قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 26
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔…………
ظاہری اسلام اور قتل کی دنیاوی عذاب سے نجات کا معاملہ:
یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ سورہ توبہ کی آیت 55 کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے منکرین پر مسلط کردہ قتال کی اس سزا کے نتیجے میں محض ظاہری اسلام کو ان کی گلو خلاصی کے لیے کافی سمجھا گیا ہے، چاہے ان کے دل راضی نہ ہوں۔
فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (سورہ التوبة، 9:5)
بڑے حج کے دن) اِس (اعلان) کے بعد جب حرام مہینے گزر جائیں تو اِن مشرکوں کو جہاں پاؤ، قتل کرو اور (اِس مقصد کے لیے) اِن کو پکڑو، اِن کو گھیرو اور ہر گھات کی جگہ اِن کی تاک میں بیٹھو۔پھراگر یہ توبہ کر لیں اور نمازکا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو اِن کی راہ چھوڑ دو۔ یقیناًاللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔
تو کیا محض ظاہری اسلام سے ایسے منکرین کو اس دنیاوی عذاب سے نجات مل گئی؟
اور یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے فورا بعد ہی ارتداد کی لہر اٹھی اور لوگوں نے واپس اپنے بت پرستی کی طرف رجوع کا نعرہ بلند کر دیا، کیونکہ وہ دل سے ایمان نہیں لائے تھے، محض ظاہری اقرار و اطاعت نے ان کی جان بخشی کرا دی تھی۔
ایسا اس لیے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعے اتمام حجت کے بعد اس دفعہ خدا نے انسانی ہاتھوں کے ذریعے دنیاوی عذاب مسلط کرنے کے طریقے کو چنا تھا، اس لیے انسانی وسائل کی محدودیت اس معاملے میں بھی شامل ہو گئی۔ اسی وجہ سے دنیا کی اس قیامت صغری میں سزا و جزا کا یہ کام بھی گزشتہ امتوں پر قدرتی طاقتوں کے ذریعے آنے والے عذاب اور آخرت میں ملنے والی سزا کی مانند پوری کاملیت سے کرنا ممکن نہیں ہو سکتا تھا، اس لیے ظاہری طور پر اسلام قبول کرنے والے بھی قتل کی سزا سے اس وقت بچ گئے۔ ان کا معاملہ آخرت میں خدا کے ذمے رہا۔ اور ظاہری طور پر اسلام کا غلبہ کافی سمجھا گیا۔ دنیا میں یہ معاملات سو فیصد امتیاز سے ہونا ممکن نہیں۔ یہی دیکھ لیجیے کہ گزشتہ رسولوں کے وقت جو قدرتی طاقتوں کے ذریعے عذاب آتا تھا، اس میں مشرکین کے کم سن بچے تو مارے جاتے ہی تھے۔ لیکن یہ عذاب ان کے حق میں صرف موت کا ذریعہ تھا، جو کسی نہ کسی شکل میں آنی ہی ہوتی ہے، لیکن مشرکین کے لیے وہ عذاب کا علامت بن کر آتی ہے۔ گزشتہ عذابوں میں مرنے والے معصوم بچوں کا معاملہ یقینا اللہ اپنے علم کی روشنی میں قیامت کو کرے گا۔ چنانچہ کچھ نہ کچھ مستنیات رہ جانے کا امکان رہتا ہے۔ اسی لیے دار آخرت رکھا گیا ہے جہاں کامل عدل ہوگا۔
محمد رسول اللہ کے وقت ظاہری اسلام کو گوارا کرنے سے یہ بھی سمجھ آتا ہے کہ پہلے سے موجود منافقین کے وجود کو بھی کیوں گوارا کر لیا گیا اور کوئی دنیاوی سزا ان پر نہیں آئی۔ ان کو خدا اور رسول کی طرف جو دھمکیاں دی گئیں تھیں وہ ان کی معاندانہ سازشی کارروائیوں کے جواب میں دی گئیں تھیں۔ اسلام کے سیاسی غلبے نے انہیں مجبور کر دیا کہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آ جائیں، اب محض دل کی کیفیت پر ان پر قتال یا محکومی کا عذاب مسلط نہیں کیا گیا جیسا کہ مشرکین اور اہل کتاب پر مسلط کیا گیا جو کھلم کھلا انکار یعنی کفر پر بضد تھے۔ البتہ ظاہری مسلمانوں کا وجود گوارا کر لیا گیا۔ یہ خدا کا فیصلہ تھا، اس کی ایک اور وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ بلا ضرورت قتال سے بچا جائے۔ یہ لوگ بظاہر ملت اسلامیہ کا ہی حصہ معلوم ہوتے تھے۔ پھر یہ کہ مجموعی حالات کے اثر سے ممکن تھا کہ ایسے لوگوں کے دل میں ایمان حقیقتًا اتر ہی جائے، کیونکہ ان کا اصل مذھب عصبیت تھا، اپنے قوم و قبیلے کا طور طریقہ تھا، جب قوم اور قبیلے ہی مسلمان ہو گئے تو عصبیت کی خاطر ہی سہی، یہ پکے مسلمان بن سکتے تھے، اور ہم جانتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔ یہی مرتدین قبائل تھے، جو از سر نو اسلام میں شامل ہو کر، خلافت اسلامیہ کے جھنڈے تلے جہاد کرتے رہے اور اس کی تقویت کی باعث ہوئے۔ اور کچھ نہیں تو ایسے لوگوں کی اولادوں کے مسلمان ہونے کا تو قوی امکان موجود تھا۔ آخرت کا معاملہ البتہ الگ ہے جہاں خدا کی عدالت پورے علم کی روشنی میں ایسے لوگوں کا فیصلہ کرے گی۔
جاری۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔