اپنا بچہ اپنی لالچ کے چکر میں ہاہاہاہاہاہاہا!!!! عنقریب مرنے والی ہے تو اور تیرا بچہ بھی کچھ نہیں کر سکتا کوئی بہت دیر ہو گئی ہے اب۔۔۔ ہاں لیکن تو اک راستہ ہے تو بچ سکتی ہے ۔۔۔ نکال اک گلے سے یہ دھاگہ اور پھینک دے کسی سمندر یا دریا میں۔۔ اور اس عورت سے دور رہ لیکن تیرا بچہ نہیں بچے گا ۔۔ نہیں بچےگا ہاں تو نہیں بچا سکتی !!! یہ سب کہتا تیز تیز قدم اٹھاتا جلدی سے نکل گیا۔۔۔
اسکی باتیں مہر کے دماغ کو ماؤف کر چکی تھی اور آنسوؤں سے اسکا چہرہ بھیگ گیا تھا۔۔ اپنے پیٹ پہ ہاتھ رکھتی اک دم چکرا کر بینچ پہ گری اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔۔۔۔
اسکی ساس آواز دیتی رہی مہر مہر بیٹا کیا ہو ا اٹھو بیٹا !!!! وہاں سے گزرتی اک نرس نے جب اسے دیکھا تو فوراً اٹھا کر ایمرجنسی روم میں لے گئی۔۔۔ اور مہر کی ڈاکٹر کا پتا کرتی اسے بلانے کے لئیے گئی تھی کہ سامنے اسے دیکھ کر گھبراہٹ میں بولتی چلی گئی۔۔ ڈاکٹر جلدی چلئیے !!! آپکی مریضہ بیہوش ہو گئی ہے۔۔۔
ڈاکٹر جلدی سے مہر کے پاس آئی اور اسکی دھڑکن چیک کرنے لگی ۔۔۔ اوہ خداااااا!! اسکی دھڑکن تو کافی تیز ہے نرس کا جلدی سے اک انجیکشن کا بتاتی اسے فوری طور پر لا ے کا کہا۔۔
مہر کو انجیکشن لگا کر اسکے ہوش میں آنے کا انتظار کرتی اپنی الٹراساؤنڈ مشین چیک کرنے لگی۔۔ جیسے ہی مہر کو ہوش آیا اسکی طبعیت بوچھتی الٹراساؤنڈ کرنے لگی۔۔۔
جیسے جیسے وہ ڈاکٹر چیک کر رہی تھی اسکی آنکھیں حیرت سے پھیلتی جا رہی تھی۔۔
اسنے مہر سے پوچھا کون سا مہینہ چل رہا ہے ؟؟؟ مہر نے کہا پانچواں۔۔
وہ حیرت سے مہر کو دیکھتی کہنےگی لیکن تمھاری ڈیلیوری کا وقت آنے والا ہے۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟؟؟
بچے کی اتنی جلدی گروتھ نہیں ہو سکتی یہ ناممکن ہے۔۔
یہ سنکر مہر کو اک جھٹکا سا لگا !!!!
تم کل آنا میں اپنے سر سے چیک کرواؤ نگی۔۔۔ یہ کہتی وہ فورا وہاں سے چلی گئی۔۔
مہر کو گھر جانے کا کہتی وہ ڈاکٹر اپنے روم میں آ کر بیٹھ گئی جو ابھی تک حیرت میں تھی کہ اک بچہ کیسے اتنی جلدی گروتھ کر سکتا ہے؟؟ کہی یہ کوئی بیماری تو نہیں؟؟
اپنے سینئر ڈاکٹر کو فون کرتی وہ فوراً سے کرسی پر آ کر بیٹھ گئی تھی۔۔۔ بیل جارہی تھی لیکن دوسری طرف سے کوئی رسپانس نہیں ملا ۔۔ دو بار کوشش کر کے وہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی ۔۔۔اسکے مزید مریض انتظار کر رہے تھے۔۔ نرس سے مریض کو اندر بھیجنے کا کہتی وہ انکی لسٹ دیکھنے لگی کہ ابھی کتنے مریض بچے ہیں۔۔
وہاں مہر کی ساس اسے گھر لا کر پوچھنے لگی کہ اتنی جلدی کیسے یہ بچہ بڑھ رہا ہے؟؟؟
مہر آنکھوں میں آنسوں لئیے کہنے لگی ماں جی مجھے نہیں پتا ایسا کیوں ہو رہا ہے میں تو خود پریشان ہو کہ ڈاکٹر یہ کیا کہ رہی تھی؟؟؟
رات کھانا کھانے کے بعد سبطین کی ماں نے اسے کمرے میں بلایا اور آج جو کچھ بھی ہوا سب سبطین کو بتا دیا سبطین کے باپ کو بھی یہ سب سن کے بہت حیرانی ہوئی۔۔۔
سبطین نے کہا اب کیا کریں؟؟؟ ڈاکٹر نے کہا ہے وقت قریب ہے۔۔۔
ماں مجھے جلد ہی اس ملنگ سے ملنا چائیے اب شاید وہ ہی ہمیں اس مشکل سے نکال سکتا ہے۔۔۔ سر جو دونوں ہاتھوں میں لئیے سب پریشانی سے کہ رہا تھا۔۔
لیکن اب میں اسے ڈھونڈو کہا؟؟
اسکی ماں نے کہا صبح ہونے دو وہ ہمیں ہسپتال کی اندر ملا تھا پتہ نہیں کیسے اندر آ گیا تھا۔۔۔
میں کل جا کے دیکھو گی ہسپتال ہو سکتا ہے وہی مل جائے۔۔۔
اتنا کہنے کہ بعد وہ سبطین کو کمرے میں بھیجتی اپنی تسبیح پڑھنے میں مصروف ہو گئی۔۔
سبطین جب کمرے میں پہنچا تو مہر سو چکی تھی اسنے سوچا تھا واپس آ کر مہر سے بات کرونگا ۔۔لیکن مہر کو سوتا دیکھ کر وہ بھی سونے کے لئیے لیٹ گیا۔۔لیکن نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔ وہ سب سوچ سوچ کر خود کو تکلیف دے رہا تھا۔۔ یہ میرا پہلا بچہ ہے کہی اسے کچھ ہونا جائے۔۔ میں کیسے برداشت کرونگا یہ یہ سب سوچتے ہوئے اسکا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔۔
اچانک مہر کی درد بھری آواز اسے سنائی دی۔۔ اسنے پلٹ کر دیکھا تو مہر پیٹ پکڑ کر درد سے کراہ رہی تھی۔۔۔
وہ فوراً جا کر اپنی ماں کو بلا لایا ۔۔ مہر کی حالت دیکھ کر وہ کہنے لگی اسے تو "درد ذاہ” ( بچے کی پیدائش کا وقت) ہو رہا ہے اسے جلدی سے ہسپتال لے کر چلو۔۔
سبطین اپنی ماں کی بات سن کر کمرے کی طرف بھاگا جہاں مہر ادھ مری حالت میں بے ہوش پڑی تھی مہر کی حالت دیکھ کر سبطین ہزیانی کیفیت میں چیخنے لگا.. مہر، مہر اٹھو کیا ہو گیا ہے تمھیں؟؟؟ اسی دوران وہ ملنگ بھی اندر اگیا اور سبطین کو چیخ کر کہنے لگا اسی وقت اپنی بیوی سے دور ہو جا !!!! ورنہ تو بے موت مارا جائے گا!!! اسکے اسطرح کہنے سے سبطین مہر سے دور ہو گیا۔۔۔
پھر وہ ملنگ مہر کے پاس بیٹھ کر اسکے سر پہ اپنا ہاتھ رکھتا زور زور سے سورہ الناس کا ورد کرنے لگا۔۔ اسکے پڑھنے سے مہر کا جسم اس طرح کانپنے لگا جیسے اسے کوئی زندہ زبح کر رہا ہو۔۔۔ کافی دیر تک جب مہر کا جسم کانپنا بند نا ہو تو ملنگ نے اپنی پوٹلی سے اک شیشے کی بوتل نکالی اور مہر کے منہ سے لگادی اس بوتل کا سارا پانی مہر کے گلے سے نیچے اترتا گیا اور اسکی چیخے پورے گھر میں گونج رہی تھی۔۔۔۔۔ پھر اچانک مہر لمبی لمبی سانسیں لینے۔لگی جیسے اسے سانس لینے میں بہت زیادہ تکلیف ہو رہی ہو۔۔ ایسا لگتا تھا مہر اب کچھ ہی سیکنڈ زندہ رہے گی ۔۔۔
اک طرف سبطین کو اپنے بچے کو دکھ کے وہ جادوگرنی اسے کہاے گئی تھی اور کیا کر رہی تھی اسکے ساتھ دوسری طرف اپنی بیوی کی آخری سانسیں سبطین کو پاگل کر رہی تھی وہ اپنے حواس کھوتا جا رہا تھا کہ اسی وقت ملنگ کے دھاڑنے کی آواز سے سبطین نیم بیہوشی سے ہوش میں آیا۔۔۔۔
ملنگ زور زور سے چیخ رہا تھا چھوڑ دے اس بچی کو ورنہ میں تجھے جلا کر راکھ کر دونگا ۔۔۔ اے ابلیس!!!!! چھوڑ اسے آخری بار کہ رہا ہو ورنہ اپنی حالت کے ذمے دار تو خود ہو گا۔۔
جب مہر کی حالت میں کوئی سدھار نہیں آیا تو وہ ملنگ مہر کے دونوں پیروں کے بیچ میں کھڑا ہو گیا اور مہر کی طرف ہاتھ بڑھا کر کچھ پڑھنے لگا!!!!! دیکھتے ہی دیکھتے مہر کے منہ سے اک کالا ہیولہ نکلا جسے وہ ملنگ اپنے قابو میں کر چکا تھا پھر اس ملنگ نے چھت کی طرف ہاتھ بڑھایا اور زور سے اس ہیولے کو زمین پر پٹخ دیا۔۔۔
ہڈیوں کے ٹوٹنے کی آواز واضح تھی اور درد سے کراہنے کی مسلسل آواز آرہی تھی۔۔۔
اچانک وہ ہیولہ اپنے اصلی روپ میں ظاہر ہوگیا اور ملنگ سے معافی مانگنے لگا کہ اسے چھوڑ دیں وہ سب اس جادوگرنی کے کہنے پر کر رہا تھا۔۔۔
ملنگ نے اس سے جادوگرنی کا مقصد ہو تو وہ کہنے لگا کے وہ مہر اور اس بچے کی بلی چڑھا کر اپنی طاقت پڑھانا چاہتی تھی۔۔ وہ اب تکا اس بچے کو مار چکی ہے اور اس پر اپنا آدھا عمل بھی کر چکی ہو اب اگر اس بچے کی تدفین کردی جائے تو اسکا عمل بیکار ہو جائیگا اور وہ عمل والا شیطان اس کا سر اکھاڑ کر کھا جائیگا۔۔۔ یہ سب سن کر اس ملنگ نے اس جن سورہ الناس تین بار پڑھ کر پھونکی اور وہ وہی جل کر راکھ میں تبدیل ہو گیا۔۔۔
اسکے بعد ملنگ فوراً اس جادوگرنی کے گھر کی طرف بڑھا اور کمرے میں پہنچ کر اسنے بچے کو وہاں سے اٹھا کر سبطین کو فوراً تدفین کرنے کا کہا!!! سبطین بچے کو لے کر غسل خانے کی طرف بڑھا ۔۔۔۔ اس دوران وہ ملنگ جادوگرنی کو اپنے حصار سے روکے ہوا تھا۔۔۔
سبطین فوراً بچے کو غسل کے بعد سفید کپڑے میں لپیٹتا قبرستان کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔ قبرستان پہنچ کر اسنے جلدی سے گڑھا کھودا اور بچے کو دفن کر دیا۔۔۔
بچے کے دفن ہوتے ہی اک ہاتھ اس جادوگرنی کی طرف بڑھا اور اک جھٹکے سے اس کا سر اکھاڑ کر لے گیا اور وہ وہی اسی وقت مر گئی۔۔
گھر پہنچ کر سبطین دھاڑے مار مار کر رونے لگا ۔۔۔ مہر کی اک غلطی سے اسکی پورا گھر تباہ ہو گیا۔۔۔ سبطین کو دلاسہ دے کر ملنگ وہاں سے چلا گیا۔۔۔
صبح اس عورت کے گھر پولیس نے پہنچ کر اسکی تدفین کی اور اسکی بیٹی کو اپنی حراست میں لے لیا۔۔۔
سبق: لالچ بری بلا ہے 😔
ختم شد 😇🥀📲🔝