جان لیوا صدمات سے انسان بچ نکلتاہے مگر دِل پر صبر کی سِل رکھنے کے لیے طویل وقت کی احتیاج ہے ۔کردار اور وقار کی رفعت تک رسائی کے لیے آزمائش و ابتلا کی گھڑیوں میں ثابت قدم رہنا بہت ضروری ہے ۔ چھے جولائی دو ہزار سترہ کو نو جوان بیٹے سجاد حسین کی دائمی مفارقت کا صدمہ سہہ کر تین برس سے عار ضہ قلب کے باعث میں اپنے گھر میں گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں ۔ ہجوم یاس میں گِھر کر میں بے خود سا ہو گیا ہوں اور گوشہ نشینی کی اس زندگی میں تنہائیوں نے مجھے اپنے گھر تک محدود کر دیاہے ۔ آلام ِ روزگار کے مہیب بگولوں اور سمے کے سم کے ثمر نے یہ دن دکھائے کہ میرے اکثر ساتھی اب کہیں دکھائی نہیں دیتے ۔ رخشِ خیال نے مجھ پر واضح کر دیا کہ جنھیں تم بہت بڑا سہارا سمجھتے رہے وہ سب ابن الوقت کس قدرچھوٹے اور جُھوٹے نکلے۔ اِن میں سے کچھ تو گُل چِین ازل نے چھین لیے اور کچھ فصلی بٹیرے ایسے تھے جنھیں خود غرضی ،بے حِسی ،حرص و ہوس اور موقع پرستی کے بگولے خس و خاشاک کے مانند اُڑا لے گئے ۔قحط الرجال کے موجودہ دور کے تکلیف دہحالات میں جب کچھ درد آشنا احباب مجھ سے ملنے کے لیے آتے ہیں تو میں اُن کی آمد کو بندہ پروری پر محمول کرتاہوں اور ان کی راہ میں آ نکھیں بچھاتاہوں ۔ بے لوث انداز میںخاموشی سے غم گساری ایک ایسا لین دین ہے جس کی افادیت مسلمہ ہے ۔ آپ بیتی کی مثال بھی مکڑی کے ایک جالے کی سی ہے جس کے تاروں کے مختلف کونوں میں ایام گزشتہ کی یادیں اور فریادیں سمٹ جاتی ہیں ۔میں نے بزرگوں سے سُنا ہے کہ وہ صابر و شاکر لوگ جو طوفانوں میں پلتے ہیں وہ مصائب و آلام کے گرد باد اور جان سے پیارے عزیزوں کی دائمی مفارقت کے بگولوں کی تندی سے اس لیے نہیں ڈرتے کہ انھیں یہ حقیقت معلوم ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مصائب و آلام کی آندھیوں کے یہ بگولے گر دکے مانند بیٹھ جائیں گے۔کئی مخلص احباب مجھے سے ملنے آتے ہیں تو جاتے وقت دعا کرتے ہیں کہ اے دوست تم اس خرابے میں آباد رہو ۔اس کائنات کی مثال کارگہِ شیشہ گری کی سی ہے اس لیے بعض اوقات سانس لینے میںبھی بہت احتیاط سے کام لینا پڑتاہے ۔
سولہ دسمبر۲۰۲۱ء کی سہ پہر کو پروفیسر بشارت حسین وقار میرے گھر پہنچے، اہلِ جور کی شکایات کے بجائے اُس کی پُر نم آنکھوں میں سو طرح کی حکایات ہو گئیں ۔ اس موقع پر انھوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے ایک جان لیوا، لرزہ خیز اور اعصاب شکن سانحہ کے بارے میں مجھے مطلع کیا۔ اس کی پُر نم آ نکھوں نے مجھے اس طرح اسیر کیا کہ میں بھی دل گرفتہ ہو گیا۔ جوں ہی اس صابر و شاکر معلم نے میرے سامنے اپنے بچھڑنے والے نوجوان بیٹے توقیر عباس کا نام لیا میں نے اپنے دِلِ ستم زدہ کو تھا م تھام لیا ۔عالمی کلاسیک کے نباض ،پنجابی زبان کے محقق ،نقاد، مورخ،فلسفی ، ادیب اور ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر بشارت حسین وقارکے فرزندتوقیر عباس کی پُر اسرار گمشدگی کی اطلاع ملی تو میر ادِل دہل گیا۔ پروفیسربشارت حسین وقار نے مجھے بتایا کہ جمعرات۔ تیرہ مئی 2021عید الفطر کی تعطیلات کے بعد تعلیمی ادارے کُھلے تو وہ اپنے مقام تعیناتی پر پہنچا ۔اس کے ساتھ اس کا نو جوان فرزند بھی عید منانے کے بعد جھنگ کے ایک مقامی تعلیمی ادارے میں حاضر ہوا۔ معلوم ہوا کہ یہ نوجوان جو ایم۔اے ( اردو )فائنل کا طالب علم تھاسترہ مئی ۲۰۲۱ء کو گھر واپس نہ آیا ۔بعض واقف حال لوگوں کا اندیشہ ہے کہ یہ ہو نہار طالب علم کینہ پرور حاسدوں کے انتقام کی بھینٹ چڑھ گیا۔کچھ جو فروش گندم نما بھیڑیے ایسے بھی ہیںجنھوں نے بھیڑکا لباس پہن رکھا ہوتاہے۔ایسے ہی آستین کے سانپ جب کاٹتے ہیں تو زندگی بھاری لگتی ہے ۔ دریائے جہلم اور چناب کے سنگم تریموں کے نواح میںبسنے والے کچھ موہانے اور بَلّی مار یہ بتاتے ہیں کہ انھوںنے ایک نوجوان کوشور انگیز دریا کی طوفانی لہروں میںڈوبتے ہوئے دیکھا ہے جو اپنی جان بچانے کے لیے بلند آواز سے مدد مانگ رہا تھا۔اُس نے سر ِگرداب کئی بار مدد کے لیے پکارا مگر دریا کے دوسرے کنارے پر کھڑے لوگ جب قریب پہنچے تو دریا کی تلاطم خیز موجیںسب کچھ بہا کر لے گئی تھیں ۔ باطنِ ایام پر گہری نظر رکھنے والے دیدہ وروںکا خیال ہے کہ اس خاندان کی کشتی دریائے جہلم کی تلاطم خیز موجوں سے یقیناً بچ سکتی تھی مگر یہاں تو کشتی کے اندر تلاطم پیدا ہو گیا تھااورتوقیر عباس کی خالہ کے بیٹے اُس کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے ۔ بشار ت حسین وقار نے پورے یقین کے ساتھ اپنے خاندان کی کشتی کے مسافروں کو چشم حسود کی لہروں سے بچایا مگر وہ دریا ئے کینہ ،حسد اور بغض و عناد کی گہرائی کا صحیح اندازہ نہ کر سکا ۔ دُور سے اُسے جو دریا دکھائی دیتے تھے وہی اُس کے لیے سرا ب اور عذاب بن گئے ۔ شہر سے امدادی ٹیمیں ،غوطہ خور ،ملاح اور بحریہ کے ماہر تیراک موقع پر پہنچے مگر نو جوان توقیر عباس کا کہیں سراغ نہ ملا ۔ اُس دِن سے الم نصیب والدین کے قلب و جگر کے سوزِ نہاں سے آنسوؤں کا ایک ایک قطرہ جلتا محسوس ہوتاہے ۔اُن کی چشمِ گریاں کے آب ِ رواں میں بھڑک اُٹھنے والی یہ آگ ایسی تھی کہ دریا جل گیا۔ جغرافیہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ تخلیق ِ کائنات کے وقت سے دریاؤں کی تلاطم خیز موجوں اور دریا ؤں کے کناروں میں ایک چپقلش جاری ہے ۔ شبِ ستم کی زیست مسلط ہونے کے بعد فصیلِ شب کی سرحدوں کو کاٹنے کی خاطراپنے لخت جگر کی تلاش میں بشارت حسین وقار تھل میں ایک خیمہ لگاکر اپنی اہلیہ اور چار بیٹیوں کو لے کر اپنے دِل ِ شکستہ میں اُمید کی مشعل فروزاں کر کے پیر پنجال سے نکلنے والے اور صدیوں کا سفر طے کر جھنگ پہنچنے والے دریائے جہلم کے کنارے بیٹھ گیا۔ وہ جانتاہے کہ آبِ رواں تو طویل مسافت طے کر کے سمندروں تک جا پہنچتاہے مگر کنارے تیزی سے بدلتے ہوئے نظار ے دیکھنے کے لیے اپنے مقام پر جامد و ساکت وہیں کھڑے رہتے ہیں ۔ وہ اسی فکر میں تھا کہ شایددریائے جہلم کی طوفانی لہروں کے کٹاؤ سے چھلنی ہو جانے والے یہ کنارے اس سانحہ کے بارے میں کوئی راز ظاہر کر دیں یا ریگستان اور صحرا کے پورے علاقے میں اُگی ہوئی خود رو جھاڑیوں کا غمزہ کوئی غمازی کر دے ۔ بشارت حسین وقار نے دریا کی طرف اس توقع پر دیکھا کہ ممکن ہے حضرت خضر ؑکی رہنمائی سے اُن کی مشکل آسان ہو جائے مگر دوسرے لمحے اُسے حضرت خضر ؑ کے ہاتھوں سکندر کے ساتھ ہونے والے عجیب سلوک نے مضطرب کر دیا ۔ شدید گرمی کے موسم میںبھوک اور پیاس کی شدت سے نڈھال یہ خاندان تین دِن تک دریا کے کنارے اپنے لختِ جگر کے انتظار میں بیٹھا رہا۔واقفِ حال لوگوں کا کہنا ہے کہ طوفانوں سے ٹکرانے والے ان الم نصیبوں کے صبر و استقامت پررشک آتا ہے جنھوں نے دریائے جہلم کے منجدھارکو بھی کنارہ سمجھ لیا ۔توقیر عباس کے یوں چلے جانے کے بعدبشارت حسین وقار کے گھر سے دیکھے ہی دیکھتے رنگ ،خوشبو ،حُسن و خوبی اور سعادت مندی کے سب استعارے ہی عنقا ہو گئے ۔ اس مقام پر دریا ئے جہلم کے مغربی کنارے پر کچھ دُور موہانوں ،گلہ بانوں اور ماہی گیروں کی جُھگیاں تھیں ۔ان جھگیوں میں مقیم خانہ بدوشوں کی عورتوں نے جب ایک غمزدہ ماں کو اپنے نو جوان بیٹے اور بہنوں کو اپنے بھائی کی تلاش میں سرگرداں دیکھا تو وہ بھی شدت غم سے حواس باختہ ،غرقابِ غم اور نڈھال ہو گئیں ۔ وہ جانتی تھیں کہ دائمی مفارقت دینے والے نو جوان نے اس خاندان کو جانگسل تنہائیوں کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔انھیں صبر کی تلقین کرنا بہت بڑی بے دردی ہے۔ وہ عورتیں الگ تھلگ کھڑی ان الم نصیبوں کی حالت دیکھ کر گریہ و زاری کر رہی تھیں۔ ماندنہ ،سبز باغ اور جنگل بیلہ کے پیمان شکن سفہا کا چہرہ چہرہ ان خانہ بدوشوں کی نگاہ میں تھا۔ چاندنی رات تھی اسی اثنا میں ایک حساس اور درد آشنا دیہاتی عورت نے گلو گیر لہجے میں قتیل شفائی کا لکھا ہوا سال ۱۹۵۵ء کی فلم نوکر کانغمہ جس کی دُھن موسیقار جی اے چشتی نے ترتیب دی تھی اور اپنے عہد کی ممتاز مغنیہ کوثر پروین نے گا کر اسے دلوں کی دھڑکنوں سے ہم آ ہنگ کر دیا۔حساس لوگوں نے جب پوری فضا کو نوحے پڑھتے سُنا تو دِل تھام تھام لیا۔ وقت کی نزاکت اور رنج و غم کی شدت کو پیرایۂ اظہار عطا کرنے والا یہ لوک گیت سُن کر وہاں موجودسب سوگوار اس خطے کے ثقافتی پس منظر میں کھوگئے۔ صحرائی جھگیوںکی مغنیہ نے اس گیت کے بول دہرائے جو صدیوں کا سفر طے کر کے قلب و جگر کی تمازت سے ہم آ ہنگ ہو گیاہے ۔ جب سوگواروں کے قلب ِ حزیں کی سارنگی کے سیاہ تار سرسرانے لگے توپوری فضا آہوں اور سسکیوں کی آواز سے گونج اُٹھی :
راج دُلارے تو ہے دِل میں بسا ؤں تو ہے گِیت سناؤں
گِیت سناؤں او میری اکھیوں کے تارے میں تو واری واری جاؤں
سارے جہان پر پھیلی ہے چاندنی تیرے مُکھڑے کے آگے میلی ہے چاندنی
تاروں کا رُوپ تو پہلے ہی ماند ہے ،چندا کو میں کیا جانوں تُو میرا چاند ہے
جُھوم کے گاؤں او میری اکھیوں کے تارے میں تو واری واری جاؤں
راج دُلارے
نینوں میں ڈالوں کاجل کی ڈوریاں تجھ کو لُبھاؤں میں تو دے دے کے لوریاں
کاجل کے سنگ میرے دِل کی اُمنگ ہے تیرے نینوں میں میری ممتا کا رنگ ہے
کیسے بتاؤں او میری اکھیوں کے تارے میں تو واری واری جاؤں
راج دُلارے
پُھولوں کی سیج پہ تُجھ کو سُلاؤں میں کِرنوں کا تاج تیرے سر پہ سجاؤں میں
امی کے باغ کا تُو البیلا پُھول ہے کلیوں کا رُوپ تیرے قدموں کی دُھول ہے
جُھولا جُھلاؤں او میری اکھیوں کے تارے میں تو واری واری جاؤں
راج دُلارے
علاقے میں مقیم کئی حاسدجب بلند قامت اور وجیہہ نوجوان توقیر عباس کو دیکھتے تو سہم جاتے کہ یہ آفتاب جلد ہی اُن کی مسلط کردہ شب ِتاریک کے سِحر کو کافور کر دے گا۔کبھی کبھی پانی تیز ہوا کے جھونکوں سے بے نیاز رہتے ہوئے بادلوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ سائیں سائیں کرتے جنگل میں گزرنے والی وہ تنہا، بھیانک ،اُداس اوراعصاب شکن راتیں قیامت کی راتیں تھیں جو بڑی مشکل سے گزریں ۔کسی بھی سانحہ کے پس ِپردہ کا رفرما مسائل و مضرات کے بارے کوئی بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ آزمائش کی اس گھڑی میںاگرچہ حوصلے اور برداشت میں کمی واقع ہو رہی تھی مگر صبر جو مونس ہجرا ںبن کر پہنچا تھااس میں پیہم اضافہ ہو رہا تھا۔ تین دِن بعد بشارت حسین وقار جھنگ میں واقع اپنے خالی اور خاموش گھر پہنچا جہاں اُداس بام اورکُھلے در توقیر عباس کے منتظر تھے مگر وہ چاند تومنافقانہ جبر کی کالی گھٹا میں اوجھل ہو چکا تھا۔ وہ اثاثہ جسے بشارت حسین وقار نے اپنے اور اپنے اہلِ خاندان کی حفاظت کے لیے سنبھال کر رکھا تھا ،جاہل اور کینہ پرور اعدا کی مکروہ سازشوں کے نتیجے میںوہ دریا ئے جہلم کی قیامت خیز لہروںکی بھینٹ چڑھ گیا۔ خورشید جہاں تاب کی شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے باطنِ ایام پر نظر رکھنے والے درویش منش ضعیف معلم اور ماہر طبیعات حاجی احمد طاہر ملک نے نشیبِ زینۂ ایام پر عصا رکھا اور پلٹ کر کہا:
’’ اس وقت میں اپنے دِل شکستہ کا حال بیان کرنے سے اس لیے قاصر ہوں کہ کہیں تقدیر اور خرد کی گتھیاں اُلجھ نہ جائیں ۔اپنے قلبِ حزیں اور گردشِ آسماں سے گھبرائے ہوئے بشارت حسین وقار پر ایسے اشک بار زمانے آگئے ہیں کہ جس چاندکو اُس نے بیس برس تک اپنی گود میں پالا تقدیر کے ستم سہنے کے بعداُسے گور میں بھی نہ رکھ سکا ۔اس سانحہ کے بعد بشارت حسین وقار کے لیے اب سیر ِ بوستاں کی کیا حقیقت رہ گئی ہے ۔قسمت کی لوح پر کندہ پریشان کُن الفاظ کو پڑھ کر حسرتوں کا بیان کرنا اور صبر کی تلقین کرنا بہت سہل ہے مگر سینے پر درد کی سِل رکھنا جان جوکھوں کامرحلہ ہے ۔شہرِ بے مکاں میں لمحات کی خشت خشت ان جگر فگاروں کے مصائب کو حرف حرف بیان کر رہی ہے ۔ ایک بے بس و لاچار خاندان کی آرزوؤں اور اُمنگوں کا سفینہ ڈبونے کے بعد دریائے جہلم کا پانی بہت آگے نکل گیاہے ۔مجھے یقین ہے کہ دریائے جہلم کے پانی کے وہ ریلے جو پیچھے آ رہے ہیں صدیو ںتک توقیر عباس کے بے بس اور جگر فگاروالدین کے اشکوں کی روانی دیکھنے کے لیے اپنی جبیں خاک پہ گِھستے ہوئے سر کے بَل اِن کے گھروندوںکے قریب پہنچیںگے،دریاکی تلاطم خیز موجیں کناروں سے سر پٹخیں گی مگر اُس وقت پُلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہوگا اور مظلوم خاندان کے دُکھوں کا مداوا نہ ہو سکے گا ۔ سیکڑوں دورِ فلک ابھی آنے والے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ سترہ مئی2021ء کے المیہ کے بعد سے توقیر عباس کے والدین کے دِل و جگر میں خون کے قطروں نے جو ہنگامہ برپا کر ر کھا ہے اُس کے بعدان کے گھر کے گلشن میں آگ برسے گی یا گردشِ ایام کوئی اور گُل کھلائے گی؟ ‘ ‘کبھی کبھی میرے دِل میں یہ خیال آتاہے کہ میں دریائے جہلم کے خاک اُڑاتے ہوئے کناروں سے اپنا سرپھو ڑ کر اس دنیا کو چھوڑ کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رختِ سفر باندھ لوں۔‘‘
توقیر عباس کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ اپنی گُل افشانی ٔ گفتار سے سامعین کے دلوں کو مسخر کرنے کا فن جانتاہے ۔کچھ مقررین ایسے بھی ہوتے ہیں جو بے مقصد باتوں ،شعلہ بیانی اور بے ربط دلائل کے طومار سے اپنی تقرری کو ]پشتارۂ اغلاط بنا دیتے ہیں ۔ایسی تقاریر کی مثال بند گوبھی کی سی ہے جس کے پتوں کے پردے ہٹاتے چلے جائیں آخر میں کچھ بر آمد نہیں ہوتا۔ہر ادبی نشست کے بعدقتیلانِ تقریر اُسے گھیر لیتے اور آٹو گرا ف کا تقاضا کرتے تھے ۔
جب بھی بیتے لمحوں کی چاپ سنتا ہوں مجھے توقیر عباس کی شعلہ بیانی یاد آتی ہے ۔اِ س شعلہ بیان مقر نے ہر تقریری مقابلے میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے ۔ مارچ 2021ء کے وسط میں کُل پاکستا ن تقریر ی مقابلوں کا انعقاد ہوا ۔ وہ شعلہ بیان مقرراپنے دلائل کو اس قدر مدلل او رمو ثر بنا دیتاکہ مخا لف مقریرین کا بلند لہجہ اس کے موثر اور مدلل اسلوب کے سامنے دب جاتا۔ ہر مباحثے میں وہ فتح و شکست سے بے نیاز رہتے ہوئے صرف حرف ِ صداقت پر انحصار کرتا تھا۔ ہر تقریری مقابلے میںتوقیر عباس نے اردو ،انگریزی ،سرائیکی ،ہندکواور پنجابی زبان میں اپنی جامع اور مدلل تقاریر سے ایسا سماں باندھاکہ سامعین اش اش کر اُٹھے ۔اپنی گل افشانی ٔ گفتار سے وہ سامعین کو مسحور کر دیتا اور اس دلائل جامد و ساکت پتھروں اور سنگلاخ چٹانوں سے بھی اپنی تاثیر کالو ہا منوا لیتے تھے ۔ مباحثوں میں ارفع خیالات کے مظہر تکلم کے مدلل سلسلے اُس کی فقید المثال کامیابی کا وسیلہ بن جاتے تھے ۔ ملک بھر کے ممتاز تعلیمی اداروں اور جامعات میں آج بھی اُ س کی تقاریر کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔جس سمت بھی نگاہ اُٹھتی ہے اس کے اشارے اور تکلم کے سلسلے دکھائی دیتے ہیں اور اُس کی موثر آوازکانوں میں رس گھولتی ہے ۔ وہ اکثر یہ بات زور دے کر کہتا تھا کہ جب لوگ کسی مصلحت کے تحت حرفِ صداقت کے اظہار میں تامل کریں تو خیالات کو زیبِ قرطا س کرنا از بس ضروری ہے۔
جتنی دیر بشارت حسین وقار میرے پاس بیٹھا رہا میں نے محسوس کیا کہ جذبات ِ حزیں کی شدت کے باعث اس کے تکلم کا سلسلہ ٹُوٹ ٹُوٹ جاتا اوراُس کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگتیں ۔اُس کی آ نکھوں سے بے اختیار بہہ نکلنے والے یہ آ نسو در اصل شدت غم کے اظہار اور تزکیہ نفس کا ایک خاموش انداز تھا جسے دیکھ کر میری آ نکھیں بھی نم ہو گئیں۔ زندگی اور قلب و جگر میں بس جانے والے اپنے لخت ِ جگر کے بارے میں بشارت حسین وقار نے بتایا کہ عید الفطر کے بعد ہر صبح توقیر عباس خورشید جہاں تاب کی پہلی کرن کی صورت مجھے ملنے میرے کمرے میں آتا اور اب ہر صبح مجھے اس کی کمی کا شدت سے احساس ہوتاہے ۔اُس فطین نوجوان طالب علم کی سعادت مندی اور محبت کی یادیںسارے خاندان کی زندگی کا بیش بہا اثاثہ ہیں۔ توقیر عباس کے والدین کا دِل جب ہجوم یاس سے گھبرا جاتاہے اور سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جاتا ہے تو وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس بیٹے سے وابستہ یادیں ہی اب اُن کے غم کا تریاق ہیں۔وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے ماہتاب کے لیے صرف گھر کے دروازے کُھلے نہیں رکھے بل کہ ہمارے دِل و جگر کی سب راہیں اُس کے لیے ہمہ وقت کُھلی رہتی ہیں ۔ پیاس کی شدت اور خشک لبوں کی کہانی سناتے ہوئے بشارت حسین وقار نے بتایا کہ شہر کی زندگی میں پروان چڑھنے والا اُس کا بیٹا تو دُور سے دریا کی روانی دیکھنے کا عادی تھا اور کبھی دریا میں بہتے پانی کی طغیانی ،لہروں کی روانی اور سیلاب کی آفت نا گہانی کے بارے میں نہیں سوچتاتھا۔ بے حِس لوگوں کے ہجوم میں گِھرے تنہائیوں کے اسیر اس مجبور و بے بس خاندان کے سب افراد یہی کہتے ہیں کہ انھیں دریا کی طوفانی لہروں سے کوئی شکوہ،شکایت ،گِلا یا شک و شبہ ہی نہیں کیونکہ قلزم علم کے اس شناور کی تشنگی کا دریا کے آبِ رواں سے کوئی تعلق ہی نہ تھا ۔ آنکھوں میں جلن اور قلب ِحزیں میںایک طوفان سا لیے جھنگ شہر کے لوگ سوچتے ہیں کہ ایک گرد باد میںاتنی سکت کہا ںکہ وہ ہمالہ کی سر بہ فلک چٹانوں پر نظر ر کھنے والے ،طوفانوں میں پلنے اوردنیابدلنے کی خدادا د صلا حیت سے متمتع شاہین کو اُڑا لے جائے ، دریائے جہلم کے حباب میں اتنی تاب کہاں کہ وہ آفتاب کو ڈبو دے اور تریموں کے گرداب میںاتنی گہرائی کہا ںکہ وہ ماہتاب کو بہا لے جائے ۔ تقدیر کے ہاتھوںسترہ مئی ۲۰۲۱ء کے بعد بشارت حسین وقار کے گھر ایسی بھیانک شبِ تاریک مسلط ہوگئی ہے جو ڈھلنے کا نام ہی نہیں لیتی ۔ زندگی کی شبِ تاریک دریائے جہلم کے کنارے کھڑی گریہ و زاری کرتی ہے کہ اللہ بخش کے خاندان کا چاند بھرے دریا کی تلاطم خیز موجوں میں کیسے اُتر گیاہے ۔ بوڑھے اور آزمودہ کار موہانے اور بَلّی مار اکثر یہی کہتے ہیں کہ جب بھی ہم دریاؤں کی طوفانی لہروں کو دیکھتے ہیں تو ہم دِل تھام لیتے ہیں کہ ان لہروں نے کتنے کنارے اور سہارے ڈبو دیئے ہیں ۔ بشارت حسین وقاروسعت افلاک کی جانب دیکھتا ہے اور یہی بات دہراتاہے یہی تو وقت تھا کہ اُمید کا خورشید جہاں تاب طلوع ہو تا اور اپنی ضیا پاشیوں سے یاس و ہراس کی سفاک ظلمتوں کوکافور کر دیتا۔ اس عالمِ آب و گِل میں کہنے کو سب کچھ ہو گا مگر توقیر عباس کے الم نصیب، جگر فگار والدین ہر وقت یہی سوچتے ہیں کہ جب چار بہنوں کا اکلوتا بھائی توقیر عباس اپنے گھر پہنچے گا وہ معجزہ کب ہوگا۔ طوفانِ حوادث کے مہیب بگولے پہلے بھی چلتے رہے ہیں مگر ایسا تو کبھی نہیں ہوا کہ باد ِ سموم اور سمے کے سم کے ثمر کے نتیجے میں کوئی نو خیزشگوفہ شاخ سے الگ کر کے غائب کر دیا جائے ۔ بادِ سموم کے چلنے سے زندگی روز اپنے رنگ تبدیل کرتی رہتی ہے مگر توقیر عباس کے والدین کی زندگی شب کے مسافروں کے مانند گزر رہی ہے ۔ جس معاشرے سے عہد و پیمان، تہذیب ،شائستگی ،وفا اور ہمدردی بارہ پتھر کر دی جائے وہاں انسانیت بھی دریاؤں کی متلاطم موجوں میں ڈُوب جاتی ہیں ۔توقیرعباسکے والدین ،قریبی رشتہ دار اور عینی شاہد بتاتے ہیں کہ مہمان توقیر عباس کو اس کی خالہ کے بیٹے سیر کے بہانے دریائے جہلم کے کنارے لائے اور دریا کی طوفانی لہرو ںمیں دھکا دے دیا۔ دریائے جہلم کا پانی توقیر عباس کے والدین کے صبر و قرار کو بہالے گیا تو انھوںنے دریا کے کنارے خیمہ لگا لیا شور دریا سے سمندر کا سکوت مخاطب ہو ااور پانی سے اپنا بیٹا واپس طلب کیا ۔ بشارت حسین وقار اپنی اہلیہ اور چار بیٹیوں کو لے کر بیلہ گاؤں کے قریب دریائے جہلم کے کنارے بیٹھ گیا۔ دریا کی دہلیز پر کھڑی بشارت حسین وقار کی بیٹیاں اپنی پتھرائی ہوئی آ نکھوں سے دریائے جہلم کی طوفانی لہروں کی طر ف دیکھ کر یہ استفسار کر رہی تھیں اے دریا کی تلاطم خیز لہرو! تم نے ہمیں ناقابل اندمال صدمات سے دوچارکر دیاہے ۔
تم نے ہمارے گھر کا خورشید ڈبو دیا ہم تقدیر کے مارو ںکے باقی ماندہ خواب بہا لے جانے میں اب کیاامر مانع ہے ؟
بیتے لمحات کے بارے میں اکثر لوگ یہی کہتے ہیں کہ پرِ زمانہ کی رفتار پروازِ نُور سے بھی کہیں بڑھ کر ہے ۔جو وقت بِیت جاتاہے وہ کبھی لَوٹ کر نہیں آتا۔ان حالات میں وقت کی اپنی ایک الگ داستان ہے جو نیرنگیٔ عالم اور حالات کی ستم ظریفی کا شاکی ہے اور اس جانب متوجہ کرتاہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے انسان کس قدر بے حس ہو جاتاہے کہ اہلِ درد کی آ نکھیں دیکھتی کی دیکھتی رہ جاتی ہیں۔انسان اچھے وقت کی تمنا میںسب کچھ داؤ پر لگا دیتاہے مگر اسی وقت کو ضائع کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔بشارت حسین وقار اس وقت جن حالات سے دوچار ہے اور جس درد نے اُسے اپنے نرغے میں لے رکھا ہے وہ درد ِلا دواہے ۔اس وقت المیہ یہ ہے کہ گردو نواح کے لوگ چارہ گری سے گریزاں ہیں ۔سانحات ایک دم وقوع پذیر نہیں ہوتے ان کے رو نما ہونے سے پہلے وقت کئی سال تک ان کی پرورش کرتا رہتاہے مگر ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اس جگر فگا ر انسان کے زخموں کی فوری رفو گری کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔
عید الفطر کے بعد بشارت حسین وقار نے دریائے جہلم کے پانی کو دیکھ کر گلو گیر لہجے میں کہا :
’’ تریمو ںکے مقام پر دریائے چناب کے پانیوں میں اپنے وجود کو گم کرنے والے دریا ئے جہلم تیری لہروں نے، تُو نے ہمارے دِل کی بستی کو بے آب و گیاہ ویران صحرا میںبدل دیا۔ اس مقام پر جہلم اور چناب نے تو اپنی اپنی پیاس بُجھا لی ہے مگر ہم تشنہ لبوں کی پیاس کون بُجھائے گا؟دیہاتوں کے قریب سے بہتا ہوا یہ دریا مٹی سے تعمیر کیے گئے کچے گھروندوں اور غریبوں کے گھرو ںکے چراغ بہا لے جاتاہے مگر کسی قصر و ایوان کا رُخ نہیں کرتا ۔تمھاری طوفانی لہروں نے نقش گرِ رنج و الم و سانحات بن کر ہمارے سلسلۂ روز و شب اور زندگی کی سب رُتوں کو بے ثمر کر دیا ہے۔ ہم کوئی مزاحمت کرنے سے قاصر ہیں اور کوہساروں کے مانند جامد و ساکت کھڑے خاموشی اور بے بسی کے عالم میں تقدیر کے یہ فیصلے دیکھ رہے ہیں مگر تم پوری رفتار کے ساتھ کُھلے سمندروں کی جانب بہتے چلے جا رہے ہو۔اے دریائے جہلم تمھیں تو بحیرہ عرب تک پہنچنے کا راستہ معلوم ہے مگر اب ہمیں بھی تو کچھ بتاتے جاؤ کہ توقیر عباس کے بعدہم کون سا راستہ تلاش کریں؟‘‘
جان لیوا صدمات میں ہر نفس گزشتہ زیست کی میّت کی صور ت میں سامنے آتاہے سچ تو یہ ہے کہ ایسے کٹھن حالات میں زندگی مر مر کے جیتے رہنے کی ایک شکل ہی تو ہے ۔ جب زندگی پر دیوانے کے ایک خواب کا گمان گزرے توبشارت حسین وقار جیسے صابر و شاکر معلم کی زندگی شمع کے مانند گزرنے لگی اوراس کی ذات سفاک ظلمتوں میں روشنی کی ایک کرن ثابت ہوئی ۔ ایک زیرک ،فعال ،مستعد ، شیریں سخن اور شیریں گفتار تخلیق کار کی حیثیت سے بشارت حسین وقار نے اپنی اردو اور پنجابی شاعری سے پتھروں کو بھی موم کر دیا اورقارئینِ ادب کے دلوں کو مسخر کر لیا۔ ہجوم یاس میں گِھرے اِس درویش منش معلم کا صبر وسکون دیکھ کر گردِ شِ ایام کی آ نکھیں بھی نم ہو جاتی ہیں۔ وہ اپنے بزرگوں کی یہ بات دہراتاہے کہ آ نکھوں سے ضبط کے آ نسوبھی نہیںٹپکنے چاہییں ۔اس طرح ہمیشہ محض بوند بھر پانی سے صبر و تحمل کی پوری آ برو پانی پانی ہو جاتی ہے ۔اس کے لبوں سے کسی نے کبھی حرفِ برہمی نہیں سُنا بل کہ اس کی گل افشانی ٔگفتار سے ہر محفل کشتِ زعفران بن جاتی ہے ۔ اس کا اندازِ فکر ہمیشہ تعمیر ی رہااورکسی شخص کی تخریب سے اس کا کوئی واسطہ نہیں رہا۔یہی اس کی ہر دلعزیز ی کا سبب ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کا شگفتہ اسلوبِ سخن ہی اس کی ادبی پہچان بن گیا ہے۔قدرت ِکاملہ نے بشارت حسین وقار کو قناعت اور استغنا کی دولت سے مالا مال کیاہے اس لیے زر پرستوں اور ہوس ِ جاہ و منصب کے روگ میں مبتلا بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے ،چڑھتے سورج کی پرستش کرنے والے ابن الوقت اور طوطا چشم افراد سے زندگی بھر کوئی تعلق نہیں رکھا۔ کُوڑے کے ہر عفونت زدہ ڈھیرسے جاہ و منصب اور مفادات و مراعات کے استخواں نوچنے اوربھنبھوڑنے والے خارش زدہ سگان راہ سے اُسے شدید نفرت ہے ۔ اُس نے زندگی بھر فن کار کی انا اورخود داری کا بھرم قائم رکھا ہے۔ درِ کسریٰ پر صدا کر نا اس کے ادبی مسلک کے خلاف ہے ۔ وہ دھیمے لہجے میںبولتاہے تو اس کے منھ سے پھول جھڑتے ہیں اور اس کے اشعار فکر و خیال کو اس طرح روئیدگی عطا کرتے ہیں جس طرح تھل کے صحرا میں اوس کے قطرے نباتات کے لیے تازگی کی نوید لاتے ہیں ۔ وہ جانتاہے کہ ان کھنڈرات میں دفن لاشوں سے بھلائی کی توقع ہی عبث ہے۔اس کا کہنا ہے کہ یاس وہراس کی مہیب رات کا طلسم تو ٹوٹ سکتاہے مگر آس کی تاثیر ہمیشہ برقرار رہتی ہے ۔اُمید کی شعاعوں کی چکا چوند سے محبت کی ایسی چنگاری پھوٹتی ہے جس کی تابانیوں سے سفاک ظلمتیں کافور ہو جاتی ہیں ۔وہ وقت ضرورآتاہے جب اعصاب شکن یاس کے بُرج اُلٹ جاتے ہیں اور مہیب سناٹوں کا خاتمہ ہو جاتاہے ۔
بشارت حسین وقار اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستان ِ علم و ادب ہے ۔اس کی رائے ہے کہ آئینۂ ایام ، نجوم ِ فلک اور آب ِ رواں کے سب اسرار و رموز کے پس پردہ بے لوث محبت اور بے باک صداقت کاعنصر کا ر فرماہے ۔ جھنگ ،فیصل آباد ،سرگودھا ،میانوالی اور اٹک میں جب ایف ایم ریڈیو نے اپنی نشریات کاآغاز کیا تو بشارت حسین وقار کا کلام نشریات میں شامل ہوتا رہا۔ عالمی شہرت کے حامل نامور براڈ کاسٹر زیڈ۔اے بخاری کے انداز کو بشارت حسین وقار نے اپنے لیے قابلِ تقلیدسمجھا ۔اُس کا خیال تھا کہ ریڈیوکی نشریات کو اس قدر دلچسپ بنا دینا چاہیے کہ اس کے سامعین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہونے لگے ۔ اس کی تخلیقی تحریریں ایک شانِ استغنا اور بے ساختہ پن کی مظہر ہیں۔ایک حساس اور دردمند تخلیق کارکی حیثیت سے بشارت حسین وقار نے انسانیت کے وقار ، سر بلندی اور عزت و تکریم کو ہمیشہ ملحوظ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دُکھی انسانیت کو درپیش مسائل کا احساس اور سارے جہاں کا درداس کے دل میں سما گیا ہے ۔انسانیت کی توہین ،تذلیل ،تضحیک اور بے توقیری کرنے والے درندوںسے اُسے شدید نفرت ہے۔اس کا خیال ہے کہ ظلم سہہ کر اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کرنا ایک اہانت آمیز اور منافقانہ طرز عمل ہے ۔ مظلوم انسانوں کی اس قسم کی بزدلی سے ظالم کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔حریت ِ ضمیر سے جینے کے لیے اسوہ ٔ شبیرؑکو پیشِ نظر ر کھنے والے حریت فکر کے اس جری مجاہد نے تیشہ ٔ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے ۔ اس نے فسطائی استبداد کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے ہوائے جور و ستم میں بھی شمعِ وفا کو فروزاں رکھا اور ہر قسم کے جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا۔ بصارت پر پہرہ بٹھانے والو ں ،سماعت پر قدغن لگانے والوں ،لب اظہار پر تالے لگانے والوں اور متاع ِ لوح و قلم چھین لینے والوںپر ا س نے واضح کر دیا کہ اُمیدوں کی فصل غارت کرنے اور تمنائوں کی حسین بستیاں تاراج کر نے کے بعد مظلوموں کے دلوں پر راج کرنے کا ان کا خواب کبھی شرمندہ ٔ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ معاشرتی زندگی میںخزاں کے سیکڑوں مناظر نے اس کی روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر دیا لیکن انتہائی غیر یقینی حالات کے باوجود اُسے طلوعِ صبح بہاراں کا یقین ہے ۔ آلامِ روزگار کے ہاتھوں قلب اور روح کی کرچیوں میں تقسیم کے باوجود اس نے اپنے مستقبل کے خوابوں کی تجسیم کو اہم خیال کیا ہے ۔سترہ مئی 2021ء کے سانحہ کے بعد اپنے لخت ِ جگر کی یاد میں پہرو ںگریہ و زار ی کرنا جب اس کا معمول بن گیا۔ فرید الدین عطار کے مانند بشارت حسین وقار عجز و انکسار کا پیکر بن کر زندگی کے دِن پورے کر رہاہے ۔ دیو جانس قلبی کی طرح یہ قلندر بھی کسی سکندر سے مرعوب نہیں ہوتااور ماندنہ ،سیاہی وال اور جنگل بیلہ کے ریگستان میں وہ خورشید جہاں تاب کی ضایاپاشیوں کے باوجود اپنے قلب ِ حزیں کا چراغ فروزاں کر کے کسی ایسے انسان کو ڈھونڈتا پھرتاہے جو اُسے انصاف دلا سکے ۔ اِن کٹھن حالات میں مرہم بہ دست آنے والے مخلص احباب نے بشارت حسین وقار کو دلاسا دینے کی بہت سعی کی۔
بیلے ،ساہجھر اور چاندنہ سے بہہ کر تریموں کے مقام پر چناب میںمِِل جانے والے دریائے جہلم کے کنارے بیٹھے بشارت حسین وقار کے خاندان کے ساتھ اظہار ِ یک جہتی کرنے کی خاطر کچھ درد آشنا لوگ وہاں موجود تھے ۔ یہ سب غم گسار اپنے دیرینہ رفیق کار کے ساتھ درد کا رشتہ نبھانے کی غرض سے چلے آ ئے تھے ۔ دِل ِ بینا سے متمتع درد آشنا لوگ یہی سوچ رہے تھے کہ حیات ِ مستعار کے حسین ترکش میںموجود تیر کس قدر بے رحم ہوتے ہیں ۔گلزارِ ہست و بُود میں تبسم کی کڑی سزا سے بے خبر جب کلیاں اور غنچے اپنی عطر بیزی کا آغاز کرتے ہیں تو تقدیرحیرت زدہ رہ جاتی ہے ۔دریائے چناب سے مِل کر ملتان کی جانب جانے والے دریائے جہلم کے کنارے کھڑے ہو کر دریائے جہلم کی طوفانی لہروں سے مخاطب ہو کر ممتا زکیمیا دان اور ماہر تعلیم شیخ ظہیر الدین نے کہا:
’’ عید الفطر کے بعد توقیر عباس کے ڈُوبنے کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن سانحہ کے بعددریائے جہلم کی لہروں کی طغیانی دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے اور میں سوچنے لگتاہوں کہ اس دریا کی متلاطم موجوں میں سراب ہے یا پورا دریا ہی کسی آ سیب یا سراب کی زد میں آ چکاہے ۔ اے دریا تُجھے اپنی تیز رفتار طوفانی لہروں پر بہت گھمنڈ ہے لیکن یہ بات یاد رکھ کہ اگر تُو توقیر عباس کے ستم رسیدہ والدین کی بے بسی سے ٹکرائے گا تو تیری دھجیاں اُڑ جائیں گی ۔ توقیر عباس کے تشنہ لب،وفا شعار والدین کو سرابوں کے دریا کا سامنا کرنا پڑاہے ۔وہ یہ بات اچھی طر ح جانتے ہیںکہ دریا سدا اپنی موجوں کی طغیانیوں سے کام رکھتے ہیں ۔دریاؤں کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ اُن کی طوفانی لہروں کی زد میں آکر مجبوروں کے سفینے کیسے غرقاب ہوتے ہیں ۔ اس کے باوجود توقیر عباس کے والدین اپنے دِل میں ایک طوفان اُٹھائے بیٹھے ہیںاگر تیری موجیںاپنی تلاظم خیزی سے فارغ ہو جائیں تو آبِ رواں پر نوشتہ ہزارو ںسال کی تاریخ سے وابستہ ستم کی وہ کہانیاں ضرور دیکھ لینا جن میںنشیب کے سیکڑو ںمکان بے چراغ اور مکین در بہ در اور خاک بہ سر ہو گئے ۔یہ سچ ہے کہ دریا کبھی پلٹ کر ساحلوں کی طرف نہیں دیکھتے مگر ساحلوں پر بیٹھے الم نصیب لوگ جب اپنی فریاد خالق ِ کائنات کے حضور پیش کرتے ہیں تو اُن کی دار رسی ضرور ہوتی ہے ۔ اے دریا تیرے کنارے توقیرعباس کا غم زدہ باپ ، دُکھی ماں اور چا ر تڑپتی بہنیں جن کے دِلِ حزیں میں اِک جہانِ اضطراب پنہاں ہے تجھ سے اپنے گھر کاچراغ واپس مانگ رہے ہیں۔ پانی بھی قدرت کی عجیب عطا ہے اس دنیا میں کچھ لوگ پانی کی فراوانی کا شکوہ کرتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو پانی کی کمی کے باعث مرگ نا گہانی کی بھینٹ چڑ ھ جاتے ہیں۔میں تو دریائے جہلم کے پانی سے یہی کہوں گا کہ وہ سادیت پسندوں کے مکرکی چال کو سمجھے اور بے فیض نہ بنے ۔ اے دریا کی طوفانی لہرو تمھارے جبر اور مظلوموں کے صبر کے اِس مقابلے میں بشارت حسین وقاریقیناًصبر کا دامن تھام کر آگے بڑھنے پر اصرارکرے گا۔ ‘‘
اس موقع پر ایک چارہ گر نے دریائے جہلم کے پانی سے مخاطب ہوکریہ نظم پڑی تو وہا ںمو جود سب لوگ دھاڑیں مارمار کر رونے لگے۔
مختصر کر دے غمِ دِل کی کہانی پانی
دیکھ لوٹا دے بشارت کی نشانی پانی
ماںکی فریاد سے ڈر باپ کے نالے سُن لے
تُجھ کو لے ڈُوبے نہ اشکو ںکی روانی پانی
شبِ فرقت کے الم تُجھ پہ کُھلے ہی کب ہیں
تُجھ کو معلوم کہاں غم کے معانی پانی
کہاں توقیر چلا اور ہے کِس راہ سے گیا
چل سُنادے مجھے اب ساری کہانی پانی
تُو نے کس طور مقدر میرا غرقاب کیا
راز کُھلنے لگا لہروں کی زبانی پانی
موج ِ بے رحم پہ اب شرم سے مارے جہلم
ایک ہفتے سے ہوا پھرتاہے پانی پانی
بہ خدا سچ ہے۔یہ سچ ہے یہ سو فی صد سچ ہے
اس جہاں میں نہیں توقیر کا ثانی پانی
واسطہ ساقی ٔ کوثر ہمیں توقیر مِلا
کام کر سکتاہے تُو یہ بہ آسانی پانی
پروفیسر حاجی حافظ محمد حیات کا شمار عالمی شہرت کے حامل ماہرین نفسیات ماہرین علم بشریات ،ماہرین عمرانیات اور مو رخین میں ہوتاہے ۔وہ اس سانحہ پر بہت دل گرفتہ تھے اور بتا رہے تھے کہ جنگل بیلے ،ماندنہ ،چاندنہ ،سیاہی وال ،سبز باغ ،ماہی وال ،کانڈیوال اور تھل کے بے آ ب و گیاہ ریگستانوں کے اکثر مکین جرائم کی دلدل میں دھنس چکے ہیں ۔ انھوں نے سماجی نفسیات اور انفرادی نفسیات کے حوالے سے جرائم پیشہ درندوں کے بارے میں واضح کیا کہ یہ اس قدر عیاری سے اپنا دھندہ جاری رکھتے ہیں کہ کوئی نشان بھی باقی نہیں چھوڑتے ۔ اپنی دُھن میں مگن یہ سفاک قاتل اکثر بے گناہ لوگوں کی زندگی کے خواب لُوٹ لیتے ہیں ۔ بہرام ٹھگ کی یہ اولاد کسی ایک جھاڑی میں پناہ نہیں لیتی بل کہ سدا رُوپ بدل کر واردات کرتے ہیں۔سب سے خوف ناک بات یہ ہے کہ ہوس پرستوں کے اس گروہ میں شامل لوگ تیزی سے گرگٹ کے مانند رنگ بدلتے ہیں اس لیے پہچانے نہیں جاتے۔معاشرتی بے حسی کا یہ حال ہے کہ مظلوم کا کوئی پرسان ِحال نہیں ۔کسی کو اپنے گردو پیش کے حالات کے متعلق کوئی خبر ہی نہیں اس لیے آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پسنے والے مجبور انسانوں کے مصائب ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میںاوجھل ہوجاتے ہیں ۔ سیاہی وال،ماندنہ اور جنگل بیلے کے ویرانوں میں چُھپی بہرام ٹھگ کی اولاد کے بارے میں انھوں نے بہت تحقیق کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ بہرام ٹھگ کی اولاد کے جور و ستم سے محفوظ رہنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اپنی دنیا آپ پیدا کر کے قائدانہ صلاحیت کو نمو دینے کے بعد نشانِ منزل پر توجہ دی جائے ۔ظلم کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنا ہی ظالم سے بدلہ لینے کی ایک اچھی صورت ہے ۔ پروفیسر حاجی حافظ محمد حیات نے ان پیشہ ور ٹھگوں کی زندگی کا نفسیاتی مطالعہ کیا اور بتایا :
’’ اپنے مظالم اور جرائم پر گھمنڈ اور خود نمائی کرنے والے پیشہ ور درندوں سے ہماری نفرت فطری ہے۔ہم انھیں اس لیے حقارت سے دیکھتے ہیں کہ ان کے قبیح کردار سے حقائق کی تمسیخ اور صداقتوں کی تکذیب ہوتی ہے۔ تیامت ،تسرینہ ،شگن ،سمن ،تفسہہ، محافظہ ٔ رومان مصبہا بنو،لا ل کنور ،زہرہ کنجڑن جیسی طوائفوں کا وجود کسی بھی معاشرے کے لیے تباہ کن ثابت ہوتاہے ۔ ایک مطالعاتی دورے کے دوران میں نائکہ تفسہہ نے اپنا عفونت زدہ بھاڑ جیسامنھ کھولا اور اپنے کر یہہ دانت پیستے ہوئے کفن پھاڑ کر ہرزہ سر اہوئی ’’ ْْحؓخرچی کی کمائی سے ہم نے بڑی جائیداد بنا لی ہے ۔ہم نے لُوٹ مار میں امریکی دہشت گردبیلے سٹار ( 1848-1889 : Belle Starr)، چین میں دہشت کی علامت سسٹر پنگ (: 1949-2014 Sister Ping )،پھولن دیوی (Phoolan Devi)،فرانس کی بدنام جواری ٹھگ سٹیفنی کلئیر ( : 1886-1969 Stephanie St. Clair )سمنتھا لیوتھویٹ ایکا( Samantha Lewthwaite aka)، کو لمبیا کی گریسلڈا بلانکو( : 1943-2012 Griselda Blanco (منظم جرائم میں ملوث امریکی مے نوش حسینہ ورجینا ہل ( 1916-1966 Virginia Hill : )لندن سے تعلق رکھنے والی جیب تراش میری فرتھ (1584-1659 : Mary Frith)، آئر لینڈ کی قزاق اینی بونی (Anne Bonny)، فرانس سے تعلق رکھنے والی سفاک قاتل شارلٹ کورڈے ( :1751-1829 Charlotte Corday)، امریکی دہشت گردمیری سورت( : 1823-1865 Mary Surratt)،امریکہ کی سفاک قاتل مابارکر ( 1873-1935 : Ma Barker)،سیما پریہار (Seema Parihar)، گھناونے جرائم میں ملوث امریکی بونی پارکر ( 1910-1934 :Bonnie Parker ) ،اٹلی کی بد نام ڈاکو ماریالیکارڈی ( Maria Licciardi) اور سال 2013 ء میں اپنے تئیں ارب پتی خاندان کی وارث ظاہر کر کے لُوٹ مار کا بازار گرم کر کے مکر و فریب کی نئی داستا ن رقم کرنے والی ایک معمولی ٹرک ڈرائیور کی بیٹی روسی ٹھگ اینا سورکن ( Anna Sorokin) کو بھی مات دے دی ہے ۔ اس وقت جنگلوں ،بیابانوں ریگستانوں اور صحراؤں میں ہماری وجہ سے خوف و دہشت کی فضا ہے ۔ جنسی جنون، منشیات ،اغوا برائے تاوان اور سمگلنگ میںہمارے گروہ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ سیاہی وال ،سبز باغ ،جنگل بیلے ،کچے کے علاقے ،تھل اور گرد و نواح کے سب لوگ ہمیں سسلین مافیا کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ ہمار ے جرائم پیشہ ساتھی قاتل بھی ہیں اور عفریت بھی ان سے بچ نکلنا بعید از قیاس ہے ۔ ہمارے طاقت ور گروہ کے صیاد اپنے صید ِ زبوں کی بے بسی پر خوش ہوتے ہیں اور بے بس لوگوں کو اپنی چالوں سے ڈراتے ہیں۔ میری تربیت سے لوگ اس قابل ہو گئے کہ وہ آسانی سے مسلمہ صداقتوں کی تمسیخ کر سکتے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ توہم پرست لوگ عفریت ،بھوت ،ڈائنوں اور چڑیلوں کے خوف میں مبتلا ہیں مگر ہمارے بارے میں اُنھیں کچھ معلوم نہیں۔میں نے ہر بو الہوس اور عیاش جنسی جنونی کی دعوت کی خاطر شہر بھر میں ہر طرف بساطِ جنس و جنوں پھیلا رکھی ہے۔ ہمارے ہم پیشہ ،ہم مشرب و ہم راز جب خلوص و مروّت و ہمدردی کا لبادہ اوڑھ کر لُوٹ مار کرتے ہیں تو ان کی خنجر آزمائی اُنھیں قتل و غارت کی راہ دکھاتی ہے ۔‘‘
’’ ُٓںخرچی کی کمائی سے ہم نے بڑی جائیداد بنا لی ہے ۔میں نے لُوٹ مار میں امریکی دہشت گردبیلے سٹار ( 1848-1889 : Belle Starr)، چین میں دہشت کی علامت سسٹر پنگ (: 1949-2014 Sister Ping )،پھولن دیوی (Phoolan Devi)،فرانس کی بدنام جواری ٹھگ سٹیفنی کلئیر ( : 1886-1969 Stephanie St. Clair )سمنتھا لیوتھویٹ ایکا( Samantha Lewthwaite aka)، کو لمبیا کی گریسلڈا بلانکو( : 1943-2012 Griselda Blanco (منظم جرائم میں ملوث امریکی مے نوش حسینہ ورجینا ہل ( 1916-1966 Virginia Hill : )لندن سے تعلق رکھنے والی جیب تراش میری فرتھ (1584-1659 : Mary Frith)، آئر لینڈ کی قزاق اینی بونی (Anne Bonny)، فرانس سے تعلق رکھنے والی سفاک قاتل شارلٹ کورڈے ( :1751-1829 Charlotte Corday)، امریکی دہشت گردمیری سورت( : 1823-1865 Mary Surratt)،امریکہ کی سفاک قاتل مابارکر ( 1873-1935 : Ma Barker)،سیما پریہار (Seema Parihar)، گھناونے جرائم میں ملوث امریکی بونی پارکر ( 1910-1934 :Bonnie Parker ) ،اٹلی کی بد نام ڈاکو ماریالیکارڈی ( Maria Licciardi) اور سال 2013 ء میں اپنے تئیں ارب پتی خاندان کی وارث ظاہر کر کے لُوٹ مار کا بازار گرم کر کے مکر و فریب کی نئی داستا ن رقم کرنے والی ایک معمولی ٹرک ڈرائیور کی بیٹی روسی ٹھگ اینا سورکن ( Anna Sorokin) کو بھی مات دے دی ہے ۔ اس وقت پوری دنیامیں ہماری وجہ سے خوف و دہشت کی فضا ہے ۔ جنسی جنون، منشیات ،اغوا برائے تاوان اور سمگلنگ میںہمارے گروہ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس شہر اور گرد و نواح کے سب لوگ ہمیں سسلین مافیا کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔میں نے ہر بو الہوس اور عیاش جنسی جنونی کی دعوت کی خاطر شہر بھر میں ہر طرف بساطِ جنس و جنوں پھیلا رکھی ہے۔‘‘
’’خرچی کی کمائی سے ہم نے بڑی جائیداد بنا لی ہے ۔میں نے لُوٹ مار میں امریکی دہشت گردبیلے سٹار ( 1848-1889 : Belle Starr)، چین میں دہشت کی علامت سسٹر پنگ (: 1949-2014 Sister Ping )،پھولن دیوی (Phoolan Devi)،فرانس کی بدنام جواری ٹھگ سٹیفنی کلئیر ( : 1886-1969 Stephanie St. Clair )سمنتھا لیوتھویٹ ایکا( Samantha Lewthwaite aka)، کو لمبیا کی گریسلڈا بلانکو( : 1943-2012 Griselda Blanco (منظم جرائم میں ملوث امریکی مے نوش حسینہ ورجینا ہل ( 1916-1966 Virginia Hill : )لندن سے تعلق رکھنے والی جیب تراش میری فرتھ (1584-1659 : Mary Frith)، آئر لینڈ کی قزاق اینی بونی (Anne Bonny)، فرانس سے تعلق رکھنے والی سفاک قاتل شارلٹ کورڈے ( :1751-1829 Charlotte Corday)، امریکی دہشت گردمیری سورت( : 1823-1865 Mary Surratt)،امریکہ کی سفاک قاتل مابارکر ( 1873-1935 : Ma Barker)،سیما پریہار (Seema Parihar)، گھناونے جرائم میں ملوث امریکی بونی پارکر ( 1910-1934 :Bonnie Parker ) ،اٹلی کی بد نام ڈاکو ماریالیکارڈی ( Maria Licciardi) اور سال 2013 ء میں اپنے تئیں ارب پتی خاندان کی وارث ظاہر کر کے لُوٹ مار کا بازار گرم کر کے مکر و فریب کی نئی داستا ن رقم کرنے والی ایک معمولی ٹرک ڈرائیور کی بیٹی روسی ٹھگ اینا سورکن ( Anna Sorokin) کو بھی مات دے دی ہے ۔ اس وقت پوری دنیامیں ہماری وجہ سے خوف و دہشت کی فضا ہے ۔ جنسی جنون، منشیات ،اغوا برائے تاوان اور سمگلنگ میںہمارے گروہ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس شہر اور گرد و نواح کے سب لوگ ہمیں سسلین مافیا کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔میں نے ہر بو الہوس اور عیاش جنسی جنونی کی دعوت کی خاطر شہر بھر میں ہر طرف بساطِ جنس و جنوں پھیلا رکھی ہے۔‘‘
حاجی حافظ محمد حیات نے جب ایک نائکہ کی یہ بے سروپا باتیں سنیں تو وہ اس نائکہ کی دروغ گوئی پر حیران رہ گئے ۔ یہ حالات کا قہر ہے کہ ایک نائکہ اپنی محرومیوں اور غربت سے نجات حاصل کرنے اور عیاشی کی خاطر گناہ کو بھی لائق نفرت نہیں سمجھتی ۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ جزیرۂ جہلا میں گھرے ماندنہ ،سیاہی وال اور دوآبہ کے مکین زندگی کے دِن کیسے پورے کر رہے ہیں؟ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ یہاں کے لوگ جن بوسیدہ جھو نپڑوں میں مقیم ہیں وہ زیادہ تر مستعار ہیں یا وہ مقامی وڈیروں کو ان کا معمولی کرایہ ادا کرتے ہیں ۔ اپنے مخالفوں کو ٹھکانے لگانے کی خاطرجنگل بیلے اور ماندنہ کے سردار اپنے ان مزارعوں کو چوری ،ڈکیتی اور دہشت گردی کی تربیت دیتے ہیں۔ اس کے بعدہونی اپنا کام دکھاتی ہے اور یہی غریب لوگ بے حسی کی عفونت زدہ چادر اوڑھ کر کسی خوف اور پچھتاوے سے بے نیاز ہو کر اپنے ہاتھوں میں رومال لے کر بہرام ٹھگ کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔
ایک ممتاز شاعر اور ماہر لسانیات کی حیثیت سے بشارت حسین وقار نے تشنگی ٔ ذوق کے مضامین باندھنے سے ہمیشہ اجتناب کیا اور دریا کو بھی ساحل باندھا مگر توقیر عباس کے سانحہ کے بعد اُسے ہر دریا پر فرات کا گمان گزرتاہے ۔ اُسے اس بات کا قلق ہے کہ بے حس معاشرے میں جنگل کے قانون کے تحت کہ محض ایک مُولی ،گاجر ،شلجم یا پیاز چُرانے والے کو تو دھر لیا جاتاہے مگر وسیع قطعات اراضی ہتھیانے والا جاگیر دار بن جاتاہے اور کوئی اُس کا احتساب کرنے والا نہیں ۔دسمبر ۲۰۲۱ء تیزی سے گزر رہا ہے یہ سال اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے اِن حالات میں توقیر عباس کی چار بہنیں، ماںاور باپ پر نم آ نکھوں اور گلوگیر لہجے میں یہی کہتے ہیں کہ اے ہمارے خورشیدجلدآ اور اس شدیدسرد موسم اور خون منجمد کرنے والی ہوا میں حوصلے کی کرنوں سے ہمارے جذبوں کو تمازت عطا کر دے ۔ بشارت حسین وقار کے خاندان کے ان الم نصیبوں جگر فگاروں کے آ نکھوں سے آنسوؤں کی صور ت میں بہنے والی جوئے خوںجب دریا ئے جہلم کے یخ بستہ پانی میں گرتی ہے تو دریا میں آگ بھڑک اُٹھنے کی وجہ سے دھواں سا اُٹھتاہے ۔ اپنی خالہ کے گھر سے نکلتے وقت توقیر عباس نے اپنے والدین سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ سیر کر کے جلد واپس آ جائے گا ۔ہر روز دِن ڈھلتے ہی توقیر عباس کے والدین کادِل ڈُوبنے لگتاہے اور ہجر و فراق کی ان گھڑیوں میں انھیں صرف توقیر عبا س ہی یاد آتاہے ۔سب احباب نے اس نوجوان کی یادوں کے سفینے تیار کیے مگر اِب اُن کی دیدہ ٔ گریاں نے دریا کی صورت اختیار کر لی ہے جس میں وہ سب طوفان ِ حوادث کے رحم و کرم پر ہیں۔بشارت حسین وقار انصاف کی توقع لیے در در دستک دیتا پھرتاہے مگر جُھوٹی تسلیاں سُن کر سانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پورے کرنے پر مجبور ہے ۔ وہ اپنی چشمِ گریہ ناک سے ہمہ وقت یہی استفسار کرتا ہے کہ تُوکِن نیندوں میں محوِ استراحت ہے ۔اپنی مژگاںتو کھول پُورا شہربے حسی کے ایسے سیلاب کی زد میں آگیاہے جس کی بلا خیزموجوں میں زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی ہیں۔خوابوںسے رشتہ جوڑنے والے والدین کو اپنے بیٹے کی راست گوئی کا اس قدر اُمید اوریقین ہے کہ وہ اس اعتماد سے ہررات اپنے گھر کا دروازہ کُھلا رکھتے ہیںکہ شایداُن کا چاندآج ان کے آ نگن میں چلا آئے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ توقیر عباس کی واپسی کا یہ یقین بھی کچھ کم کم ہونے لگاہے۔ زندگی کے سفر میں حائل ہو نے والی نوجوان بیٹے کی فرقت کی دیوار کو منہدم کرنا وقت کا اہم ترین تقاضاہے مگر تنہا بشارت حسین وقار کے لیے آسمان کو زمین پر اُتار لانے کاکٹھن کام انجام دینا بہت مشکل ہے ۔آئینہ ٔ ایام میں یہ سانحہ دیکھ کر ہر شخص حیرت زدہ ہے کہ بشارت حسین وقار کے گھر کے آ نگن میںاوس اور آنسوؤں میں بھیگ کر بُوند بُوند اُترنے والی شب ِ سیاہ کی سحر کب ہو گی ۔ آلامِ روزگار کے مہیب پاٹوں میں پسنے والے مجبوروں ،مظلوموں اور بے بسوں کی اُمیدوں کے سفینے ڈبونے کا یہ سلسلہ کب تھمے گا؟ باطن ایام کے بارے میں آگہی رکھنے والوںکاخیال ہے کہ دانہ دانہ جمع کر کے خرمن بنانے کی تمنا کرنے والے والدین کے بکھرنے میں سسلین مافیاکا قبیح کردار مسلمہ ہے ۔ سرابوں میں بھٹکنے والے درد آشنا لوگوں کا ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ اس المیے کے بارے اپنے جذبات ِحزیں کااظہار کیسے کریں ؟پیہم چل چل کر تھک جانے والے منزل سے نا آشنا اہل قلم جب وقت کو ایک موڑ پر ٹھہرا ہوا دیکھتے ہیں تو وہ خامہ انگشت بہ دنداں ہیں کہ اس جان لیوا دُکھ کو کیسے زیبِ قرطاس کریں اور ان کا ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ اس کر ب کو کیسے بیان کریں ۔میں نے جب سے بشارت حسین وقار کے درد انگیز نالے سنے ہیں دِل کو شعلہ سا لپٹتا ہے اورمیری تو نیند اُڑ گئی ہے ۔ بشارت حسین وقار جیسے خوددار کانچ کے پیکر کو نو کیلے پتھروں جیسی حاسد آنکھوں نے کرچی کرچی کر دیا ہے ۔ رفو گر اور چارہ گر جب سرخ گلابوں کے گہرے زخم خار ِ مغیلاں سے رفو کرنے کی سعی کرتے ہیں تو اُن کی بے حسی ،بے بصری اور ستم گری پر دِل خون کے آ نسو روتاہے ۔ بشار ت حسین وقارجب سے مصائب و آلام کی زد میں آیا ہے شہر کا شہر سوگوار ہے اور ہر کوچہ ویران دکھائی دیتا ہے ۔ادبی محفلوں کاسنسان ماحول دیکھ کر اہل قلم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس سانحہ کے نتیجے میں نہ صرف سب تخلیق کاروں بل کہ اہل شہر کا ایک جیسانقصان ہواہے۔ ماہرین علم بشریات کا کہنا ہے کہ لوح ِ جہاں پر ہر انسان کی زیست ایک حرف مکر ر یا غلط لفظ کے مانند ہے جس کا مٹنا نوشتۂ تقدیر ہے مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جب وہ ہماری بزمِ وفا سے چلے جاتے ہیں تو لوح ِ دِل پر انمٹ نقوش بٹھا کر اُٹھتے ہیں۔اپنے من کی غواصی کر کے جب میں نے لوح ِ دِل پر ثبت ہر انسان کی زندگی پر نظر ڈالی تو کتاب ِ زیست کے سب معانی رفتہ رفتہ کُھلتے چلے گئے ۔میںنے اپنی طبع ِحزیں کو سنبھالا مگر دیر تک یہی فکر دامن گیر رہی کہ آلام ِ روزگار میں گھرا میںکس قدر بے خبر ہوں کہ آج تک اپنے اس دیرینہ رفیق کی خبر تک نہ لی ۔
اپنی زندگی میں مجھے کئی عزیزوں کے صدمات ،نوجوان بیٹے کی دائمی مفارقت کا کرب اور بیٹی کی وفات کا دُکھ برداشت کرنا پڑا ہے ۔ وہ عزیز جو مجھے اپنی جان سے پیارے تھے جب وہ آ نکھوں سے اوجھل ہو گئے تو کلیجہ منھ کو آگیا اور جب آہ بھرتا تو ہر آہ پر دم نکلتا تھا۔ اس سانحہ کے بعدسوچتاہوں گردشِ دوراں مجھے اور کیا کیا دکھائے گی ، اور کتنے ستاروں کو بے بسی کے عالم میں ڈوبتے دیکھنا میری تقدیر میں لکھا ہے ۔میرا زرد چہرہ ،خشک لب ،پُر نم آ نکھیں اور مجھے ٹھنڈی آ ہیں بھرتے دیکھ کر میرے چارہ گر بھی دل گرفتہ ہو جاتے ہیں۔کوفے کے قریب واقع اس شہر سنگ دِل کے لوگ مجھ سے اکثر پوچھتے ہیں کہ چھے جولائی 2017 ء کو اپنے نو جوان بیٹے سجاد حسین کی دائمی مفارقت کے بعدبھی تم اپنے گھر میں موجود ہو تمھیں یہ کیا ہوا ہے کہ اب تک زندہ ہو؟ سجاد حسین کے فروغ ِ حُسن سے اُمید کی مشعل ،حوصلے کا قلعہ ،عزائم کا قصر عالی شان اور مستقبل کے ہر امکان سے نگاہوں کو خیرہ کرنے والی ضیا جھمکتی تھی ۔میں جب بھی اپنے لخت ِ جگر کی قبر پر پہنچتاہوں تو میری آ نکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگتی ہیں۔اس اثنا میںمجھے ندائے غیب سنائی دیتی ہے کہ میں تو زندہ ہوں،میں رات کے وقت سفاک ظلمتوں میں ستارۂ سحر بن کر طلوع ہوتاہوں ۔ اس تنہااور ویران مقام پر آ سودۂ خاک نہیں بل کہ میں تو خوشبو کے مانند ہوا میں بکھر چکا ہوں۔جس طر ح صبح کے وقت کے قطرے گلاب کی نرم وناز ک پتیوں پر چمکتے ہیں اُسی طرح میں بھی وہاں نمایا ںہو جاتاہو ں ۔سمے کے سم کے ثمر کا تریاق میں ہوں جو خزاں آباد ہستی کو صبر کی صورت میں گُل ہائے رنگ رنگ کی رعنائی سے آ شنا کرتاہے ۔مجھے مشیت ایزدی کی صورت میں تلاش کرو ۔تمھار ا کام یہی تھا کہ فصل کو سیراب کر تے رہے باقی کام تو قادر مطلق کی دستر س میں ہے ۔میں آفتاب عالم تاب کی کرنوں کی صورت میں اُمیدوں کی فصل کے کھلیانوں کے خرمن تک پہنچنے کی مثال ہوں ۔ میری لحد پر گریہ و زاری نہ کی جائے بل کہ مشیت ِ ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو شعار بنایاجائے ۔میں سوچنے لگتاہوں کہ موت یاس و ہراس کے سو اکچھ نہیں جو محض ایک آغاز کے انجام کا اعلان ہے کہ اب حشر تک کا دائمی سکوت ہی ہمارے خالق کا فرمان ہے ۔ عزیزہستیوں کی رحلت سے ان کے اجسام آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور یہ عنبرفشاں پھول شہر ِخموشاں میں تہہ خاک نہاں ہو جاتے ہیں ۔ ان کی روح عالم بالا میں پہنچ جا تی ہے اس کے بعد فضائو ں میں ہر سُو ان کی یادیں بکھر جاتی ہیں اور قلوب میںاُن کی محبت مستقل طور پر قیام پذیر ہو جاتی ہے۔ ذہن و ذکاوت میں ان کی سوچیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں۔ الم نصیب پس ماندگان کے لیے موت کے جان لیوا صدمات برداشت کرنا بہت کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے ۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ فرشتہ ٔ اجل نے ہمارے جسم کا ایک حصہ کاٹ کر الگ کر دیا ہے اور ہم اس کے بغیرسانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہیں ۔ اپنے رفتگان کا الوداعی دیدار کرتے وقت ہماری چیخ پکار اور آہ و فغاں اُن کے لیے نہیں بل کہ اپنی حسرت ناک بے بسی ، اذیت ناک محرومی اور عبر ت ناک احساس ِزیاں کے باعث ہوتی ہے ۔غم بھی ایک متلاطم بحرِ زخار کے مانند ہے جس کے مدو جزر میں الم نصیب انسانوں کی کشتی ٔجاں سدا ہچکولے کھاتی رہتی ہے ۔ غم و آلا م کے اس مہیب طوفان کی منھ زور لہریں سوگوار پس ماندگان کی راحت ومسرت کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتی ہیں۔ روح ،ذہن اورقلب کی اتھاہ گہرائیوں میں سما جانے والے غم کا یہ جوار بھاٹا حد درجہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن ثابت ہوتا ہے ۔کبھی غم کے اس طوفان کی لہروں میں سکوت ہوتا ہے تو کبھی مصائب و آلام کی یہ بلاخیز موجیں جب حد سے گزر جاتی ہیں تو صبر و تحمل اور ہوش و خرد کو غرقاب کر دیتی ہیں۔ یاس و ہراس ،ابتلا وآزمائش اور روحانی کرب و ذہنی اذیت کے اِن تباہ کن شب و روزمیں دِ ل گرفتہ پس ماندگان کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ ٔ کار نہیں کہ وہ باقی عمرمصائب و آلام کی آگ سے دہکتے اس متلاطم سمندر کو تیر کر عبور کرنے اور موہوم کنارہ ٔ عافیت پر پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤ ں مارتے رہیں ۔ ہمارے عزیز رفتگاں ہماری بے قراری ، بے چینی اور اضطراب کو دیکھ کر عالم خواب میں ہماری ڈھارس بندھا تے ہیں کہ اب دوبارہ ملاقات یقیناًہو گی مگر حشر تلک انتظار کرنا ہوگا۔سینۂ وقت سے پُھوٹنے والی موجِ حوادث نرم و نازک ،کومل اورعطر بیز غنچوں کو اس طرح سفاکی سے پیوندِ خاک کر دیتی ہے جس طرح گرد آلود آندھی کے تند و تیز بگولے پھول پر بیٹھی سہمی ہوئی نحیف و ناتواں تتلی کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں ۔پیہم حادثات کے بعد فضا میں شب و روز ایسے نوحے سنائی دیتے ہیں جو سننے والوں کے قلبِ حزیں کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں ۔کہکشاں پر چاند ستاروں کے ایاغ دیکھ کردائمی مفارقت دینے والوں کی یاد سُلگ اُٹھتی ہے ۔تقدیر کے ہاتھوں آرزووں کے شگفتہ سمن زار جب وقفِ خزاں ہو جاتے ہیں تو رنگ، خوشبو،رُوپ ، چھب اور حُسن و خُوبی سے وابستہ تمام حقائق پلک جھپکتے میں خیال و خواب بن جاتے ہیں۔ روح کے قرطاس پر دائمی مفارقت دینے والوں کی یادوں کے انمٹ نقوش اور گہرے ہونے لگتے ہیں ۔ان حالات میں قصرِ دِل کے شکستہ دروازے پر لگا صبر و رضا کا قفل بھی کُھل جاتاہے ۔سیلابِ گریہ کی تباہ کاریوں،من کے روگ،جذبات ِ حزیں کے سوگ اور خانہ بربادیوں کی کیفیات روزنِ اِدراک سے اس طرح سامنے آتی ہیں کہ دِ ل دہل جاتا ہے ۔ سیل ِ زماں کے مہیب تھپیڑے اُمیدوں کے سب تاج محل خس و خاشاک کے مانند بہالے جاتے ہیں۔ جنھیںہم دیکھ کر جیتے تھے ان سے وابستہ یادیں اور فریادیں ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میںاوجھل ہو جاتی ہیں ۔ دائمی مفارقت دینے و الوں کی زندگی کے واقعات تاریخ کے طوماروں میںدب جاتے ہیں ۔ جب ہم راہِ عدم پر چل نکلنے والے اپنے عزیزوں کا نام لیتے ہیں تو چشم بھر آ تی ہے ۔ ہجومِ غم میں گھرے ہم اپنا دل تھام لیتے ہیں اور سوچتے ہیں اس طرح جینے کے لیے جگر کہاں سے لائیں ؟ بوڑھے والدین کے لیے نو جوان بیٹے کی دائمی مفارقت ایسا صدمہ ہے کہ قادر مطلق ہمارے عدو کو بھی اِس سے محفوظ رکھے ۔ میں نے ہستی کو ایک حباب اور نظام دہر کو ایک آئینہ خانہ سمجھا ہے ۔یہاں دیواروں کے بیچ کئی کہانیاں پنہاں ہیں جن میں اپنا منھ دکھائی دیتاہے ۔ بہتا ہوا پانی جذبات کے سیل رواں کی مثال ہے جس کے بہاؤ سے بچنامحال ہے ۔ دریاؤں اور تیراکی کے گہرے تالابوں کے گہرے پانی میں گرنے کی نسبت دریا ؤں اور تالابوں کے کنارے چلنا زیادہ خطرناک ثابت ہوتاہے۔ دریا کے کناروں پر چلتے وقت معمولی سی لغزش بھی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے ۔وہ شقی القلب کج رو درندے جنھوں نے ایک مظلوم معلم کا گھر بے چراغ کر دیا اُن پر اعتبار کرنا ایک مہلک غلطی ثابت ہوئی ۔ سچ تو یہ ہے کہ انسان دشمنوں سے بچنے کی تدبیر تو سوچ سکتاہے مگر بروٹس قماش کے محسن کُشوں اور آستین کے سانپوں سے بچاؤ کی کوئی صورت ممکن ہی نہیں۔اس قسم کے بد طینت اعدا کی سادیت پسندی روح اور قلب پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتی ہے ۔یادِ رفتگاں کے حوالے سے فہمیدہ ریاض کی نظم ’’ عالم ِ برزخ ‘‘کے چند اشعار پیش ہیں:
یہ تو برزخ ہے ،یہاں وقت کی ایجاد کہاں
اِک برس تھا کہ مہینہ، ہمیںاب یاد کہاں
وہی تپتا ہوا گردوں ، وہی انگارہ زمیں
جا بہ جا تشنہ و آشفتہ وہی خاک نشیں
شب گرا ں،زیست گراں تر ہی تو کر جاتی تھی
سُود خوروں کی طرح در پہ سحر آتی تھی
فہمیدہ ریاض کا شعری مجموعہ ’’ تم کبیر ۔۔۔۔۔‘‘جو سال 2000-2015کے عرصے کی شاعری پر مشتمل ہے ۔اکسفرڈ یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام شائع ہونے والے اس شعر ی مجموعے کاتعاررف مسعود اشعر نے لکھا ہے۔ ’’ شعری مجموعہ ’’تم کبیر ۔۔۔۔‘‘ میںفہمیدہ ریاض کی ذہنی کیفیت اور داخلی کرب نمایاں ہے۔اپنے اس شعری مجموعے ( تم کبیر ۔۔۔‘‘کی اشاعت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فہمیدہ ریاض گلو گیر لہجے میں کہا کرتی تھیں :
’’ پہلے میں اس کا نام رکھنا چاہتی تھی ’’ موسموں کے دائرے میں ‘‘ لیکن پھر جیسے کہ میں نے لکھا ہے کہ میرا بیٹا ایک حادثے میں مجھے چھوڑ گیا ،اس کانام کبیر تھا ۔ تو بس پھر اس کے بعد اس مجموعے کا نام بھی بدل گیا ’’ تم کبیر۔۔۔‘‘ بن گیا اس کا نام۔پہلے میں سوچتی رہتی تھی میں کبیر کی کوئی یادگارقائم کروں ،کچھ کروں ،کچھ کروں وہ سب یادگار میںقائم نہیں کر سکی۔نہ مجھ میں اتنی ہمت رہ گئی تھی نہ اتنی طاقت رہ گئی تھی مگر جو میں کر سکتی تھی وہ یہ کہ اپنی آخری کتاب کا نام میں نے ’’ تم کبیر ۔۔۔‘‘ رکھ دیا ۔تو اب توجب بھی فہمیدہ ریاض کی کتابوںکاذکر آ ئے گا تو ’’ تم کبیر ۔۔۔‘‘کابھی ذکر آجا ئے گا۔‘‘
فہمیدہ ریاض کے آخری شعری مجموعے ’’ تم کبیر ۔۔۔۔‘‘کی ایک نظم ’’ نئی ڈکشنری ۔۔۔۔۔۔‘‘زندگی کی حقیقی معنویت کا سامنے لاتی ہے۔ اس نظم کی چند سطور پیش ہیں:
بناتے ہیں ہم ایک فرہنگِ نو
جس میں ہر لفظ کے سامنے درج ہیں
وہ معانی جو ہم کو نہیں ہیںپسند
جرعۂ تلخ کی مثل پی جائیں گے
اصل کی اصل جو بس ہماری نہیں
سنگ سے پھوٹتا آبِ حیواں ہے یہ
جو ہمارے اشارے پہ جاری نہیں
ہم فسردہ چراغ اِک خزاں دیدہ باغ
زخم خوردہ اناؤں کے مارے ہوئے
اپنی توصیف حد سے گزارے ہوئے
نوجوان اولاد کی دائمی مفارقت کا صدمہ بوڑھے والدین کو زندہ درگور کر دیتا ہے ۔ اس عہدِِ نا پرساں میں جسے دیکھو اپنی فضا میں سرمست دکھائی دیتا ہے ۔یہاں غم زدوں کی چشمِ تر کو دیکھنے والے مسیحا عنقا ہیں ۔دل و جگر سے بہنے والے آ نسوؤں کی برسات کے نتیجے میں تلخی ٔ حالات ، الم نصیب خاندان پر دنیا کی عنایات کے بارے میں کئی سوالات اُٹھتے ہیں یکم دسمبر 2018 ء کو محترمہ کشور ناہید نے روزنامہ جنگ ،لاہو ر میں شائع ہونے والے اپنے کالم ’’ کوتوال کو للکارتی فہمیدہ ریاض ‘‘ میں جان لیوا صدمات سے نڈھال اور جاں بہ لب ادیبوں کی کتابِ زیست میں تقدیر کے لکھے لرزہ خیز واقعات اور اعصاب شکن سانحات کے بارے میںجن خیالات کا اظہارکیا وہ لمحۂ فکریہ ہے :
’’ تقابل کیجیے فلم سنسر بورڈ پنجاب کی چیئر پرسن محترمہ زیبا محمد علی گھر بیٹھے دس لاکھ روپے مہینہ حاصل کر رہی تھیں۔فہمیدہ ریاض اور خالدہ حسین اسپتالوں کے چکر لگا رہی تھیں ۔دونوں کی بیماری ایک ہی غم تھا۔۔۔۔۔۔ان دونوں کو بیٹوں کا غم کھا گیا ۔‘‘
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ فہمیدہ ریاض، قمرزماں ،خالدہ حسین ، روحی بانو،متین ہاشمی، جمیل فخری، نواز ایمن،ریاض الحق ، روبینہ قائم خانی ، شہلا رضا، افضل احسن، محمد اکرم، محمد حنیف ،شیرمحمد،محمد یوسف ،شبیر رانا،ارشداقبال ،ظہور احمداور بشارت حسین وقار کو نوجوان بیٹوں کی دائمی مفارقت کے غم نے اندر سے کھو کھلا کر دیا۔ ان کے آفتاب و ماہتاب طوفانِ حوادث اور آلام کے بادلوں میں ایسے اوجھل ہوئے کہ پھر کبھی طلوع نہ ہوئے ۔ جب تک معاشرتی زندگی پر غربت ،بیماری اور جہالت کے بیشے ، شقاوت آمیز نا انصافیاں اور فسطائی جبر کا عفریت مسلط رہے گا یہاں راحت و مسرت کے وجود بعید از قیاس ہے ۔ ہمارے عزیزوںکی دائمی مفارقت در اصل ہمارے جسم سے کسی عضو کی علاحدگی کے مانند ہے اور یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ کٹا ہوا عضو آ ہ و فغاں اور پیہم گریہ و زاری سے کبھی واپس اپنی جگہ پر نہیں آ سکتا۔یہ الم نصیب جب چاندنی کو دیکھتے تو تڑپ اُٹھتے اور کہتے اے چاندنی ہمارے زخموں پر نمک نہ چھڑک تجھے دیکھ کر ہمیں اپنا چاند یاد آتاہے ۔یہ لوگ اپنے دونوں جہان بیچ کر اپنے چاند کو حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر قسمت کی لکیروں سے نکل جانے کے باعث ایسا ممکن ہی نہیں۔ نوشتۂ تقدیر کے نتیجے میں ان کے گھر کا آفتاب تو طلوع صبح کے وقت ہی غروب ہو گیا۔ عزیزوں کی دائمی مفارقت ایک ایسا جان لیوا صدمہ ہے جو آبلہ پا پس ماندگان کو خوابوں کی خیاباں سازیوں سے محروم کر کے خارزار ِحیات میں بر ہنہ پا سفر کرنے پر مجبور کر دیتاہے ۔ تقدیر ہر لمحہ ہر گام انسانی تدابیر کی دھجیاں اُڑادیتی ہے اور انسان بے بسی کے عالم میں یہ سب کچھ دیکھتا رہ جاتاہے ۔
والدین اپنی اولاد کو گود میں لے کر پروان چڑھاتے ہیں جب اولاد جوانی کی حدود میں قدم رکھتی ہے تو والدین سُکھ کا سانس لیتے ہیں ۔وہ جن بچوںکو اپنی گود میں لے کر پالتے ہیں جب وہی جوان رعنا بنتے ہیںتو اجل کے وار سہہ کر انھیں گور میں رکھنا بہت جان لیوا سانحہ ہے ۔ کسی بھی انسان کی زندگی کا سب سے لرزہ خیز اور اعصاب شکن المیہ یہ ہے کہ وہ جس چاند کو دیکھ دیکھ کر جیتا تھا وہی اجل کے سیاہ بادل میں اوجھل ہو جائے اور اپنی پتھرائی ہوئی آ نکھوں سے باقی زندگی اُس چاند کی راہ تکتا رہے ۔ نوجوان اولاد کی دائمی مفارقت ایک درد لا دوا ہے یہ کرب تو بوڑھے والدین قبر میں بھی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ایسے صدمات تو زندگی کے سب معمولات ،مصروفیات اور عزائم کو مسمار کر دیتے ہیں۔ سینے پر صبر کی سِل رکھ کر اگر دائمی فرقت دینے والی نو جوان اولاد کے غم کو کم کر نے کی سعی کی جائے تو یہ غم مزید شدت کے ساتھ رو ح اور قلب میں سما جاتاہے۔ نوجوان اولاد جب اپنے ضعیف والدین کو سپردِخاک کرتے ہیں تو وہ مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے ہیں۔اس کے برعکس ضعیف والدین کو جب اپنے گھر کے ماہ شب چہار دہم کو قبر میں اُتارنا پڑتاہے تو وہ عملی طور پر مر جاتے ہیں مگر سانس گِن گِن کرباقی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نوجوان اولاد کی دائمی مفارقت کے بعد ضعیف والدین کی زندگی کا معمول پر آنا بعید از قیاس ہے ۔ دائمی مفارقت دینے والی نو جوان اولاد کی یاد ایک فریاد کی صورت میں قلب و جگر میں نمو پاتی رہتی ہے اور تنہائی کے لمحوں میں یہ داستانِ غم اشکوں کے ایسے سیلِ رواں کی