“یار کچھ شرم کرو” اس کے انداز میں ملامت تھی۔
“ کیوں بھئی کیا مسئلہ ہے” مجھے اس کی باتیں بہت کھلتی تھیں۔
“ ابے اپنی عمر دیکھو اور لچھن دیکھو”
“ کیا ہوا میرے لچھنوں کو۔ شریف انسان ہوں ، گھر میں رہتا ہوں، نماز روزے کی پابندی کرتا ہوں”
“ نماز روزے کی پابندی کرتے ہو اور عورتوں کے بارے میں لکھتے ہو”اس نے شرم دلائی
“ بھائی اپنے دور کی عظیم اور مشہور خواتین کے بارے میں لکھنے میں کیا برائی ہے”
“ ٹھیک ہے، لیکن تم تو فلمی اداکاراؤں کے بارے میں بھی لکھتے ہو”
“ تو اس میں کیا برائی ہے۔ کئی فنکاروں کے بارے میں لکھا ہے۔ اداکاروں کے بارے میں ، گلوکاروں کے بارے میں۔ لوگ پسند کرتے ہیں” میں نے صفائی پیش کی۔
“ لیکن تم تو کھلے لفظوں میں عشق کا اعلان کردیتے ہو۔ شمیم آرا کے تم عاشق تھے، مینا کماری کے تم دیوانے ہو۔ بھلا یہ بھی کوئی شرافت ہے” ۔ اس نے مجھے لتاڑا۔
“ تو میاں کیا کوئی قانون پاس ہوا ہے کہ ایک سے زیادہ لوگوں سے محبت نہیں کی جاسکتی”۔ میں نے دلیل دی۔
“ اب تم سے کون بحث کرے۔ کرو جو کرنا ہے” اس نے ہتھیار ڈال دئیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب بھی کسی فلمی شخصیت کے بارے میں لکھتا ہوں وہ مجھ سے یونہی الجھتا ہے۔ میں اپنے “ہمزاد “ کے ہاتھوں بہت تنگ ہوں۔ دراصل میرے آس پاس کا ماحول بہت مولویانہ ہے۔ میرے دوستوں اور رشتہ داروں کی اکثریت بہت اللہ والی ہے اور انہیں میری بہت فکر لگی رہتی ہے کہ میں کن لغویات میں الجھا رہتا ہوں۔ میں اپنے ہمزاد سے زیادہ ان خیرخواہوں سے ڈرتا ہوں۔
میں کئی دنوں سے نرگس کے بارے میں لکھنا چاہتا تھا لیکن مجھے اکثر وبیشتر شمیم آرا، مینا کماری اور دلیپ کمار جیسے مضامین کے طعنے دئیے جاتے ہیں اور میری بے راہروی کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ لیکن کیا کروں دل کے ہاتھوں مجبور رہتا ہوں۔
دراصل یہ جو نرگس سے محبت ہے یہ کسی اور سے محبت ہے۔ ہر وہ لڑکی جو میری یا آپ کی زندگی میں کہیں آئی ہو، اس کی چنچلتا، شوخی، مستی، غمگساری، سادہ دلی، تیزی طراری، ہنس مکھ پن ، دلداری اور دلبری کی جھلک کہیں نہ کہیں نرگس کے کسی کردار میں ضرور ملے گی۔ نرگس کی اداکاری ہر کردار میں اتنی جاندار اور پر اثر ہوتی تھی کہ حقیقت کا گمان ہوتا تھا۔
نرگس کے چہرے کا اتار چڑھاؤ، آنکھوں میں سپردگی، وارفتگی، حسرت ویاس ، آنسواور شوخی کی کیفیت، لبوں کی جنبش، مسکراہٹ، غرض اس کا انگ انگ اس کردار کی ترجماںی کرتا تھا جو نرگس کے قالب میں ڈھلتا تھا۔
ہندوستانی فلمی دنیا کی خاتون اوّل (فرسٹ لیڈی ) بلاشبہ کوئی تھی تو نرگس تھی۔ سن چالیس سے ساٹھ تک کے دور کا تصور ذہن میں آتے ہی میلہ، دیدار، انداز، آگ، برسات، آوارہ، بابل ، جوگن، چوری چوری، شری چارسو بیس اور بے شمار مشہور اور کامیاب فلمیں آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں جن میں نرگس کا نام کامیابی کی ضمانت تھا۔ یہ وہ دور تھا کہ ہندوستانی فلمی صنعت کی مشہور ترین اداکارائیں ہر دوسری فلم میں نظر آتی تھیں۔ مدھو بالا، مینا کماری، نوتن، مالا سنہا، شیاما، سادھنا، وحیدہ رحمان اور آشا پاریکھ وغیرہ نے اپنے فن کے جھنڈے گاڑ رکھے تھے۔ لیکن ان میں نرگس کا نام نمایاں ترین تھا۔
پاک و ہند میں کئی فلمی جوڑیاں مشہور ہوئیں، دلیپ کمار کے ساتھ مدھو بالا کا نام لیا جاتا رہا لیکن جلدی ہی یہ جوڑی ٹوٹ گئی، دلیپ صاحب کا نام پھر کبھی کامںی کوشل تو کبھی وجینتی مالا کے ساتھ لیا جاتا رہا۔ ہمارے پاکستان میں کبھی وحید مراد اور زیبا کی جوڑی مشہور تھی، پھر زیبا کی محمدعلی سے شادی ہوگئی تو علی زیب کی جوڑی نے دھوم مچائی، ندیم اور شبنم کی جوڑی نے بھی کئی کامیاب فلمیں دیں۔ لیکن برصغیر میں اگر کوئی جوڑی ہمیشہ کے لئے مشہور ہوئی وہ تھی نرگس اور راج کپور کی جوڑی۔
لیکن عجیب بات یہ ہے کہ راج کپور سے پہلے نرگس کی کئی کامیاب فلمیں دلیپ کمار کے ساتھ مشہور ہوئیں جن میں میلہ، دیدار اور بابل جیسی فلمیں بھی ہیں۔ اور پھر جب نرگس اور راج کی جوڑی نے آگ، برسات، آوارہ جیسی فلموں سے دھوم مچائی تو محبوب خان کی “انداز “نے ان تینوں کو یکجا کردیا۔ دلیپ کمار اور راج کپور جیسے منجھے ہوئے اداکاروں کے بیچ نرگس نے جس طرح اپنا کردار ادا کیا ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جس طرح وہ دلیپ کے ساتھ پیش آتی ہے اس سے دلیپ کا غلط فہمی میں مبتلا ہوجانا اور پھر راج کپور کی آمد کے بعد اپنی اصل محبت کا اظہار کرنا، اس قسم کی کئی کہانیاں فلمائی جاچکی ہیں لیکن نرگس نے جس طرح اپنا کردار ادا کیا ہے وہ بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔
ابتدائی فلموں میں نرگس پر امیر بائی کرناٹکی اور شمشاد بیگم وغیرہ کی آواز میں گانے فلمائے گئے لیکن جب لتا منگیشکر نے اپنی آواز نرگس کو دی تو ہندوستانی فلمیں صنعت کے خوبصورت ترین گیت وجود میں آئے جنہیں نہ سننے سے جی بھرتا ہے نہ دیکھنے سے۔ آج بھی اگر “ راجہ کی آئے گی برات”، “ گھر آیا میرا پردیسی”، پنچھی بنی اڑتی پھروں مست گگن میں” پیار ہوا اقرار ہوا”، یہ رات بھیگی بھیگی” “ رسیک بلما” جیسے گیت سننے ملیں تو مجھ جیسے گناہگار ایک طرف، اچھے اچھے ثقہ بھی پردے پر سے نظریں نہیں ہٹا سکتے۔
نرگس کی فلمی زندگی کا نقطئہ عروج ہے “ مدَر انڈیا”۔ اس فلم میں نرگس نے جوانی سے بڑھاپے تک جو مختلف کردار نبھائے اور ایک مضبوط عورت کا جو کردار ادا کیا ہے وہ ہندوستان ہی نہیں دنیا بھر کی بہادر عورتوں کا کردار ہے۔ نرگس جس کا اصلی نام
فاطمہ رشید تھا ، اس کردار کے بعد سے “ مدَر انڈیا” کے نام سے ہی پہچانے جانے لگیں اور واقعی انہوں نے حقیقی زندگی بھی اسی پروقار ، پرعزم اور شائستہ طور سے گذاری۔
اور یہ نرگس کا ہی کمال تھا کہ فلمی زندگی ہو یا اصلی زندگی، انہوں نے اپنا ہر کردار بھرپور طریقے سے ادا کیا۔ فلموں سے الگ ہوئیں تو جس طرح انہوں نے اپنے شوہر سنیل دت کا گھر سنبھالا پھر جس طرح بچوں کی تربیت کی ، انہیں بڑا کیا، سماجی کاموں میں سنیل دت کا ہاتھ بٹایا، راجیہ سبھا کی رکن بنیں، کئی فلاحی اداروں سے منسلک رہیں۔ اور ہر کام اسی سنجیدگی اور خلوص سے انجام دیا۔
سچ پوچھئے اگر اصلی اور آدرش بھارتی ناری کا تصور ذہن میں لانا ہو تو میری نظروں میں صرف دو خواتین کے چہرے سامنے آتے ہیں ، ایک اندرا گاندھی اور دوسری نرگس دت۔ یہ دونوں ہندوستانی عورت کی عزم وہمت اور خدمت اور محنت کا استعارہ ہیں۔ نرگس جو ایک بے حد دردمند دل رکھتی تھیں اپنی ساتھی اداکاراؤں کے دکھ درد میں شامل رہتیں۔ ان کی اور مینا کماری کی دوستی بے مثال تھی۔ مینا کماری کی فلم “پاکیزہ” جو کئی سال سے مینا اور کمال امروہوی کے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے بند پڑی تھی وہ نرگس اور سنیل دت کے کہنے پر ہی دس سال بعد مکمل کی گئی۔ مینا کی موت پر نرگس نے بڑے دکھ سے اسے کہا تھا کہ تمہیں موت مبارک ہو۔ وہ مینا کماری کی دکھ بھری زندگی سے واقف تھیں ۔
قدرت اپنی مرضی رکھتی ہے۔ اس کے سامںے نیک اور پارسا ہوں یا گناہگار اور ظالم۔ وہ اپنی کرنی پر آتی ہے تو کسی کا لحاظ نہیں کرتی۔ نرگس بھی کینسر جیسے موذی مرض کے ہاتھوں گرفتار ہوئیں۔ ان کی بڑی خواہش تھی کہ اپنے بیٹے سنجے کو فلم کے پردے پر دیکھ سکیں لیکن سنجے کی پہلی فلم کی نمائش سے چند دن پہلے ہی وہ دوسرے جہاں کو سدھار گئیں۔ موت سے کچھ دن پہلے انہوں نے بستر مرگ سے ایک پیغام ریکارڈ کرکے اپنے لاڈلے بیٹے کا نام بھیجا جس میں انتہائی کمزور آواز میں اسے تلقین کی کہ بیٹا عاجزی اور انکساری کا دامن کبھی نہ چھوڑنا، دکھاوے اور نمائش سے بچنا اورہمیشہ بڑوں کا ادب کرنا۔ یہی چیزیں تمہیں زندگی میں کام آئیں گی۔
سنیل دت نے اپنی عزیز از جان بیوی سے محبت کا حق یوں ادا کیا کہ کینسر کے مریضوں کے لئے نرگس دت ٹرسٹ کے تحت ٹاٹا ہسپتال میں نرگس کے نام پر انتہائی نگہداشت کا ایک وارڈ قائم کیا جو دنیا کو اس انسان دوست جوڑے کی محبت کی یاد دلاتا ہے۔
کچھ لوگ جیتے ہیں تو خوشبو کی طرح اور مرتے ہیں تو بھی اپنی خوشبو چھوڑ جاتے ہیں۔
تحریر: شکور پٹھان
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...