::: کراچی کی سکھ برادری :::
جب یہ خاکسارا امریکہ کی کنساس یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا۔ تو میری ایک ہم جماعت نگینہ سنگھ بھی تھی۔ کئی دنوں تک تو میں یہ سمجھتا رہا کی محترمہ کا تعلق دہلی یا ہندوستاںی پنجاب کے کسی شہر سے ہوگا۔ جب چند دنوں میں میری ان سے شناسائی علیک سلیک شروع ہوئی تو انھوں نے بتاتا کہ ان کے والدین کا تعلق کراچی سے ہے۔ مگر تقسیم ہند کے بعد وہ بھارتی پنجاب کے شہر لدھیانہ نقل مکانی کرکے یہاں آباد گئے تھے۔ میں نے جب ان سے پنجابی میں بات کرنے کی کوشش کی تو انگریزی میں کہنے لگی" مجھے پنجابی نہیں آتی"۔۔۔ میں نے مذاقا پوچھ لیا کہ "آپ کیسی " سکھنی" ھو کہ آپ کو پنجابی نہیں آتی" ۔۔۔ تو مسکراتے ہوئے کہنے لگی۔ ہم سندھی ہیں گھر میں سندھی بولتے ہیں۔" نگینہ سنگھ نے بتایا ان کا خاندان ہندوستان کے بٹوارے سے قبل پہلے کراچی کے علاقے کلفٹن اور ملیر میں رہتے تھے۔ ان کے دادا کا کراچی میں کپڑے کا کاروبار تھا۔ اور ان کے والد کراچی میں وکیل تھے۔ یہ تمام انکشافات میرے لیے نئے تھے ۔ میں جتنا بھی کراچی میں رہا میں نے کبھی وہاں کوئی سکھ نہیں دیکھا تھا۔ میں نے ایک سکھ سرداررمیش سنگھ کے متعلق کہیں پڑھا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ سکھ آج بھی کراچی رہتے ہیں۔۔ ان کے گرودوارے آج بھی آباد ہیں جہاں وہ پوجا پاٹ کرتے ہیں۔ گرنتھ صاحب پڑھی جاتی ہے۔ ایک گرودوارہ گرو گرنتھ صاحب سنگھ سبھا، نارائن پورہ رنچھوڑ لائن اور دوسرا گرونانک ٹیمپل منوڑہ کے جزیرے میں اب بھی ہے۔۔ 1993 کی ووٹر فہرست کے مطابق صوبہ سندھ میں تقریباً 10 ہزار اور کراچی میں ساڑھے تین ہزار سکھ آباد تھے۔ اب یقیناً ان کی آبادی میں اضافہ ہوا ہوگا۔ اس وقت زیادہ تر سکھ کراچی کے علاقوں رنچھوڑ لائن، رامسوامی، سولجر بازار،لائٹ ہاؤس، (سابقہ لائٹ ہاؤس سنیما اور موجودہ لنڈا بازار) کینٹ ریلوے اسٹیشن سے ملحقہ آبادی، نارائن پورہ کمپاؤنڈ اور گلشن معمار میں آباد ہیں۔ اور سندھ اور کراچی کے سکھ کاوابار ہے پیشے سے منسلک ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ بہت سے سکھ پچیس / ۲۵ گذشتہ سال سے کراچی کے خراب حالات کے سبب امریکہ، کینیڈا اور یورپی ممالک میں جاکر آباد ہو گے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔