کالج کے کیفے میں چائے کے ساتھ نمکین بسکٹ کھانا کسے اچھا لگتا ہے مگر میری جیب اسی کی متحمل ہو سکتی تھی . ابھی چائے شروع کی ہی تھی کہ اچانک وہ آ دھمکی ہمیشہ کی طرح اچانک،اور دھڑام سے سامنے والی کرسی پر ایسے بیٹھی جیسے کسی نے اسے کرسی پر پٹخ دیا ہو
اوہ بدذوق جی کبھی اپنے آپ پر رحم بھی کیا کر ، اس موسم میں چائے کے ساتھ نمکین بسکٹ توبہ ہے، اس نے دونوں ہاتھ اپنے کانوں کو لگائے جیسے مائیں بچوں کو توبہ توبہ کرنا سکھاتی ہیں تو میری ہنسی نکل گئی.
زیادہ نہ ہنسا کرو ر نہ یکارڈ ٹوٹ جائے گا وہ سر جھٹک کے بولی
ویٹر ہماری میز پر ایک اور چائے اور فروٹ کیک رکھ گیا، غالبا آتے ہوئے وہ آرڈر دے آئی تھی۔اس نے مجھے کیک کھانے کو کہا اور خود ایک نمکین بسکٹ اٹھا کر کھانے لگی۰
میں نے اسے غور سے دیکھا وہ ایسی ہی تھی ، زندگی سے بھرپور
اس نے میری چوری پکڑ لی اور کہنے لگی نظر نہ لائیں
میں نے ہڑبڑا کر کہا نئیں پاگل میں تو پیچھے کچھ دیکھ رہا تھا
شوہدا نہ ہوے تے ، وہ چبا چبا کر بولی کبھی کبھار سچ بھی بول لیا کر دو چار سال میں ایک بار، برکت کیلئے
میں جانتا تھا وہ کیا سننا چاہتی ہے اور میں بھی تو وہی کہناچاہتا تھا مگر میرے اور اس کے درمیان حیثیت کے جتنے بھی فرق تھے ، مجھے گونگا بنا دیتے،پر اس دن میں نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا۰
کیا سننا چاہتی ہو؟ کیا میرے کہنے سے کچھ تبدیل ہو جائے گا؟ کہاں تم امیرذادی اور کہاں میں بے نام بے حیثیت، ایک غریب باپ کا بیٹا جو کیفے میں پھیکے بسکٹ سے زیادہ افورڈ نہیں کر سکتا. میرےاور تمہارے درمیان فاصلے ہی فاصلے. میں کبھی تمہارے والدین کے میرٹ پر پورا نہیں اتروں گا.
پکھ کی سی ایک آواز آئی، اصل میں وہ چائے پی رہی رتھی ، ایک دم اس کی ہنسی جو چھوٹی تو ساری چائے اس کے منہ سے نکل کے اسکی قمیض پر جا گری، منہ خالی ہوا تو اپنے کپڑوں کی فکر کرنے کی بجائے سلیقے سے ہنسنے لگی
وہ ہنستی تو مجھے بہت اچھا لگتا جیسے کوئی جل تنگ بجتا ہو یاجیسے ہم بچپن میں چائے کی پیالی کو چمچ سے بجاتے تھے ، یا جیسے بارش کے قطروں کی شیشوں پر گرنے کی ٹپ ٹپ ، پتہ نہیں میں کیوں ان خوابوں میں کھو گیاجن کی کوئی تعبیر ممکن نہ تھی مگر اس کی آواز مجھے میرے حال میں واپس لے آئی.
پتہ ہے تمہارا مسئلہ کیا ہے؟ نیئں نا؟ تم ذہنی کام چور ہو، ہمت نہیں کرنا چاہتے، سوچنا سمجھنا مشکل سمجھتے ہو. تمہاری دنیا بس نمبر ،ڈویژن ،گریڈ، میرٹ، تک محدود ہے ، نئیں ہے؟ ہو گی میں نے بے دلی سے کہا
پتہ ہے اس نے سانس لیا اور بات جاری رکھی، محبت بری کمینی ہوتی ہے ، محبتوں میں میرٹ لسٹ بنتی ہے نہ کوئی شارٹ لسٹ ہوتاہے، سہاگن پیا من بھاون ، محبت فیصد ، آئی کیو، جی پی نہیں مانتی، مقدار دیکھتی ہے نہ معیار، پیکنگ، لیبل سب بے کار، اجزائے ترکیبی، ڈیٹ آف ایکسپائری کب خاطر میں لاتی ہے اس نے آنکھوں کو سکیڑ کر مجھے دیکھا تو میں شر مسار سا ہو کر نیچے دیکھنے لگا، اس لڑکی کو کیا ہو جاتا تھا کبھی کبھی.
وہ رکنے والی کہاں تھی، بات جاری رکھتے ہوئے بولی، تمہیں کیا پتہ محبت سیریل نمبر سے کہاں چلتی ہے، کبھی تو سالوں سے لائن میں لگے کومراد نہیں ملتی اور کبھی ایک دم سے لائن توڑ کر اندر گھس آنے والے بےا یمان کو دیدار نصیب ہو جاتے ہیں.
وہ ایک پل رکی، اس نے دائیں ہاتھ کی انگلیاں میز کی ٹاپ پر اتنے زور سے رگڑیں کہ میں نےکرچ کرچ کی آوازیں سنیں. میں خوف زدہ ہو نے لگا.
پھر وہ رکی تو اس کی آنکھوں میں عجیب سی اداسی تھی، ایک آنکھ سے قطرہ گرا مگر دوسری آنکھ پر ٹشو پیپر رکھ دیا، جب بولی تو آواز میں نمایاں لرزش تھی.
قسمے تم نابہت بے ایمان ہو، میرٹ کے دشمن، لائن توڑ کر اندر آنے والے، اس نے آگے بھی کچھ کہنا چاہا مگر الفاظ جیسے اس کے حلق میں پھنس گئے ہوں، وہ یکایک اٹھی اور تیز قدموں سے چلتی کالج کی غلام گردشوں میں گم ہو گئی.
پھر ہماری ملاقات کبھی نہ ہوئی کہ میں نے کالج چھوڑ دیا تھا، اس کے جذبوں کا سامنا کیسے کرتا، نہ ہی پھر کبھی اس کی کوئی خبر ملی.
دلوں کےٹوٹنے سے زندگی رکتی نہیں، سفر جاری رہتے ہیں وہ بھی کسی نا کسی حال میں زندہ ہوگی میں بھی زندہ ہوں پر میں نے اس کے الفاظ کی لاج رکھی. کبھی بینک، ڈاکخانے، پاسپورٹ آفس، شناختی کارڈ بنواتے وقت میں نے لائن نہیں توڑی، اپنے نمبر پر رہا، اپنے حق سے زیادہ کبھی حاصل نہ کیا، اپنے میرٹ سے ہٹ کر ملازمت یا کوئی سہولت حاصل نہ کی، کوئی مجھے بے ایمان کہے تو بہت بُرا لگتا ہے مگر کبھی کبھی اس کی کے الفاظ کی بازگشت میرےکانوں سےمیں چپکے سےسرگوشی کرتی ہے
قسمے تم نا بہت بے ایمان ہو۔
عالمی پیمانے پر ادیب اطفال کی ڈائریکٹری
دنیا میں جس جگہ اردو ہے، وہاں بچوں کے ادیب اور شعرا؛ اطفال کے لیے کہانیاں ، نظمیں ، ڈرامے،...