شکر کے پیاز کی پرتیں اتارتا آدھا مسلمان
یہ ہندوستان ابوالکلام کا ہندوستان نہیں ہے. ابوالکلام کے ہندوستان کا کریا کرم 15 اگست 1947 کو کر دیا گیا تھا. یہ پاکستان جناح کا پاکستان نہیں. 21 فروری 1956 کو جناح کے پاکستان کی صحت بگڑنی شروع ہوئی تھی . 7 اکتوبر 1958 کو مریض کومے میں چلا گیا تھا اور 16 دسمبر 1971 کو جناح کے پاکستان کا بھی انتقال پر ملال ہو گیا تھا . اب یہ ہندوستان پاکستان جیسے بھی ہیں، ان کا ابوالکلام اور جناح سے کچھ لینا دینا نہیں ہے. دنیا 1947 سے بہت آگے نکل آئی ہے. زمانہ بہت سی چالیں چل چکا ہے. بوسیدہ پلوں کے اوپر اور نیچے سے کتنے سیلاب گزر گئے ہیں. کہانی کے کردار ہی نہیں، کہانی بھی بدل گئ ہے. پیچھے کی پگڈنڈیاں دھول میں گم ہیں اور آگے راستوں کا جال بچھا ہے. کس کے آخر میں سانپ کنڈلی مارے بیٹھا ہے اور کس کے درمیان ترقی کا زینہ ایستادہ ہے، اس پر کوئی اتفاق نہیں ہے، رہنما بہت ہیں پر سب چشم بستگی کے خواہاں ہیں.
انہی راستوں میں کھڑے میرے کچھ دوستوں کی آنکھیں اب بھی سرحد پار دیکھ رہی ہیں. وہ علت و معلول کا الٹا چرخہ چلاتے ہیں اور اس سے نت نئی منطق کا سوت کاتتے ہیں. ان کے سینے فخر سے پھولے رہتے ہیں اور سر شکر گزاری کے احساس سے مستقل خم رہتے ہیں. ان کے موازنے کے اپنے پیمانے ہیں. وہ مجھے بتاتے ہیں کہ ابوالکلام غلط سوچتے تھے اور جناح دوربین تھے. وہ ہندوستان کے حالیہ سیاسی منظرنامے کو جام جمشید سمجھتے ہیں اور اس میں اپنے خوشگوار مستقبل کی تصویر دیکھتے ہیں. میری نظر شاید کچھ کمزور ہے اس لئے مجھے اس نئے جہاں نما میں بس دھند نظر آتی ہے. کچھ بھی صاف نہیں ہے پر میرے دوست اس دھند میں بنتی شبیہیں دیکھ رہے ہیں شاید ویسے ہی جیسے میں بچپن میں بادلوں میں کبھی ایک گھوڑا دیکھتا تھا کبھی ایک شیر، کبھی کبھی میرے مرحوم نانا بھی دکھ جاتے تھے پر پھر کبھی بارش اور کبھی تیز ہوا سب مٹا دیتی تھی.
یہ فخر کا فلسفہ کبھی میرے پلے نہیں پڑا. پاکستانی یا ہندوستانی ہونے پر کیسا فخر. یہ تو ایسا ہی ہے جیسے میں کہوں کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرے دو بڑے بڑے کان ہیں. یا میری ایک موٹی سی ناک ہے . جس شے پر یا جس امر پر میرا کوئی اختیار نہیں اس پر کس بات کا فخر. میں جس خطے میں پیدا ہوا اس کا نام کچھ بھی ہو سکتا تھا. یہ میرے انتخاب کا معاملہ تو تھا ہی نہیں. اس میں میرا کیا کمال ہے یا اس زمین کی کیا شراکت ہے؟ میری وطنیت، میری قومیت، میرا نسب، میری مادری زبان، میرا قبیلہ، میرا رنگ، میرے خدوخال، اس سب کا فیصلہ امکانات کی لامتناہی دنیا میں سے ایک امکان تھا اور بس. اگر یہ تفآخر کا سبب ہے تو یہ سبب ہر انسان کا ایک جیسا ہے، ایک جتنا ہے. کیا یہ وہی تفاخر نہیں ہے جسے صدیوں پہلے ایک خطبے میں پاؤں تلے روند دیا گیا تھا. کیا عربی کی عجمی، سرخ کی سیاہ اور سیاہ کی سرخ پر فضیلت اس دن حجاز کی ریت میں دفن نہیں کر دی گئی تھی. کیا 50 سال پہلے کا مارٹن لوتھر کنگ جونیئر بھی بھول گیا ہے جس کا خواب صرف یہ نہیں تھا کہ جارجیا کی سرخ پہاڑیوں کے دامن میں آقاؤں اور غلاموں کی اولاد ایک روز ایک ساتھ بیٹھی ہو گی بلکہ جو یہ چاہتا تھا کہ اس کے چار بچے ایک دن اپنی رنگت سے نہیں، اپنے کردار سے جانے جائیں. تو میرے دوستوں، میں منکر ہوں اس تفآخر کا جس کا بیج وطنیت کی زمین میں ڈالا گیا ہو، جس کو قومیت کی بارش نے سیراب کیا ہو، جس کی جڑیں مذہب، رنگ، نسل اور زبان کی راہ سے پھوٹتی ہوں اور جس کے درخت کے سائے میں صرف میری جگہ ہو، میرے جیسوں کی جگہ ہو. میں اپنے ہنر پر فخر کروں گا، اپنے کمال فن پر فخر کروں گا، منزل پا سکوں یا نہیں پر مسافتوں کو طے کرنے پر فخر کروں گا، کوئی مسکراہٹ کسی کے چہرے پر سجا سکا تو اس پر بھی فخر کر لوں گا پر اپنی کاوش کے دائرے سے باہر کچھ بھی میرے لئے قابل فخر نہیں ہے.
شکر کی دنیا اور ہے. آپ اس پر شکر کرتے ہیں کہ آپ جناح کے پاکستان میں جنمے، آپ اس پر شکر کرتے ہیں کہ آپ بیف کباب کھا سکتے ہیں، آپ اس پر شکر کرتے ہیں کہ آپ کی زمام کار مودی اور آدتیہ یوگی کے ہاتھ نہیں، آپ اپنی عبادت گاہوں کے چھن جانے کے خوف سے آزاد ہونے پر شکر کرتے ہیں، آپ اپنے مذبح خانوں کے کھلے رہنے پر شکر کرتے ہیں، آپ اپنی بچیوں کے ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں سے محفوظ رہنے پر شکر ادا کرتے ہیں، آپ اسلام کے پرچار کی آزادی پر شکر ادا کرتے ہیں، آپ اور کچھ نہیں تو بس اتر پردیش کا مسلمان نہ ہونے پر شکر ادا کرتے ہیں. بلکل ٹھیک کرتے ہیں، یہ سب شکر واجب ہیں پر بس اتنا ہی؟ میں سمجھتا ہوں کہ آپ میں شکر گزاری کا یہ احساس ابھی نامکمل ہے. کتنی ہی نعمتوں کا شکر ابھی آپ پر فرض ہے. ابھی آپ بہت کچھ بھول گئے ہیں. ادھر مجھے دیکھئے، میں شکر کروں تو کتنی ہی اور باتیں ہیں. یہ شکر ایک پیاز جیسا ہے، ہر ایک پرت کے بعد ایک اور پرت ہے۔
میں پاکستان میں پیدا ہوا یہ تو طے ہو گیا. اس پر اک سجدہ شکر کیا ہزار سجدے کیے لیتے ہیں پر امکانات کی اس لامتناہی دنیا جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے اس میں مشروط امکانات کی ایک زنجیر مسلسل ہے جو میرے حیطہ جاں کے گرد لپٹی ہے. مجھے اس زنجیر کی ہر کڑی کے لئے شکر گزار ہو لینے دیجے کہ اب اس ملک ضیا داد میں کہیں ان میں سے ایک حلقہ بھی چھوٹ جاتا تو شاید شکر کرنے والی زبان اور جھکا رہنے والا سر دونوں سلامت نہ ہوتے.
میں شکر کرتا ہوں کہ میں مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ورنہ ڈاکٹر اسرار کے بقول اور تجرباتی شواہد کی رو سے مجھے تمام عمر دوسرے درجے کا شہری گنا جاتا، اخبار میں چھپنے والے اشتہارات میں کچھ نچلے ترین درجے کی اسامیوں کے لئے بالخصوص میرا ذکر ہوتا. مجھے کبھی صوبہ بدر ہونا پڑتا تو کبھی ملک بدر. آبادی میں میری شرح ہر سال گھٹ جاتی. نصاب میں مجھے سازشی، مکّار، بنیا، سانپ، فریبی، خدا کا ناپسندیدہ اور مسلمانوں کا ازلی دشمن وغیرہ ٹھہرایا جاتا اور میں اپنے ہم سبقوں کے ساتھ بیٹھ کر یہی پڑھتا اور امتحان میں پاس ہونے کے لئے اسے ہی جوابی کاپی میں تحریر کرتا، میری بچیوں کو پیر مٹھو جیسے کتنے ہی جذبہ ایمانی سے سرشار ہو کر اغوا کرتے، نکاح پڑھاتے اور دائرہ اسلام میں داخل کر لیتے اور میں اپنی عمر عدالتوں کے برآمدوں میں پیش کاروں کی آوازوں پر کان دھرے گزار دیتا. کبھی میرے سنہری کلس والے مندر ڈھائے جاتے تو کبھی میرے چرچ پر لگی سفید صلیب گلیوں میں گھسیٹی جاتی، میرے آتش کدے سرد کر دیے جاتے اور میرے سنیگاگ پر پلازے بن جاتے. میری آبادیوں پر مجاہد حملہ کرتے، میرے مکانوں سے شعلے اٹھتے، میری بیٹیوں کا جہیز الله اکبر کے نعروں کی گونج میں ایمان کی حرارت والوں کے گھروں میں منتقل ہو جاتا. مجھے مسلمان ہونے کے وعدے پر مقدموں سے بریت کے مژدے ملتے. گھروں میں اور دفتروں میں میرے کھانے اور پینے کے برتن الگ ہوتے. کبھی کسی مسلمان کے گلاس میں پانی پینے پر مجھے موت کی سزا ملتی تو کبھی نورانی قاعدے کی حرمت نہ سمجھ پانے کی پاداش میں مجھے اپنی پیدا نہ ہونے والی اولاد سمیت اینٹوں کی بھٹی میں بھسم کر دیا جاتا. لوگ مجھے چوڑا، بھنگی، مصلی کہہ کر کر اپنے احساس برتری کی تسکین کا سامان کرتے. میں ہجرت بعد از ہجرت بعد از ہجرت کرتے کرتے یا تو قید زندگی سے چھوٹ جاتا یا پھر ان سرحدوں سے باہر دھکیل دیا جاتا. آخر میں نا میری یہ دنیا نا میری وہ دنیا، میں بس راہ کا روڑا ہوتا جو صرف اس کا متمنی رہ جاتا کہ آنے والے کل میں میں میرے نصیب کی ٹھوکریں گزرے ہوئے کل سے کچھ کم ہوں تو میں اس پر خوش ہو لوں . اف، واقعی شکر ہے.
پر کیا مسلمان ہونا ہی شکر کی معراج ہے. نہیں میاں. میں شکر کرتا ہوں کہ میرے والدین کا عقیدہ ملکی میزانیے میں درست والا عقیدہ تھا. نہیں تو کیا بعید تھا کہ مجھے چلاس کے گونر فارم پر یا بلوچستان ایران سرحد سے کچھ دوری پر بس سے اتارا جاتا، میرا شناختی کارڈ دیکھا جاتا، میری کمر پر سے قمیض ہٹائی جاتی اور پھر مجھے سر میں گولی مار دی جاتی۔ اسلام آباد کے ہاکی اسٹیڈیم میں اسمبلی سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر مجھے کافر کافر پکارا جاتا اور میری تقدیر کے کلید بردار اپنی تنخواہوں پر بحث میں مشغول رہتے۔ جھنگ سے ڈیرہ غازی خان تک میرے ہم عقیدہ اپنا سر بچاتے پھرتے اور سر اتارنے والے وزیروں کے ساتھ ایک ہی ٹرک پر سوار گل پاشی کروانے میں مگن ہوتے۔ کراچی سے پارا چنار تک میری عبادت گاہوں کو نشانہ بنا کر قتل عام ہوتا۔ کوئٹہ میں ماتم کرتے میرے بچے اور بزرگ ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جاتے۔ خون جما دینے والی سردی میں میرے ختم ہوتے قبیلے کی عورتیں رات بھر ٹھنڈی برفیلی سڑک پر اپنے بچوں کی لاشوں کے ساتھ خاموش بیٹھی انصاف کی بھیک مانگتی رہتیں اور پھر وہی منظر ایک لوپ میں پھنسی فلم کی طرح ہر کچھ ماہ بعد چلتا۔ میری بیٹیاں ایک جلتی بس میں نزر آتش ہوتیں اور ان کے قاتلوں کے سرپرست اعلی ترین ایوانوں کی رکنیت کا حلف اٹھاتے۔ اور کہیں میرے والدین کا عقیدہ ایک اور ہوتا تو پھر تو میری قبروں کے کتبے بھی اکھاڑ دیے جاتے۔ دکانوں میں میرے داخلے کی پابندی کی مناہی آویزاں کر دی جاتی۔ سڑکوں پر میرے بزرگوں کے سروں میں گولیاں اتاری جاتیں۔ فیصل آباد کے نواح میں میرے بچوں کو گھر میں زندہ جلایا جاتا۔ میری عبادت گاہوں کے مینار مسمار کردیے جاتے۔ مجھے ہر دشمن کا آلہ کار بنا دیا جاتا۔ کالم نگار میری پوری جماعت پر تبرا کرنا ایک طے شدہ فرض سمجھتے۔ میرے عقیدے کی جانچ زمینی خدا کرتے۔ سلام کرنے پر مجھے جیل ڈال دیا جاتا۔ عبادت کرتے ہوووں کی سینکڑوں لا شیں گرا دی جاتیں اور میڈیا پر علاقے کے لوگ ہمیں اپنی موت کا قصوروار گردانتے۔ کہیں کوئی سیاسی رہنما ہم سے اظہار ہمدردی کی خاطر ہمیں گلے لگاتا تو اس پر کفر کے فتوے آ جاتے۔ تو شکر تو بنتا ہے۔
میں اس پر بھی شکر ادا کرتا ہوں کہ میں مرد پیدا ہوا وگرنہ سڑک پر دو قدم چلنا دو بھر ہوتا۔ کوئی مجھے ٹافی سے تشبیہ دیتا کوئی مٹھائی سے۔ ملک کے اعلی ترین اذہان میرے لباس کی تراش خراش کو اللہ کے عذاب کے ساتھ جوڑتے۔ مجھے سر نہ ڈھانپنے پر وعید ہوتی۔ بازاروں اور تفریح گاہوں میں میرا جانا ایک جرم ہوتا۔ کبھی بھائی کی جان بچانے کے لیے میرا وجود کاری ہوتا تو کبھی ونی اور سوارہ کے نام پر مجھے باندی بنایا جاتا۔ کبھی پنچایت مجھے بھیڑیوں کے آگے ڈالتی تو کبھی میرے محافظ ہی مجھے نوچ کھاتے۔ میری درس گاہیں بم سے اڑا دی جاتیں۔ میری آواز کو گولی سے خاموش کیا جاتا اور آواز بچ جاتی تو مجھے غدار، قوم فروش، مذہب دشمن اور ڈرامہ کوئین کے القاب سے سرفراز کر دیا جاتا۔ تین لفظ کافی ہوتے میرے سر سے چھت کھینچ لینے کے لیے۔ میری گواہی بھی آدھی ہوتی اور جائیداد میں حصہ، ارے کیوں مزاق کرتے ہیں۔ شرعی احکام کی بحث کا نوے فی صد مجھے مزید بیڑیاں پہنانے کے گرد گھومتا۔ تیزاب سے میرا چہرہ جھلسایا جاتا اور اس پر بات کرنے والے کو مغرب کا ایجنٹ بنا دیا جاتا۔ مجھ پر تشدد کے حق میں صحیفوں سے دلیلیں لائی جاتیں۔ میرے حقوق کی بات ہوتی تو اسے بے شرمی اور بے حیائی سے عبارت کیا جاتا۔ میری تقدیر کا ہر فیصلہ مرد کے ہاتھ میں ہوتا۔ کیا ہی شکر کا مقام ہے کہ میں وہی مرد ہوں جو فیصلے کرتا ہے، جس کے فیصلے کیے نہیں جاتے۔
شکر کی یہ داستان بہت طولانی ہے۔ میں شکر کرتا ہوں کہ میں مٹھی، تھر، جام پور یا لورالائی میں پیدا نہیں ہوا نہیں تو سکول کا منہ نہ دیکھ پاتا۔ بیمار ہوتا تو ڈاکٹر نہ ملتا۔ ایک جوہڑ پر جانوروں کے ساتھ پانی پیتا۔ میں شکر کرتا ہوں کہ کبھی رینجرز نے مجھے نہیں اٹھایا۔ کبھی میں ایجنسیوں کا مہمان نہیں بنا۔ ابھی تک میں کسی بم دھماکے میں نہیں مرا۔ میں شکر کرتا ہوں کہ بچپن میں مجھے پولیو نہیں ہوا اور جوانی میں مجھے پولیو مہم میں ڈیوٹی نہیں دینی پڑی۔ ایک میں معذوری اور دوسرے میں معدومی مقدر ہو سکتی تھی. میں شکر کرتا ہوں کہ میرے ملک میں سیاسی اور انتظامی عہدوں کی بانٹ ابھی بھی عقیدے سے وابستہ ہے۔ میرے صدور میں ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر عبدالکلام، ڈاکٹر پرناب مکھر جی، ڈاکٹر شنکر دیال شرما، ڈاکٹر فخر الدین علی احمد، ڈاکٹر رادھا کرشنن اور ڈاکٹر راجندر پرشاد جیسے لوگ نہیں ہیں۔ یہ صدارت ہے کوئی یونیورسٹی کی لیکچرر شپ تھوڑی ہے کہ پڑھے لکھے علماء کو بانٹی جائے ۔ اس پر تو اچھے سرکاری افسروں، تابع فرمان ججوں، ذی وقار وردی میں ملبوس جرنیلوں اور عمر رسیدہ کاروباری ذہنوں کا حق ہے۔ ہر کام پڑھے لکھے لوگوں کا تھوڑا ہوتا ہے۔ شکر ہے کہ ابھی میرے ملک میں یہ عقل باقی ہے۔ سیاسی رہنما بھی ہمارا ایک سے ایک ہے۔ کہیں ہمیں جواہر لال نہرو، امبیڈکر، واجپائی، شاستری، جیوتی باسو، نامبودریپد، نرسمہا راو یا ڈیسائی جیسے راہنما مل جاتے تو آج ہم کہاں ہوتے، وہ تو شکر ہے کہ ہمیں اسکندر مرزا، ایوب خان، یحیی خان، ضیاءالحق، جنرل مشرف، میاں نواز شریف، عمران خان، منور حسن اور مولانا فضل الرحمان جیسے نابغے نصیب ہوئے ۔ بیچ میں کہیں سردار نشتر، ذوالفقار علی بھٹو، معراج خالد یا بے نظیر بھٹو جیسے گڑبڑ لوگ بھی آئے پر ان کو بھی یار لوگ راہ پر لگا لائے۔ انہی سب کا فیض ہے کہ ہم قرارداد مقاصد کی چھتر چھایا تلے ایک امن، آشتی، رواداری اور بھائی چارے کا نمونہ بنی ایک ترقی یافتہ مملکت ہیں۔ اب ستر سال بعد ہندوستان میں بھی رواداری کا وہی پاٹھ جو ہم 1955 سے پڑھ رہے ہیں، پڑھائے جانے کی کچھ آشا بندھی ہے۔ مودی صاحب اور آدیتہ یوگی جیسے لگے رہے تو ہندوستان بھی ہماری طرح چین، سکون اور ہم آہنگی کی روشن مثال بن جائے گا ۔ اس لیے میں اس پر بھی شکر کرتا ہوں۔ اور سب سے بڑھ کر میں اس پر شکر کرتا ہوں کہ 1947 میں تقسیم کے بعد میں سرحد کے اس پار پیدا ہوا ورنہ سرحد کے اس پار پیدا ہوتا تو مذہب کی بنیاد پر ہوئی تقسیم کی ساری قیمت میں چکاتا۔ اب ہندوستان کا مسلمان مرے یا جیے، میری بلا سے۔ برصغیر میں اس کی قوت تین حصوں میں منقسم ہے، میری بلا سے۔ میں اس بصیرت پر شکر کرتا ہوں جس نے ہندوستان کے مسلم جسم کو دو حصوں میں کاٹا۔ اب آدھا جسم زندہ درگور ہے کہ باقی آدھے جسم کے بیف کباب کھانے کا بل کسی نے تو بھرنا ہے۔ پر میں خوش ہوں کہ یہ قیمت مجھے نہیں دینی ہوں۔ شکر ہے ۔ میں آدھا ہوں، ادھورا ہوں پر میرے پیسے بچ گئے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“