ہمارے ہاں جنوں، بھوتوں، پریوں اور دیوؤں کی کہانیاں بچپن سے گھول کر پلائی جاتی ہیں۔ جب ہم بڑے ہوتے ہیں تو ان تمام کو اصل سمجھتے ہیں۔ ماضی میں انسان کو دماغ کی پیچیدگیوں اور بیکٹریاز ، وائیرس وغیرہ کا علم نہیں تھا۔ بظاہر نہ نظر آنے والے ان عوامل اور جرثوموں سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو بھوت پریت سے جوڑا جاتا ۔ ترقی یافتہ ممالک میں جدید طبی و نفسیاتی طریقہ علاج سے وہاں بستے لوگوں نے جنوں بھوتوں سے چھٹکارا پا کر انسانوں کو صحت یاب کیا۔ آپ مانیں یا نہ مانیں یہ طریقہ کسی بنگالی بابے کے جن نکالنے کے طریقے سے کئی گنا موثر ہے۔ ہمارے ہاں البتہ ڈنڈوں، سوٹوں، پھونکوں سے بھوت پریت نکلنے کی بجائے ہمارے دماغوں سے عقل ضرور نکل گئی ہے۔
اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپکو معلوم ہو گا کہ جو ممالک آج ترقی یافتہ ہیں، ماضی میں یہاں بھی جنوں بھوتوں کو نکالنے کے لیے بڑے بڑے پادری، پیشوا پیش پیش رہتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جب سائنس کا علم ان معاشروں میں بڑھتا گیا تو یہ تصورات باطل ہونے لگے۔ آج بھی مغربی ممالک میں ایسی توہمات اور مخلوقات کے “علم” میں پھنسے اور ان سے زندگی کے ناخوشگوار واقعات کو نتھی کرنے والے کئی لوگ ملیں گے مگر عموماً اب ترقی یافتہ ممالک میں ان سب کو مذاق سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔
دراصل خوف وہ انسانی رویہ ہے جسکے باعث ماضی میں انسان ان تمام خرافات پر یقین کرتا آیا ہے۔ مگر خوف ہے کیا؟
اگر اپ نے کبھی جہاز میں پہلی بار سفر کیا ہو اور ہوا میں اُڑتے ہوئے جہاز ہلنا شروع کر دے تو آپ کو ایک خوف آئے گا۔ ہوا میں ائیر پاکٹس ہوتے ہیں۔ یوں سمجھیں کہ جیسے پانی میں تلاطم آتا ہے، ہوا میں بھی تلاطم آتا ہے۔ جہاز جب ہوا میں اس تلاطم سے گزرتا ہے تو ہلتا ہے۔ ویسے جیسے زمین پر کسی خراب روڈ پر گاڑی کھڑکتی ہے۔ لیکن جہاز بنانے والے اور پائلٹس یہ جانتے ہیں کہ جہاز کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ جہاز کا ڈیزائن اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ وہ اس تلاطم سے باحفاظت گزر جاتا ہے۔ تو اگر اپکو جہاز میں بیٹھنے سے پہلے یہ معلوم ہو کہ جہاز کو اس طرح سے بنایا جاتا ہے کہ اس سے ہونے والے حادثات زمین پر روڈ پر چلتی گاڑیوں کے مقابلے نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں تو یہ سب جان کر آپکو دورانِ پرواز جہاز کے ہلنے یا پرواز کا خوف نہیں رہے گا۔ سو خوف کو کس شے نے ختم کیا؟ علم نے!!
کسی شے کا خوف دراصل علم نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ نفسیات میں کسی شے کی سورس کو جان کر اسکا تدارک کیا جاتا ہے۔ خوف کی وجہ جان کر اس سے جان چھڑائی جاتی ہے۔
بالکل ایسے ہی خوف کی بنیادوں پر ماضی کے کئی عقائد استوار ہیں۔ جن میں ماضی میں انسان جنوں بھوتوں، پریوں اور دیوؤں اور جادو ٹونوں کو اپنی زندگی میں
ہونے والے برے واقعات سے جوڑتا رہا ہے۔ تو کیا ہم
ماضی کے ان بچگانہ خیالات کو چھوڑ کر جدید سائنس کے بارے میں سیکھ سکتے ہیں اور اپنی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں یا ہمیں جاہل، منہ سے جھاگ نکالتے، ٹوکے کھڑکاتے ان پڑھ اور آدھے دماغ کے لوگوں سے ڈنڈے سوٹے کھاتے رہنے کا شوق ابھی ختم نہیں ہوا؟ ہماری آئندہ نسلوں نے بھی کیا دولو شاہ کے چوہے بن کر زندگی بسر کرنی ہے؟ یا ہم انہیں علم کی راہ پر گامزن کر کے خوشگوار زندگی کا قیمتی تحفہ دے سکتے ہیں۔
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...