اگر آپ فلمسٹارمنورظریف کی قبر پر فاتحہ خوانی کی نیت سے بی بی پاک دامن کے قبرستان میں ہیں اور دعاکرلینے کےبعد ایک نظر باقی اہالیانِ قبرستان پربھی ڈال لیتے ہیں تو ایک اورکتبہ آپ کو اپنی طرف متوجہ کرتاہے
پاکستان آرٹلری کےمیجرضیاءالدین اوپل شہید
تاریخِ شہادت 17 ستمبر1965
مقامِ شہادت واہگہ لاہور
تھوڑی سی تصیح کے ساتھ آپ لاہور کے محاذ پر واہگہ سیکٹر میں شہید ہوئے، اور مقامِ شہادت تھا بی آربی نہر سے تھوڑا آگے مشرقی سمت ایک گاؤں ڈوگرئی
وہی ڈوگرئی جس پر6 ستمبر کی سہ پہر ہندوستانی 3 جاٹ چڑھ دوڑی تھی وہی ڈوگرئی جسےبریگیڈیئرقیوم کےبائیس بریگیڈ نے8 ستمبرکو واپس چھین لیاتھااور وہ بھی کچھ اس شان سےکہ (شوکت رِضاکے الفاظ میں) ہدف پرپیش قدمی کےدوران بریگیڈیئر قیوم شیر کی جیپ سب سےآگے تھی
اب کیسےممکن تھاکہ اپنےکمانڈرکوہراول دستےمیں دیکھ کرسپاہی حقِ نمک کی ادائیگی میں کوتاہی کرجاتے یہاں ہم وقت کےپہیےکوتھوڑاتیزگھماتےہیں
ستمبرکےدوسرےہفتےکا آخرہےاورلاہورکےمحاذپرجنگ بندی کی تجویززیرِغورہے
جی ٹی روڈپرہندوستانی سپاہ بی آربی کےپل سے کوسوں دورپڑاؤ ڈالےپڑی ہے۔ لاہور13میل دوروالا سنگِ میل پاکستانی دفاع کاحصہ ہے، اورہندوستانی سپاہ کو احساس دلارہا ہےکہ ہنوزدلی دور است بات کچھ یوں ہےکہ فوجیں جنگ بندی کےدنوں میں ایڑی چوٹی کا زورلگادیتی ہیں کہ جسقدرزمین پرقابض ہوسکتی ہیں ہوجائیں
19ستمبرکوہندوستانی جرنیل اسی نیت سےمل بیٹھےتوڈوگرئی پر حملےکی تجویزلائے
3جاٹ ایک دفعہ ڈوگرئی کاچکرلگاآئی تھی سواس پلٹن کوایک مرتبہ پھرڈوگرئی پرحملےکی ذمہ داری سونپی گئی 8ستمبرکوڈوگرئی پرقابض ہونےکےبعداب وہاں آگےکےمورچوں میں پاکستانی 16پنجاب کی دوکمپنیاں تھیں اورانہیں 23کیولری کےٹینک سکواڈرن کی مددحاصل تھی
یہ ڈوگرئی کی دفاعی جنگ تھی جسےلڑتےہوئے16/17ستمبرکی درمیانی شب بی بی پاک دامن میں سپردِخاک توپخانےکےمیجراوپل گولہ باری کےدوران شہیدہوگئےتھے
14 ستمبرکےبعدسے ڈوگرئی کے محافظ ہندوستانی توپخانے اور بڑے ہتھیاروں کے مستقل فائرکی زد میں رہےاور روزانہ کی بنیادپر زخمیوں اور شہداء کی صورت میں لڑنے والی نفری کم ہوتی رہی۔ 16 پنجاب کےکمانڈنگ آفیسرکرنل گولوالہ نے 17 ستمبرکو بریگیڈ میں درخواست کی تھی کہ کچھ عرصےکےلیے جنگی تھکاوٹ کا شکار ان کی یونٹ کو دوسری پلٹن سے تبدیل کیا جائے تاکہ جوانوں کے تھکے اعصاب کو کچھ سکون میسرآسکے۔ جنگی افراتفری کاشکارایک گرم محاذِ جنگ پر تمام پلٹنیں ایک ہی طرح کی بیٹل فٹیگ کا شکارتھیں سو یہ درخواست اپنے منطقی انجام کو پہنچی یعنی رد کردی گئی 16پنجاب کی جنگی ڈائری ہمیں 18ستمبرکااحوال بتاتی ہے
رجمنٹ ہندوستانی فضائیہ، توپخانےاورٹینکوں کےلگاتارفائرکی زدمیں تھی
اگلےمورچوں تک کھانےاورپانی کی فراہمی بھی زمین پررینگ کرہی ممکن تھی
اسی دن پلٹن کواندازہ ہوگیاتھاکہ دشمن ان کےمورچوں پرایک بڑے حملےکی تیاری میں ہے 16پنجاب کےمورچوں پرہندوستانی حملہ 21/22ستمبرکی درمیانی رات آپہنچا
پہلےمرحلےمیں ہندوستانی 13پنجاب اور 15ڈوگرہ اگلی کمپنیوں بالترتیب ایلفااور براوو پرحملہ آورہوئیں
اس خون پسینے سےبھیگتی رات میں 16پنجاب کی دوکمپنیوں نے ہندوستان کی دوبٹالین کےسامنےسےآئےحملےکو اپنے دم خم پر روک لیا جنرل محمودستمبرکی جنگ پر اپنی کتاب میں بتاتے ہیں کہ اس پلٹن نے نزدیک پہنچ جانےوالےحملہ آوروں پر ہینڈگرینیڈ کےکاری وارکیےکہ اس ناکام ہوجانےوالےحملے میں 13 پنجاب اور 15 ڈوگرہ کےفوجیوں کی لاشیں مورچوں سےدس سےپندرہ گزکی دوری پر بکھری پڑی تھیں
حملےکےپہلےمرحلےکوکامیابی سےروک لینےکےبعد کرنل گولوالہ کو اصل جھٹکا اسوقت لگا جب انہیں معلوم ہوا کہ اگلی کمپنیوں کے بائیں بازوکی حفاظت کےلیے23 کیولری کی بی سکواڈرن کےٹینک محاذِجنگ سےغائب ہیں
میجرنذرکی کمان میں وہاں اسوقت سات ٹینک ہونے چاہیے تھے مگر نہ وہاں میجر نذر تھے اورنہ ہی 23 کیولری کے ٹینک ٹینکوں کا کھوج لگانےہمیں ذراپیچھےکی تاریخوں کوپلٹناپڑےگا
11/12 ستمبر کی رات 23 کیولری کےبی سکواڈرن کمانڈرمیجرسرور کاٹینک جی ٹی روڈ پر پیش قدمی کے دوران دشمن کی ٹینک شکن سکرین سے جا ٹکرایا اور فائر کی زد میں آکر تباہ ہوگیا
کمانڈر میجرسرور سمیت ٹینک کا عملہ شہید ہوگیا
اس چارٹینک پر مشتمل سکواڈرن کی کمان کیپٹن افتخار کے حصے میں آئی مگر وہ بھی میجر اوپل سے ایک رات پہلے توپخانے کی گولہ باری میں شہید ہوگئے۔ 16 ستمبرکو میجرباری آئے اور 19 ستمبر کو ایک گولےکے ٹکڑے سے زخمی ہونےپراسپتال جا پہنچے۔ 20 ستمبر کو جس رات ہندوستانی سپاہ نے حملہ آور ہونا تھا میجرنذرکوحکم ملاکہ اپنےٹروپ کےتین اورہیڈ کوارٹرکےدو ٹینک لے کربی سکواڈرن کی کمان سنبھالیں جس کےصرف دوٹینک بچےتھے
ٹینکوں کی اس فوج نے 16پنجاب کی دفاعی کمپنیوں کےبائیں بازوپر موجودخلا کوپرکرناتھا۔ مگر نامعلوم وجوہ کی بنا پر میجر نذر ٹینکوں کو ڈوگرئی سے ہٹاکر جہاں کہ حملہ آرہاتھاشمال میں بھاسن گاؤں کی طرف لےگئے
16پنجاب کےتابوت میں یہ پہلی کیل تھی جومیجرنذرنےحملےکی رات ٹھوک دی
دوسری کیل 12پنجاب کی ڈیلٹاکمپنی نےٹھوکنی تھی جو 16پنجاب کےمورچوں کےپیچھےدفاع لیےہوئےتھی
حملےکی رات جب پہلےمرحلےکازورٹوٹ گیااورکرنل گولوالہ کوٹینک کہیں نظرنہ آئے تو رات کےایک بجےانہوں نےلیفٹیننٹ افتخار کوٹینکوں کی فائری مدد کی درخواست کےساتھ بریگیڈہیڈکوارٹر دوڑایا اورساتھ ہی ساتھ اپنےپیچھےگہرائی میں دفاع لیے ہوئے 12 پنجاب کی ڈیلٹا کمپنی کو اپنےبائیں بازو میں ایک فائٹنگ پٹرول بھیجنےکاحکم دیا تاکہ دشمن کووہاں سےحملہ کرنےکا راستہ نہ مل سکے ٹینکوں نے نہ آنا تھا نہ آئے مگر ڈیلٹا کمپنی کمانڈر نے بھی نامعلوم وجوہ کی بنا پر فائٹنگ پٹرول نہ بھیجا
حملے کے دوسرے مرحلے میں آنے والی 3 جاٹ جب گہرائی والے دفاع کے دروازے پر دستک دے رہی تھی تو نہ وہاں ٹینک تھے نہ فائٹنگ پٹرول بلکہ پنجابی محاورےکےمطابق رڑا میدان تھا صاحبو مشہورمقولہ ہے کہ قسمت دلیرکاساتھ دیتی ہے۔ بریگیڈ حملے کے دوسرے مرحلے میں ہدف کے پاس پہنچتی 3 جاٹ کے کرنل ڈیسمنڈ ہیڈزکو نہیں پتہ تھا کہ دفاعی سپاہ کے ٹینک محاذ سے غائب ہیں اور دفاعی مورچوں میں ایک بڑاخلا انہیں خوش آمدید کہہ رہا ہے
بریگیڈسےآئے پیغام کےبعد انہیں بس یہ پتہ تھا کہ حملےکاپہلامرحلہ ناکام ہوچکاہے اورانہیں بھی پلٹ جاناچاہیے مگر 22ستمبر کی جوبن پرآئی رات 3جاٹ کافیصلہ تھاکہ اب نہیں تو کبھی نہیں
نتائج کی پرواہ کیےبغیربولےگئے 3جاٹ کےاس دھاوےنے انہیں ڈوگرئی کے مورچےکا تحفہ پیش کردیا سولہ پنجاب کے پیچھے کی دونوں کمپنیاں 12 پنجاب کی ڈیلٹا کمپنی اور 8 پنجاب کی چارلی کمپنی بھاری نقصان کےساتھ نہرکے پار پس قدمی کرگئیں۔
اب جنرل محمود تو کہتےہیں کہ 3جاٹ کو ڈوگرئی پر واک اوور ملا مگرامرندرسنگھ اور جنرل تیجندرشیرگل کی مون سون وار ہمیں 3جاٹ کے حملے کی تفصیل بتاتی ہے کیپٹن کپل سنگھ تھاپا ڈیلٹا کمپنی کے ساتھ حملے میں تھا۔ اس کےسپاہیوں نے اسے تین مورچوں پر دھاوا بولتے دیکھا۔ ابھی وہ بیٹھ کر رائفل کی میگزین تبدیل کرہی رہاتھا کہ چوتھےمورچے سے داغی گولی افسر کے ہیلمٹ اور سرسے پارہوگئ
کیپٹن تھاپا کو بہادری کا اعزاز ویرچکر بھینٹ کیا گیا میجرآساسنگھ تیاگی کےپاس الفا کمپنی کی کمان تھی۔ کہتےہیں کہ حملےکےشروع میں ہی گولی سےزخمی ہونےکےباوجودانہوں نے کمپنی کی کمان جاری رکھی
دوبدولڑائی میں میجرتیاگی کاٹاکراپاکستانی میجرنذر سےہوا۔ نزدیک سےخودکوبھی گولی اورسنگین کازخم لگامگرمیجرنذرکوسنگین کے بھرپور وار سے شہید کردیا میجر تیاگی کچھ دن بعد 25ستمبر کواسپتال میں جان کی بازی ہارجائیں گےاور بہادری کااعزازمہاویر چکرپائیں گے۔ مگرمیدانِ جنگ میں جس پاکستانی افسر سےان کاٹاکراہوا وہ میجرنذرنہیں تھےکہ میجر صاحب اور انکے ٹینک تومحاذ سے غائب تھے
گمان غالب ہے کہ یہ 8 پنجاب کے کیپٹن مظہرحسین شاہ شہید تھے 22 ستمبرکاسورج جب طلوع ہوا تو 16پنجاب کی دوکمپنیاں دونوں طرف سےدشمن سےگِھرچکی تھیں۔ ان کےسامنے 13پنجاب اور 15ڈوگرہ کی فوج اور 14ہارس کےٹینک تھے اور پیچھے 3 جاٹ کے جوان 16 پنجاب کے کیپٹن ناصرنواز جنجوعہ جب پیچھے کی خبر لینے پلٹے تو نہ انہیں 8 پنجاب ملی اور نہ 12 پنجاب کے سپاہی بلکہ ان کا ٹاکرا ہوا 3 جاٹ سے۔
کیپٹن جنجوعہ ہاتھ آئے ڈرائیوروں اور گنتی کے سپاہیوں کے ساتھ تین جاٹ سے بھڑتے بھڑاتے کسی طرح نہر کے پار نکل آئےاور بریگیڈ ہیڈکوارٹر کو صورتحال سے آگاہ کیا مگر تب تک دیر ہوچکی تھی 22ستمبرکےطلوع ہوتے دن میں 16 پنجاب کے جوانوں نے ایک سناٹے کے عالم میں سامنے سے آتے 14 ہارس کے ٹینکوں کی مشین گنوں کو آگ اگلتے اور اپنے پیچھے 3 جاٹ کو ڈوگرئی گاؤں کی چھتوں سے اندھا دھند فائر گراتے دیکھا۔ کرنل گولوالہ نے ہتھیارڈالنے پر لڑمرجانے کو ترجیح دی پلٹن کے جوان جن کے پاس راکٹ لانچر تھا ایک جنون کے عالم میں آخری نعرہ بلند کرتے مورچوں سے باہر آئے۔ اس سے پہلے کہ وہ ٹینکوں کا نشانہ باندھتے 14 ہارس کی آگ اگلتی مشین گنیں انہیں چاٹ گئیں۔ رائفل بردار ایک الہامی سکون کے عالم میں سنگینیں سنبھالے آخردم تک مورچے میں دبکے رہے اور عین وقت پر حملہ آوروں کے سامنے نکلےکہ اگر جائیں تو ایک دو کو ساتھ لیتے ہوئے جان جانِ آفریں کے سپرد کردیں۔
جو سامنے کے ہلے سے بچ گئے انہیں پیچھے بیٹھی پلٹن کے فائر نے آلیا
22 ستمبر 1965 صبح کے آٹھ بجے 16 پنجاب کی لڑائی اپنے اختتام کو پہنچی میدانِ جنگ میں بکھرےچھپن شہداء کےجسدِ خاکی میں لیفٹینٹ محمداختر تھےجن کی سروس ابھی چند دن کی تھی
ساتھ ہی کیپٹن صغیراحمد تھےجنہیں بعدازشہادت بہادری کااعزاز ستارۂ جرأت دیاگیا
لگ بھگ چالیس زخمیوں سمیت سترسپاہی قیدی بنالیےگئےجن میں زخمی حالت میں کرنل گولوالہ بھی شامل تھے
22ستمبرجس دن کہ ڈوگرئی پاکستان کےہاتھ سےگیا اقوامِ متحدہ کی قراردادکےمطابق اسی دن دوپہربارہ بجےفائر بندی پر عمل درآمد ہونا تھا۔ ہندوستان کے اصرارپر یہ مدت 23ستمبرکی صبح 3بجےتک بڑھادی۔ پاکستانی دس ڈویژن کمانڈرجنرل سرفراز کوفائربندی پرعملدرآمد میں ہوئی اس تاخیرکی کسی نےاطلاع نہ دی نتیجتاً 22ستمبرکوایک عجلت کےعالم میں دن کی روشنی میں ڈویژن ریزرو ڈوگرئی پرجوابی حملےمیں جھونک دیےگئے
جوابی حملےکی یہ فوج جو 1بلوچ رجمنٹ اور 23کیولری کےٹینکوں پر مشتمل تھی جب واہگڑیاں کی جمع گاہ میں پہنچی تو ان پر توپخانے اور ٹینک شکن ہتھیاروں کا کارگر فائر آیا حملہ آورفوج نےایک مستقل مزاجی سےاگلےمورچوں تک پہنچنےکی کوشش کی مگرایک افسرسمیت 33سپاہیوں کی شہادت اورچارٹینک گنوانےکےبعدپسپاہوگئی۔ ڈوگرئی پرجوابی حملہ ناکام ہوگیاتھا
اگرآپ راولپنڈی سےکوہاٹ کےمسافرہیں توکوہاٹ شہرمیں داخل ہونےسےکچھ پہلےروڈ کےاطراف بابری بانڈہ کی بستی سےگزرتے ہیں یہاں قبرستان میں ایک کتبہ 1بلوچ کےکیپٹن ظہورالاسلام آفریدی ستارۂ جرات کی شجاعت کی داستان سناتاہے
کیپٹن آفریدی 22ستمبرکی صبح ڈوگرئی پرجوابی حملےکی قیادت کرتےہوئےشہیدہوئےتھے
ہماری داستان لاہورمیں بی بی پاک دامن سے شروع ہوکر بابری بانڈہ کےقبرستان آپہنچی ہے
مگرذراایک پل کوٹھہریےکہ کچھ کہی ان کہی باتیں تورہی جاتی ہیں
جنگ کےخاتمےپر16پنجاب رجمنٹ کی اعزازی رول پر 106 نام تھے۔ یہ کسی بھی پاکستانی پلٹن کاجنگ میں سب سےزیادہ ہونےوالا جانی نقصان ہے
16پنجاب میں غازیانِ ڈوگرئی کی یادگار اپنےان سپوتوں کویادکرتی ہےجوستمبرکی جنگ کےاختتام پرڈوگرئی کی لڑائی میں کام آئے 3 جاٹ کے جوان اب بھی جب مل بیٹھتے ہیں تو ہریانوی زبان میں ڈوگرئی پر حملے کی کتھا دوہراتے ہیں
کہے سنے کی بات نہ بولوں، گاؤں دیکھی بھئی
تین جاٹ کی کتھا سناؤں، سن لے میرے بھائی
اکیس ستمبر رات گھنیری، حملہ جاٹوں نے ماری
دشمن میں مچ گئی کھلبلی، کانپ اُٹھی ڈوگرئی
ڈوگرئی کےمحاذپرلڑنےوالوں میں ۳ جاٹ کےکیپٹن ہریندرکمار جاہ بھی تھے
وہ فائر بندی کے بعد ہونے والی اپنے کمانڈنگ آفیسر کرنل ڈیسمنڈ ہیڈ کی 3 بلوچ کے سی او کرنل تجمل ملک سے ملاقات کا ذکرکرتےہیں جو بی آربی نہرکے کنارے پرہوئی تھی وہاں جاٹوں کی مستقل مزاجی اور 16 پنجاب کی دلیر شکست کا ذکر بھی آیا تھا اور عمدہ فوجی روایت کی پیروی میں ایک دلیری سے لڑی گئی لڑائی کے خاتمے پر دونوں فریق خوشدلی اور خوش مزاجی سےہاتھ ملا کر رخصت ہوئے تھے
___