ہر نفس شورشِ آلامِ جہاں ہے ساقی
حاصل دیدہ خوننا بہ فشان ہے ساقی
پھر کوئی رنگ کہ رُک جائے نہ پرواز خیال
پھر کوئی موج کہ احساس گراں ہے ساقی
**
میرے احساس کو ساغر میں ڈبو دے ساقی
تلخی غم کو مسرت میں سمو دے ساقی
یہ بھی ممکن نہ ہو تُجھ سے تو بدل کر تیور
اس طرح ہنس کہ خود آرائی بھی رو دے ساقی
**
حرم و دیر کی پابند محبت ساقی
مانتی آئی ہے اب تک تیری عظمت ساقی
ہاں مگر جبر مسلسل سے یہ ڈر ہے کہ کہیں
اس کا انجام نہ ہو جائے بغاوت ساقی
**
میکدے میں کوئی سرشار نہیں ہے ساقی
بے نیاز غم و آزاد نہیں ہے ساقی
توڑ دے جام، نہ کر زینت محفل کا خیال
تُو اگر واقفِ اسرار نہیں ہے ساقی
**
تجھ سے ممکن نہیں تشکیل حیات اے ساقی
تیرے بس میں نہیں دنیائے ثبات اے ساقی
سُرخ کرنوں میں جو گُم ہو گئی فرداکو لیے
تیری نظروں میں ابھی تک ہے وہ رات اے ساقی
**
دیکھ! جاگی ہوئی دُنیا کا تماشا ساقی
اک نیا جوش عمل عزمِ تمنا ساقی
وہی عالم ہے کہ جس پر تھا توہم کا نقاب
آج ہر ذرہ ہے سرگرم تقاضا ساقی
**
جب تیرے عشق میں ہوتی تھی جبیں خم ساقی
اب نہ کر یاد وہ گزرا ہوا عالم ساقی
شکوہ گردش ایام تُجھے زیب نہیں
وقت کی بات ہے مجبوری پیہم ساقی
**
بحر ہستی میں اُٹھا ہے وہ تلاطم ساقی
نا خدا بھی ہیں جسے دیکھ کے گم سُم ساقی
اب کسی شے پہ ٹھہرتی نہیں چشم حیران
اشک شبنم ہو کہ پھولوں کا تبسم ساقی
**
سہل ہے تیرے تخیل سے مچلنا ساقی
کھیل ہے وقت کی رفتار بدلنا ساقی
انقلابات زمانہ بھی کوئی بات نہیں
سخت مشکل ہے تغیر میں سنبھلنا ساقی
**
بھڑک اُٹھے ہیں وہ خاموش شرارے ساقی
جس کے پرتوسے ہیں تابندہ نظارے ساقی
تشنگی اور بڑھی جاتی ہے میخواروں کی
اب نہ کام آئیں گے نظروں کے اشارے ساقی
**
اب بھی ہے وقت کہ اک بار سنبھل کر ساقی
پھیر دے گردش دوراں کا مقدر ساقی
میری نظروں میں ہے آسودگی عہد جنون
یاد کرتا ہوں میں اُس دور کو اکثر ساقی
**
ظفر اقبال کی شاعری میں فنی اور لسانی خامیاں
ظفر اقبال کی شاعری اردو ادب میں جدیدیت اور انفرادیت کی مثال سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں جدید...