(Last Updated On: )
جھنگ کے دبستانِ ادب سے وابستہ ادیب پروفیسر علی نقی خان نے بیس کتب لکھ کر بلاشبہ ستاروں پر کمنڈ ڈالی ہے۔ ان کی نئی تصنیف ’’ گردابِ وجود ‘‘ کے انتساب میں لکھا ہے:
’’وقت کی خون آشام لہروں کے سامنے قائم با ہمت صنفِ ناز کے نام ‘‘
پروفیسر علی نقی خان نے گزشتہ چالیس برسوں میں اردو ادب میں تانیثیت کے موضوع پرجن فکر پروراور خیال افروزمباحث کا آغاز کیا ہے یہ کتاب اسی سلسلے کی ا یک کڑی ہے۔ اس عبقری دانش ور کی فقید المثال کامرانیوں کو دیکھ کر مجھے اختر الایمان کا یہ شعریاد آ گیا:
کون ستارے چُھو سکتاہے راہ میں سانس اُکھڑ جاتی ہے
پروفیسر علی نقی خان نے اپنی اس کتاب میں انتہائی نا مساعد حالات سے دوچار خواتین کو ولولہ ٔ تازہ عطا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے نہایت سرعت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس کے مہیب گراداب میں خواتین سمیت مظلوم اور قسمت سے محروم انسان خس وخاشاک کے مانند بہتے چلے جارہے ہیں۔اس آشوب میں کوئی بھی بے بس خواتین کا پرسان حال نہیں ۔بیاباں میں کھلنے اور بکھرنے والے گل ہا ئے رنگ رنگ کا قدر شناس کو ن ہوگا؟ہوس نے جہاں نوع انسان کو انتشار اور پراگندگی کی بھینٹ چڑھایا وہاںاس کے تباہ کن اثرات سے نئی نسل بے حسی کا شکار ہوگئی اور روح بالکل مردہ ہوچکی ہے ۔ خواتین کے اسلوب میںمتعدد آفاقی صداقتوں کا پرتو ملتا ہے جن میں زندگی کے نئے مفاہیم کی جستجو قابل ذکر ہے۔ ؎
جوبیتی ہے وہ دہرانے میں کچھ وقت لگے گا اس غم کو اک یاد بنانے میں کچھ وقت لگے گا
یہ مت سمجھو دنیا والوتھک کر بیٹھ گئے ہم پچھلی چوٹو ں کو سہلانے میں کچھ وقت لگے گا (شبنم شکیل)
تانیثیت پر مبنی تنقیدی انداز فکر نے 1990کے بعد اپنی اہمیت ، افادیت اور مقبولیت کا لوہا منوایا ہے آج خواتین نے ادب اور فنون لطیفہ میں اپنی صلاحیتوں کی دھاک بٹھا دی ہے ۔ فطرت اورماحول سے خواتین کی یگانگت اور گہرا ارتباط ان کی تحریرونکا امتیازی وصف ہے ۔ اسی کے معجز نما اثر سے جہدللبقاکے موجودہ زمانے میںخواتین کی تحریریںخود اپنا اثبات ہیں ۔ نفسیاتی حوالے سے عورت ، جنس اور جذبات کو اہم حیثیت حاصل ہوچکی ہے ۔ ان کی تحریریں خلوص اور درد مندی کی مظہر ہیں ۔ خواتین کے ریشے ریشے میں بے لوث محبت کے جذبات جس طرح سرایت کر چکے ہیں وہ ان کی تحریروں میںصاف سنائی دیتے ہیں ۔تانیثیت پر مبنی تنقید میں جہاں حیایتاتی تناظر میں بات کی جاتی ہے وہاں خدوخال کی دل کشی پر بھی توجہ مرکوز رہتی ہے اور بعض ناقدین حسن صورت کو تخیل کا منبع قرار دیتے ہیں ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایثار ، وفا، محبت اور ہجر و فراق کے موضوعات پر خواتین کا انداز دل کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے یہ بات مردوں کی تحریروں میںعنقا ہے ۔ پروفیسر علی نقی خان نے ا س امر کی صراحت کر دی ہے کہ اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ تانیثیت ایک واضح صداقت کا نام ہے۔ اسے ایک خاص طبقے یا صنف کی تخلیقات کا مخزن قرار دینا درست نہ ہوگا ۔نہ ہی اسے حیاتیاتی عوامل کی بنا پر الگ حیثیت ملنی چاہیے ۔ بلکہ یہ ایک خاص بود باش رکھنے والی اور منفرد طرز معاشرت کی عکاسی کرنے والا ادب ہے ۔ پروفیسر علی نقی خان نے مسائل کے گرداب میں اُلجھی خواتین کی زندگی پر روشنی ڈالی ہے ۔اُن کا خیال ہے کہ خواتین کو ہر دور میں مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑاہے ۔اس کے باوجود یہ خواتین کی قوت برداشت اور استقامت ک ثبوت ہے کہجہاں کی ہر ادا جہان دیگر کی مظہر ہے ۔ فہمیدہ ریا ض نے اپنی آزاد نظم ’’ زادراہ ‘‘ میں سوال کیا ہے وہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے ؎
طویل رات نے آنکھوں کو کردیا بے نور
کبھی جو عکس سحر تھا ، سراب نکلا ہے
سمجھتے آئے تھے جس کو نشان منزل کا
فریب خوردہ نگاہوں کا خواب نکلا ہے
تھکن سے چور ہیں ، آگے بڑھیں کہ لوٹ آئیں
باشعو ر خواتین نے ہمیشہ حریت فکر کا علم بلند رکھا ہے اور حریت ضمیر کے ساتھ زندگی بسر کرنا اپناشعار بنائے رکھا۔ادب میں سب سے زیادہ نقصان دہ اور حوصلہ شکن مرحلہ وہ ہے جب خواتین کے بارے میں افراد کی مثبت سوچ معطل اور تعمیری ارادے تحلیل ہوجائیں۔خواتین ادیبوں کی شعری اور ادبی تخلیقات کی پذیرائی میں بُخل سے کام لیا جائے اور انتہا پسند نقاد محض اپنے ذاتی نوعیت کے تعصبات کی بناپر خواتین کواسی سلوک کا مستحق سمجھیں جواورنگ زیب نے زیب النسا مخفی اور ہارون الرشید نے عباسہ بنت مہدی کے سا تھ روا رکھا تھا۔
پروفیسر علی نقی خان کا خیال ہے کہ نسائی لب و لہجے کو اپناتے ہوئے نسل نو کو تعلیم وتربیت کے ذریعے تہذیبی وثقافتی میراث کی منتقلی تانیثیت کامعجزنما اثر ہے۔اس سلسلے میں خواتین نے بہت جگر کاوی اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کی ہے ۔ انھیں اس بات کا شدت سے احساس رہا ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں تہذیبی وثقافتی اقدار وا روایات کی نمووقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ اس میں کسی کوتاہی کا ارتکاب ایک مہلک غلطی ہے جو انسان کو شقاوت آمیز ناانصافیوں اور درندگی کی بھینٹ چڑھا سکتی ہے ۔ پروفیسر علی نقی خان نے پس نو آبادیاتی دور میں خواتین کے مسائل پر ہمیشہ کُھل کر لکھاہے۔انھیں اس بات کا احساس ہے کہ تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں فرانسیسی ادیب ،مفکر ،ناول نگار ،ڈرامہ نگار اور فلسفی وکٹر ہیوگو (Victor Hugo: 1802-1885 )جیسی شخصیات کم کم دکھائی دیتی ہیں جو جبر کا ہر انداز مسترد کر کے حریت فکر و عمل کا علم بلند رکھیں اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو یقینی بنانے کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کریں ۔پروفیسر علی نقی خان کی دلی تمنا ہے کہ خواتین انسانی حقوق کی بحالی کے لیے میدانِ عمل میں آ جائیں اور قوم کے روشن مستقبل کو یقینی بنانے میںاپنا کردار ادا کریں ۔
پروفیسر علی نقی خان نے واضح کیا ہے کہ خواتین نے ہر دور میں تاریخی آگہی(Historical Awareness) اور عصری آگہی پر توجہ مرکوز رکھی ہے ۔ ان ہاں معروضیت (Objectivity) کا عنصر نمایا ں رہاہے۔ پس نو آبادیاتی دور میںمابعد جدیدیت کی ایک پیچیدہ (Complex) صورت حال دکھائی دیتی ہے مگر خواتین نے اس میں بھی حقائق پر مبنی موقف اپنایا ۔خواتین نے اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کردیا کہ ان اقدار و روایات کو پروان چڑھانا چاہیے جن کے اعجاز سے معاشرتی زندگی میں خیر وفلاح کے امکانات کو یقینی بنایا جاسکے ۔جبر کی ہر صورت کو لائق استرداد ٹھہرا تے ہوئے خواتین کو یہی کوشش ہونی چاہیے کہ اخلاقیا ت کے ارفع معیار تک رسائی پر توجہمرکوز رکھی جائے ۔ انفرادی ااور اجتماعی لاشعور کی جو کیفیت خواتین کی تخلیقات میں جلوہ گر ہے اس کا تعلق دروں بینی سے ہے۔