کراچی جیسے بڑے شہر میں جہاں سینکڑوں ایجنسیاں اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کام کر رہے ہیں۔۔ بڑے بڑے سمجاجی تنظیموں کی بنیادیں بھی اسی شہر پڑی ہیں۔۔ سینکڑوں تعداد میں انسانی حقوق کی تنظیمیں کام کر رہی ہیں وہاں چند ایسے دلخراش واقعات رونماء ہوئے ہیں جنہیں تاحیات دل و دماغ سے محو نہیں کیا جاسکتا۔۔۔۔۔ ظلم بربریت اور سفاکی کی ایسی تاریخیں رقم کی گئی ہیں وہاں بے حسی اور خودغرضی کا عنصر بھی غالب رہا۔۔ہر ذی شعور کو غریب معصوم ریحان کا واقعہ یاد ہوگا جسے کراچی کے علاقے بہادر آباد فیروز آباد کوکن سوسائٹی میں علاقہ مکینوں نے 16 سالہ ریحان کو چوری کے الزام میں پکڑا برہنہ کر کے رسیوں سے باندھ کر شدید تشدد کا نشانے کے ساتھ ساتھ اس کی وڈیو بھی بناتے رہے جس سے ریحان کی موت واقع ہوئی چوری کے الزام میں پکڑے جانے والے کم عمر ریحان کی پرتشدد وڈیو سوشل میڈیا کی زینت بنی تو ہر انسان کا دل دہل گیا۔۔ اسی طرح کراچی میں روزمرہ ڈکیتی کی وارداتیں معمول کا حصہ ہیں شہر میں کوئی ایسا مقام نہیں جہاں شہری آزادانہ اور بلاخوف و خطر سفر کر سکے۔ اے ٹی ایم سے پیسے نکالنے والے شہریوں کو لوٹ لینا اور تھوڑی کی رقم کے عوض قتل کردینا اک عام سی بات ہوگئی ہے۔۔ فروری میں ایک ایسا ہی واقعہ سامنے آیا جس میں سولجربازار نمبر3 غفوریہ مسجد کے قریب گلی میں 2 موٹر سائیکل پر سوار 4 ڈاکوؤں نے موٹر سائیکل پرسوار بہن بھائی سے رقم چھیننے کے دوران مزاحمت پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں موٹرسائیکل پر سوار نوجوان سر پر گولی لگنے سے جاں بحق ہو گیا۔مقتول 3بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھا اور ایک بیٹی کا باپ تھا ، ویتنام میں اسکول ٹیچرتھا اور 15 روز کی چھٹیاں گزارنے کے لیے آیا تھا چند روز بعد اسے واپس ویتنام جانا تھا لیکن کیا معلوم تھا یہ اس کی آخری چھٹیاں ہوں گی۔۔ حال ہی میں گلبرک میں کم سن بچوں جن کی عمریں چار سے دس سال تک کی ہوں گی جانوروں جیسا سلوک کئے جانے کی خبریں بھِی عام ہوئی ان بچوں کو برھنہ کر کے زنجیروں سے جکڑ کر اس قدر برترین حالت میں رکھا جانا کے بھوک پیاس کے مارے ان بچوں کی پسلیاں تک واضح دیکھی جا سکتی تھی۔ زنجیروں میں جکڑے رہنے کے باعث ان بچوں کے ہاتھوں اور پیروں میں نشانات بن چکے تھے ۔۔ ستم بالائے ستم یہ سلوک کسی دشمن نے نہیں بلکہ ان کے سگے باپ اور سوتیلی ماں کے ہاتھوں ہوا تھا۔۔
اسی طرح چند روز قبل عیسی نگری میں واقع میکاسا سینٹر کے اپارٹمنٹ سے میٹرک کی طالبہ ماہا ملک کی وڈیو وائرل ہوئی جنہیں گذشتہ 2 سال سے ہراساں کیا جا رہا تھا حیرت کی بات تو یہ تھی انہوں نے اس واقعہ کی رپورٹ متعدد بار کی مگر ملزم بااثر تھے اور یقینآ کسی سیاسی جماعت کی چھتری تلے ان کی پرورش بھی ہورہی گی جب ہی یہ ملزم قانون کی گرفت سے اوجھل تھے جب ماہا ملک کو کہیں سے انصاف نہیں ملا تو انتہائی مجبور ہوکر سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔۔۔ یہ کرب بھری داستان کی بازگشت پاکستان بلکہ دنیا بھر میں سنی گئی۔۔۔۔۔
پھر ہوا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ اوپر کراچی میں ہونے والے ہزاروں واقعات میں سے صرف چند کا ہی زکر کیا گیا ہے۔۔۔۔ ہمیشہ کی طرح وائرل ہونے کے بعد اداروں کی نیند میں خلل پڑا اور خواب غلفت سے جاگے۔ چند ایک کو حراست میں لیا۔۔۔۔۔ پھر اس کا دوسرا پہلو ان لوگوں کا شروع ہوتا ہے جو میڈیا میں ریٹنگ کے شوقین ہوتے ہیں۔۔جو اپنے کیمرہ مین اور کرائے کے صحافیوں کے ہمراہ متاثرہ خاندان کے گھر جاتے ہیں۔۔ وڈیو بیانات دیتے ہیں پھر کسی اور سنسنی خیز خبروں کے منتظر رہتے ہیں۔۔
ماہا ملک اتنی بہادری دکھائی کے اس جیسی ہزاروں ایسی خواتین ہوں گی جو کسی نا کسی طور حراسمنٹ کا شکار ہوں دانستہ اور غیردانستہ طور پر اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو چھپا رہی ہوں گی کہ وہ بھی آگے آئیں اور اس جدید معاشرے میں سسک سسک کر زندگی گزارنے کے بجائے اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کریں۔۔۔
ماہا ملک نامی بچی نے اپنی پہلی وڈیو میں واضح کر دیا تھا تھا کہ اس کے مالی حالات انتہائی خراب ہیں کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر شائد کسی اعلی حکومی ادارے ، این جی اوز کسی ایم این اے۔ ایم پی اے، کسی صاحب استعداد نے ماسوائے فوٹو سیشن کے اتنی توفیق نہیں کی کے اس گھرانے کے کسی فرد کو سرکاری نوکری دلا دے۔۔۔ کیونکہ ان نے نزدیک مہذب معاشرے میں ایسے واقعات ہونا ناگزیر ہیں اور ایک دوسرے سانحہ کے منتظر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...