جس اسکول سے میرے اے اور او لیولز پڑھانے اور ڈپارٹمنٹل ہیڈ بننے کا آغاز ہوا تھا، اسے میں اپنا ٹریننگ گراؤنڈ کہتی ہوں۔ وہیں میں نے سیکھا کہ بورڈ کی کلاسز کس طرح پڑھائی جاتی ہیں۔ اس اسکول نے ایک نوجوان لڑکی پر بھروسہ کیا جس کے پاس صرف سبجیکٹ کی نالج تھی لیکن تجربے کے نام پہ کچھ نہیں تھا۔
اس اسکول میں اساتذہ کو رہائش نہیں دی جاتی تھی۔ لیکن پرنسپل، وائس پرنسپل اور ایڈمن اسٹاف کو یہ سہولت میسر تھی۔ اسکول کے ساتھ ہی گھر بنے ہوئے تھے۔ لیکن ہمارے اسکول کی ایک ٹیچر کو اسی احاطے میں رہائش دی گئی تھی کیونکہ وہ سنگل تھیں۔
گرمیوں کی چھٹیوں سے پہلے ایک دن میرے پاس آ کر کہنے لگیں کہ کیا تم پاکستان سے کاٹن کے دو خوبصورت سے جوڑے لا سکتی ہو۔ میں نے کہا ضرور۔ میں نے لا کر دے دییے۔ بہت خوش ہوئیں۔ ان کا تعلق انڈیا سے تھا۔ مسلمان تھیں۔ مجھے کہنے لگیں کہ ان میں سے جو زیادہ پیارا ہے وہ ہمارے اسکول کے اکاؤنٹینٹ کی بیگم کو دوں گی۔ دونوں میاں بیوی بہت اچھے ہیں۔ میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ جب سے میں ان کے برابر کے گھر میں رہنے آئی ہوں، ان کی بیگم نے مجھے منع کردیا ہے کہ آپ مت کچھ پکایا کریں۔ میں تو اپنے شوہر اور بچوں کے لیے بناتی ہوں۔ آپ کے لیے بھی ایک روٹی ڈال دوں گی۔ مجھے کہتی ہیں شہنیلہ دن میں تین بار سلیقے سے ٹرے سجا کر بھیج دیتی ہیں۔ گھر میں پھل بھی آئیں گے تو میرا حصہ رکھتی ہیں۔ کھانا تو میں خود بھی بنا سکتی ہوں۔لیکن جس عزت اور پیار سے یہ فیملی میرا خیال رکھتی ہے، میرے دل سے ان کے لیے دعا نکلتی ہے۔ میں پردیس میں اکیلی ہوں۔ نہ شوہر نہ بچے۔ ان لوگوں کو دیکھ کر میرے دل کو سکون ہے کہ مرگئی تو کسی کو پتا تو چلے گا۔
مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ بات کہنے کے کچھ عرصے بعد وہ انتقال کر جائیں گی۔ چند ماہ بعد شدید بیمار پڑیں۔ اسپتال منتقل کیا گیا اور چند دنوں میں ہی خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ جب بھی ان سے ملنے اسپتال گئی، اس فیملی کو پایا۔ غسل، تدفین سب اسکول والوں نے ہی کی اور ان کے واجبات ان کی بہن کو بھجوا دییے گئے۔
وہ اسکول میں نے دو ہزار نو میں چھوڑ دیا تھا۔ اس لیے پھر اتنا رابطہ نہیں رہا۔ لیکن یہ باتیں ذہن میں ہمیشہ رہیں۔
آج بہت دنوں بعد بریک ٹائم میں مدھو اور میں زعفرانی چائے اور سموسے کے لیے ملباری کے ہوٹل میں گئے تھے۔ ہمیں وہاں اکاؤنٹینٹ صاحب نظر آئے۔ میری ان سے شاید بارہ سال بعد ملاقات ہوئی۔ ماشاء اللہ بہت خوش اور مطمئن نظر آئے۔ ہم نے ان کی بیگم اور بچوں کا پوچھا تو پتا چلا دونوں بیٹے باہر پڑھنے چلے گئے۔ بڑے بیٹے نے آسٹریلیا سے ایم بی اے کیا ہے اور اب وہیں جاب کر رہا ہے۔ دوسرا امریکن یونیورسٹی میں ہے۔ مجھے ایک باپ کا فخریہ چہرہ نظر آیا جو اپنی پرانی کولیگز سے اپنے بچوں کی اچیومنٹس شئیر کر رہا ہے۔ اور اسی وقت مجھے ان ٹیچر کا چہرہ یاد آیا جو مجھے کہتی تھیں کہ اس فیملی کے لیے ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعا کرتی ہوں۔
میرا رب کہتا ہے کہ تم جو بھی نیکی کرتے ہو نا اسے میں پالتا ہوں۔ نیکی کے چھوٹے سے بیج کو ہرا بھرا درخت بناتا ہوں۔ تم ذرہ برابر نیکی کرتے ہو نا، میں اس کو پہاڑ بنا دیتا ہوں۔ تم اپنی بساط بھر نیکی کرتے ہو اور میں اپنی شان کے مطابق اجر دیتا ہوں۔
ایک پرائیویٹ اسکول کے اکاؤنٹینٹ کی کیا تنخواہ ہوگی۔ کیسے بچے باہر کی یونیورسٹی میں پڑھے ہوں گے۔یہ سب ہم انسانوں کی سوچیں ہیں۔میرے رب کے اختیار میں کیا نہیں ہے۔ اور یہ تو وہ اجر اور کامیابیاں ہیں جو اس دنیا میں ہیں، جس کی قیمت میرے رب کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں۔ اللہ نے دوسری دنیا میں کیا اجر رکھے ہوں گے وہ تو پاک پروردگار ہی جانتا ہے۔
شہنیلہ بیلگم والا