(Last Updated On: )
مرزا حبیب الرحمن (خان پور )
کائنات میں ایسی عبقری اور نابغہ روزگارشخصیات صدیوں بعد جنم لیتی ہیںجن کے وجود مسعود سے علم و معرفت،حکمت و دانش، فہم و فراست اور کردار و عمل کے وہ چراغ روشن کئے جن کی روشنی سے انسانیت نے صدیوں تک ضیا پائی، ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیت،صاحب علم و معرفت،مصنف و مترجم،محقق العصر حضرت سید محمد فاروق القاردی شاہ صاحب کی ہے جنہوں نے ریاست بہاول پور کے معروف تاریخی قصبہ گڑھی اختیارخان،تحصیل خان پور میں 25 ستمبر 1947ء کو سلسلہ عالیہ قادریہ سہروردیہ کے معروف مقبول بزرگ، جید عالم دین،تحریک پاکستان کے نامور رہنما،محقق و مصنف،صوفی شاعر اور بخاری سادات گھرانے کی معروف شخصیت حضرت سید سیف الدین شاہ مغفورالقادری (1326، 1390 ھ)کے گھر میں جنم لیا۔
گڑھی اختیار خان کے اس مُعزّز و محترم بخاری سادات خاندان میں علم و عمل،فقرو روحانیت اور ملت اسلامیہ کی قیادت و سیادت کی روایت برس ہابرس سے بطور وراثت خاندان میں چلی آرہی تھی۔اس خاندان کے اکابرین اوچ شریف سے سندھ کے علاقے شکارپور میں بغرض اشاعت و ترویج اسلام کیلئے رہائش پزیرہوئے۔ سید محمد فاروق القادری شاہ صاحب کے پر دادا سید جعفرشاہ صاحب جو سلسلہ سہروردیہ کے معروف شیخ طریقت اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے کوگڑھی اختیارخان کے عباسی رئیس خاندان نے بصد منت کے یہاں سکونت پر رضامندکیا۔ جن کا مزار آج بھی گڑھی اختیارخان میں موجود ہے۔سید محمد فاروق القادری صاحب کے دادا سید سردار احمد شاہ بانی خانقاہ عالیہ قادریہ شاہ آباد شریف گڑھی اختیارخان نے ابتدائی تعلیم اور دورہ حدیث کی تکمیل مقامی طور پر فرماکر مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ جہاں پر آپ نے قطب مدینہ مولانا عبدالباقی لکھنوی ثم المدنی سے’’فصوص الحکم‘‘ پڑھی اور سات سالہ قیام کے دوران کئی عرب شیوخ نے آپ سے درس اکتساب حاصل کیا اور عرب میں شیخ احمد کے نام سے معروف ہوئے۔ برصغیر کے معروف عالم دین حضرت مولانا شاہ احمدرضا خان بریلوی کے ساتھ مدینہ منورہ میں سنگت و قربت رہی جو بعد میںخط وکتابت کی صورت میں قائم رہی۔ گڑھی اختیارخان میں واپسی کے بعد آپ سیدسرداراحمد بطرف مغرب ایک فرلانگ کے فاصلہ پر ایک ویرانے میں عبادات اور مراقبہ میں مشغول رہتے۔جہاں پر اکثر نبی اکرمؐ کی زیارت سے شرف یاب ہوتے۔
چنانچہ اسی ویرانے میں موجود جگہ کو آپ نے اپنے مدفن کیلئے پسند فرمایا جہاں بعد میں آپ کا عالی شان ہشت پہلو روضہ مرجع خلائق عام بناوہیں پر آپ نے ایک بار خواب میں ایک چشمہ دیکھا اور ساتھ نبی اکر م ؐ کی زیارت بھی ہوئی اور اس جگہ کنوئیں کی تعمیر کا حکم بھی ہواجس کی تکمیل میں سید محمد فاروق القادری صاحب نے چشمہ شریف کے نام سے عمارت بنوائی اور وہاں ایک الیکٹرک کولر نصب فرمایا۔ سید سردار احمد کا وصال 1350ھ میں ہوا آپ عربی،فارسی ، اردو،سندھی اور سرائیکی کے شاعربھی تھے۔سید محمد فاروق القادری کے والد فخرالمشائخ سید سیف الدین شاہ مغفورالقادری جید عالم دین،محقق و مصنف،صاحب علم و معرفت، اور صاحب دیوان شاعر بھی تھے آپ نے اسلام کی ترویج و اشاعت اور قیام پاکستان کی منزل کو پانے کیلئے ’’احیائے اسلام‘‘کے نام سے جماعتبنائی، اور’’الجماعتہ‘‘کے نام سے اخبار بھی جاری کیا۔ شاعرمشرق علامہ اقبال کی صحبت و عنائیت کا لطف وکرم بھی حاصل کیا۔ آپ کی تقریباً پندرہ کتب غیرمطبوعہ ہیں۔آپ نے12 اپریل 1970 ء میں وصال فرمایا اور والد کے پہلو میں دفن ہوئے۔
سیّد مغفورالقادری کے وصال کے بعد خانقاہ عالیہ قادریہ شاہ آباد شریف کے دوسرے سجادہ آپ کے فرزند محقق العصر سید محمد فاروق القادری شاہ صاحب بنے اور آج یہ خانقاہ سید محمد فاروق القادری صاحب کی بدولت ایک شاندارروحانی و علمی مرکزمیں تبدیل ہوگئی ہے۔ جہاں پر دنیا بھر سے سکالرز اورمحققین اپنی علمی تشنگی مٹانے کیلئے آتے ہیں۔
سیّدمحمد فاروق القادری شاہ صاحب نے ابتدائی تعلیم مقامی سطح اور خان پور میں حاصل کرنے کے بعد(جامعہ عباسیہ)موجودہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پورسے تقریباً1966ئمیں الشہادتہ عالمیہ کے ساتھ ساتھ عربی ادب میں تخصص اور فاضل فارسی کی اسناد حاصل کیں۔ اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے باالترتیب 1968-70 ء میں اسلامیات،عربی اور اردو میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامیات میں گولڈمیڈل بھی حاصل کیا اور آپ ابتدائی جماعتوں سے لیکر ماسٹرز تک کے تمام درجوں میں اول پوزیشن کے حامل رہے۔آپکے اساتذہ میں مولانا شمس الحق افغانی، مولانا احمد سعید کاظمی، سراج الفقہا سراج احمد مکھن بیلوی، حافظ فیض احمد اویسی ، مفتی عبدالواحد ،مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا عبدالرشید نعمانی، ڈاکٹرحافظ احمدیار،پروفیسر خالدعلی، ڈاکٹرپیر محمد حسن اور علامہ علاالدین صدیقی سابقہ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی جیسی نابغہ روزگار شخصیات شامل ہیں۔
تعلیم مکمل ہونے کے بعد آپ نے 1971 ء میں کچھ عرصہ جناح میموریل کالج لاہور میں بطور لیکچرار درس و تدریس کا پیشہ اختیارکیا مگر والد صاحب کے وصال اور خانقاہی امور کی انجام دہی کیلئے شاہ آباد شریف واپس تشریف لے آئے اور طالبان علم کیلئے’’دارالعلم والمعرفتہ‘‘کے نام سے ادارہ قائم کیا جسکی خوبصورت عمارت میں رہائش کے علاوہ ایک بہت بڑی لائبریری بھی موجود ہے آپ کی معروف علمی و ادبی شخصیات ، شورش کاشمیری،احسان دانش،مولانامودودی،غلام احمد پرویز،حکیم موسی امرتسری،سید احمد سعید کاظمی، مولاناعبدالستارنیازی ، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا کوثرنیازی سے قربت و خط وکتابت رہی۔ آپ کی بیس کے قریب کتب اور بیسیوں مقالہ جات اور مضامین شائع ہوئے۔فلسفہ وحدت الوجود پر ابن العربی کے چودہ جلدوں پر مشتمل کتاب فتوحات مکیہ کا سب سے پہلی بار اردو میں پانچ جلدو ںکا ترجمہ آپ نے کیا، اور مکمل ترجمہ کرنے میں مشغول ہیں۔ آپکی بعض کتب انڈیا سے بھی طبع ہوئیں۔ اس کے علاوہ آپ کا مقالہ اسلام کا معاشی نظام عالم اسلام کی عظیم درسگاہ جامعہ مصر الازھرمیں اردو سے عربی میں ترجمہ کرکے نصاب کا حصہ بنایاگیا آپ کی چند تصانیف و تراجم در ج زیل ہیں۔
انفاس العارفین، ترجمہ بمع مقدمہ موضوع سوانح و تصوف سن طباعت۔1974ئلاہور
ترجمہ و تحقیق،الطاف القدس،موضوع حقیقت انسان مبطوعہ 1975ء لاہور
ترجمہ و تحقیقی مقدمہ’’فتوح الغیب‘‘ از شیخ عبدالقادر جیلانی رح موضوع تصوف مطبوعہ 1974ء
فاضل بریلوی اور امور بدعت موضوع عقائد پانچ ایڈیشن پاکستان سے جبکہ انڈیا سے بھی شائع ہوئی
ترجمہ، امام عبداللہ یافعی کی کتاب”خلاصتہ المفاخر فی مناقب شیخ عبدالقادر ،مکاتیب دیوبند اور بریلی کے خصوصی مسائل کا جائزہ۔مقالہ برائے ایم اے اسلامیات جامعہ پنجاب لاہور
تذکرہ سید محمد حسن شاہ جیلانی۔۔موضوع تاریخ و سوانح
اُردو ترجمہ و پیش لفظ جامع العلوم۔۔از امام فخرالدین رازی
سلیس اردو ترجمہ،کشف المحبوب سید علی ہجویریبمطابق نسخہ ثمرقندی
اُردو ترجمہ و تحقیق متن’’تحفتہ مرسلہ‘‘ شاہ ولی اللہ کی تصوف پر مبنی تین کتابیں۔
سطعات،درثمین، اور مکتوبات مدنی کا اردو ترجمہ و تحقیقی مقدمہ مجلد رسائل شاہ ولی اللہ
تصوف کی اعلی کتاب کتاب اللمع از شیخ ابونصرسراج،تحقیقی مقدمہ
احوال و آثار شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ
اصل مسئلہ معاشی ہے
اسلام کا تصور ملکیت
تحریک پاکستان میں مولانا عبدالحامد بدایونی کے کردار کی ایک جھلک۔
ہدیہ مرسلہ۔۔۔ترجمہ و تحقیقی پیش لفظ
علامہ اقبال اور ان کے صاحبزادے آفتاب اقبال از بیگم رشیدہ آفتاب۔۔۔پیش لفظ۔
دیگر مقدمات،پیش لفظ اور مضامین و مقالاجات کا مختصرمضمون میں ذکر ممکن نہیں۔
آپ کی شادی شیخ چہارم خانقاہ عالیہ قادریہ بھرچونڈی شریف پیر عبدالرحیم شہید کے دختر سے ہوئی آپ کے تین صاحبزادے سید علی رضا شاہ،سید صبغت اللہسہر وردی اور سید جعفر شاہ آپ کے فکر و فقر کے وارث ہے۔
راقم الحروف خاکسار مرزا حبیب کا سیّد محمد فاروق القادری شاہ صاحب مدظلہ سے پندرہ سال سے زائد عرصہ کا عقیدت و محبت کا رشتہ ہے قبلہ شاہ صاحب کی قربت و رفاقت سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا آپکی سرپرستی،حوصلہ افزائی اور اصلاح و مشاورت نہ ہوتی تو میں شاید اتنا کچھ لکھنے کے قابل نہ ہوتا دعا ہے کہ اللہ تعالی میرے مربی و محسن سید محمد فاروق القادری ؒ کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے اور اس خانقاہ عالیہ قادریہ سہروردیہ کا فیض تاقیامت جاری رہے ۔آمین
٭٭٭