کوٹ رادھا کشن کی مسیحی عورت
حمزہ عباسی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ پاکستان کے پاسپورٹ پر کوئی تھوکتا تک نہیں. تو ہر جگہ شور پڑ گیا کہ حمزہ عباسی نے یہ کیا کہہ دیا. میں اتنا کہتا ہوں کہ پاکستان کے پاسپورٹ پر تھوکتا کوئی نہیں موتتا(پیشاب کرتا) ہر کوئی ہے.
اقلیتوں کو پاکستان میں کوئی حقوق حاصل نہیں خیر اقلیتوں کو چھوڑو پاکستان میں تو کسی کو بھی کوئی حقوق حاصل نہیں. جس ملک میں مفکر پاکستان کے فرزند نے سوال کا جواب دینے کی بجائے یہ کہہ دیا کہ دیکھیں میں نے پاکستان میں زندہ رہنا ہے اس لئے میں کھُل کر اپنی رائے پیش کرنے سے قاصر ہوں اس ملک میں عام عوام کو جو حقوق حاصل ہوں گے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں.
قصور کی تحصیل کوٹ رادھا کشن میں مظلوم مسیحی خاندان کا زمینی تنازعہ چلتا رہا. فیصلہ مظلوم مسیحی عورت کے حق میں آگیا. یہ مسیحی خاندان تین افراد پر مشتمل تھا. جس میں ایک غریب مسیحی عورت اس کا خاوند اور اس کا اکلوتا بیٹا شامل ہیں. خاوند معذور تھا چلنے پھرنے سے قاصر. پیچھے ایک عورت اور اس کا اکلوتا بیٹا بچتے تھے. جب فیصلہ ان کے حق میں آگیا تو حریف پارٹی نے سمجھ لیا کہ اب اور تو کچھ ہونے والا نہیں چلو ان کی اکلوتی اولاد کو قتل کر دیا جائے. تاکہ نہ رہے گا بھانس نہ بجے گی بانسری. تاکہ پیچھے مظلوم عورت رہ جائے. خاندان میں چلنے کے قابل مرد ہی نہ بچے اور یہ والدین سسکتے رہ جائیں. وہی ہوا فیصلہ آنے کے اگلے روز غریب مسیحی عورت کی اکلوتی اولاد کو ماں اور باپ کے سامنے سر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا. والدین بیچارے بے بس ہو کر اپنی اولاد کو قتل ہوتا دیکھ کر بے بسی کی تصویر بنے دیکھتے رہے.
مظلوم مسیحی عورت اکلوتی اولاد کے قتل کا مقدمہ لے کر کوٹ رادھا کشن کے تھانے گئی. جہاں اس کی فریاد کسی نے نہیں سنی. پھر بیچاری ضلع کی عدالت سے لے کر تھانہ کے چکر لگاتی رہی. اسی اثناء میں گیارہ مہینے گزر گئے مگر کسی نے نہیں سنی. یہاں تک کہ گیارہ ماہ میں ایف آئی آر تک نہیں کاٹی گئی. اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ کسی کی اکلوتی اولاد کو قتل کر دیا جائے اور وہ ایک رپورٹ تک نہ درج کروا سکے. آخر کار یہ مظلوم مسیحی عورت لاہور ہائی کورٹ کے دروازے پر دستک دینے پہنچی جہاں اس کی شنوائی فرشتہ صفت وکیل شفیق بلوچ صاحب نے کی. شفیق صاحب شفیق اور معتبر انسان ہیں. لاہور ہائی کورٹ میں پہلے بھی ایسے مقدمات کی پیروی میں پیش پیش رہے ہیں. شفیق بلوچ کو تحریک لبیک کی مقامی قیادت کی طرف سے دھمکیاں دی گئیں ہیں مگر انہوں نے اس سے ڈرنے کی بجائے اور زیادہ قوت کے ساتھ سامنے کا فیصلہ کر لیا. پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کے نمائندگان اور دوسرے چینلز وغیرہ کو مطلع کیا. انٹرویوز دئیے. مگر بے حد افسوس کی بات ہے کہ کسی چینل نے بھی اس کالعدم تنظیم کے خلاف کوئی بات نہیں چلائی بلکہ ان کا نام تک نہیں لیا.
یہ مقدمہ پاکستان کے پولیس کے ادارے کے خلاف سوالیہ نشان ہے. کہ یہاں انصاف کا نظام ناپید ہے. اکلوتی اولاد کے قتل کا مقدمہ تک درج کرنے کو تیار نہیں. پوری ضلعی انتظامیہ سو رہی تھی کیا. اس مسیحی عورت کی بات نہیں. یہ بائیس کروڑ عوام کی بات ہے. کروڑوں لوگ کیا اس مملکت خداداد میں محفوظ ہیں جہاں اندھیر نگری چوپٹ راج کے مصداق بس نظام چل رہا ہے.
یہاں یہ حالت ہے کہ مسیحی عورت کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں. اور اس کے وکیل صاحب کو بھی جان سے مارنے کی دھمکیاں تک دی گئیں. مگر لاہور ہائی کورٹ کا وکیل کوشش کے باوجود میڈیا سے گفتگو میں نام لینے کے باوجود اپنی آواز سب تک پہچانے میں ناکام ہے. کیونکہ ہر کسی کو جان پیاری ہے جیسے ابتدا بتا چکا ہوں کہ فرزند اقبال نے گورنر پنجاب کے قتل رائے دینے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ اس کو اس مملکت میں زندہ رہنا تھا. تو ایسے شفیق بلوچ صاحب کی ہمت کو داد دیجئے کہ وہ پھر بھی کھُل کر مقدمہ لڑنے کے لئے آمادہ ہوئے ہیں.
ظفر اقبال کی شاعری میں فنی اور لسانی خامیاں
ظفر اقبال کی شاعری اردو ادب میں جدیدیت اور انفرادیت کی مثال سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں جدید...