طلوع و غروب ِ آفتاب
( ڈائری کے چند اوراق )
[ فریدوں نے نرمی سے کہا ؛ ” ہم وہیں رہیں گے جہاں ہم ہیں ۔ ۔ ۔ ہندوﺅں ، مسلمانوں ، سکھوں یا جو کوئی بھی حکومت کرنا چاہتا ہے ، کرتا رہے ۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ ان گدھوں ۔ ۔ ۔ پرہرروزآفتاب طلوع اور غروب ہوتا رہے گا ۔“ ]
صدی پلٹ رہی ہے ؛ یہ سن 2000 ء ہے ۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ، کراچی ، پاکستان ، بیپسی سدھوا کے چار ناول ’ کرو ایٹرز‘ ( The Crow Eaters ) ، ’ دی برائیڈ ‘ ( The Bride ) ، ’ آئس کینڈی – مین ‘ ( Ice-Candy Man ) اور ’ این امریکن بریٹ ‘ ( An American Brat ) اکٹھا شائع کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے ۔ اس پریس نے اس کتاب کا نام ’ دی بیپسی سدھوا اومنی بس ‘ ( The Bapsi Sidhwa Omnibus ) رکھا ہے ۔ اِدھر لاہور میں 10 – کمرشل بلڈنگ ، مال روڈ پر ایک ایسی آرٹ گیلری کی آرائش و تزئین کا کام جاری ہے جس کی اوپرلی منزل پر ایک ریسٹورنٹ بھی ہے ۔ یہ جگہ عرصے سے بند تھی ۔ اس کے باہر خالص برطانوی راج کے زمانے کا ، روٹ آئرن ( Rot Iron ) کی بنی عمودی تختی آویزاں ہے جس پر لکھا ہے ؛ The Crow Eaters Art Gallery ۔
یہ فروری 2001 ء کی ایک اتوار کا دن ہے ۔ سہ پہر کا وقت ہے اور موسم خوشگوار ہے ۔ 10 – کمرشل بلڈنگ ، مال روڈ کے سامنے سبزے پرلگ بھگ دو سو کرسی لگی ہوئی ہے اور ایک چھوٹا سا سٹیج بھی بنا ہے ؛ اس پر چارآرائشی کرسیاں ایک میز اور ایک طرف روسٹرم پڑا ہے جس پر ایک بندہ مائیک نصب کرتے ہوئے ’ ہیلو ۔ ۔ ۔ ہیلو۔ ۔ ۔ ٹیسٹنگ ۔ ۔ ۔ ٹیسٹنگ ‘ کی آواز لگا رہا ہے ۔ سٹیج کے پاس ہی دو فولڈنگ میزوں کا جوڑ کر رکھا گیا ہے اور ان پر بچھی سفید چادر پر ’ دی بیپسی سدھوا اومنی بس ‘ کی جلدیں ترتیب سے رکھی ہوئی ہیں ؛ ’ کرو ایٹرز آرٹ گیلری ‘ پر رنگ برنگے قمقمے جل بجھ رہے ہیں ۔ لاہور کی اشرافیہ کے کئی لوگ یا تو کرسیوں پر بیٹھے ہیں یا چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں کھڑے باتیں کر رہے ہیں ؛ میں بھی اس محفل میں اپنی فیملی کے ساتھ موجود ہوں ۔ میں ان میں سے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جن سے علیک سلیک کرنے کے بعد ، میں فنکشن کے شروع ہونے کا منتظر ہوں ؛ ان میں پنجاب یونیورسٹی کے کچھ اساتذہ بھی موجود ہیں جن میں سے کچھ میرے استاد بھی رہے ہیں ۔ محفل میں ایک جوڑے پر میرے سمیت کئی ایک کی نظریں جمی ہیں ؛ یہ طارق صدیقی اور ان کی بیگم نگار ہیں ؛ طارق صدیقی اس وقت سٹاف کالج لاہور کے سربراہ ہیں ؛ انہوں نے سفید شلوار کرتا اور کالی واسکٹ پہن رکھی ہے اور اس کے چہرے پر وہابی سٹائل کی قطع و برید سے آزاد جھاڑی نما داڑھی ہے ؛ کامل خان ممتاز کی طرح ان کی شلوار بھی ٹخنوں سے اونچی ہے ۔ طارق صدیقی کی بیگم نے شوخ نارنجی ساڑھی باندھ رکھی ہے اور ان کے بال ’ بوائے کٹ ‘ سٹائل میں سنورے ہوئے ہیں ۔ جب میں پنجاب یونیورسٹی کا طالب علم تھا تو طارق صدیقی بیوروکریٹ تھے اور پنجاب سول سیکریٹریٹ میں تعینات تھے ؛ وہ اس وقت کلین شیو تھے اور بائیں بازو کے خیالات رکھتے تھے اس لئے ان کا آنا جانا شعبہ سیاسیات اور شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن میں لگا رہتا تھا ؛ ان دونوں شعبوں میں ڈاکٹر حامد قزلباش ، پروفیسر خالد محمود ، خاور ممتاز ، ڈاکٹر مجیب ، ڈاکٹر منیر جیسے اور بھی کئی استاد تھے جو بائیں بازو کی سیاست میں سرگرم تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا تعلق بھی اسی طرح کی سیاست سے تھا ۔
ایک مرسیڈیز آ کر رکتی ہے ؛ اس سے بیپسی سدھوا اور ایم پی بھنڈارا اترتے ہیں ۔ مرسیڈیز کے پیچھے ایک اور گاڑی رکتی ہے جس سے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی امینہ سید باہر نکلتی ہیں ، ان کے ہمراہ ’ او یو پی ‘ کا ڈائریکٹر لاہور ہے؛ وہ سٹیج کی طرف بڑھتے ہیں ؛ کرو ایٹرزگیلری کا بندوبستی آگے بڑھ کر انہیں ہار پہناتا ہے ۔ ٹولیوں میں کھڑے لوگ نششتوں پر بیٹھ جاتے ہیں ۔ سٹیج پر محفل کی رسمی کاروائی شروع ہوتی ہے ؛ اس کا آغاز کسی قسم کی مذہبی تلاوت یا دعائیہ کلمات سے نہیں ہوتا ۔ بندوبستی کے اعلان پر چاروں کرو ایٹر زگیلری کی طرف بڑھتے ہیں ؛ ایم پی بھنڈارا طشتری سے قینچی اٹھا کراپنی بہن کو تھماتا ہے۔
'' ارے یہ کیا ؟ تم تو اس کا فیتہ پہلے ہی کاٹ چکے ہو۔ ۔ ۔ '' ، بیپسی کہتی ہے ۔
'' تم یہاں ہوتیں تو تم سے ہی کٹواتا ۔ کتاب لانچنگ کے ساتھ فیتہ بھی کاٹ دو ۔ ''
پھر کچھ تقاریر ہوتیں ہیں ؛ آخری تقریر بیپسی سدھوا کرتی ہے ، جس کے بعد حاضرین محفل کے لئے ’ ہائی ٹی‘ کھول دی جاتی ہے اور بیپسی سِدھوا اس میز کے پاس کھڑی ہو کر ’ دی بیپسی سدھوا اومنی بس نامی‘ اپنی کتاب دستخط کرکے اپنے ان مداحوں کو دیتی جاتی ہے جو یہ ’ اومنی بس ‘ خریدنا چاہتے ہیں ؛ ان کے ساتھ ان کا بھائی ایم پی بھنڈارا بھی کھڑا ہے۔ جب رش چھٹتا ہے تو میری بیوی آگے بڑھتی ہے ، خود کو متعارف کرواتی ہے ، میری بیٹی تانیہ بھی اس کے ہمراہ ہے ؛ میری بیوی نذیر احمد قریشی کی بیٹی ہے جو لاہورمیں دوبارہ بسنے سے پہلے ایک عرصے تک ’ مری بروری‘ میں بطور بوائلر انجینئر کام کرتے رہے تھے اور اس دوران اس بروری کی ہی رہائشی کالونی میں رہے تھے ؛ میری بیوی کا بچپن بھی وہیں گزرا تھا ۔ وہ بیپسی سدھوا اور ایم پی بھنڈارا کے ساتھ اپنی تصویر کھنچواتی ہے ؛ میں اس دوران سٹال سے ’ اومنی بس‘ کی ایک جلد خریدتا ہوں ۔ اپنی بیٹی کے لئے بیپسی سدھوا سے دستخط کرواتا ہوں ۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ مال روڈ پر بیٹھنے کی مناسب لبرل ماحول والی بیٹھنے والی ایک اورجگہ بن چکی ہے ۔
یہ 1978 ء ہے ۔ بیپسی سدھوا دو ناول ، ’ دی برائڈ ‘ اور ’ دی کرو ایٹرز‘ لکھ چکی ہے لیکن کوئی انہیں چھاپنے کو تیار نہیں ؛ کسی کو ناولوں کے نام پسند نہیں ، کسی کو ان کا موضوع اور کچھ کو ان کے مواد پر اعتراض ہے ۔ اصل وجہ اس وقت یہ ہے کہ کوئی ناشر کسی non – entity کا انگریزی میں لکھا کچھ بھی چھاپنے کو تیار نہیں ہے ۔ وہ ’ دی کرو ایٹرز‘ خود چھاپتی ہے اور خود ہی بک سٹالوں پر جا کر رکھواتی ہے ۔ برطانیہ میں یہ ناول جوناتھن کیپ نے 1980ء میں چھاپتا ہے ۔ اس کا ناول ’ آئس کینڈی مین‘ 1988ء میں چھپتا ہے ۔
یہ 1977 ء ہے ۔ بہار کا موسم ختم ہونے کو ہے سورج کیکرنوں میں گرمی در آئی ہے ۔ ملک کے سیاسی موسم میں بھی تپش بڑھ چکی ہے ۔ اتوار کا دن ہے ، گیارہ بجنے کو ہیں ؛ میرے گھر کے دروازے پہ دستک ہوتی ہے ۔ میں کھڑکی سے نیچے جھانکتا ہوں ؛ میرا دوست ناصر علی قمر نیچے کھڑا ہے ۔ ہم انارکلی بازار سے گزر رہے ہیں ۔ وہ کہتا ہے ؛
” آج میرا بھی شراب پینے کو دل چاہ رہا ہے ۔“ ، میں اسے حیرت سے دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں ؛’ اسے کیا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ یہ تو اس وقت بھی بیٹھا کوک پیتا رہتا تھا جب میں اس کے سامنے ووڈکا پی رہا ہوتا تھا ۔‘،” ارے تمہیں کیا ہوا ہے ؟ “
” کچھ نہیں ، بس سافٹ ڈرنکس پیتے پیتے تنگ آ گیا ہوں ۔ “
” کیا پینا چاہتے ہو ؟“
” کوئی ہلکی ڈرنک “
” تو ٹھیک ہے ، تمہارے لئے ڈرائی جِن ٹھیک رہے گی ۔ میں بھی اسی پر گزارہ کر لوں گا ۔“ ، اسے معلوم ہے کہ میں ووڈکا پیتا ہوں ۔ وہ چپ رہتا ہے ۔ ہم ٹولنٹن مارکیٹ کے چوک میں پہنچ چکے ہیں ۔ چوک میں لاتعداد شیشے کی کرچیاں بکھری ہوئی ہیں ۔ ہم بچتے بچاتے 10۔ کمرشل بلڈنگ کی طرف بڑھتے ہیں ۔ کرچیوں اور شیشے کے ٹکڑوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ میں سوچتا ہوں ؛ ’ کچھ گڑبڑ ہے ۔ ۔ ۔ ‘ ، اتنے میں میری نظرکمرشل بلڈنگ کی طرف اٹھتی ہے ۔’ ڈی پی ایڈل جی اینڈ کمپنی ' کا بورڈ ہی نہیں عمارت کا پورا ماتھا جھلسا ہوا ہے ۔شٹر ٹوٹا ہوا ہے اور اندر والا موٹی جالی کا دروازہ بھی ٹوٹا ہوا ہے ۔ اندر دکان خالی ہے اور دھویں سے سیاہ ہے ۔ پرانی انارکلی کی طرف اس کے ساتھ پان سگریٹ کا کھوکھا بھی جلا ہوا ہے ۔ بائیں طرف کی دکان بھی آگ کی زد میں آئی نظر آ رہی ہے ۔ آس پاس گزرتے راہ گیروں سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ گزری رات ریڈیو اور ٹی وی پر بھٹو کی طرف سے شراب پر پابندی کے اعلان ہوتے ہی دائیں بازو کی جماعتوں کے غنڈوں نے اس دکان پر دھاوا بول دیا تھا ؛ شرابوں کے کریٹ اٹھا کر باہر پھینکے ، توڑ پھوڑ کی اور پھر آگ لگا دی ۔
” لوتم پی لو شراب ۔ ۔ ۔“ ، میں ہنس کر اپنے دوست سے کہتا ہوں ۔ وہ بھی ہنس پڑتا ہے ، ” اوپر والا نہیں چاہتا کہ میں ایسا کچھ کروں ۔“
” چلوسیون اپ پیتے ہوئے ریگل میں میٹنی شو دیکھتے ہیں ۔ “، میں قہقہہ لگاتا ہوں ۔
ریگل سینما کے ساتھ والی گلی میں واقع شراب خانے کا بھی وہی حشر نظر آتا ہے جو ہم ' ایڈل جی ' کا دیکھ آئے تھے ۔ ہم میٹنی شو کے ٹکٹ لے کر سینما ہال میں گھس جاتے ہیں ؛ اس میں ’ گرئجویٹ‘ رعایتی ٹکٹ پر لگی ہوئی ہے ۔
1940 کی دہائی شروع ہو چکی ہے ۔ 1860ء میں بننے والی اور ایڈورڈ ڈائر (سانحہ جلیانوالہ کے میجر ڈائر کا والد) کے ہاتھوں چلنے والی ’ مری بروری‘ کے شیئرز کا بڑا حصہ بیپسی سدھوا کے والد پیشٹن دھان جی بھنڈارا کے پاس آ چکے ہیں ؛ اس نے یہ ہندوﺅں ، مسلمانوں ، سکھوں اور انگریزوں سے خریدے ہیں ۔ اگر کوئی اس کے مد مقابل ہے تو وہ سہگل خاندان ہے ۔
خونی فسادات کے بعد 1947ء میں پاکستان بن چکا ہے ؛ پیشٹن دھان جی بھنڈارا کی کوشش ہے کہ وہ ’ مری بروری ‘ کا انتظام سنبھالے ، اس کے مد مقابل سعید سہگل ہے ؛ بات مقدمہ بازی تک جا پہنچتی ہے لیکن پی ڈی بھنڈارا اپنے وکیلوں کی مدد سے یہ جنگ جیت لیتا ہے اور ' مری بروری ' بھنڈارا خاندان کے پاس آ جاتی ہے جو پہلے صرف’ ایڈل جی اینڈ کمپنی‘ کا مالک ہے جس کا دفتراور سٹور لاہور میں ہے لیکن تجارت کابل تک پھیلی ہے ۔ پی ڈی بھنڈارا ' مری بروری ' کو ساٹھ کی دہائی آنے تک چلاتا ہے ۔ اس کا بیٹا منوچر پیشٹن بھنڈارا ، 21 سال کی عمر میں اس کا انتظام سنبھالتا ہے اور ستر کی دہائی شروع ہونے تک ’ ٹوپس ‘ ( TOPS ) کے نام سے سافٹ ڈرنکس بنانے والے یونٹ کے ساتھ ساتھ ’ مری گلاس فیکٹری ‘ بھی کھڑی کر لیتا ہے ۔
یہ 15 جون 2008 ء ہے ۔ اتوار کا دن ہے ۔ منوچر پیشٹن بھنڈارا 71 برس کی عمر میں فوت ہو گیا ہے ۔ وہ ہفتوں پہلے چین میں ہوئے ایک کار حادثے میں شدید زخمی ہو گیا تھا ۔
یہ 26 اکتوبر 2008 ء ہے ۔ اتوار کا دن ہے ۔ میں اپنے گھرفیصل ٹاﺅن سے مال روڈ پر آیا ہوں؛ ’ کرو ایٹرز آرٹ گیلری ‘ میں ثنا محمود ، امارا خالد ، ریحانہ منگی اور نریسا فرنینڈس کی پینٹگز کی نمائش لگی ہوئی ہے ۔ گیلری میں زندگی کی چہک لہک موجود نہیں ہے ۔ وہ ، جو نمائش دیکھنے آئے ہیں ان سب کے چہرے افسردہ ہیں ۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ نمائش 31 ، اکتوبرتک ہے جس کے ساتھ ہی اس گیلری نے بھی بند ہو جانا ہے ۔ نایاب شامی جو اس گیلری کی کیوریٹر اور ریستوراں کی منتظم بھی ہیں ، دروازے کے پاس کھڑی ہیں اور گیلری میں داخل ہونے والے کو ہر فرد انفرادی طور پر اس بات سے مطلع کر رہی ہے کہ اس گیلری کے دروازے یکم نومبر سے بند ہو جائیں گے ؛ ان کی آنکھوں میں نمی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان ، خصوصاً لاہور میں لبرل اور روشن خیالی کی جگہ سکڑتی جا رہی ہے اور یہ بھی کہ بھنڈارا خاندان کے لئے اسے مزید subsidize کرنا ممکن نہیں رہا ۔ اس آرٹ گیلری نے لگ بھگ ایک دہائی تک پینٹنگز کی درجنوں نمائشیں کروائیں ؛ ان میں تصدق سہیل ، چنگیز سلطان ، مشکور رضا اور ناہید رضا کا کام بھی شامل تھا ۔ اس گیلری کی اپنے ذخیرے میں گل جی ، صادقین اور احمد خان کی کچھ نادر پینٹنگز کے علاوہ اور بھی مصوروں کا کام موجود ہے ۔ جب تک ایم پی بھنڈارا زندہ رہا وہ اس گیلری کی چھت پر بسنت کا تہوار بھی دھوم دھام سے مناتا رہا تھا ۔ اس گیلری کا نا م ’ کرو ایٹرز‘ ناول کے حوالے سے ، ایک بھائی کی بہن کے لئے محبت کی یاد بھی دلاتا ہے ۔ پیشٹن دھان جی بھنڈارا کے پوتے اسفن یار منوچر بھنڈارا کو کاروبار و سیاست سے ہی فرصت نہیں کہ وہ اپنے خاندان کی ادبی و فنون لطیفہ سے جڑت کو برقرار رکھے اور اس گیلری کو نشانی کے طور پر قائم رہنے دے ۔
یہ نومبر2008 ء ہے ۔ اتوار کا دن ہے۔ سہ پہر کا وقت ہے ، سورج ڈھل چکا ہے اورجاڑے کے اوائل کی ہلکی ہلکی دھند کے بگولے ہوا میں ٹوٹے دلوں کی طرح تیر رہے ہیں ؛ میں ایک بار پھر نہر کے ساتھ بہتی سڑک پر سے مال روڈ پرچڑھتا ہوں اور دائیں بائیں دیکھتا ٹولنٹن مارکیٹ کے چوک تک پہنچتا ہوں ؛ ٹریفک کی بتی سرخ ہے ؛ میرے بائیں ہاتھ 10 ۔ کمرشل بلڈنگ کا مرکزی دروازہ بند ہے ، ' کرو ایٹرز گیلری ' کی عمودی تختی البتہ موجود ہے ؛ اس پر ایک کوا بیٹھا چونچ نیچی کئے ، اُس کوے کو دیکھ رہا ہے جو تختی پر بنا ہے ۔ 10 ۔ کمرشل بلڈنگ لاہور سے ایڈل جی کا لگ بھگ ڈیڑھ سوسالہ سفر تھم چکا ہے ؛ وہ جگہ جہاں پیشٹن جی نے نیچے سٹور کھول کر اوپرخود کو بسایا تھا ؛ شہر میں یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ ایم پی بھنڈارا کی وفات کے ساتھ ہی، اس گیلری کا بند ہونے کی اصل وجہ وہ تنازع ہے جو اسفن یار منوچر بھنڈارا کا ماں اور اپنے ماں جائیوں سے جائیداد کے حوالے سے کھڑا ہوا ہے ۔
بتی ہری ہونے ہی میں گاڑی آگے بڑھا دیتا ہوں اور ’ کِمز گن ‘ ( بھنگیوں کی توپ) کے پاس گول چکر سے گاڑی کو واپس مال روڈ پرموڑ لیتا ہوں ؛ میرے بائیں طرف گورنمنٹ کالج ، اولڈ کیمپس ، اس کے پیچھے میرا سکول ، بازو میں انارکلی اور دائیں جانب این سی اے یادوں کے انبار لئے اپنی اپنی جگہ موجود ہیں ۔ مال روڈ پر البتہ نہ ’ کیپری‘ ہے ، نہ کافی ہاﺅس اور چائنیز لنچ ہوم ، پاک ٹی ہاﺅس بھی نہیں ، وائی ایم سی اے ریستوراں کا بورڈ تو ہے لیکن شاید ریستوراں نہیں ، شیزان کانٹینینل اور اورئینٹل بھی نہیں ، کیتھی اور مینزی بھی نہیں ۔ مجھے چائے پینے کی طلب ہوتی ہے ۔ میں آواری کے سامنے بریک لگاتا ہوں ؛ اس کے لوہے کے کھلے دروازے کی طرف نظر کرتا ہوں لیکن واک تھرو گیٹس اور ڈبل چیک پوسٹ پر کھڑے گارڈز کو دیکھ کر میری چائے کی طلب ہوا ہو چکی ہے؛ سماج میں بڑھتے صارفی رجحان ، دائیں بازو کی انتہا پسندی اوردہشت گردی نے کیا کچھ بدل کر رکھ دیا ہے ۔ میں ریس پر پاﺅں رکھ دیتا ہوں ؛ میرا دل جلد از جلد ،مال روڈ سے، کسی دوسری سڑک پر اترنے کے لئے بیتاب ہے ۔
یہ اگست 2014 ء ہے ؛ افواہیں ٹھوس شکل اختیار کرتی ہیں؛ گوشی ایم بھنڈارا ، ایم پی بھنڈارا کی بیوہ جو خود بھی ’ مری بروری ‘ کے مالکان میں سے ایک ہے کا اپنے بیٹے اسفن یارسے تنازع کھل کر سامنے آتا ہے ؛ وہ کمپنی میں اپنے حصے کے لئے اس کے دوبدو ہے ۔ ایسے میں وہ اپنے داماد رستم سدھوا سے مدد لیتی ہے۔ ماں اپنے بیٹے اسفن یار اور دا ماد رستم سدھوا کے اختلافات کے حوالے سے داماد کے ساتھ ہے ۔ وہ اسفن یار کے ان الزامات کو جھٹلاتی ہے کہ وہ اتنی بوڑھی ہو چکی ہے کہ اپنا اچھا بُرا نہیں پہچان پاتی اور یہ کہ وہ توہمات و کالے جادو کے حصار میں ہے ۔
یہ 18فروری 2016 ء ہے ؛ اسفن یار منوچر بھنڈارا کے ایماء پر اس کا بہنوئی رستم سدھوا جعلی پاکستانی شناختی کارڈ رکھنے اور انڈین ایجنٹ ہونے کے شبے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے ۔
بیپسی سدھوا کو ’ کرو ایٹرز‘ ۔ پارٹ ۔ II لکھنے کی ضرورت ہے کہ ’ فریدوں جنگل والا ‘ عرف ’ فریڈی ‘ ، اسفن یار کے روپ میں جنم لے چکا ہے ۔ اب جبکہ وہ اسی برس کی ہے کیا وہ اگلی نسل کے فریڈی کے بارے میں لکھ پائے گی ؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔