“جاگے ہیں خواب میں”
اختر رضا سلیمی کا ناول ہے۔
اس ناول کا لوکیل ٹیکسلا، ایبٹ آباد ، بالا کوٹ، مظفر آباد اور چند دیگر پہاڑی علاقوں پہ محیط ہے۔زمانی اعتبار سے ناول 2005ء کے زلزلے کو مرکز بناتا ہے۔
ناول کا مرکزی کردار زمان جو فزکس کا طالب علم ہے اور فطرت پسندی اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔
2005 کے زلزلے میں زخمی ہوتا ہے اور سکتہ میں چلا جاتا ہے۔سکتہ میں زمان کا گزارا گیا وقت ناول نگار کے مطالعہ اور باریک بینی سے کیے گئے مشاہدے کا بیان ہے اور بہت تگڑا بیان ہے۔
علاج کے بعد زمان سکتہ سے نکل آتا ہے مگر اس کا لاشعور اسے ماضی میں اشوکا کے زمانے میں لا چکا ہے۔
یہاں سے ناول فرائیڈ کے بیان کردہ لاشعور اور خوابوں کی تعبیر کے نظریے کو ساتھ لے کر چلنا شروع ہوتا ہے جس میں کہیں ژونگ کے خیالات کا عکس بھی نظر آتا ہے۔مثلا زمان اسی زمانے کی زبان بولنے، پڑھنے لگتا ہے جو اشوکا کے زمانے کی زبان ہے، یعنی یہاں لاشعور کے حاوی آ جانے کی بدولت زمان نے ماضی میں بہت دور سفر کیا ہے۔
یاد داشت کھو چکا ہے۔
بعد ازاں یاداشت واپس آجاتی ہے اور خوابوں کا عجیب سلسلہ یوں شروع ہوتا ہے کہ وہ جو خواب بھی دیکھتا ہے وہ خواب حقیقت میں ظہور پذیر ہوجاتا ہے۔
یہاں زمان وقت (time ) میں خوابوں کے ذریعے مستقبل کی طرف سفر کرتا ہے۔
یہاں ایک خوبی یہ پیدا ہو گئی ہے کہ مرکزی کردار کا نام بھی با معنی نظر آنے لگتا ہے۔اور یہاں تک ناول ہمیں انسانی وجود کی اس پیچیدہ صورت سے آشنا کراتا ہے کہ کیسے ماضی و مستقبل ایک ہی وجود میں ،داخلی طور پر چھپے ہوئے ہیں اور وہ ظاہر بھی ہو سکتے ہیں۔
ناول کا نام “جاگے ہیں خواب میں” مرکزی کردار کے سکتہ میں گزارے گئے وقت اور صورتحال کو پوری طرح پیش کرتا ہے کہ جب زمان سکتے میں تھا تو کیا صورت_واقعہ تھی اور جب سکتے سے نکلتا ہے تو کیا معاملات پیش آتے ہیں۔
المختصر ناول ہم پر انسانی وجود کے ماضی و فردا میں سفر کرنے کے امکان کو فلسفہ و نفسیات اور شخصی میلانات کے توسط سے آشکار کرتا ہے۔
آفتاب نواب
آزاد کشمیر ميں عوامی تحريک کی کہانی
ڈڈيال نقطہ آغاز اور تاريخی پس منطر۔ آج کا ڈڈيال میرپور شہر سے تقريبا 85km کی دوری پر اسکی ايک...