زمین پر ہر سال کھیلوں کے کئی مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ اُٹھا کر دیکھیں تو کھیل انسانی تہذیبوں اور روزمرہ کی زندگی کا اہم جُز رہے ہیں۔ کھیل انسان کی تفریح کا اہم ذریعہ رہے ہیں۔ یہ انسانوں کو قریب لانے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔۔زمانہ قدیم کا انسان شکار میں بھی کھیل کا تصور رکھتا تھا۔ پھر جب بارہ ہزار سال پہلے انسانوں نے کھیتی باڑی شروع کی، تہذیبوں نے جنم لیا۔جانوروں کو پالنا شروع کیا تب بھی مخلتف طرح کے کھیلوں نے جنم لیا۔ ان میں جانوروں کا استعمال بھی کیا جاتا۔
قدیم روم میں کھیلوں کے بڑے بڑے میدان سجتے۔ ان میں کئی کھیل خطرناک اور ظالمانہ بھی ہوتے۔ جہاں غلاموں کو بھوکے شیروں کے آگے ڈال دیا جاتا۔ تاہم کئی کھیل بے ضرر اور لوگوں کو آپس میں مل بیٹھنے اور معاشرتی روابط کو بحال کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتے۔
کئی ممالک میں کشیدگی کا خاتمہ کھیلوں کے ذریعے بھی ہوتا۔ یہ سپورٹس ڈپلومیسی کہلاتا ہے۔ اسکی مثال بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدہ حالات میں کرکٹ میچز کی نظر آتی ہے جو دونوں ممالک کو قریب لانے میں مددگار ثابت ہوتے رہے ہیں۔ یہی حال جنگِ عظیم دو کے بعد جرمنی فرانس اور دیگر یورپی ممالک کا رہا ہے جہاں سپورٹس ڈپلومیسی نے دشمن ممالک کو ایک دوسرے کے قریب کیا۔
آج سپورٹس انڈسٹری دنیا کی بہت بڑی انڈسٹری تصور کی جاتی ہے اور سالانہ اس سے 500 ارب ڈالر سے زائد ریونیو اکھٹا ہوتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت آج شائقین گھروں میں بیٹھ کر اپنے ٹی وی سکرینز اور موبائل فونز پر براہ راست کھیلوں کے مقابلے دیکھتے اور محظوظ ہوتے ہیں۔
کھیل اب روایتی میدانوں سے نکل کر ویڈیو گیمز اور ورچوئل رئیلٹی کی صورت بھی آ چکے ہیں۔ اس سے آگے کھیل کیسےہونگے؟اگر ہم مستقبل کا نقشہ کھینچیں تو مستقبل میں انسان زمین کے ساتھ ساتھ خلا میں بھی کھیل کھیلیں گے۔
حالیہ برسوں میں ناسا کے مستقبل کے منصوبوں میں چاند پر کالونی بنانے کا منصوبہ سب سے اہم ہے۔ آرٹیمس پراجیکٹ کے تحت اسی دہائی میں چاند پر بیس بنائی جائے گی جہاں کئی ماہ تک خلاباز رہیں گے۔ خلا میں کھیل کا خیال نیا نہیں۔ انٹرنیشنل سپیس سٹیشن جو پچھلے پچیس سال سے خلا میں انسانوں کا مستقل مسکن رہا یے وہاں بھی خلاباز فارغ اوقات میں کھیل کھیلتے ہیں۔ان میں اکثر بورڈ گیمز ہوتی ہیں تاہم کئی خلاباز ماضی میں انٹرنیشنل سپیس سٹیشن پر منفرد طریقوں سے روایتی کھیل جیسے کہ باسکٹ بال، فٹبال، جمناسٹک وغیرہ کھیلنے کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔
1971 میں اپالو مشن کے دوران لوہے کی گالف بال کے ساتھ گالف کھیلی گئی جو بال کو ہٹ کرنے پر زمین کے مقابلے میں بے حد دور جا گری کیونکہ چاند پر گریوٹیی زمین سے چھ گنا کم تھی۔
ایسے ہی چاند پر دو مشنزمیں مون بگی چلائی گئی۔ تو کیا وہاں مستقل میں بگی کی ریس ہو سکے گی؟ جیسے زمین پر فارمولہ ون ہوتی ہے؟ یہ نہایت دلچسپ خیال ہے۔
چونکہ چاند پر گریوٹیی زمین سے چھ گنا کم ہے تو وہاں کرکٹ کس قدر دلچسپ ہو سکتی ہے؟ شاہد آفریدی اگر چاند پر چھکا مارے تو گیند کئی کلومیٹر دور گرے گی۔ یقیناً چاند پر شعیب اختر کا باؤنسر کئی میٹر اوپر جائے گی۔ ایمپائر شاید شعیب اختر کو باؤنسر کرنے سے روکے کہ ہر گیند نو بال ہو گی۔ یا پھر کرکٹ کے قوانین چاند پر تبدیل کرنا پڑیں گے۔ 🙂
ایسے ہی خلا میں کئی دیگر کھیل نہایت دلچسپ ہو جائیں گے۔ اور پھر ان کھیلوں کو دیکھنے کے لیے کس قدر لوگ ہونگے۔ کس قدر پیسہ بن سکے گا۔ ممکنات کی دنیا میں مستقبل میں انسان ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر یہ سب کر دکھائیں گے۔
وہ وقت دور نہیں کہ سپیس گیمز یا خلا میں ہونے والے کھیل روزمرہ تفریح کا حصہ ہونگے۔ چاند پر اور مریخ پر اولمپکس ہوا کریں گے۔ خلا میں کھیلوں کے مقابلے ایک منافع بخش انڈسٹری بن جائیں گی۔خلا میں کھیلنے والے کھلاڑیوں کو ایسٹرولیٹس کہا جائے گا جو پیشے کے اعتبار سے ایتھلیٹ مگر دراصل انکی صلاحیتیں اور ٹریننگ خلابازوں کی سی ہو نگی۔
ان کھیلوں سے ہم زمیں زاد نہ صرف محظوظ ہو پائیں گے بلکہ ان سے حاصل ہونے والے ڈیٹا سے ہم بہتر طور پر انسانوں کی دوسری دنیاؤں پر رہنے کی صلاحیت کو بھی جانچ سکیں گے۔جس طرح تاریخ میں کھیلوں نے انسانوں کو زمین پر اکھٹا کیا ایسے ہی خلا میں بھی یہ انسانوں کو اور قوموں کو ایک کرنے میں مدد دیں گے۔ یہ انسانیت کی ایک اور جیت ہو گی۔
ڈچ سائنسدان کی پاکستان میں زلزلوں کی پیشن گوئی کی کیا حقیقت ہے؟
جدید سائنس زلزلوں کی بر وقت پیشن گوئی نہیں کر سکتی نہ ہی یہ بتا سکتی ہے کہ زلزلہ کس...