ریپ کا بدلہ ریپ ۔۔۔۔
آج سے تقریبا چار ہزار سال پہلے ایک ملک تھا ،جس کا نام ببول تھا ،اس ملک کا ایک بادشاہ تھا ،جسے ہمورابی کہا جاتا ہے ۔ہمورابی اس زمین کا وہ واحد بادشاہ یا پہلا بادشاہ تھا جس نے کچھ قوانین بنائے تھے ۔ہم ببول اور ہمورابی سے واقف نہیں ہیں ،لیکن ہمورابی کے قوانین سے ضرور واقف ہوں گے ،اس ملک میں جگہ جگہ ہمورابی کے قوانین کا راج ہے ۔ہمورابی کے قوانین یہ تھے۔آنکھ کا بدلہ آنکھ ،جان کا بدلہ جان ،عزت کا بدلہ عزت اور ریپ کا بدلہ ریپ ۔لیکن ہمورابی کے یہ قوانین تمام انسانوں کے لئے ایک جیسے نہیں تھے ،شرفاٗ کے لئے قوانین یہ تھے کہ اگر کوئی نام نہاد شریف کسی کا قتل کرتا ہے ،تو اس کی جان نہیں جائے گی ،بلکہ وہ معاوضہ دے گا اور جرم سے پاک ہوجائے گا ،کمی کمینوں کے لئے قوانین یہ تھے کہ وہ ریپ کا بدلہ ریپ کی صورت میں لیں گے ،جان کے بدلے میں جان لیں گے ۔یا دوسرے الفاظ میں کمی کمینوں اور نچلی زات والوں یا غریبوں کے لئے جنگل کا قانون تھا ۔ہمورابی نے اسی طرح خواتین اور مردوں کے لئے بھی قوانین بنائے تھے ۔خواتین کو ان قوانین کی روح سے ملکیت سمجھا گیا ۔یعنی اگر کسی گھر کی کسی خاتون کا کوئی ریپ کرتا ہے تو اس کے مقابلے میں جس گھر کی خاتون کے ساتھ ریپ کیا گیا ہے ،اسی گھر کا ایک مرد دوسرے گھر کی عورت کے ساتھ ریپ کرے گا ،یہ تھے ہمورابی کے قوانین ۔ہمورابی کے مطابق مرد صرف انسان ہیں ،عورتیں انسان نہیں ہیں ،بلکہ وہ بھیڑ ،بکریوں اور جانوروں کی طرح کی مخلوق ہیں ،جو مردوں کی ملکیت ہیں ۔دنیا بہت ترقی یافتہ ہوگئی ۔2017 کا سال آگیا ،آج بھی ایک ملک ہے جس کا نام پاکستان ہے ،وہاں ہمورابی کے قوانین نافذ ہیں ۔اس ملک میں چار ہزار سال قبل کے قوانین ہیں ۔پاکستان کا ایک شہر ہے جس کا نام ملتان ہے ،ملتان کو ولیوں اور بزرگان دین کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے ،اس شہر ملتان کے نواح میں ایک علاقہ ہے جس کا نام مظفر آباد ہے ۔آج سے دس دن پہلے مظفر آباد کے ایک خاندان کے ایک فرد نے 12 سالہ معصوم لڑکی کا ریپ کردیا ،اسے اپنی جنسی حوس کا نشانہ بنایا ۔خاندان نے اس شخص کو پکڑ لیا ،فیصلہ ہوا کہ جس شخص نے بارہ سالہ معصوم لڑکی کے ساتھ جنسی تشدد کیا ہے ،اس حیوان کی بھتیجی کا ریپ کیا جائے گا ،اور یہ ریپ بارہ سالہ لڑکی کا بھائی کرے گا ۔پھر اسی خاندان کی دوسری لڑکی جس کی عمر سترہ سال تھی ،اس کا ریپ کیا گیا ،جہالت کی انتہا دیکھ لیں ،ایک ہی خاندان کے دو گروہ ہیں ،دونوں نے پنچایت لگائی ،پنچایت کے سب سے بڑے حیوان نے یہ فیصلہ دیا ۔جب دو معصوم لڑکیوں کا ریپ ہو گیا تو پھر تحریری صلح نامہ لکھا گیا کہ بدلہ مکمل ہوا ،اب کوئی دنگا فساد نہیں ہوگا ۔یہ ہے آج کا پاکستان جہاں اس قسم کے گھناونے واقعات ہورہے ہیں ،ایسے واقعات تو اب جنگل کے جانور اور درندے تک ایک دوسرے سے نہیں کرتے ،لیکن پاکستان کے شہر ملتان کے مظفر آباد علاقے میں ایسا ہوا ۔یہ اتنا خوفناک اور گھناونا واقعہ ہے کہ اس کے سامنے الفاظ کھوکھلے پڑ جاتے ہیں ،شرمندگی ہوتی ہے کہ ہم کس طرح کے معاشرے میں زندہ ہیں ،جہالت ،بے غیرتی اور درندگی کی انتہا ہے ۔دو معصوم لڑکیوں پر کیا بیتی ہوگی ،کیسے ان درندوں نے پنچایت لگائی ہوگی ،کیسے یہ گھناونا فیصلہ کیا ہو گا ،یہ سب کچھ سوچا جائے تو سانسیں بند ہونے لگتی ہیں ۔یہ ہے وہ پاکستان جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کہا جاتا ہے ،جہاں میٹرو اور اورینج ٹرین ہے ،جہاں ترقی کا سفر تیزی سے جاری ہے ،جہاں انسان درندے ہیں ،جہاں جہالت ناچ رہی ہے ،جہاں عورت کو حیوان بھی نہیں سمجھا جاتا ،جہاں معصوم زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے ،جہاں ہزاروں سال پہلے کے قوانین دندنا رہے ہیں ۔مرجاو،لعنت ایسے معاشرے پر ،درندو شرم سے مرجاو ،اگر تھوڑی سی بھی انسانی غیرت تم میں ہے ۔پولیس کے مطابق اس واقعے میں ملوث 20 مردوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے ،مرکزی ملزم فرار ہیں ،اور خاندان کی عورتیں چیخ رہی ہیں ۔شرمندگی کی انتہا دیکھیئے ،اپنے ہی خاندان کی لڑکیوں کا ریپ اسی خاندان کے مرد کررہے ہیں ،وہی منصف ہیں ،وہی جج ہیں ،وہی معاملہ طے کرتے ہیں ،وہی صلح کرتے ہیں ،لیکن ان لڑکیوں کے ساتھ کیا بیتی ہوگی ،اس کا احساس ان درندوں کو نہیں ۔انسانیت چیخ رہی ہے ،لیکن انسان قہقہے لگا رہا ہے ،میڈیا پر بھی اس خبر کو عام خبر کی طرح ڈیل کیا گیا ،آرمی چیف ،وزیر اعظم اور سیاستدانوں کی طرف سے بھی کوئی مزمتی بیان نہیں آیا ۔اسی طرح کا ایک واقعہ ملتان کے علاقے مظفر گڑھ میں 2002 میں پیش آیا تھا ،جب ایک گاوں میر والا میں مختاراں مائی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی ،،تمام ملزم پکڑے گئے اور پھر عدالت نے ان تمام ملزمان کو بری کردیا ،جیسے درندے ،ویسی عدالتیں ،کیسے خواتین کو انصاف ملے ۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ میڈیا اس خبر کو لیکر شور مچاتا ،اس پر بحث و مباحثہ کراتا ،اور جدید لبرل قوانین کے لئے آواز اٹھاتا ،لیکن کچھ بھی نہیں ہوا ،ان معصوم لڑکیوں کی چیخیں کسی کو کیسے سنائی دیں گی ،کیونکہ یہ سب بے غیرت ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ۔کیا معاشرہ ہے جہاں لڑکیوں ،بچیوں اور خواتین کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا ۔ریپ کا بدلہ ریپ یہ ہے آج کے جدید پاکستان کا قانون ۔اس ملک میں ہر روز ایسے سینکڑوں واقعات ہوتے ہیں ،کبھی کبھی کوئی ایک آدھا واقعہ سامنے آجاتا ہے ۔ان گمنام خواتین کا کیا ہوتا ہوگا ،جن کی کوئی چیخیں نہیں سنتا ،یہ کیسی درندگی ہے جہاں ایسے گھناونے واقعے پر کوئی چیخ ہی نہیں رہا ۔ایسا معاشرہ ان خواتین کو کیا انصاف دے گا ۔یہ تمام مجرم جنہوں نے یہ فیصلہ دیا ،گرفتار ہوں گے ،پھر رہا ہو جائیں گے ،مختاراں مائی سے زیادتی کرنے والے بھی تو رہا ہو ہی گئے ہیں ۔یہ ہے پاکستان جہاں جدید دور میں بھی جنگل کا قانون ہے ۔جہاں ریپ کا بدلہ ریپ ہے ۔یہ ہے وہ روشن پنجاب کا اصل چہرہ جہاں سے شریف ووٹ لیتے ہیں ،جہاں سے بلے اور تیر والے ووٹ لیتے ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔