اللہ اللہ بہت ہی خراب عورت ہے۔برائی کی راہ پر چل رہی ہے۔ہائے کیسے بخشش ہو گی اس کی،
ارے برائی کی راہ پر چل نہیں رہی دوڑ رہی ہے۔کان کے پردے پر جمی کیچ کے باوجود کتنی ہی قدح تھیں جو روزانہ اُس کے بارے میں گوش زد کی جاتیں اور وہ سُن کر بھی پلٹ کے جواب نہ دے پاتی۔کہتی بھی تو کیا۔اس گلی کے لوگ ہی نہیں راستے بھی اس کے گناہوں کے گواہ رویت تھے۔ہاں سُنا ہوا ہر لفظ خنجر بن کر سینے پر آن لگتا۔اک پل کو دل میں درد کی لہر اُٹھتی۔آنکھ کی جھیل میں آیا آنسو چھلک کر اُلٹا دل پر جا گرتا اور پورے وجود میں آگ بھڑک اٹھتی۔وجود راکھ ہو کر بکھرنے لگتا مگر اگلے ہی لمحے چوبیس نمبر بس آ جاتی اور وہ تمام انگشت نمائی بھول کر آگے بڑھتی۔دل میں ایک ہی خیال رہ جاتا۔ دیر ہو رہی ہے ، رش بہت زیادہ ہے اور مجھے وقت پر پہنچنا ہے. نہیں تو نین تارا یا چندری یا نگوڑ ماری سونو اچھا گاہک لے اُڑیں گی۔یہ خیال اس کے تمام مجروح جذبات پر حاوی ہو جاتا۔اور وہ یکسر بھول جاتی کہ ابھی چند لمحے پہلے اس کے آس پاس کے لوگ اُس پر کیسی گندگی اُچھال رہے تھے۔چکنی میلی سیٹ پر کمر ٹکاتے ہی بس ایک دھچکے سے آگے بڑھی مگر تہمتوں کی گھٹری دل سے نہ سرک سکی۔وہ گنجلک ذہن لئے شیشے سے بے نیاز کھڑکی سے باہر تکنے لگی۔وہی دھندلے مناظر ، روز کا دیکھا ایک سا رستہ، ڈوبتی شام کا ملگجا اندھیرا اور گھروں کو لوٹتے تھکے سائے،
پر اُس کا سفر تو سر شام شروع ہوتا۔رات کی تاریکی میں گناہوں کا بوجھ لادا جاتا۔ایسے گناہ جس کی پرایشچت نہ اس زمیں پر نہ زیر زمیں میں، اندھیرے کو گواہ بنانے سے کیا گناہ چھپ جاتے ہیں۔تن پر سفید اُوڑھ لینے سے کیا کالا من اجلا ہو جاتا ہے۔سوال پر سوال تھا۔
گھرر۔۔۔۔۔۔گھررر۔۔۔۔۔۔۔۔گھرر۔۔۔
ٹوٹی سڑک پر بس کسی بے ایمان دل کی طرح ڈولنے لگی تھی۔
سرکار کدھر کھوئے ہیں کرایہ تو دیجیئے۔وہ جیسے چونک کر خواب سے جاگی۔
اگر کرایہ نہیں تو۔۔۔
کالا بھجنگ میلے بالوں کو تیل سے چپڑے پان سے ادھ کھائے لال اور کالے دانتوں کو نکالے کنڈکٹر اُوشا کو ہمیشہ بھوکا بھیڑیا لگتا۔ہر دم شکار کو تیار ،دل کرتا ناخنوں سے اسکا چہرہ کھروچ دے۔آنکھیں نوچ کر کھڑکی سے باہر پھینک دے اور اور —-
ٹُکر ٹُکر دیکھتے ہو کیا۔۔
وہ بے ہودہ آواز میں گانے لگا تو اوشا نے اپنے خیالات پر لعنت بھیجتے ہوئے بٹوئے سے بیس کا تڑا مُڑا نوٹ نکال کر کنڈکٹر کی طرف بڑھایا۔نوٹ سے زیادہ انگلیوں کی چاہ میں جنگلی نے ہاتھ ہی مروڑ ڈالا۔
کمبخت ، لُچا۔۔۔ بدمعاش
وہ منہ ہی منہ میں بدبدائی۔اب کس کس سے اُلجھے ؟ کس کس کی زبان تراشے یا دیدے پھوڑے ،اسے تو سب ہی مرد ہی ایک سے لگتے۔ گھات لگائے شکاری جیسے۔بس شکار کے طریقے الگ الگ ہیں، کچھ پیار کی مار مارتے ہیں تو کچھ دام کی مار ،بس ہدف عورت ہے۔آج بھی بہت سی نگاہیں بس کی جلتی مدھم پیلی بتی کی لو میں اُوشا کو ٹٹول رہی تھیں۔بہت چھبتی ہیں نگاہیں۔۔ننگی نگاہیں، ہر کوئی اُسے ہر طرح سے چھونا چاہتا ہے۔ اپنے وجود کو دانستہ ٹکرا کر ، نگاہوں کی ہوس بھری پرچھائیوں سے یا پھر زبان کے نشتر سے۔چھونا ہے بس عورت کو چھونا ہے۔ہاں نہیں چھو سکتے تو عورت کہ من کو نہیں چھو سکتے۔
ایک سرد آہ اس کے لبوں سے نکل کر بس کے شور اور کشور کے گانے کے بولوں میں کھو گئی۔دل میں گھوکرو سے چُھبتے ہوئے محسوس ہوئے۔وہ سوچنے لگی بھلا عورت کے دل کو کب کوئی مرد جان سکا ہے، کوئی سا بھی مرد ۔۔ بھلے وہ باپ تھا پر بیٹی کہ دل تک نہ پہنچ سکا۔ جب بابا کہ آنگن میں وہ ککلی ڈال رہی تھی تو ابا نے اُسے ایک اور مرد کو سونپ دینے کا فیصلہ کرلیا۔اُس نے نوید سے اُمید لگائی۔نوید اس کا ماں جایا ۔دن بھر ساتھ کھیلتا ۔ہر وقت اس کا دُم چھلا بنا پھرتا۔وہ سمجھی شاید نوید اُسے روک لے گا۔ابا کہ فیصلے کے آگے آہنی دیوار بن جائے گا۔مگر نوید تو بُت بنا رہا۔اس کے سارے بھید جاننے والا من کے بھید سے بے خبر نکلا ،سمجھو آنگن سے نکلتے ہی بیٹی پرائی ، لال جوڑے اور ماتھے پر نقلی بندیا کے لشکارے مارتی گھونگھٹ کی اوٹ میں جب وہ رنگ برنگے کاغذی پھولوں سے سجی مسہری پر آن بیٹھی تو دل میں ایک اُمید سی جاگی۔
ہائے بڑا خسارہ ہے۔سارا کھیل ہی امید کا ہے۔اسی میں ہی تو گھاٹا ہے۔نری ہی بربادی ہے۔کیوں آخر کیوں عورت امید لگا لیتی ہے۔یہی امیدیں ہی تو ڈبوتیں ہیں۔آس ہی تو بے آس کرتی ہے۔ابا نے جو اس کے نازک وجود کا بوجھ قیصر پر ڈالا تھا وہ اُسے چند ماہ بھی نہ اُٹھا سکا۔قیصر سے بھی اس کا رشتہ زیر ناف تک ہی رہا۔من تک نہ جا سکا۔ابا اپنا بوجھ قیصر پر لاد کر بےفکر ہوگیا۔اور قیصر نشے کی لت میں پڑ کر ہر فکر سے آزاد ۔اب اپنے بوجھ ہلکے کرنے کو اُوشا کہ پاس اپنا ہی وجود باقی تھا۔وہ اسی پر بوجھ ڈھونے لگی۔ خلوت کی چند گھڑیوں میں سکون ڈھونڈھنے والوں کو بھلا کیا پڑی تھی کہ اس کہ من کہ زخموں پر کوئی پھائے رکھے۔جس کی حاجت پوری ہوئی اس نے ہتھیلی پر پیسے رکھے اور جس کی جیب خالی ہوئی اُس نے الزام رکھے۔پر کسی نے نہ پوچھا اُوشا اری اُوشا کرموں جلی کیوں تیرا من بھٹکا ؟ کیوں ایک جوان مرد کی بیوی ہونے کے باوجود تو رات کی تاریکی میں بےچین روح بنی بھٹک رہی ہے۔لوگوں کی زبان کی ساری گندگی تجھ پر اُلٹتی ہے۔ہمسائے تیرے سائے سے کتراتے ہیں۔شریف زادیاں تجھے آتا دیکھ کر رستہ بدل لیتیں ہیں۔لوگ تجھے بدچلن اور فاحشہ کہتے ہیں۔کیوں اُوشا تو پارسا کیوں نہیں بن جاتی؟ خود کو آنگن کے کھونٹے سے کیوں نہیں باندھ لیتی۔
کیوں اوشا کیوں ؟
کیوں ؟
اُسے لگا جیسے ساری بس کے مسافر چیخنے لگے ہیں۔
اُوشا کے وجود کے بخیئے اُدھڑنے لگے۔سوکھی زرد گالوں پر لپی سستی لالی کا رنگ جھڑنے لگا۔خشک ہونٹوں پر جمی سرخی کی تہہ اُترنے لگی اور بے نور آنکھوں سے کاجل بہنے لگا۔جب عورت کے پاس سب سوالوں کے جواب ختم ہو جائیں تو وہ رو دیتی ہے۔وہ رو رہی تھی مگر سوال بڑھتے ہی جا رہے تھے۔شور اب گونجنے لگا تھا۔
دو تین لال نوٹوں کی خاطر کیوں اپنے وجود کو روندواتی ہے؟ بدچلنی کا پیرہن پہن کر رات کو کیوں بھٹکتی پھرتی ہے۔
بول اُوشا بول۔۔۔بولتی کیوں نہیں
کانوں کے پردے پھٹنے لگے تھے۔وہ گھبرا کر اُٹھی اور چیخنے لگی۔
ہاں اس لئے کہ میں ایک ایسے مرد کی بیوی بنا دی گئی جو میری کوکھ میں بچہ اور اپنے وجود کی ہڈیوں میں نشہ اُتارنا تو جانتا ہے مگر میرے بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی کما کر نہیں لا سکتا۔مجھ پر کیچڑ اچھالنے والے ہاتھوں میں میرے بچوں کے لیے روٹی کے دو ٹکڑے نہیں ہوتے۔مہینے کے بتیس دن بھی لوگوں کے میلے فرش رگڑ رگڑ کر تنخواہ کٹ کٹ کر ملی۔کھانا وہ ملا جو بیگم صاحب کے کتے بلیاں بھی نہ کھائیں۔پناہ تو اُن اونچے گھروں کے در و دیوار میں بھی نہ ملی ، نوچنے والے پنجے تو مہذب درندوں کے بھی ویسے ہی نکلے جیسے ورکشاپ والے دینو کے تھے۔ہاں میں بدچلن ہوں۔فاحشہ ہوں مگر اگھوری نہیں ہوں۔
دو تین لال نوٹوں کے لئے روز اپنے وجود کو لہو لہو کرتی ہوں بساندھ بھرے جسموں کی گندگی اور روز نئے پرانے گاہکوں کی وحشت کا پانی میرے جسم میں جب زہر آگیں بن کر گُھلتا ہے تو مجھے اُبکائیاں آتی ہیں مگر میں مرتی نہیں۔کیونکہ میں ایک ماں ہوں۔ صرف ایک ماں ۔۔۔۔۔ایسی ماں جسے اپنے سسکتے وجود سے زیادہ اپنے بھوک سے بلکتے بچوں کی پرواہ ہے۔
بس رُک چکی تھی۔رات ڈھلنے لگی تھی۔خاموشی کے راج میں لمبی تنگ گلی میں تیز تیز چلتی اوشا کی پاؤں کی چاپ کسی نئے گاہک کو صداٸیں دے رہی تھی۔
اردو زبان میں اسم کی تعریف
۱۔ اسم اسم وہ لفظ ہے جو کسی کا نام ہو۔ اس کی دو قسمین ہین ۱۔ خاص ۲۔ عام...