تحریر : ایٹگرکیریٹ (اسرائیل/مقبوضہ فلسطین)
مترجم : اسماء حسین (امریکا)
برنیڈٹ ایونیو پر ،بالکل سینٹرل بس اسٹیشن کے ساتھ ، دیوار میں ایک سوراخ ہے ۔ وہاں کبھی ایک اے ٹی ایم ہو اکرتا تھا، لیکن وہ خراب ہوا یا کچھ اور ہوا ، یا کسی نے اسے کبھی استعمال نہیں کیا ، لہذا بینک کے لوگ پک اپ میں آئے اور اسے لے گئے ، اور پھر کبھی واپس نہیں لائے۔
ایک بار کسی نے اُڈی سے کہا تھا کہ اگر تم اس سوراخ میں بلند آواز سےکسی خواہش کا اظہار کرو گے تو وہ پوری ہو جائے گی ،لیکن اُڈی نے اس بات پر یقین نہیں کیا ۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ایک بار ، فلم دیکھنے کے بعد گھر واپس آتے ہوئے ، اس نے دیوار کے سوراخ میں چیخ کر کہاتھا کہ وہ چاہتا ہے کہ ڈافنی رملٹ کو اس سے پیار ہو جائے ، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اور ایک دفعہ ،جب وہ شدید تنہائی محسوس کر رہا تھا، تو اس نے چیخ کر دیوار کے سوراخ میں کہا تھاکہ وہ ایک فرشتے کو اپنا دوست بنانا چاہتا ہے اور اس کے بعد واقعی ایک فرشتہ نمودار ہوا، لیکن وہ کبھی دوست ثابت نہیں ہوا ،جب بھی اُڈی کو اس کی شدید ضرورت ہوتی ، وہ ہمیشہ غائب ہو جاتا تھا ۔ یہ فرشتہ دبلا پتلا، خمیدہ سا تھا اور اپنے پنکھ چھپانے کے لئے ہر وقت برساتی کوٹ پہنے رکھتاتھا۔ گلی کے لوگوں کو یقین تھا کہ وہ کبڑا ہے۔ کبھی کبھی، جب وہ دونوں اکیلے ہوتے ، صرف اس وقت وہ اپناکوٹ اتار یتاتھا، اورایک بارتو اس نے اُڈی کو اپنے پروں کو چھونے بھی دیا تھا۔ لیکن کمرے میں جب بھی کوئی دوسراشخص موجود ہوتا،وہ مستقل کوٹ پہنے رکھتا تھا۔ایک بار کلین کے بچوں نے اس سے پوچھا کہ اس کے کوٹ کے نیچے کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ یہ کتابوں سے بھرا ایک بیگ ہے جو اس کی اپنی نہیں ہیں اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ کتابیں بھیگ جائیں ۔ دراصل ، وہ ہر وقت جھوٹ بولتا تھا۔ اس نے اُڈی کو ایسی ایسی کہانیاں سنائیں تھیں کہ آپ سن کر پاگل ہو جائیں : جنت کے اند ر مقامات کے بارے میں ، ان لوگوں کے بارے میں جورات کو سوتے وقت اگنیشن میں چابیاں چھوڑ دیتے ہیں، بلیوں کے متعلق جو کسی شے سے نہیں ڈرتیں اور 'بھاگ جاؤ' کا مطلب بھی نہیں سمجھتیں۔اس نے ایسی ایسی کہانیاں گھڑی تھیں ، جن کا کوئی سر پیر نہیں تھا ، اور اوپر سے قسمیں کھاتا کہ وہ سچ بول رہا ہے۔
اُڈی اس کے بارے میں بہت جذباتی تھا اور ہمیشہ اس کی باتوں پر یقین کرنے کی پوری کوشش کرتا تھا۔ یہاں تک کہ فرشتے کو کئی بار اس کی مفلسی کے دوران، کچھ رقم بھی اُدھار دی تھی ۔ جہاں تک فرشتے کا تعلق ہے ،اس نے اُڈی کی مدد کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔ وہ صرف باتیں بناتا، اور اپنی بے سروپا، بے ربط کہانیاں سناتا رہتا تھا۔ اُڈی چھ برس سے اسے جانتا تھا، اور اس دوران اس نے کبھی اسے ایک گلاس دھوتے ہوئے بھی نہیں دیکھا تھا۔
جب اُڈی فوج کی بنیادی تربیت لے رہا تھا ، اس وقت اسے واقعی کسی سے بات کرنے کی اشد ضرورت تھی ، ٹھیک اسی وقت فرشتہ اسے کچھ بتائے بغیر پورے دوماہ کے لیے اچانک غائب ہو گیا۔اور جب واپس آیا تو بڑھی ہوئی حجامت کے ساتھ چہرہ ایسا بنایا ہوا تھا کہ گویا اس پر صاف صاف تحریر ہو" مجھ سےکوئی سوال نہ کیا جائے ۔" اس لیے اُڈی نے کوئی سوال نہیں پوچھا۔ ہفتے والے دن جب وہ چھت پر اپنے زیر جاموں میں دھوپ سینکنے اور سستانے بیٹھے تھے ، اُڈی نے دوسرے گھروں کی چھتوں پر ، ان پر لگے کیبل کے تاروں ، سولر ہیٹر اور آسمان پر نظر دوڑائی۔ اچانک اس کو احساس ہوا کہ اتنے برسوں سے ساتھ ہونے کے باوجود اس نے کبھی فرشتے کو ایک بار بھی اڑتے نہیں دیکھا تھا۔
"تھوڑا سا اڑ نے کے بار میں کیا خیال ہے۔" اس نے فرشتے سے کہا۔" اڑنے سے تم کچھ بہتر محسوس کرو گے ۔"
اور فرشتے نے کہا :" چھوڑ و اڑنے کو ۔اگر کسی نے مجھے دیکھ لیا تو کیا ہوگا؟"
"ہمت کرو" اُڈی نے اسے چھیڑا ۔ "تھوڑا سا۔ میری خاطر۔" لیکن فرشتے نے زور سے کھنکارنے کی کریہہ آواز نکالی اور ٹار مک کی چھت پر سفید بلغم تھوک دیا۔
"اچھاچھوڑو۔" اُڈی نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔" میں شرط لگاتا ہوں کہ تمہیں اُڑنا آتا ہی نہیں ہے۔"
"میں بالکل اڑ سکتاہوں ۔" فرشتے نے جواباً جھنجھلا کر کہا۔"لیکن میں نہیں چاہتا کہ لوگ مجھے اڑتے ہوئے دیکھیں ،بس اتنی سی بات ہے ۔"
دونوں نے دیکھا کہ سامنے والی چھت پر کچھ بچے پانی کے بم پھینک رہے تھے ۔" تمہیں پتا ہے ۔" اُڈی مسکرایا۔"تم سے ملاقات سے پہلے، جب میں چھوٹا تھا ، یہاں اکثر آتا تھا اور نیچے گلی میں چلنے والے لوگوں پر پانی کے بم پھینکا کرتا تھا۔ میں دو سائیبانوں کے درمیان کی جگہ پر نشانہ لگاتا تھا۔" اس نے جنگلے پر جھک کر کریانہ اسٹور اور جوتوں کی دوکان کے درمیان تنگ سے خلا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ۔" لوگ پریشان ہو کر اوپر دیکھتے ،اور انہیں سوائے سائبانوں کے اور کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ انہیں پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ وہ پانی کے بم کہاں سے آ رہے تھے ۔"
فرشتہ بھی کھڑا ہوا ،اور نیچے گلی میں جھانکنے لگا۔ ابھی اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ اچانک اُڈی نے اسے پشت سے ہلکا سا دھکا دے دیااور فرشتے کا توازن بگڑ گیا۔ اڈی صرف مستی کر رہا تھا۔ وہ در حقیت فرشتے کو تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا، صرف ذرا سی تفریح کے لیے تھوڑا سا اُڑانا چاہتا تھا ۔ لیکن فرشتہ آلو کی بوری کی طرح پانچ منزلوں سے نیچے دھپ سے گر پڑا۔ ششدر ، اُڈی نے اسے فٹ پاتھ پر ڈھیر دیکھا۔ اس کا پورا جسم ساکت تھا ،سوائے پروں کے جو ایسے پھڑک رہے تھے گویا قریب المرگ ہوں۔ آخر کار ،اڈی سمجھ گیا کہ فرشتے نے آج تک جو کچھ بھی اسے بتایا ، وہ سب جھوٹ تھا۔ یہاں تک کہ وہ فرشتہ بھی نہیں تھا، صرف پروں والا ایک جھوٹا تھا ۔
(انگریزی سے اردو ترجمہ)
نوٹ: اسماء حسین کا کیایہ ترجمہ سہ ماہی ادبیات میں شائع ہوچکا ہے۔
English Title: Hole in the wall
Written by:
Etgar Keret (Born August 20
اردو لسانیات
زبان اصل میں انسان کے تعینات یا اداروں میں سے ہے۔ وہ ان کی معمول ہے جن کی کار بر...