ایک سیاسی جماعت کی نام نہاد ’’جدوجہد‘‘ کو جمہوری عمل کے کھانے میں ڈالنے کی بجائے پاپولزم کو سمجھنا ضروری ہے۔ کافی کچھ سمجھ آ جائے گا۔ ایک پرانی پوسٹ دوبارہ شیئر کر رہا ہوں:
ایک سمجھ دار اور خوب رُو خاتون نے مجھ سے پاپولزم کی تعریف اور وضاحت پوچھی۔ اُسے چار لائنوں میں سمجھانے کے بعد خیال آیا کہ اور بھی تو سمجھ دار اور خوب رُو لوگ موجود ہیں، اُن کے ساتھ بھی کیوں نہ شیئر کروں!
یوں تو اس اصطلاح سے مراد کوئی بھی ایسی سیاسی تحریک یا دعویٰ ہے جو طبقۂ اشراف یا اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں عام آدمی کی امنگوں اور مسائل کی بات کرے۔ اِس میں دائیں اور بازو کے عناصر کو یکجا کر دیا جاتا، اور کاروباری و مالیاتی مفادات کی مخالفت کی جاتی تھی، لیکن ساتھ ساتھ سوشلسٹ اور محنت کش جماعتوں سے دشمنی بھی کی جاتی۔
تاہم، اب پاپولزم کی اصطلاح کا تعلق سیاست کی مطلق العنان صورت سے ہو گیا ہے۔ پاپولسٹ یا عوامیت پسند سیاست کسی کرشماتی راہنما کے گرد گھومتی ہے جو اپنی طاقت کو مجتمع کرنے کی خاطر عوام کے جذبات کا ترجمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ سیاست کی اس شخصی صورت میں سیاسی جماعتیں اپنی اہمیت کھو دیتی ہیں، اور انتخابات محض لیڈر کی اتھارٹی کی توثیق کا کام دیتے ہیں نہ کہ عوام کے مختلف معاملات کی عکاسی کرتے ہیں۔ مطلق العنان عوامیت میں شدید قوم پرستی، نسل پرستی، سازشی تھیوری، پسے ہوئے طبقات کو قربان کرنا، مذہب کا انتہا پسندانہ استعمال اہم عناصر ہیں۔ یہ سب ’’بیانیے‘‘ لیڈر کی قوت کو مستحکم کرتے ہیں اور لیڈر کی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کا کام دیتے ہیں۔
اکیسویں صدی کے دوران دیگر ممالک کے علاوہ ترکی، پولینڈ، اور پاکستان میں پاپولسٹ حکومتیں بنیں۔ اگر آپ کا دھیان صرف عمران خان کی طرف جا رہا ہے تو یاد رکھیں کہ وہ پاپولسٹ سے زیادہ فاشسٹ ہے۔
علامہ اقبال يا اکبر علی ايم اے اصل رہبر کون؟
کسی بھی قوم کا اصل رہبر کون ہوتا ہے خواب بیچنے والا شاعر يا حقیقت کو سامنے رکھ کر عملیت...