معشیت اور ہم سب
ہم جس سسٹم میں رہتے ہیں اس سے ہٹ کر نہیں سوچ سکتے وہی ہمارا پیراڈائم ہوتا ھے اسے آپ آئیں اسٹائین کے حوالے کا فریم سمجھ لیجئے سسٹم سے ہٹ کر وہی سوچ سکتا ھے جو اس نظم کا کماحاقہ علم رکھتا ھے وہی پیراڈائم شفٹ کرنے کی صلاحیت کا حامل ہوتا ھے موجودہ نظام معشیت کے گرد گھومتا ھے چناچہ اسکی بہتر تعبیر معاش کے سوا کچھ نہیں مگر ہر زمانے میں نظم کی نوعیت بدلنے سے اس نظام کا پیراڈائم بھی شفٹ ہو جاتا ھے بدل جاتا ھے آج ہمارے ناطے رشتے سے لے کر ہر فعل کا محرک فقط پیسہ ھے آرٹ کی صورت میں بکھرے ہوے خواب بکتے ہیں ہونٹوں کی لالی سے لے کر ویلنٹائن پے دیے گے تحفے تحائف بکتے ہیں گلاب بکتے ھیں جذبے بکتے ہیں دلوں میں جاگے ارماں بکتے ہیں مادر ڈے فادر ڈے پتر ڈے اور نہ جانے کون کون سے ڈے تخلیق ہوے فقط دھندہ کرنے کیلیے یہاں عورت کنواری رہ جاتی ھے تو فقط پیسے کیلیے ہر جرم کی آبیاری ہوتی ھے فقط پیسے کیلیے ایک سے ایک چیز بنائی جاتی ھے جسکی انسان کو ضرورت ہی نہیں ہوتی مسابقت کی منڈی میں بڑے ٹائیکون چھوٹے نوسربازوں کو نگل جاتے ہیں دوائی دارو تک جعلی بناے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ بیمار ہوں تو انکا کاروبار چلے فارماسوٹیکل کمپنیوں کو دوام ملے کھیل کے میدان سے لے کر سیاست کے ایوانوں تک وہاں سے پھر گھر کی دہلیز تک فقط دھندہ ہوتا ھے یہ نظام اپنی اصل میں اس قدر خوفناک اور وحشت زدہ ھے کہ جس نے دھند ہ نہ کیا جو جذبوں کے بیوپار سے غافل رہا وہ کچل دیا گیا ہر جرم ہر طرح کی کریپشن عام ھے فقط اس لیے کہ کمزور انسان اس کے آگے بے بس ہو کر غلط راستہ اختیار کرتا ھے اسے پتہ ھے کہ اس بے حس نظام میں اس کی مدد کسی نے نہیں کرنی حیوانی جذبے دندناتے پھرتے ہیں نیکی اور اچھائی فقط مذاق بن کر رہ گئے ہیں نظام پر لکھنے والے بھی احساس اور جذبوں سے محروم ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے جذبے سلا کر دوسروں کے جذبوں کو اجاگر کرنے نکلتے ہیں فریب کی پٹی آنکھوں پر باندھ کر وہ ہر نیکی کی مخالفت کرتے ہیں جب نیکی کے ساتھ حیوانوں والا سلوک کرو گے تو انسان ناپید ہو جائیں گے کمزور انسان کو نیکی کا ہی سہارا ھے اسکے پاس یہ سہارا باقی رہنے دو نظام کے خلاف بولنے والو حیوان نظام نہیں بدلتے اور انسان بننے کیلیے نیکی ضروری ھے ہمارے رویئے انسانی اصولوں کے مخالف ہیں مگر ہم اس معاشرے انسان کی آبیاری کی بات کرتے ہیں۔