اُردو نظم ماسی ماں
(خالہ اماں)
ماں جیسی جو ماسی تھی اب وہ بھی ہم سے دور ہوئی
جو آنکھوں میں رہتی تھی وہ چاند نگر کا نور ہوئی
کہتی تھی آکر مل جاؤ دل میرا گھبراتا ہے
عمر کے بڑھتے ساتھ ہی دل میں موت کا گھر بن جاتا ہے
میرے پوتے مرے نواسے جب آنگن میں کھیلتے ہیں
چپکے چپکے آنکھوں میں اپنا بچپن آجاتا ہے
تیری اور اپنی ماں کی باتیں میں نے تم کو سنانی ہیں
آجاؤ اے بنو رانی دل گھٹتا ہی جاتا ہے
اب ماسی کی ساری باتیں جیسے کہیں کافور ہوئیں
آنسو چننے والی آنکھیں بند ہوئیں مجبور ہوئیں
کوئی بھلا یہ کب سمجھے جو آنکھوں میں بس جاتا ہے
ایک وہی انمول سا لمحہ جیون پر چھا جاتا ہے
دکھ کے ہر موسم کے اندر سکھ کا موسم جھانکتا ہے
لیکن موت کا درد ہے ایسا جس سے ہر کوئی بھاگتا ہے
جیسے سخت بخار کے اندر سارا بدن کملاتا ہے
ماں کے جانے سے ایسے ہی دل سونا ہوجاتا ہے
ماسی کی میٹھی خوشبو سے ساری فضا مسحور ہوئی
قبر کی مٹی چھو کر جس کو خود پر ہی مغرور ہوئی
میرے گھر آنگن کی جنت قبر تجھے آباد کرے
کروٹ کروٹ میرا مولا روح تری کو شاد کرے
تیرے پوتے ترے نواسے جس آنگن میں سوتے ہیں
اس آنگن میں ٹھنڈک تیرے پیار کی ابروباد کرے
ان کے سر سے ہاتھ اٹھا ہے ماں جیسی اک ہستی کا
اب کوئی بھی غم دنیا کا ان کا نہ دل ناشاد کرے
آنے والوں کا جانا تو دنیا کا دستور ہوا
شاہ ہو کوئی چاہےگدا ہو ہر کوئی مجبور ہوا
لیکن ماں کی ہستی دنیا میں اک ایسی ہستی ہے
جس کی محرومی سے چار چفیرے آگ برستی ہے
ماں اک ایسا قریہ ہے اور ماں اک ایسی بستی ہے
جس بستی میں دنیا سستی اور جنت بھی سستی ہے
پالنے والے تیری جنت قائم اور آباد رہے
میری ماسی ماں کی روح بھی اس جنت میں شاد رہے
ثمینہ رحمت منال