میکاولی کو عام طور پر عصر جدید کا پہلا سیاسی مفکر کہا جاتا ہے اور یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے کیوں کہ اس کی تصنیفات میں بعض اہم نظریات ملتے ہیں اور اس کی طرزفکر میں ایسی جدت و ندرت ہے جن کا قرون وسطیٰ میں پتہ بھی نہیں تھا۔ اور جو آج فلسفہ سیاسیات کا اہم قیمتی عنصر ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ارسطو کے بعد وہ پہلا عالم ہے جس نے متجسس دماغ پایا تھا اور جس نے تاریخ اور تجربہ کی روشنی میں سیاست کے اصول و مقاصد کی توضیح و تعین کرنے کی کوشش کی اور مملکت کی بقا اور استقلال کے مسئلے پر خالص ذہنی تحقیق کی۔ اپنی مشہور کتاب “حکمران” (دی پرنس) کے ذکر میں وہ لکھتا ہے کہ میں نے اس بحث پر غور کرنے میں اپنی انتہائی قابلیت صرف کردی کہ حکومت کی حقیقت کیا ہے، اس کی اقسام کیا ہیں، اس کے حصول کی تدابیر کیا ہیں، اور ان اسباب و علل سے بحث کی ہے جن سے وہ قائم رہتی ہے اور جن سے وہ فنا ہو جاتی ہے۔” 10 دسمبر 1513ء کو میکاولی نے اپنے ایک دوست کے نام جو خط لکھا وہ اس کے طرز فکر اور مقصدکو بخوبی واضح کرتا ہے۔ اس نے لکھا کہ: “ادھر شام ہوئی اور میں گھر واپس آیا اور مطالعہ کے کمرہ میں داخل ہو گیا۔ داخل ہونے سے پہلے میں گردوغبار سے اٹے ہوئے دہقانی کپڑے اتار ڈالتا ہوں اور شریفانہ درباری لباس پہن لیتا ہوں۔ جب اس طرح مناسب لباس پہن کر قدیم درباروں میں حاضری دیتا ہوں تو بہت لوگ مجھ سے اخلاق سے پیش آتے ہیں اور مجھے وہ غذا نصیب ہوتی ہے جو مجھے بہت مرغوب ہے۔ میں ان سے اپنے دل کی باتیں کہنے میں ذرا بھی نہیں جھجکتا۔ انہوں نے اپنی زندگیوں میں جو کچھ کیا میں ان سے اس کا سبب دریافت کرتا ہوں اور وہ مجھ پر ایسے مہربان ہیں کہ مجھے سب کچھ بتا دیتے ہیں۔ اس طرح چار گھنٹے گزر جاتے ہیں اور تھکان ہے کہ مجھے چھو بھی نہیں جاتی۔ اتنی دیر کے لیے میں اپنی ساری مصیبتیں بھول جاتا ہوں۔ افلاس کا خیال مجھے پریشان نہیں کرتا۔ موت کے خیال سے بھی مجھے ذرا وحشت نہیں ہوتی۔ اتنی دیر بس ان عظیم الشان ہستیوں کا دھیان میرے ذہن پر پوری طرح چھایا ہوا ہوتا ہے۔ دانتے نے کیا خوب کہا ہے کہ علم کا انحصار ان معلومات پر ہے جو انسان محفوظ رکھ سکے، باقی فضول ہیں، چنانچہ ان عالی مرتبت اشخاص کے ساتھ مکالمہ سے جو کچھ حاصل ہوا وہ میں نے سپرد قلم کر ڈالا، اور اس طرح مملکتوں پر ایک تصنیف تیار کی ہے۔ اس کتاب میں میں نے موضوع کے ہر پہلو سے بحث کی ہے۔ مملکت کیا ہے؟ اس کی کتنی اقسام ہیں؟ وہ کس طرح برقرار رکھی جاسکتی ہے؟ وہ کیوں کر ختم ہوتی ہے؟ اگر اس سے پہلے کبھی بھی تم نے میرے خیالات کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہو گا تو یقین ہے کہ یہ کتاب تمہیں ناپسند نہ ہو گی۔ رہے بادشاہ، خاص کر نئے بادشاہ تو انہیں اس کتاب کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس کتاب کو زیولیانو کے نام معنون کر رہا ہوں۔۔۔ اس مختصر سی کتاب کے پڑھنے سے تمہیں معلوم ہو گا کہ یہ پندرہ برس جو میں نے دستور جہاں بانی کے مطالعہ میں صرف کیے وہ رائیگاں نہیں گئے۔ میں نے اپنا ایک لمحہ ضائع نہیں کیا۔۔۔ میرا افلاس میری ایمانداری کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔” میکاولی کے فلسفہ کا طریق اور اس کا نقطہ مندرجہ بالا اقتباس سے بخوبی عیاں ہو جاتا ہے۔ اس خط سے اس الزام کی حقیقت بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ اس کا منشاکسی کی بے جا خوشامد کے ذریعہ اس کی نظر التفات کو اپنی جانب متوجہ کرنا تھا۔ اس نے شروع میں کتاب کا نام “مملکت” تجویز کیا تھا لیکن حالات کی تبدیلی اور ناسازگاری نے “حکمران” رکھنے پر مجبور کیا۔ جس طرح کتاب کے نام میں تبدیلی ہوتی اس طرح انتساب بھی بدلا یعنی زیولیانو کے بجائے لورنزو دی میڈیچی کے نام سے معنون ہوئی۔ ’’حکمران‘‘ کی بعض ان خوبیوں کا بھی ذکر کر دیا جائے جن کی وجہ سے پڑھے لکھے حلقوں میں اور خاص کر سیاست دانوں اور سیاست سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے ’’حکمران‘‘ آج بھی ایک خاص کشش رکھتی ہے۔ یہ چھوٹی سی کتاب ہے جو میکاولی کی بہت دنوں کی محنت، مسلسل مطالعہ اور غورو فکر کا نچوڑ ہے ۔ حکمران کی پہلی خوبی اس کتاب کا اختصار ہے لیکن مختصر ہونے کے باوجود اس میں ان تمام مسائل پر تبصرہ و تنقید ہے جو آج بھی موضوع گفتگو و بحث ہیں۔ میکاولی کی طرزفکر کے سلسلہ میں دو باتیں یاد رکھنا ضروری ہیں۔ اول یہ کہ اس کے سیاسی نظریات اور طریق فکر نے قرون وسطیٰ کے سیاسی نظام اور نظریات کو بالکل ختم نہیں کردیا۔ وہ اس دور کے سیاسی اور ذہنی طرزفکر کا باغی تھا اور اپنی بغاوت میں کامیاب ہوا لیکن نظریات اور طرزفکر جن کا نمائندہ تھامس اکوئی ناس ہے، وہ اب بھی کلیسائی اورکیتھولک مفکروں کے فلسفہ کی روح ہیں اور اس لحاظ سے یورپ کی موجودہ تہذیب کا اسی طرح ایک جزو ہیں جس طرح میکاولی کا نقطہ نظر اور انداز فکر۔ دوم یہ کی میکاولی احیا اور اصلاح کی ان دوتحریکوں میں سے صرف ایک کا نمائندہ ہے جو عصر جدید کی تہذیب وتمدن، علوم و فنون اور سیاسی اور معاشی نظام کا سنگ بنیاد ہیں۔ میکاولی نہ صرف اپنے دور کی پیداوار تھا بلکہ اس کا حقیقی ترجمان بھی تھا۔ سولہویں صدی کے سیاسی و ذہنی رجحانات کی جیتی جاگتی تصویر ہمیں اس کی تصنیفات میں نظر آتی ہیں۔ ’’مقالات‘‘ اور ’’حکمران‘‘ دونوں میں وہ مذہب کی افادیت اور اہمیت کا اعتراف کرتا ہے اور اس امر پر زور دیتا ہے کہ شہری زندگی کے معیار کو بلند اور برقرار رکھنے کے لیے مذہب کا وجود مفید اور ضروری ہے۔ وہ مقلد اور مذہبی نہیں ہے۔ اس نے اپنے نظریات قائم کیے اور تجربے کی روشنی میں اس نے خود بھی اس بات کا باربار اظہار کیا کہ ’’میں نے پندرہ برس بدستور جہاں بانی کے مطالعہ میں صرف کیے وہ رائیگاں نہیں گئے۔‘‘ اسی لیے اس کی تصنیفات میں جذبات کی روانی اور گرم جوشی کے بجائے عقل اور دماغ کی سنجیدگی اور متانت حاوی ہیں۔ وہ اشیا کی واقعی صداقت کا قائل اور متجسس ہے اور اسی لیے ارسطو کی طرح اپنے نظریات کی تائید میں خشک واقعات اور دلیلوں کا ان گنت انبار لگا دیتا ہے۔ یہ وہ طریق فکر ہے جو قرون وسطیٰ میں مفقود تھا۔ اس کا موضوع فکر ’’مملکت‘‘ تھا۔ اور اس کی اقسام، بقا اور استقلال پر اس نے خالص ذہنی و فنی تحقیق کی اور اس کے ذیل میں سیاست کے مقاصد اور سیاسی زندگی کے محرکات کی تشریح بھی کی۔ دوسرے الفاظ میں میکاولی کو بجا طور پر جدید علم سیاسیات کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ سیاسیات کو مذہب اور اخلاقیات سے جدا کرکے وہ یہ مفروضہ قائم کرتا ہے کہ سیاسی مشورہ اور سیاسی پالیسی کو اخلاقیات سے مقید نہیں کرنا چاہیے اگر سیاسیات کو ایک علم کا درجہ حاصل کرنا ہے تو اس کے اپنے اصول ہونے چاہئیں۔ ارسطو نے یہ نظریہ پیش کیا کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے۔ اور سینٹ تھامس نے یہ نظریہ وضع کیا کہ انسان ایک اخلاقی حیوان ہے۔ لیکن میکاولی کا اولین نظریہ اپنے پیش روؤں کے نظریہ سے آگے جا کر سماجی اور سیاسی تنظیم کی سطح پر بحث کرتا ہے یعنی اس کا نظریہ تمام تر سیاسی زندگی کے حقائق پر مبنی ہے ۔ میکاولی کا نظریہ اخلاقی نوعیت کا ہرگز نہیں۔ اس کے برخلاف یہ محض سیاسی زندگی کی ایک حقیقی تشریح کرتا ہے جو اس زمانے میں موجود ہے جس سے سیاسیات کی ابتدا ہوئی۔ اخلاقیات، جمہوریت اور آزادی کے تصورات کو اسی حقیقت پر مبنی ہونا چاہیے۔ میکاولی کے مطابق سیاست کا تعلق تنظیم سے ہے: سیاسی مقاصد اسی صورت میں حاصل کیے جا سکتے ہیں اور اس سلسلہ میں مناسب وسائل اسی صورت میں کام میں لائے جاسکتے ہیںجب لوگ اس غرض سے خود کو منظم کریں ۔ تنظیم کا بنیادی اصول تقسیم کار (Division of Labour)کا اصول ہے۔ جس طرح فوج کی ذمہ داریوں کو جنرلوں اور عام سپاہیوں کے درمیان تقسیم کیا جاتا ہے اسی طرح سیاسی زندگی میں بھی کچھ لوگ حکومت کرنے کے اہل ہوتے ہیں باقی لوگ وہ ہوتے ہیں جن کی بہت بڑی اکثریت ہوتی ہے جن پر حکومت کی جاتی ہے۔
بھینی ڈھلواں کی یادگار 23 کیولری کے سوختہ جاں شہید
بی آر بی نہر کے ہوم بینک پر اگر آپ بھینی روڈ چھوڑ کر شمال کی نیت کریں تو بھینی...