فرانسیسی قیاسی افسانچہ
( Speculative Flash Fiction )
اصل میں کوئی نہیں جانتا (2007 … No One Really Knows)
نیونیل ڈیووسٹ ( Lionel Davoust)
تحریر مُکرر ؛ قیصر نذیر خاورؔ
اس کے بارے میں کہیں کچھ نہیں لکھا ہوا کہ جب ایک کٹھ پتلا ایک چھوٹے لڑکے میں تبدیل ہوتا ہے تو کیا ہوتا ہے ۔ ہم یا تو قیاس آرائی کرتے ہیں یا پھر تصور کر تے ہیں ؛ شاید ہم کہانی میں اپنی ہی تصویر بنا تے یا اپنے ہی سانچے اس میں سموتے ہیں ۔ ہم فرض کر تے ہیں ۔ ۔ ۔ اس کے بارے میں ایک خواب ۔ ۔ ۔ بچہ سکول گیا؛ ہم اسے سکول کے لئے پہلے دن گھر سے روانہ ہوتا دیکھتے ہیں بستہ اس کی پشت پر ہے اور وہ تکلیف میں ہونے کے ساتھ ساتھ پُر جوش بھی ہے ۔ وہ کچھ دوست بناتا ہے یا پھر وہ اسے برداشت نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کبھی وہ ایک کٹھ پتلا تھا ؛ اس کا استاد اسے اپناتے ہوئے اپنی چھایا میں لیتا ہے ؛ وہ باورچی خانے کی میز پر بیٹھ کر اپنا ’ گھر کا کام ‘ محنت سے کرتا ہے اور اس کا باپ جو ایک دستکار ہے اسے ستائشی نظروں سے دیکھتا ہے ۔ دیکھیں کہ سمے کس تیزی سے بیتتا ہے ؛ وہ ابتدائی سکول سے مڈل سکول جاتا ہے؛ اسے باسکٹ بال کا پتہ چلتا ہے جسے کھیلنے کے لئے اسے جدوجہد کرنا پڑتی ہے کیونکہ اس کے جوڑوں کا پرانا اَکڑاﺅ اس کے آڑے ہے؛ وہ بلوغت والے سارے عمومی مقابلوں میں حصہ لیتا ہے وہ سب ان نوجوان بھیڑئیوں کی طرح ہیں جو بے پرواہی کے ساتھ سائے میں دوڑے جا رہے ہوں ۔ اُسے ریاضی میں محنت کرنا پڑتی ہے ۔ اسے اب ریکارڈر بھی استعمال کرنا پڑتا ہے تاکہ یاد رکھ سکے کہ اس نے کونسی اور صیحح والی نوٹ بُکس ساتھ رکھنی ہیں ۔ تب سے وہ اب اوپر اپنے کمرے میں ’ گھر کا کام‘ کرتا ہے ۔ اب ’ راک سٹار ‘ اسے کام کرتے ہوئے گھورتے رہتے ہیں ۔ اسے موسیقار کی نسبت موسیقی کے آلات اور سٹیج پر لگی لکڑی سے عجیب سی رشتہ داری محسوس ہوتی ہے ۔
لیکن اس کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ خود ’ اپنے آپ‘ کا جائزہ لے سکے کیونکہ ہائی سکول کا وقت ہو چکا ہے ۔ لیکن جب کہانی ختم ہوتی ہے ، جب اچھی پری اسے پہلی خواہش کرنے کی اجازت دیتی ہے ، کوئی یہ تصور بھی نہیں کرتا کہ ڈوری اور لکڑی بے ڈھبے پن سے ایک لڑکی کو فلم دیکھنے کی دعوت دے گی اور اسے ’ انکار‘ برداشت کرنا پڑے گا ، اسی طرح دوسری اور تیسری خواہش پر بھی ۔ بلوغت میں یہ اکڑاﺅ کچھ یوں پروان چڑھتا ہے ؛ وہ بیوقوفوں کی طرف سے مذاق اڑائے جانے کا تو جم کر مقابلہ کرتا ہے لیکن چلتا ایسے آدمی کی طرح ہے، جو کسی خندق میں زخمی ہو ا ہو، اور جس کی ٹانگیں اکڑ گئی ہوں اور کمر جھک گئی ہو۔ وہ اپنی ہی کمزوری میں کسا ہو اور اس نے تحقیر بھرا مختلف جنگی دھاتی لباس پہنا ہو۔ کوئی بھی نہیں تصور کرتا کہ ایک دن یہ پیارا کٹھ پتلا اور اس کے معصوم سوال اپنے محبتی دستکار باپ کے طے کردہ اصولوں کو توڑتے ہیں اور وہ آدھی رات کے وقت ، الکحل کی بساند سے بھرا ، تلخ فخر سے لدا واپس لوٹتا ہے۔ اس کا دل لڑکیوں کی محبت بھری نظروں سے بھرا ہے جن کا نشانہ اور سب تو ہیں لیکن وہ نہیں ہے ۔
اب یہ دستکار ہے جو باورچی خانے کی میز پر بیٹھا کام کرتا ہے ۔ وہ اپنی ورکشاپ کا حساب کتاب دیکھ رہا ہے ۔ وہ اس کوشش میں ہے کہ ٹیکس میں کس طرح زیادہ سے زیادہ کمی کی جا سکے تاکہ اسے اپنے نوجوان شاگرد کے لئے لائسنس لینے کے لئے مجبور نہ کر دیا جائے ۔ جھینگر کٹھ پتلے کے کان سے نکل کر کب کا جا چکا ؛ اب لڑکے کو گوشت پوست کا خون سے بھرا اپنی مرضی کرنے والا دل مل چکا ہے ۔ اسے بے اطمینانی کی نرم درد کے ساتھ اخلاقیات کا بوجھ بھی اٹھانا پڑ رہا ہے ۔
جب قصہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے تو یہ کٹھ پتلے کی دوبارہ پیدائش والا راستہ اختیار نہیں کرتا ؛ بچے کو خود تردیدی انداز میں ابہام میں یوں چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ اس راستے پر چل پڑے جو روشن ہو سکتا ہے ۔ ہم یہ تصور بھی نہیں کرتے کہ وہ اکیلا جوان آدمی ، سورج کی گرمی سے بچتا ، خاکے بنانے والا ایک پیڈ ہاتھ میں لیے، آئینوں جیسی دھوپ میں پہنی جانے والی عینک کے پیچھے، تیزی سے گزرے اور کم کم سمجھ میں آنے والے بچپن کو چھپائے اک تنہا جوان آدمی ہے ۔ کہانی ہمیں یہ بھی نہیں بتاتی کہ یہ نوجون شاگرد فنکار یہ بھول چکا ہے کہ وہ لکڑی کی پنسلوں کوجبلی مہارت سے کیوں پکڑ لیتا ہے ۔ کہانی اس جگہ پر بھی پردہ ڈال دیتی ہے جو وہ اپنے لئے اس دنیا میں تلاشے گا ۔ ۔ ۔ لیکن بلوغت شاید گوشت پوست کو کچھ یوں ڈھالتی ہے جسے وہ سِدھانے کی تمنا نہیں رکھتا ، کیونکہ ملبے کو ڈھونا ہی انسان کے لئے گزرتے وقت کی للکار ہے ۔
اور جب ، بالآخر، وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس جیسے فرض کئے گئے بندوں نے اس کا مذاق اڑانا بند کر دیا ہے، اور وہ اپنے اندر جھانکتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کی مشتعل للکاریں جو آسمان تک کو چھوتی تھیں ، بزدل اور غیر جانبدار بارش کے چھینٹوں کی طرح لوٹیں ۔ تب کہیں ، وہ جا کر اس نوجوان موسیقارہ کی محبت کو قبول کرتا ہے جو اپنے ’ چیلو‘ کے تار چھیڑتی ہے اور معصومیت ، جس پر سے اس یقین اٹھ چکا ہے ، کے ساتھ سر جھکاتی ہے ۔ وہ اس کی حمایتی ہے ، اور اس کا ہاتھ تھامے ، اس کے باپ کے پاس کھڑی ہے جو ہسپتال میں ایک بستر پر پڑا ہے ۔ اسے اس کے کٹھن کام کی پاداش میں فالج ہوا ہے ۔ وہ دونوں وہاں خاموش کھڑے ہیں ۔ وہ اسے ، اس دن بھی ، وہاں بھی سنبھالا دئیے کھڑی ہے جہاں اس کے باپ ، کٹھ پتلیاں بنانے والے ، کے چمکیلے تابوت کا ڈھکن ہمیشہ کے لئے بند کیا جا رہا ہے اور وہ خاموشی سے موم کے آنسو بہا رہا ہے ۔
کہانی یہ بھی نہیں بیان کرتی کہ چیلو بجانے والی یہ نوجوان ، پیاری لڑکی ، اکیلے ہی کیوں، اسے چاہتی ہے ، جس کے ہاتھوں کی انگلیوں تلے اس کا لکڑی کا بنا موسیقی بکھیرتا چیلو ہے ناکہ سخت گوشت پوست کا لنگڑاتا آدمی جو اپنی تنہائی اور بے وطنی کا مارا ہوا ہے ۔ وہ اس کے دھاتی جنگی لباس میں ایک سوراخ کی کھوج کرتی کرتی تھک چکی ہے اور اس فنکار کو ایک ’ بینکر ‘ کے لئے چھوڑ دیتی ہے جو اپنی پنسلوں کا استعمال صرف اپنے گھریلو حساب کتاب کے لئے استعمال کرتی ہے ۔ لیکن وہ ایک آرام دہ یقینی صورت حال میں اسے روز دلیے کا ایک ہی طرح کا ناشتہ کراتی ہے اور اس نے ہمیشہ سرمئی لباس پہنا ہوتا ہے ۔
یہ کہانی اس لئے سنائی گئی تھی کہ اس میں امید کی باطنی طاقت اپنی جگہ برقرار رہے ؛ اور کوئی یہ کہنے کی جسارت نہ کر سکے کہ وہ اَکڑا ہوا ،کیلشیم زدہ آدمی جس کے جوڑ زنگ آلودہ ہیں کبھی ایک کمزور ، سادہ لوح نیلی اور بڑی آنکھوں والا کاٹھ کا پتلا تھا جسے ابھی بہت کچھ سیکھنا تھا۔ کوئی یہ ڈھونگ نہیں رچا سکتا کہ اسے اس کی مختلف حالت کے ساتھ خوش آمدید نہیں کہا گیا ، کہ اسے یہ معلوم نہ تھا کہ اسے ایک نئی محبت کی تازگی کو کیسے برقرار رکھنا ہے جبکہ نرم دلی بڑھاپے کے ساتھ آہستہ آہستہ در کرتی آتی ہے ۔ کوئی بھی ، بلکہ ننھا لڑکا بھی نہیں جانتا ہو گا کہ ایک ’ پری ‘ کہانی اس کی ’ موجودگی‘ کے بے حساب راستوں کے در وا کر سکتی تھی یا اگر وہ اسے ایک ایسے راستے پر ڈال دیتی جس پروہ آنکھیں بند کئے اور پیچھے دیکھے بِنا ’ بینکر‘ جو نرم دل ہے ، مسکراتی ہے اور دلیے کی دلدادہ ہے ، کے ہمراہ چلتا چلا جائے ۔
کہانی یہ بھی وضاحت نہیں کرتی کہ کاٹھ کے پتلا جب یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ تنہا کیوں ہے اوروہ ایک دستکار کے ساتھ نہیں ہے جو اس کی ہیت کو سنوار سکے اور نہ ہی چیلو بجانے والی اس کے ساتھ ہے جو لکڑی کی تھرتھراہٹ کو محسوس کر سکتی ہے ۔ کہانی یہ بھی نہیں بتاتی کہ بوڑھا ہوتا یہ آدمی ایک روز اپنے باپ کی ورکشاپ کھولے گا اور بہت مہارت کے ساتھ اپنے لئے لکڑی کا ایک مکھوٹا بنائے گا تاکہ اپنے بوڑھے چہرے کو ڈھانپ سکے ؛ صبر و تحمل کے ساتھ اپنے دھڑ اور اعضا ء پر بھورے رنگ کا کچھوے جیسا سخت خول چڑھا سکے ۔ جھینگر اور اچھی پری اس وقت کوئی توجہ نہیں دیتے جب وہ اپنی مرتی ہوئی جلد کے ہر ٹکڑے میں حیران کن حد تک آہستگی سے کیل ٹھونکتے ہوئے وحشیوں کی طرح چنگھاڑتا ہے ۔
چونکہ بچوں کی کہانی کا اختتام یوں نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے وہ آدمی ہی غائب کر دیا جائے جو شام کے جھٹپٹے کی شعاعوں تلے فخر کے ساتھ کھڑا ہے ۔ جس نے چمکیلا دھاتی جنگی لباس پہن رکھا ہے جو کالے ہوتے لال خون سے بھرا ہے ، اور جو سیاہی مائل آتش فشانی چٹان جیسا وہ ’ گولم‘ ہے جو خوفناک حد تک متاثر کرتا ہے ۔ وہ ، اگر ، ابھی بھی اعتماد کے ساتھ لچکیلے اور نرم قدم نہیں اٹھا سکتا تو اس کے بارے میں یہ گمان ہو سکتا ہے کہ وہ ایک بڑا کاٹھ کا پتلا ہے ؛ لیکن اس کاٹھ کے پتلے میں ایک کمی ہے ۔ اس کی ڈوریاں ، سوائے ایک کے ، اب نہیں ہیں اور یہ ایک ڈوری ایک مردہ پنچھالے کی طرح ، جس کا ایک سرا صفائی سے ترشا ہوا ہے جبکہ دوسرا سرا اس کے سینے میں بائیں طرف جڑ پکڑے ہوئے ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’ گولم‘ = Golem ، یہودی روایات میں مٹی کا بنا ایسا مجسمہ جسے جادو کے ذریعے زندگی دی گئی ہو ۔
نیونیل ڈیووسٹ ( Lionel Davoust) ایک سابقہ ماہر ِ بحری حیاتیات ہے ۔ پچھلے پندرہ برس سے قیاسی فلیش فکشن ( speculative flash fiction ) اور فکشن کے میدان میں سرگرم عمل ہے ۔ ایک رسالے کا مدیر بھی ہے اور برقی موسیقی میں دلچسپی لینے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا مترجم بھی ہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک ادیب ہے ۔ اس کی سات کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ اس کے تیس سے زیادہ قیاسی افسانچے بھی مختلف رسالوں کی زینت بن چکے ہیں ۔ وہ نومبر 1978 ء میں پیدا ہوا اور اس وقت 40 سال کا ہے ۔
یہ افسانچہ اس کی کتاب ' Darkness 2007 ' میں شامل ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔