لاہور کی بادشاہی مسجد میں رکھے تبرکات:
※ ان تبرکات میں رسالت مآبؐ محمد مصطفیٰﷺ کا عمامہ، ٹوپی، نعلین مبارک، جبّہ، قدم پاک کا نقش، اسلامی پرچم شامل ہے۔
※ حضرت علیؓ کا تحریر کردہ سپارہ جو خط کوفی میں ہے۔
※ حضرت بی بی فاطمہؓ کا رومال، جائے نماز اور حضرت امام حسینؓکا عمامہ،
※ حضرت غوث الاعظمؒ کا عمامہ اور جائے نماز کے علاوہ متعدد دیگر متبرک اشیا محفوظ ہیں۔
بادشاہی مسجد لاہورچھٹے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیرنے بنوائی تھی،اس کی تعمیرمئی1671ءمیں شروع ہوکراپریل 1673ءمیں مکمل ہوئی،تعمیرِمسجد کی دیکھ بھال اورنگزیب عالمگیر کے رشتہ کے بھائی مظفر حسین (فدائی خان کوکا)نے کی،مظفر حسین1671ءتا 1675ءلاہور کاگورنر رہا،مسجد کو اورنگزیب عالمگیرکے حکم پرقلعہءلاہورکے بالکل سامنے بنایاگیاتاکہ بادشاہ کو آنے جانے میں آسانی رہے،اس بات کے لئے قلعہ میں ایک دروازہ مزیدبنایاگیا جو عالمگیری دروازے کے نام سے منسوب ہے
بادشاہی مسجد لاہور، پاکستان اور جنوبی ایشیا کی دوسری بڑی مسجد ہے۔اسے دنیا کی پانچویں بڑی مسجد میں شمار کیا جاتا ہے، مسجد حرم،مسجد نبوی،مسجد حسن دوئم کاسا بلانکا،فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد اسی کا نمبر ہے ۔فیصل مسجد بننے سے قبل اس کا شمار پاکستان کی سب سے بڑی مسجد میں کیا جاتا تھا۔اس میں دس ہزار نمازی اندر اور دس ہزار صحن میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔یہ 1673 ءسے 1986 ءتک دنیا کی سب سے بڑی مسجد رہی،اس کا صحن دنیا کی مسجدوں میں سب سے بڑا صحن ہے،اس کے مینار تاج محل کے میناروں سے13 فٹ9 انچ زیادہ اونچے ہیں۔مسجد کا صحن 278,784 مربع فٹ وسیع ہے جس میں تاج محل کا پورا پلیٹ فارم سما سکتا ہے۔
اس مسجد کے صدر دروازے کے قریب ایک چھوٹا سا عجائب گھر بھی ہے جس میں حضوراکرمﷺ،حضرت علی رضی اللہ عنہ ،اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے تبرکات رکھے ہوئے ہیں۔
یہ تبرکات بادشاہی مسجد کیسے پہنچے؟
لاہور کی بادشاہی مسجد پاکستان کی دینی و ثقافتی ورثے کی ترجمانی تو کرتی ہی ہے لیکن یہ ہمارے عظیم الشان ماضی کی بھی آئینہ دار ہے۔ شاید بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہو کہ بادشاہی مسجد میں کچھ انتہائ نادر اور مقدس ترین تبرکات بھی محفوظ ہیں۔ان تبرکات میں رسالت مآبؐ کا عمامہ، ٹوپی، نعلین مبارک،جبّہ، قدم پاک کا نقش، اسلامی پرچم، حضرت علیؓ کا سپارہ جو خط کوفی میں ہے۔ حضرت بی بی فاطمہؓ کا رومال، جائے نماز حضرت امام حسینؓکا عمامہ، حضرت غوث الاعظمؒ کا عمامہ اور جائے نماز کے علاوہ متعدد دیگر متبرک اشیا محفوظ ہیں جن کا دیدار کسی بھی مسلمان کے لیے بہت بڑی سعادت ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اشیابادشاہی مسجد کیسے پہنچیں؟اس بارے میں مشہور مورخ سید محمد لطیف نے اپنی کتاب '' تاریخ لاہور'' میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔یہ سلسلہ کچھ اس طرح شروع ہوتا ہے کہ 1401 میں جب امیر تیمور نے دمشق فتح کیا تو وہاں سادات نے دیگر تحائف کے ساتھ کچھ انتہائ متبرک اور نادر اشیا بھی پیش کیں جن کو پاکر تیمور بہت خوش ہوا۔1402 میں والی روم سلطان بایزید نے بھی تیمور کے ھاتھوں شکست کے بعد کچھ تبرکات اس کی خدمت میں پیش کئے۔امیر تیمور یہ تبرکات سمرقند لے گیا۔ امیر کی وفات کے بعد یہ تبرکات اس ے کےوارثوں کی ملکیت میں رہے۔جب بابر نے ہند فتح کرکے یہاں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی تو وہ یہ تبرکات اپنے ساتھ ہندوستان لے آیا۔امتداد زمانہ کے ھاتھوں جب محمدشاہ کی ملکہ پر خستہ حالی کا دور آیا تو اس ملکہ نے یہ تبرکات پیر محمد اور شاہ محمد رضا کے ہاتھ 80 ہزار میں فروخت کر دیئے۔ چنانچہ ان دونوں نے تبرکات باہم تقسیم کر لیے۔پیر محمد ان تبرکات کو اپنے علاقے رسول نگر لے گیا۔جب رسول نگر پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کے والد سردار مہا سنگھ نے حملہ کیا تو یہ تبرکات اس کے ہاتھ لگے۔1769ء کو جب شاہ زمان کے حملے کی افواہ گرم ہوئی تو رنجیت سنگھ نے دوسرے قیمتی متاع و مال کے ساتھ یہ تبرکات اپنی رانی مہتاب کور کے حوالے کر دیئے جو اس نے اپنی ماں سداکور کو دے دیئے۔ یہاں ایک ایسا عجیب واقعہ پیش آیا کہ سکھوں کے دل میں بھی ان تبرکات کے لئے انتہائ احترام پیدا ہوگیا۔ہوا یوں کہ ایک دن اچانک قلعے میں آگ لگ گئی سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا۔ لیکن تبرکات محفوظ رہے حالانکہ تبرکات کے نچلے کمرے میں آتش گیر مادہ پڑا ہوا تھا اس کے بعد سے تبرکات کا احترام سکھوں میں بھی کیا جانے لگا۔جب شاہ زمان واپس کابل چلا گیا تو رنجیت سنگھ نے اپنا سامان مائ سداکور سے واپس مانگا۔ مائ نے باقی سب تو واپس کردیا لیکن یہ تبرکات اپنے پاس ہی رکھے۔مائ کی وفات کے بعد یہ تبرکات شیر سنگھ کے قبضے میں آگئے۔ شیر سنگھ کی وفات کے بعد تمام جائداد کے ساتھ یہ تمام نوادرات سکھوں کی خالصہ سرکار کے قبضے میں آگئے۔ سردار ہیرا سنگھ نے ان کو اپنی حویلی میں رکھا۔سردار ہیرا سنگھ کے قتل کے بعد یہ تبرکات قلعہ لاہور میں دوسرے نوادرات کے ساتھ محفوظ کردئیے گئے۔انگریز دور میں یہ تبرکات مسلمانوں کے حوالے کردئیے گئے۔ یہ تمام تبرکات لاہور کی بادشاہی مسجد کی گیلری میں محفوظ ہیں۔ ایک انتہائ افسوسناک واقعہ یہ ہے کہ31 جولائ 2002 کو یہاں سے کوئ ملعون نعلین پاک کا کچھ حصہ چرا کر لے گیا۔ آج پندرہ سال گزرنے کے باوجود پولیس نہ تو نعلین مبارک کے چوری شدہ حصے برامد کرسکی ہے اور نہ چور پکڑا گیا ہے۔سن 2014 میں محکمہ اوقاف کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ چوری شدہ نعلین مبارک کا حصہ بازیاب کرانے میں مدد کرنے والے کو بیس لاکھ روپے انعام دیا جائے گا لیکن ہنوز یہ بازیابی نہیں ہو سکی ہے۔
اگر آپ کبھی لاہور جائیں تو ان تبرکات کی زیارت کرنا نہ بھولئے .
بادشاہی مسجد آج بھی مغلوں کی عظمت کی گواہی اور جاہ و جلال کی تصویر ہے ۔ مغل فنِ تعمیر کا کمال یہ ہے کہ اس کے چاروں گنبدوں پر چڑھ کر چند کلو میٹر دور مقبرہ جہانگیر کے میناروں کو دیکھیں تو صرف تین ہی مینار نظر آئیںگے چوتھا چُھپ جاتا ہے ۔ اس طرح جہانگیر کے مقبرے سے بادشاہی مسجد کے میناروں کو دیکھیں تو وہاں سے بھی صرف تین ہی مینار نظر آتے ہیں ، چوتھا نظر وں سے اوجھل ہی رہتا ہے۔