میری بات کا اعتبار کریں ۔ میں پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ بس ایک ہی فرشتہ ہے جو کھاتہ پڑھتا ہے ۔ ان گنت فرشتے بیک وقت ، سوچ کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے اس کتاب میں لکھتے ہوئے اپنا حصہ ڈالتے ہیں ۔ لیکن ان میں ایک ہی ایسا ہے جو اسے پڑھتا ہے ۔ وہ اسے تب بھی پڑھتا رہتا ہے جب اس کے پنّے لکھے جا رہے ہوتے ہیں ۔
مجھے یہ دعویٰ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ میں جانتا ہوں کہ یہ کیونکر ممکن ہے ؛ فرشتے ، بہرحال ، ہر فعل ، اس فعل کے پیچھے موجود نیت اور اس فعل کے بعد پیدا ہونے والے نتائج کو لکھتے ہیں اور جب وہ یہ لکھ رہے ہوتے ہیں تو کھاتے والا فرشتہ اسے پڑھتا اور حساب لگاتا رہتا ہے ۔
کھاتے والے فرشتے کا ماتھا چوڑا ہے اور اس پر کوئی شکن نہیں ۔ وہ جمع تفریق کرتا ہے ، تخمینہ اور حساب لگاتا ہے ۔ کچھ حساب کتاب بہت سادہ ہوتے ہیں ۔ آپ ایک بڑی شاہراہ پر رکتے ہیں اور ایک اجنبی کی مدد کرتے ہیں جس کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا ہے ۔ یہ تو بس جمع کا معاملہ ہے ۔ کچھ البتہ ذرا دقیق ہوتے ہیں ۔ آپ کو ایک چُرایا ہوا بٹوہ ملتا ہے ، آپ اسے واپس کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ یہ جمع ہے ۔ ۔ ۔ لیکن اس سے پہلے آپ اس میں موجود نقدی سے مستفید ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ یہ تفریق ہے ۔ لیکن یہ پہلے درجے کے افعال تو فقط شروعات ہیں ۔ آپ کی مدد کے باعث وہ اجنبی ، جس کا ٹائر آپ نے بدلا ہوتا ہے ، وقت پر گھر پہنچ جاتا ہے اور اپنی بیوی کو ایک اور مرد کے ساتھ بستر میں پاتا ہے ۔ وہ ان دونوں کو گولی مار کر بندوق کا رخ اپنی طرف موڑ لیتا ہے ۔ یہ اس کے اکاﺅنٹ میں کٹوتی ہے ، لیکن اس کا کچھ حصہ تو آپ کے کھاتے میں بھی جائے گا ۔
یہ قطعاً مناسب نہیں ہے ۔ آپ کی نیت یہ تو نہ تھی کہ یہ نتیجہ نکلے ۔ لیکن مجھے یہ بھی وثوق سے پتہ ہے کہ نیت کے ساتھ ساتھ نتائج بھی اہم ہوتے ہیں ۔ اور صرف نتائج ہی نہیں ان نتائج سے پیدا ہونے والے حالات اور اس حالات سے پیدا ہونے والے نتائج بھی اہم ہوتے ہیں ۔
یقیناً ایسا ہے کہ عام طور پر یہ لین دین معمولی ہوتا ہے ۔ آپ سٹور کے کلرک سے بات کرتے ہو جو کسی مشکل میں ہے ۔ آپ کی شفقت اس کے سارے دن کی سمت ہی بدل دیتی ہے اور وہ آپ کی شفقت کو دوسروں کو منتقل کرنے لگتا ہے ؛ شفقت ضرب کھاتی کئی گنا ہو جاتی ہے ۔ یا آپ کا آمنا سامنا بس میں کسی خاتون سے ہوتا ہے اور آپ اسے بتاتے ہو کہ اس نے بہت زیادہ خوشبو لگا رکھی ہے ، یوں سفر کے دورا ن آپ کی اونچی آواز سے ہر مسافر کا رویہ بدل جاتا ہے ، چاہے یہ تھوڑا ہی کیوں نہ بدلے ۔ اب ان مسافروں میں سے ہر ایک اپنے افعال کے ذریعے آپ کی بات کی تائید میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرنے لگتے ہیں ۔
کھاتے والا فرشتہ حساب کتاب میں اتنا مصروف ہے کہ کبھی بولتا ہی نہیں ۔
میں یہ بھی بہت وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جنت اور دوزخ خالی ہیں ۔ مرے ہوﺅں میں سے ایک کو بھی ان میں سے کسی ایک میں نہیں بھیجا گیا ، سب انتظار میں ہیں ۔ کھاتے والا فرشتہ ، جس کے دماغ میں ہر روح کے اعمال کا ہندسہ ہر وقت بدلتا رہتا ہے ، بھی نہیں بتا سکتا کہ ہر ایک کا حساب کتاب کب انجام کو پہنچے گا ۔ جب تک دنیا قائم ہے ، ان مردوں اور عورتوں کے اعشارئیے بھی متحرک اور بدلتے رہیں گے ، جنہیں مرے ہوئے لاکھوں سال بیت چکے ہیں ۔
میں آپ کو سچ بتا رہا ہوں ، ۔ ۔ ۔ اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ سچ نہیں ، تب بھی اچھی نیت سے مجھے کم از کم یہ کریڈٹ تو دیں کہ میری نیت اچھی ہے ۔ #
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بروس ہالینڈ روجرز ( Bruce Holland Rogers) امریکی کہانی کار ہے ۔ وہ ’ Hanovi Braddock ‘ اور ’ Victor Appleton ‘ کے قلمی و سنڈیکیٹ ناموں سے بھی لکھتا ہے ۔ اس کی تحریروں کے آٹھ مجموعے ، نان فکشن کی ایک کتاب اور دو ناول ’ Mind Games ‘ اور ’ Ashes of the Sun ‘ شائع ہو چکے ہیں ۔ اس کی ایک کہانی ’ Lifeboat on a Burning Sea ‘ پر ’ The Other Side ‘ کے نام سے ایک مختصر فلم بھی بن چکی ہے ۔ ویسے تو اس کا گھر ’ ایوجین ‘ ، اوریگون میں ہے لیکن وہ لندن ، برطانیہ میں بھی بہت عرصہ رہا ہے ۔ اس کی کہانیاں سائنس فکشن ، فینٹسی ، پُراسرار ، تجرباتی اور اِررئیل فکشن میں شمار ہوتی ہیں جبکہ کچھ ایسی بھی ہیں جن کو کسی صنف میں قید نہیں کیا جا سکتا ۔ کہانیاں لکھنے کے ساتھ ساتھ وہ مختلف یونیورسٹیوں میں’ تخلیقی تحریر‘ ( Creative Writing ) کا استاد بھی ہے ۔