میڈیا اس زندہ زبان کے ساتھ کھلواڑ بند کردے۔
زندہ زبان اور انسان میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔یہ دونوں وجود میں آنے کے بعد پلتے، بڑھتے ،اورپروان چڑھتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زبان ہویاکوئی انسان اس کاچہرہ مہرہ اور رنگ روپ بدلتارہتاہے۔یقین نہ آئے توآپ اپنے بچپن کی کوئی تصویر البم میں دیکھ لیں ۔آپ کو اپنا چہرہ دیکھ کر بھی اپنا نہیں لگے گا۔ ہرچند کہ اب بھی آپ کی وہی آنکھیں، وہی کان، وہی ناک ، وہی گال ، وہی ہونٹ ہیں جو اُس وقت تھے ، جب آپ نے دنیائے فانی میں آکر آنکھ کھولی تھی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہی کچھ ہونے کے باوجود سب کچھ تبدیل ہوچکاہے۔اور تبدیلی آئی بھی ہے اور مسلسل آبھی رہی ہے ۔اسی طرح زبان کامعاملہ ہے۔ جو زبان آپ بولتے،لکھتے اور پڑھتے رہے ہیں ، وہ بھی آپ کی شخصیت کی طرح مسلسل تبدیل ہورہی ہے ۔یہ تبدیلی زندہ زبان کی نشانی ہے۔کسی دور میں لکھا جاتا تھا کہ میں آپ کے گھر پہونچ رہا ہوں ۔اب یہ لفظ ۔پہونچ۔ نہیں لکھا جاتا بلکہ یہ لکھا جاتا ہے کہ میں پہنچ رہاہوں ۔میر تقی میر کے دور میں ۔ کبھو ۔لکھا اوربولاجاتا تھا، اب ہم ۔کبھی ۔ کہتے، بولتے اور لکھتے ہیں۔ جب تک زبان زندہ رہے گی ، یہ تبدیل ہوتی رہے گی ۔ اس تبدیلی کوروکنے کیلئے کوئی بند نہیں باندھاجاسکتا اور نہ ہی زبان کی تبدیلی کو کوتاہی یاغفلت کانام دیا جاسکتا ہے۔مجھے یاد ہے کہ انیس سو نوے میں معروف شاعر طفیل ہوشیارپوری مرحوم کے ایک شعری مجموعے کا دیباچہ میرے والد بزرگوار اور صاحب ِ طرز شاعر وادیب سیدفخرالدین بلے نے لکھا تھا اور اہل ِ ادب کی توجہ اس جانب دلائی تھی کہ اردو نئی شکل اختیارکررہی ہے۔انڈین ٹی وی ڈرامے اور بالی وڈ کی فلموں کےاثرات پاکستان کے بچے اور جوان قبول کررہے ہیں ۔ اب یہ دونوں ہستیاں دنیا میں نہیں رہیں لیکن وقت نے ثابت کردیا ہے کہ اردو زبان بدلنے کاجو اشارہ دیباچے میں دیا گیاتھا ، آج و یسا ہی ہورہاہے ۔
ادب اور صحافت کاچولی دامن کاساتھ ہے۔بڑے بڑے ادیبوں نے صحافتی دنیا میں قدم رکھا تو پرنٹ میڈیا نے زبان و بیان کی اصلاح کاسامان بہم پہنچایا۔نئے آنے والوں کی رہنمائی کی۔اخبارات و جرائد کے ساتھ ساتھ ٹی وی اور ریڈیوکی نشریات نے شائستگی کےساتھ موقف یامافی الضمیر اغلاط سے پاک پیرائے میں عوام و خواص تک پہنچانے کی بھرپور کوششیں کیں۔جوبلاشبہ بارآور ثابت ہوئیں۔یایوں کہیے کہ ایک دور تھا جب میڈیا میں زبان و بیان کی غلطیاں بہت کم نظرآتی تھیں ۔اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوبھی جاتی تو سینئیرز اس کافوری نوٹس لیاکرتے تھےاور غلطی کو دہرانا ایک ادبی جرم بلکہ ظلم سمجھاجاتا تھا۔جب پی ٹی وی کاقیام عمل میں آیا تووہاں بھی زبان و بیان کے درست استعمال پر زوردیاگیا۔فیض احمد فیض، جوش ملیح آبادی،زیڈ اے بخاری، ضیاء محی الدین،شکیل عادل زادہ، اشفاق احمد،قومی ترانے اور شاہنامہء اسلام کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری ، ریڈیو پاکستان کے اولین براڈ کاسٹر غلام ِ مصطفیٰ ہمدانی،طارق عزیز، حمایت علی شاعر،انورمقصود، اداکار محمد علی ، غلام ِ مصطفی صوفی تبسم،احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیرآغا ،محمود شام ،شمس ملک اور اعلیٰ پائے کے بہت سے ادیب اور دانشوران ِ کرام اخبارات و جرائد سے وابستہ تھے ۔ان کی تحریریں نسل ِ نو کیلئے مشعل ِ راہ ثابت ہوتی رہی ہیں ۔ درست تلفظ کے ساتھ الفاظ کو موقع محل کی مناسبت سے قرینے اورسلیقے سے برتنے پرخصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ مذکر کو مونث اور مونث کو مذکر لکھنے کی اجازت نہیں تھی۔لیکن اب علمی اور ادبی دنیا کے موسم کے ساتھ ساتھ دنیائے لسانیات کا فیشن بھی بدل چکاہے ۔ محض لاعلمی کی بنیاپر نہیں بلکہ اپنی علمیت بگھارنے کیلئے بھی الفاظ کو غلط طریقے سے برتا جارہاہے ۔ادبی محفلوں اور میڈیا ہاوسز کے نیوز رومز میں بیٹھ کر بھی پوچھ لیا جاتا ہے کہ۔ سیونٹی نائن۔ کو اردو میں کیاکہتے ہیں؟عوام بیمار ہوتا ہے یا عوام بیمار ہوتی ہے ؟ کیا لکھنا بہتر ہے؟
تاثر یہ دینا مقصود ہوتاہے کہ وہ انگریزی میڈیم ہیں ۔ اور ان کی قابلیت کااس سے بڑا ثبوت اور کیاہوگا کہ انہیں صحیح اردو بولنی اورلکھنی بھی نہیں آتی۔ یہی لوگ اردو پر کسی کاعبور دیکھیں تو اسے فرسودہ، قدامت پسنداور اپنے دور سے بہت پیچھے سمجھتے ہیں ۔دوسروں کو نیچا دکھانے کیلئے جان بوجھ کر بھی غلط اردو بولی جاتی ہے اور غیرضروری طور پر بھی انگریزی الفاظ گفتگوکےدوران بولے جاتے ہیں ۔ایسا محض اس لئے ہے کہ ایسے لوگ اپنے تئیں یہ سمجھتے ہیں کہ انگریزی الفاظ شامل کرلئے جائیں تو آپ کو لوگ بہت تعلیم یافتہ اور ماڈرن سمجھتے ہیں ۔میڈیا کی دنیامیں اردو کے ساتھ کھلواڑ عمداً بھی ہورہا ہے۔ سہواً بھی ۔ طوہاً بھی ہورہا ہے اور کرہاً بھی ۔کسی دور میں اخبارات، جرائد، ریڈیو اور ٹی وی نشریات گیسوئے اردو کو سنوارنے کاذریعہ تھیںلیکن اب معاملہ اس کے برعکس ہے ۔
کچھ اخبارات، جرائد اور ٹی وی چینلز تواتر اور تسلسل کے ساتھ زبان و بیان کی غلطیاں کر رہے ہیں،۔ ایسا اس لئے بھی ہے کیونکہ اب اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بڑی تعداد میں میڈیا میں موجود ہیں۔ایسے بھی جنہوں نے کئی کئی زبانوں میں ماسٹرز کی ڈگریاں لے رکھی ہیں ۔ یورپی ممالک سے جدید صحافت کے حوالے سے اپنے دامن میں علم و عرفان کے نایاب موتی بھی سمیٹ کر لائے ہیں ۔لیکن جس زبان میں انہیں کام کرنا ہے، اس پر ان کی اتنی گرفت نہیں ، جتنی ہونی چاہئیے۔ ایسا اس لئے ہے کہ ان کی بیشتر توانائیاں انگریزی ادب اورزبان سے خوشہ چینی میں صرف ہوجاتی ہیں ۔ ادب اور صحافت کاچولی دامن کاساتھ ہے ۔تعلیم یافتہ اصحاب کی توجدید میڈیا میں کمی نہیں اور انہی کے دم قدم سے گلشن کاکاروبار چل رہاہے لیکن ادیب صحافتی دنیا سے دور ہوگئے ہیں ۔ اس لئے ادبی رنگ صحافت سے کم ہورہا ہے۔
بٰعض اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات نے زبان و بیان کی غلطیوں کے خوبصورت جواز بھی تراش رکھے ہیں ۔ کوئی غلطی ہوجائے تو کہتے ہیں ۔ بھئی ،یہ غلط العام ہے۔اور غلط العام کااستعمال جائز ہے۔ایسا وہی لوگ کہتے ہیں جنہیں درست الفاظ کاپتا نہیں ہوتا ۔ایک پڑھی لکھی نظر آنے والی شخصیت ہر غلطی پر یہی کہہ کراپنی جان چھڑا لیاکرتی تھی ۔ ایک دن ایک اینکر نے اسکرین پر آکر کہا ،یہ بات۔ مَن و عَن ۔درست ہے ۔میں نے اسی پڑھی لکھی نظر آنے والی شخصیت کی طرف دیکھا، وہ سمجھ گئے ۔ اسکرپٹ بھی وہیں میز پر پڑا تھا۔ میں نے اسکرپٹ پر لفظ کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا، یہ اینکر نے کیا پڑھاہے۔ کہنے لگے ۔مَن و عَن ۔ اور کیا پڑھتی ؟ میں نے کہا آپ نے بھی غلط پڑھاہے۔ یہ مَن و عَن نہیں ، مِن و عَن ہے۔ کہنے لگے یہ غلط العام ہے۔ آپ سمجھا کریں ۔میں نے کہا آپ قرآن حکیم کے کسی لفظ کی شکل بدل یا بگاڑ کر اسے غلط العام کے کھاتے میں نہیں ڈال سکتے۔ یہ عمل قرآن میں تحریف اورترمیم قرار پائےگا۔
موسلادھار بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کاحال ہی میں ہمیں سامناکرنا پڑا ہے۔ اس حوالے سے زبان و بیان کی بہت سی غلطیاں بڑے تسلسل اورتواتر کےساتھ سامنے آتی رہی ہیں ۔ مثلاً
سیلابی پانی میں لوگ گھرے ہوئے ہیں ۔ سڑکیں سیلابی پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں ۔سیلابی پانی کی ترکیب ہی غلط ہے۔ انہیں کون بتائے کہ سیلاب ایک ایسا لفظ ہے ، جس میں پانی موجود ہے۔ یہ لفظ سیلاب دراصل دو الفاظ سیل اور آب کا مرکب ہے۔ جیسے سن ۔ لائف ۔ سوپ صابن کہناغلط ہے۔ ماہ ِ رمضان المبارک کے مہینے میں کہنا غلط ہے۔ اسی طرح جب سیلاب کہہ دیا تواس کے بعد پانی کہنا سراسر غلط ہے ۔ہاں ، البتہ آپ برساتی پانی کہہ سکتے ہیں ۔ ریلا کہہ سکتے ہیں ۔ سڑکیں سیلاب میں ڈوبی ہوئی کہہ سکتے ہیں ، لیکن سیلابی پانی نہیں کہہ سکتے اور اگر کہیں گے تو غلط ہوگا۔بعض الفاظ غلط لکھے جاتے ہیں اور اس کالکھنے والوں کوعلم ہی نہیں۔مثلاً لاپتہ کالفظ ہے ۔ اگردوزبانوں کے الفاظ ہوں توکسی ایک زبان کی ترکیب استعمال نہیں کی جاسکتی۔ لا ۔ عربی زبان کالفظ ہے، جس کے معانی ہیں ۔نہیں۔پتا اردو اور ہندی کالفظ ہے ۔ اور یہ لفظ ۔پتہ۔ نہیں ، بلکہ پتا ہے لیکن پھر بھی ہم لاپتا کی ترکیب استعمال کرتے ہیں اور کرتے رہے ہیں ۔ یہ ترکیب غلط سہی لیکن اب یہ غلط العام کے زمرے میں آئے گی۔یعنی لاپتا لکھنا جائز بھی ہے اور اسے درست بھی تسلیم کرلیا گیا ہے،لیکن لاپتا کو لاپتہ لکھنا پھربھی غلط ہوگاکیونکہ پتہ کالفظ آخرمیں الف کے ساتھ ہی لکھا جاسکتا ہے،یعنی لاپتا۔
میں نے بہت پڑھے لکھے اصحاب کو بھی قومی پرچم کو سبز ہلالی پرچم کہتے، بولتے اور لکھتے دیکھاہے۔جوسراسر غلط ہے۔ اس لئے بھی کہ سبز ہلالی پرچم ہمارا قومی پرچم نہیں ہے بلکہ سبز ہلالی پرچم پاکستان مسلم لیگ اور مسلم لیگ نواز شریف گروپ کاہے۔ آپ ان دونوں سیاسی جماعتوں کے پرچم دیکھ لیں ۔آپ کو ان دونوں سبز ہلالی پرچموں اور قومی پرچم میں فرق خود نظر آجائےگا۔ فرق یہ بھی ہے کہ قومی پرچم میں ایک رنگ سفید بھی ہے جواقلیتی برادریوں کی نمائندگی کرتاہے جبکہ سبز رنگ اکثریت یعنی مسلم آبادی کامظہرہے۔جب ہم سبز ہلالی پرچم کہتے ہیں تواس سے مراد مسلم لیگ کاپرچم ہی ہوسکتاہے اور ہم اپنے قومی پرچم کوکسی سیاسی جماعت کاپرچم نہیں کہہ سکتے۔چند ایک اور الفاظ ہیں ،جنہیں ہم غلط لکھتے اور بولتے ہیں ۔ مثلاً میڈیا کی دنیا میں لاپرواہی ،پٹری ، اغوا، دیہاتوں، کم سن بچی کےالفاظ اکثر استعمال ہوتے ہیں ۔ جبکہ صحیح لفظ لاپرواہی نہیں ،لاپروائی ہے، پٹری نہیں ، درست لفظ پٹڑی ہے ۔اَغوا ۔زبر کے ساتھ لکھنا اور آخر میں۔ ء ۔ کااضافہ کرنا درست نہیں بلکہ الف کے نیچے زیر آئے گا اور آخر میں ۔حرف حمزہ نہیں ہوگا بلکہ صحیح لفظ ہوگا۔ اِغوا۔ لوگ کم سِن بچی کی ترکیب بھی بڑے تواتر کے ساتھ برت رہے ہیں ۔یہ نہیں سوچتے کہ ہر بچی کم سن ہی ہوتی ہے لہٰذا بچی سے پہلے کم سن لکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ اگر کمسن بچی لکھا جائے گاتو یہ غلط ہوگا۔ اس لئے صرف بچی لکھنا کافی ہے ۔یا کمسن کالفظ لکھنا ہی ہے تو اس کے بعد بچی نہیں، لڑکی لکھاجائےگا
ٹی وی کی خبروں اور اخبارات میں ایسے جملےبھی پڑھنے اورسننے کوملتے ہیں ،شہروں اور دیہاتوں میں ترقیاتی کام جاری ہے۔یاد رکھنے کی ضرورت ہےکہ دیہاتوں کا لفظ سرے سے غلط ہے ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ دیہہ کی جمع ہے دیہات ۔ اور جب ہم نے دیہہ کی جمع دیہات لکھ لی ہے ،تو دیہاتوں کالفظ درست کیسے ہوسکتا ہے؟
حادثات ، زلزلے یاسیلاب کی خبریں سامنے آئیں توبتایاجاتاہےکہ گاڑی مکمل تباہ ہوگئی۔ مکان گرجانےکے باعث گرکر مکمل تباہ ہوگیا۔تباہی کسی گاڑی یامکان کی بربادی یاملیامیٹ ہوجانے ہی کوکہتے ہیں۔ لہٰذا تباہی سے پہلے مکمل لکھنایا مکمل تباہی کہنا غلط بلکہ سراسر غلط ہے۔ایک لفظ ہے کارروائی ، لیکن ٹی وی کی خبروں کےسپرز پر اکثر کاروائی لکھا نظر آتاہے۔ جوٹِکرز چل رہے ہیں ،ان میں بھی کارروائی کے بجائے کاروائی لکھادکھائی دیتاہے، جویقیناً غلط ہے لیونکہ اس لفظ میں ایک نہیں دوبار ۔حرف ۔ر۔ لکھاجاتاہے اور ایک بار ۔ر۔ شامل کرکے کاروائی لکھنا درست نہیں ۔وباء کالفظ کورونا کے دنوں میں بہت استعمال کیاگیا ۔ یہ لفظ وباء نہیں ، بلکہ وباہے، یعنی آخرمیں حمزہ نہیں آئےگا۔
الیکٹرانک میڈیا والوں کوسلام ہے۔ کہتے ہیں فلاں علاقے میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کئے گئے ۔ انہیں کون بتائے کہ زلزلہ تونام ہی جھٹکے کا ہے۔ یہ لکھنا زیادہ مناسب ہوگا کہ فلاں جگہ زلزلہ آگیا۔ اور جھٹکوں کی شدت یا زلزلے کی شدت ________رہی۔
اردو ٹی وی نیوز چینلز میں انگریزی الفاظ کابھرپور اورآزادانہ استعمال کیا جارہاہے۔ اور اس سے مفر بھی ممکن نہیں۔ لیکن جوانگریزی الفاظ ہیں، ان کیلئے فارسی زبان کی بنیاد پرجمع کاصیغہ نہیں برتا جاسکتا۔لیکن ایسا ہورہاہے اور بڑے دھڑلے کے ساتھ ہورہاہے۔ مثلاً ایک لفظ ہے ۔لیڈر۔ اور ایک دوسرا انگریزی لفظ ہے ممبر۔ لوگ لیڈر کی جمع فارسی ترکیب پر۔لیڈران ۔اور انگریزی لفظ ممبر کی جمع۔ ممبران۔ بناکر استعمال تو کررہے ہیں لیکن یہ درست نہیں ۔اس کا حل یہ ہے کہ جہاں ممبران لکھا ہو، وہاں ممبران کالفظ ہٹاکر ارکان لکھ دیا جائے اور جہاں لیڈران لکھا ہو، اس کی جگہ۔ رہنماءوں۔ لکھاجائے۔
زبان اور ثقافت میں ایک قدر ِ مشترک یہ بھی ہے کہ یہ دونوں ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح نہیں، بلکہ ایک دریاکی طرح ہیں اوردریا کبھی رُکنے کانام نہیں لیتا۔اسی لئے زبان ہویا ثقافت اس میں ہمیشہ بہاءو تو نظر آتا ہے ، ٹھہراءو نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی زبان ہویا کسی بھی ترقی یافتہ، ترقی پذیر یا پسماندہ ملک کی ثقافت،وہ تبدیل ہورہی ہے۔ہرزبان میں دوسری زبانوں اور ہرثقافت میں دوسری ثقافتوں کے رنگ شامل ہورہے ہیں۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، اس تبدیلی کوروکا نہیں جاسکتا۔یہ نئی ٹیکنالوجی کادور ہے ۔خصوصاًمیڈیا کی دنیا میں دیکھئے کہ نت نئی ایجادات کی بنیاد پرایک انقلاب برپا ہوچکاہے۔نت نئے ذرائع ابلاغ وجود میں آنے کانتیجہ ہے کہ ہماری زبان اورثقافت ہی نہیں،ہمارے معمولات،ہماری عادات،ہمارا طرز ِ زندگی،ہمارے ملبوسات ، ہماری رسمیں، ہمارے رواج اورہمارے اظہار و بیان کے انداز تک تبدیل ہوکر رہ گئے ہیں۔کورونا تو بعد میں آیا تھا، اس سے بہت پہلے ہم ایک گھر میں ر ہتے ہوئے اپنے تمام گھروالوں سے دور ہوچکے تھے۔اسمارٹ فون نے ہم میں وہ معاشرتی دوریاں پیدا کررکھی ہیں ، جسے بعد میں کورونانے ہماری بنیادی ضرورت بنا کررکھ دیا۔نئی ایجادات ہی کی وجہ سے اب گھر کے مکین ایک کمرے میں ہونے کے باوجودایک دوسرے سے بہت دور نظرآتے ہیں۔اس صورت حال کے پیش ِ نظر میں نے کہا تھا
تنہا تنہا ہی اب تو جینا ہے
ساری دنیا ہی قرنطینہ ہے
جس کسی سے سوشل میڈیا پرہم مسلسل جُڑے رہتے ہیں،وہ چل کر ہمارے پاس آجائے توہمارے پاس اس سے ملنے کاوقت ہی نہیں ہوتا کیونکہ ہم نے ایک دوسرے سے معاشرتی دوریاں اختیارکررکھی ہیں ، البتہ سوشل میڈیا پر ہم ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔
سوشل میڈیا پر جو کچھ ہورہا ہے ،وہ میرے اور آپ کے سامنے ہے۔ اردو اور انگریزی زبان کافرق ختم ہوتا جارہاہے۔ انگریزی لکھتے ہوئے ہم اردو کےالفاظ استعمال کررہے ہیں اوراردو میں اپنا بیان یا بیانیہ دیتے ہوئے انگریزی لکھ رہے ہوتے ہیں۔الفاظ میں کفایت شعاری برتنے کیلئےہم نے بڑے بڑے جملوں کا مخفف ڈھونڈ نکالا ہے اور اب فار۔یور ۔ انفارمیشن ۔ لکھنا ہوتو ایف۔ یو ۔آئی۔ لکھ دیا جاتاہے ۔ یہ کھیل بڑے پیمانے پر کھیلا جارہا ہے۔اس لئے نئے الفاظ کی نئی ڈکشنری وقت کی اولین ضرورت ہے ۔یہ ایک الگ موضوع ہے، جس پرالگ سے مضمون لکھے بغیر گزارا ممکن نہیں۔
اردو اور انگریزی زبانیں ایک دوسری کی سوتنیں نہیں ہیں بلکہ سگی بہنوں کی طرح ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ساتھ ساتھ چلتی نظر آرہی ہیں۔کبھی کبھی توایسا لگتاہے کہ یہ دونوں جڑواں بہنوں کی طرح ہیں۔ جن کے جسم بھِی ایک دوسرے سے جُرے ہوئے ہیں۔ ہر اردو ٹی وی نیوز چینل ایسا ہے کہ ناظرین بیک وقت دونوں زبانوں کے مزے لوٹ سکتے ہیں اور لوٹ رہے ہیں۔ایسا اس لئے بھی ہے کہ اب انگریزی لفظیات ہماری اردو زبان کی دلکشی کاسامان بہم پہنچارہی ہے ۔ اردو ہویا انگریزی دونوں زبانوں کادامن وسیع ہورہاہے۔انگریزی الفاظ استعمال کئے بغیر اردو میں بات ہوہی نہیں سکتی۔مثلاً اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ایکسپریس نیوز ٹی وی چینل دیکھ رہاہوں توذراسوچ کربتائیے کہ اس چار لفظی جملے میں جو بظاہر اردو کاجملہ نظر آرہاہے،اردو زبان کاکون سا لفظ ہے؟کیا ایکسپریس اردو لفظ ہے ؟ کیا نیوز ،اردو ہے؟ کیا ٹی وی کوآپ اردو کالفظ کہہ سکتے ہیں یا چینل آپ کی نظر میں اردو کالفظ ہے؟ اگر کوئی اردو لفظ ان میں نہیں ہے تویہ بتائیے کہ کیا اس دور میں میڈیا محض اردو پرانحصار کرسکتا ہے؟ کیا انگریزی زبان کےالفاظ شامل کئے بغیر آپ کی بات ناظرین تک پہنچ پائے گی۔
اس حقیقت سےانکار ممکن نہیں کہ اس دور میں انگریزی کی ضرورت، اہمیت اورافادیت کو سمجھے بغیر نیوز اور ویوز کی ترسیل اور تشہیر ممکن ہی نہیں ہے۔ان دونوں زبانوں سے فائدہ اٹھاکر ہی اردو ٹی وی چینلز کے ذریعے عوام کی توجہ کھینچی جاسکتی ہے۔
آج کے میڈیا میں کچھ غلطیاں لئے بھی ہورہی ہیں کہ ہم لکھ لیں توبھی اپنے لکھے ہوئے الفاظ اور ان سے نکلنے والے مفاہیم پرغور کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔چند مثالیں پیش ِ خدمت ہیں ۔
موسم کی خبروں میں درجہ حرارت کے ساتھ ڈگری لکھنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ درجہ حرارت اور ڈگری میں کوئی فرق نہیں۔ ڈگری کالفظ لکھے بغیر اتنا کہہ دیناکافی ہے کہ درجہ حرارت 49سینٹی گریڈ ہو گیا۔ یا پارہ 49 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔۔
ہم عموماً لکھتے، کہتے یا بولتے ہیں کہ ٹریفک حادثے میں میاں بیوی اور بچے معجزانہ طور پر بچ گئے۔ یہاں معجزانہ طور پر کا استعمال غلط ہے۔ اس لئے کہ معجزہ ایسا لفظ ہے،جو صرف پیغمبروں یا عظیم المرتبت ہستیوں ہی کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے ٹریفک حادثے کی خبر میں معجزانہ طور پر بچ جانے کے بجائے یہ لکھا جائے گا کہ میاں بیوی اور بچے حیرت انگیزطور پر بچ گئے۔ یہاں یہ وضاحت غیر ضروری معلوم نہیں ہوتی کہ اگر کوئی اَن ہونی قدرت یا سائنس کے ہاتھوں سرزد ہوتواُسے کرشمہ ،پیغمبر کے ذریعے ہوتو معجزہ، کسی ولی کےذریعے ہوتو کرامت اور کسی غیر مسلم کی بنیاد پر ظہور پذیر ہوتواسے اِستدراج کہتے ہیں۔
اب تو میڈیاوالے یہ بھی لکھتے دکھائی دیتے ہیں کہ بارش برسی ۔ یہ غلط ہے۔ بارش ہوتی ہے، برستی نہیں ہے۔ اس لئے کہ بارش کے لفظ میں برسنے کا عمل چھپا ہوا ہے۔البتہ بادل کے ساتھ برسنے کااستعمال درست ہے۔یعنی بادل برسے یا ابر ِرحمت برسالیکن بارانِ رحمت کے ساتھ برسنا نہیں آئے گا۔ بلکہ بارانِ رحمت ہوئی یا ہوگی لکھا جائے گا۔
عوام کے ساتھ ہمارے سیاست دانوں اور حکمرانوں نے جو کھلواڑ کیا ہے ، وہ کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں ہے۔ملک بھر میں مردوں کاراج ہے اور لفظ عوام کاصیغہ بھی مذکر ہے ۔اوراسے جمع کے صیغے ہی میں استعمال کیا جانا چاہئیے لیکن ہمارے سیاستدانوں اورحکمرانوں نے جو سلوک خواتین کے ساتھ روا رکھاہواہے، وہی کچھ اب لفظ عوام ہی نہیں بلکہ تمام عوام کے ساتھ بھی ہورہاہے۔اس لفظ کی جنس تبدیل کردی گئی ہے ، کوئی عوام کو مذکر نہیں کہتا اورنہ ہی سمجھتاہے۔بلکہ سیاستدان یہی کہتے ہیں عوام کہتی ہے۔عوام مسائل کی شکار ہے۔ عوام کالفظ مذکر ہے اور اس کیلئے جمع کاصیغہ ہی استعمال کیاجاسکتاہے اورکیاجانا چاہئے ۔کہنا اور لکھنا چاہئیے عوام مسائل کاشکار ہیں لیکن ایسا ہونہیں رہا اور افسوس کی بات یہ ہے کہ بڑے بڑے چینلز کو اس غلطی کااحساس ہی نہیں ہے ۔ اب ایک اور غلطی دیکھئے ۔ آپ نے اخبارات میں یہ کیپشن اکثر پڑھاہوگا کہ امریکی وزیرخارجہ اپنے پاکستانی ہم منصب کے ہمراہ پریس کانفرنس کررہے ہیں ۔ یہ کیپشن کسی اخبار میں تصویر کے نیچے لکھا ہو یا کسی ٹی وی نیوز چینل کی ہیڈ لائن ہو، یہ سراسر غلط ہے۔ ہمراہ پریس کانفرنس اُسی وقت کی جاسکتی ہے، جب دو یااس سے زیادہ شخصیات چلتے پھرتےپریس کانفرنس کررہےہوں۔اگر مشترکہ پریس کانفرنس کی جارہی ہے تو ہمراہ ، نہیں بلکہ یہ لکھا جائے گاکہ امریکی وزیرخارجہ اپنے پاکستانی ہم منصب کے ۔ ساتھ ۔ پریس کانفرنس کررہے ہیں۔ہم راہ اور ساتھ میں فرق ہے، اگر دویااس سے زیادہ شخصیات ایک ہی راہ کے مسافرہوں تو ہی ہمراہ کالفظ استعمال ہوسکتا ہے ورنہ نہیں ، اگر کہیں بیٹھے ہیں توہم نہیں کہہ سکتے کہ زید عمر اور بکر کے ہمراہ بیٹھاہے۔بلکہ یہی کہااور لکھاجائےگا کہ زیدعمر اور بکرکےساتھ بیٹھاہے ۔
میڈیا نے تو اپنے ہی ملک کے باسیوں کو اجنبی اور پردیسی بناچھوڑا ہے۔ اپنے ہم وطنوں کےلئے آپ نے ہمیشہ سنااور پڑھا ہوگا کہ عید اپنے پیاروں کےساتھ منانے کیلئے پردیسیوں کی اپنے آبائی علاقوں کیلئے روانگی۔ جولوگ کاروبار یاروزگار کی وجہ سے آبائی علاقوں سے کسی بھی شہر میں جابستے ہیں ، وہ عید تہوار اپنے پیاروں کے ساتھ منانے کیلئے اپنے آبائی علاقوں کارخ ضرور کرتے ہیں ۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہ روزگار یاکاروبار کی وجہ سے اپنے ملک کے کسی بھی شہرمیں جابسیں ، پردیسی نہیں ہوجاتے۔ اپنے ملک کے باشندوں کو” پردیسی” کہنا ظلم ہے ۔سوال یہ ہے کہ اگر ہم اپنے ہم وطنوں کو پردیسی کہہ کرپکاریں گے تو غیر ملکیوں کو کیا کہیں گے؟ زبان وبیان کی اغلاط کےحوالے سے اور بہت سی باتیں ہیں جوکی جاسکتی ہیں ،لیکن مضمون کی طوالت کے خوف نے میرے قلم کومزیدلکھنے سے روک دیا ہے۔ بہرحال ایک نئے عنوان کے تحت اس حوالے سے زبان و بیان کی اغلاط کی نشان دہی کاسلسلہ جاری رہےگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو اپنا رنگ روپ بدل رہی ہے۔
میڈیا اس زندہ زبان کے ساتھ کھلواڑ بند کردے۔
تحریر: سید عارف معین بلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔