بھارتی شدت پسندوں نے عسکری سرگرمیوں سے کنارہ کشی کا اعلان کر دیا۔ ان کے بقول اب وہ بھارت کے اندر عوامی بہبود کے منصوبوں پر توجہ دیں گے۔ ہاں!یہ اعلان انہوں نے اس کے ساتھ ہی کر دیا ہے کہ پاکستان میں ’’اپنا کردار‘‘ وہ جاری رکھیں گے۔
ایسا ہوا نہیں!لیکن اگر خدانخواستہ ہو‘ تو پاکستان کاردعمل کیا ہو گا؟پاکستان کے عساکر الرٹ ہوجائیں گے ۔پاکستانی عوام میں غم و غصہ کی لہر دوڑ جائے گی اور پاکستانی حکومت احتجاج کرے گی!
بفرض ِ محال اگر عصمت اللہ معاویہ نے افغانستان میں اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنا بھی تھا تو اس کا اعلان ببانگ دہل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟پاکستانی ناظم الامور کو کابل نے وزارت خارجہ میں طلب کیا اور احتجاج کیا۔آخر بیچارے ناظم الامور نے اس کی کیا توجیہہ پیش کی ہو گی!غالباً یہی کہ یہ تو نان سٹیٹ ایکٹر ہیں‘ لیکن ردعمل میں اگلا منطقی سوال یہی ہو سکتا ہے کہ حضور!نان سٹیٹ ایکٹر ہیں تو ہیں تو پاکستان کے اندر ہی! آخر انہیں کون کنٹرول کرے گا؟
ان کی کرم نوازی ہے کہ ملک کے اندر عسکری سرگرمیوں کا سلسلہ بند کر رہے ہیں۔تاہم ایک گروہ جو اس قابل ہے کہ دوسرے ملک میں ’’کردار‘‘ ادا کر سکے‘وہ اپنے ملک میں‘ جب جی چاہے‘کیا نہیں کرے گا؟یہ حضرات سینکڑوں میں نہیں‘ہزاروں میں ہیں۔اگر یہ ملک کے اندر دعوت و تبلیغ کا کام کرنا چاہ رہے ہیں تو ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان کا ذریعہ معاش کیا ہو گا؟
افغانستان میں ’’کردار‘‘ ادا کرنے کی بات صرف پاکستانی گروہ نہیں کر رہے‘وہاں سے بھی بہت کچھ ہو رہا ہے گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران‘ایک خبر کے مطابق ‘پچیس ہزار افغانی پاکستان میں داخل ہوئے ہیں۔وہ جو مجید امجد نے کہا تھا ؎
جو تم ہو برقِ نشیمن تو میں نشیمنِ برق
الجھ گئے ہیں ہمارے نصیب کیا کہنا!
حکومت سنبھالنے کے بعد بابر نے آگرہ میں اپنے اور اپنے افسروں کے لیے جو پہلی ’’ہائوسنگ سوسائٹی‘‘ تعمیر کی تھی‘ اس کا نام ہی ’’کابل‘‘ تھا! کئی سال کے بعد کابل کے خربوزے ہاتھ آئے۔وہ زمانہ تو اس کے پڑپوتوں ہی کو نصیب ہوا جب وسط ایشیا سے سینکڑوں اونٹ تازہ اور خشک میوہ جات سے لدے ہوئے تحفے میں آتے تھے۔ اورنگزیب تک امیر تیمور کے مقبرے کی نگہداشت کے اخراجات دہلی کی حکومت پورے کرتی رہی۔ ’’آل تیمور‘‘ کا یہ جذباتی فریضہ تھا! شاہ جہان نے تو لشکر کشی بھی کی ۔مغل ایک عرصہ تک دہلی کو عارضی پڑائو اور وسط ایشیا کو ارض موعود (PROMISED LAND)سمجھتے رہے۔ مدت بعد کابل سے خربوزے آئے۔بابر کاٹتا جاتا‘ کھاتا جاتا اورروتا جاتا‘ یہ واقعہ جسے تاریخ نویسوں نے کم ہی اہمیت دی‘ ایک علامت تھا‘ آنے والے سینکڑوں برس کے رونے کی۔یہ خربوزہ نہیں تھا! یہ چاقو نہیں تھا! یہ افغانستان اور پاکستان کی وہ مشترکہ قسمت تھی جس کا آغاز تھا نہ انجام نظر آتا ہے!کابل کے خربوزے ‘ جنہیں اس زمانے میں گرما کہتے ہیں‘پشاور سے دارالحکومت تک آج بھی ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں‘ لیکن آنسو جو بابر جیسے سورما کی آنکھوں سے چھلک کر باہر آ گئے تھے‘ آج افغانوں کی آنکھوں سے بھی نکل رہے ہیں اور پاکستانیوں کی آنکھوں سے بھی! افغانستان اورپاکستان کے بخت کا ستارہ ایک ہی ہے‘بخت اتنا تابناک نہیں کہ یہ ستارہ ماتھے پر دمکتا! یہ ستارہ مدھم ہے‘ کبھی بادلوں میں چھپتا اور کبھی حماقت کا موتیا اتر آنے کے باعث دیکھنے والی آنکھ کے بس سے باہر!خوست کا وہ افغان نہیں بھولتا جو حرمِ کعبہ کے صحن میں ملا اور تادیر گفتگو کرتا رہا۔راولپنڈی میں اس کی جائیداد تھی۔راجہ بازار کے علاقے میں تین یا چار دکانیں!اس سے پوچھا‘ خدانخواستہ افغانستان اور پاکستان میں جنگ چھڑی تو کس کا ساتھ دوگے‘وہ جواب میں محض مسکرا دیا۔باذوق ہوتا تو کہتا ع
الجھ گئے ہیں ہمارے نصیب کیا کہنا!
پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات دنیا کی مشکل ترین خارجہ پالیسی ہے!
انٹرنیشنل ریلیشنز کا پیچیدہ ترین مضمون! آج تک انٹرنیشنل ریلیشنز کے اساتذہ اور طلبہ اس خیال میں ہیں کہ دو عالمی جنگوں کے درمیانی عرصہ کی تاریخ یورپ‘ اس مضمون کا مشکل ترین باب ہے۔غلط سمجھتے ہیں!پاکستان اور افغانستان کسی شمارمیں نہیں!ہوتے تو ان سکالروں کو معلوم ہو جاتا کہ ان دو ملکوں کی باہم الجھتی ‘سلجھتی ادھڑتی ‘ ٹوٹتی جُڑتی تاریخ کس قدر صعب ہے! گڑھوں‘ خندقوں‘ دریائوں سے اٹا ہوا راستہ! ایران سے واپسی پر‘ ہمایوں نے کابل کا محاصرہ کیا تو اس کے بھائیوں نے ننھے اکبر کو فصیل پر بٹھا دیا۔کر لو تیر اندازی جتنی کرنی ہے!چلالو توپ کے گولے ! یہ بھی علامت تھی برصغیر کے مسلمانوں کے نازک ترین رشتے کی جو ان کا افغانستان کے ساتھ تھا‘ ہے اور رہے گا! ہمارا بچہ فصیل پربیٹھا ہے اور تیراندازی بھی ہم کر رہے ہیں!ہیں نا الجھے ہوئے نصیب!!
وزارت خارجہ کے سارے مضامین کے لیے ذہانت درکار ہے اور علم !لیکن افغانستان کے باب کے لیے تو خصوصی لیاقت اور ڈھیروں علم چاہیے۔ کیا ہمارے محترم وزیر اعظم نے ولیم ڈالر میل کی تازہ ترین تحقیقی تصنیف ’’ریٹرن آف دی کنگ‘‘ پڑھی ہو گی؟افغانوں کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے اس سے بہتر کتاب ہمارے سیاق و سباق میں شاید ہی کوئی ہو!ٹیلی ویژن پر پروفیسر حسن عسکری نے کیا درست بات کہی کہ ہمارے اڑھائی یا ساڑھے تین وزرائے خارجہ ہیں۔سرتاج عزیز‘شہباز شریف اور فاطمی صاحب!شہباز شریف تو وزیر خارجہ ہوں گے‘ لاہور اور لاہور کے لیے ہونے والے معاہدوں کے حوالے سے‘ فاطمی صاحب بیورو کریٹ ہیں اس لیے کہ ایک دفعہ کا بیورو کریٹ ہمیشہ کا بیورو کریٹ۔ رہے سرتاج عزیز‘ تو نہ جانے اختیارات کا سیب کئی قاشوں سے بٹنے کے بعد ان کے حصے میں کتنا آتا ہو گا۔بہر طور‘ ایک بات کچھ عرصہ پہلے انہوں نے حقیقت پسندانہ کہی کہ کاش افغانستان اور پاکستان کے درمیان دیوار ہوتی۔ہم اُدھر جا سکتے نہ وہ اِدھر آ سکتے! اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!ہمارے گروہ اپنا ’’کردار‘‘ ادا کرنے کے اعلانات بآوازِ بلند کرتے رہیں گے‘ افغانستان سے ہزاروں افراد پاکستان میں داخل ہوتے رہیں گے اور ہم جیسے احمق وزیر اعظم کو کتاب پڑھنے کا مشورہ دیتے رہیں گے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“