گزشتہ نشست میں ہم چکلہ انٹلکچوئلزم پر بات کررہے تھے، یہ بھی چکلہ انٹلکچوئلزم ہی کا ایک بدبودار پہلو ہے کہ آج یومِ مزدور پر الیکٹرانک میڈیا پر ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی وہی گھسے پٹے جملے پیش کیے جارہے ہیں، جن کی عملی زندگی میں کسی طرح کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی ہے۔
اگر الیکٹرانکس میڈیا پر مزدوروں کے حقوق پر وعظ و تلقین کرنے والے بھڑووں کو زمینی حقائق سے کوئی سروکار نہیں، تو سوشل میڈیا پر بھی ایسے ہی دانشوروں کی بھرمار ہے، جن کا بس یہی کام رہ گیا ہے کہ چند رٹے رٹائے جملے ٹھونک دیے جائیں، کچھ تو ڈھٹائی کے ساتھ کاپی پیسٹ دانشوری کے درجے پر فائز ہیں اور بعض نقل شدہ جملوں میں چند الفاظ ادھر اُدھر کرکے علم و فکر کے کاندھوں پر سوار ہونے پوری کوشش کرتے ہیں، آج بھی آپ دیکھ لیجیے اکثریت کا رجحان کیا ہے۔ ‘‘صبح بارہ بجے’’ بیدار ہوئے، گھر کے ملازموں کو کسی غلطی پر یا بلاوجہ بھی جھاڑ پلائی، اگر متوسط طبقے سے تعلق ہے اور گھریلو ملازم کی استطاعت نہیں رکھتے تو گلی گلی آواز لگا کر سبزی فروٹ فروخت کرنے والے سے ایک ایک روپے کے لیے جھگڑا بھی معمول کی بات ہے، گھروں کا کچرہ لے جانے والے سوئپرز کا ماہانہ معاوضہ جو زیادہ سے زیادہ 100 روپے ہوتا ہے، دینے میں ٹال مٹول سے کام لینا بھی عام سی بات ہے۔ صرف سیٹھ ہی غریبوں کا استحصال نہیں کرتے غریب بھی ایک دوسرے کا ایسا استحصال کررہے ہیں، جس کی جانب کسی کا دھیان ہی نہیں جاتا۔ ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر متوسط طبقے کے لوگوں کی اکثریت ہے، جن میں سے بعض کا خیال ہے کہ قوم کی فکری رہنمائی کا فریضہ انہیں شاید الوہی طور پر سونپا گیا ہے۔ آج بھی ایسے فکری رہنماؤں میں سے اکثریت نے حسب معمول کسی نہایت ہی خستہ حال مزدور کی کی بے بسی کو اجاگر کرتی ہوئی تصویر چسپاں کی، چند درد بھرے جملے کہیں سے تانک جھانک کرکے نقل کیے یا خود ہی ٹھوک ٹھاک کر فٹ کیے اور سینکڑوں لائکس کے تمغے سینے پر سجالیے۔ ان فکری رہنماؤں میں خواتین کی قدرو منزلت مردوں سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ صرف اتنا تحریر کردیں کہ ‘‘آج میں اُداس ہوں’’ …. تو سینکڑوں لائکس اور رقت قلبی سے بھرپور ہزاروں ہمدردانہ جملوں کی قطار کھڑی ہوجاتی ہے۔ ہم پہلے بھی واضح کرچکے ہیں کہ یہ رقت قلبی نہیں بلکہ رقت کلبی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔
اس صورتحال نے بہت سے مرد دانشوروں میں شدید احساسِ محرومی پیدا کردیا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بیشتر نے خواتین کے ناموں سے فیس بک آئی ڈیز بنا رکھی ہیں۔ ہم بارہا ایسے دانشمندوں کو مشورہ دیتے رہے ہیں اور آج بھی دے رہے ہیں کہ ہارمونز کے چند انجکشنز لگوانے اور معمولی سی قطع و برید کروانے کے بعد اس محرومی کا ہمیشہ کے لیے ازالہ کیا جاسکتا ہے۔
خستہ حال مزدوروں کی تصاویر پوسٹ کرنے والے دانشوروں سے سوال ہے کہ کیا یہی لوگ مزدور ہیں ؟ جو گندے کپڑے پہنے ہوں، جن کے جسم سے بدبو کے بھبھکے اُٹھتے ہوں، وہ تین ٹائم چرس پیتے ہوں اور چار وقت کی نماز پڑھتے ہوں؟
وہی مزدور ہیں؟
کل رات بارہ بجے کے بعد سے پوسٹ کی جانے والی تصاویر سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے! اس طبقے کے لوگ جن بستیوں میں مقیم ہوتے ہیں، سب جانتے ہیں کہ وہاں نہ تو کوئی بجلی کا بل دیتا ہے، نہ ہی گیس کا۔ ان کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ جو مل جائے کھالیتے ہیں، جو مل جائے پہن لیتے ہیں، زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں اور دس بارہ سال سے ہی انہیں پیسے کمانے پر لگادیتے ہیں، پیسے خرچ کرنا نہیں جانتے، رقم سینت سینت کر رکھتے ہیں، اگر تھوڑی بہت عقل ہو تو پیسے بچا بچا کر جلد ہی کئی رکشے خرید لیتے ہیں، بعض تو ٹرک یا بس کے مالک بھی بن جاتے ہیں، ورنہ بیشتر لوگ ایسے ہیں جو رقم خرچ کرنا نہیں جانتے۔ آپ کا بھی مشاہدہ ہوگا، ہم نے بھی دیکھا ہے کہ اس طبقے کی بستیوں میں جب کبھی حادثاتی طور پر آگ لگ جاتی ہے تو ان میں سے زیادہ تر لوگ اس بات پر دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہوتے ہیں کہ ان کی رقم بھی جل گئی، جو انہوں نے جھونپڑی کے کسی بانس یا کسی کھپچی میں چھپا کر رکھی ہوئی تھی۔ انہیں اس آتشزنی میں اپنے گھر کے افراد کے زخمی ہونے بلکہ موت کا بھی غم نہیں ہوتا۔ کچھ کیس میں ایک فرد کی رقم کئی لاکھ تک بتائی گئی تھی۔ ان کی اکثریت ایسی ہے جو بچوں کو اسکول میں داخل نہیں کراتے، اگر ان کے بچے پڑھتے بھی ہیں توسرکاری اسکولوں میں جہاں نہ تو فیس ہوتی ہے، نہ پڑھائی، چنانچہ بچےاگر محنتی ہوں تو پیسہ کماتے ہیں ور نہ کام چور ہونے کی صورت میں مذہبی غنڈوں کی قائم کردہ دہشت گردی کی نرسریوں میں تربیت پاتے ہیں۔ جرائم بھی انہی بستیوں میں پروان چڑھتے ہیں، اس طبقے کے بہت سے لوگ باآسانی چوری یہاں تک کہ بھیک مانگنے پر بھی آمادہ ہوجاتے ہیں۔
جبکہ ایسے افراد جودو دو جگہ ملازمت کرکے بمشکل سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں، ان چکلہ دانشوروں کی نظر میں ان کے کوئی حقوق نہیں، کیوں کہ ایسے لوگ صاف ستھرے رہتے ہیں، نئے کپڑے خریدنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں تو بھی پرانے کپڑے خرید کر خوش پوش دکھائی دیتے ہیں، ان کی آمدنی کا ایک ایک پیسہ خرچ ہوجاتا ہے، اس لیے کہ زیادہ تر بچوں کو نجی اسکولوں میں تعلیم دلوا رہے ہیں، ان کے بچے بڑے ہوجائیں تو وہ بھی ٹیوشن پڑھا کر یا جزوقتی ملازمت کرکے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ اگر اس طبقے کے بہت سے گھرانوں میں کاروباری رجحان ہو یا پھر ہنرمندی کی جانب رغبت ہو تو بھی اکثر لوگ اپنی سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھتے ہیں۔
ان کی اکثریت تمام یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی کرتی ہے، پھر بھی اس طبقے کا بوجھ دن رات بڑھتا جارہا ہے، تعلیم، پانی، بجلی، ٹرانسپورٹ غرضیکہ تمام بنیادی ضروریاتِ زندگی کا بوجھ انہیں تن تنہا اُٹھانا پڑتا ہے، ریاست ان کا بوجھ کم کرنے کے بجائے ان پر مزید بوجھ لادتی جارہی ہے۔ بس اس طبقے کے لوگوں کی خرابی یہ ہے کہ یہ لوگ صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں، اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
لیکن اندر سے یہ لوگ کس قدر بے بس اور پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں، اس کا نہ تو ان کے حلیے سے اس کا اظہار ہوتا ہے نہ ہی چہرے سے۔ جیسے کہ ایک بیوہ خاتون کو میں جانتا ہوں، جو اپنی بیٹیوں کو دن رات محنت کرکے تعلیم دلا رہی تھیں، بجلی کے محکمے نے انہیں ایک مہینے کا لگ بھگ ایک لاکھ روپے کا بل بھیج دیا تو ہارٹ اٹیک سے ان کا انتقال ہوگیا۔ خود ہمارے گھر کا بل بھی ہمارے سر پر بم کی مانند گرا ہے، بے روزگاری کی حالت میں یہ کسی آفت ناگہانی سے کم نہیں۔
جن مزدوروں کی تصاویر لگا کر لائکس جمع کیے جارہے ہیں، ان کی بستیوں میں بجلی گیس کے بلز نہیں آتے، سب چوری کا ہوتا ہے یا پھر بجلی کے محکمے کے کسی دلال کو دو ڈھائی سو روپے مہینہ دے دیے جاتے ہیں۔ ان بستیوں میں جعلی مصنوعات تیار کرنے والی چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں قائم ہیں، یہاں جعلی ادویات بھی تیار کی جاتی ہیں، بلکہ ایک مصدقہ اطلاع کے مطابق بڑی بڑی کمپنیاں خود ان فیکٹریوں میں اپنی دو نمبر ادویات تیار کروا رہی ہیں۔
https://www.facebook.com/pageacidity/posts/976128655816306
“