ابن خلدون کے بارے میں ہمارے ہاں عام تعلیم یافتہ لوگ بس اتنا جانتے ہیں کہ وہ مسلم دنیا کا ایک نام ور مؤرخ تھا۔ البتہ کچھ زیادہ تعلیم یافتہ طبقہ، جو تعداد میں یقیناً کم ہے، اس بات سے آگاہ ہے کہ وہ صرف مؤرخ ہی نہیں تھا بل کہ فلسفۂ تاریخ کا مُوجد اور علومِ عُمرانی (Social Science) کا ایک پیش رَو مفکر بھی تھا۔ آج مشرق و مغرب میں اس کی جو شہرت ہے اورعالمی فکر کی دُنیا میں اسے جو اونچا مقام حاصل ہے وہ اس کی اسی دوسری حیثیت کی وجہ سے ہے۔
ابن خلدون نے ایک طویل عمر پانے کے بعد ۱۴۰۶ء میں قاہرہ میں انتقال کیا۔ اس نے جو تاریخ لکھی اس کے شروع میں اس نے ایک ’’مقدمہ‘‘ لکھا جو پھیل کر اس کے فلسفہ و فکر کا ایک ایسا نادر مجموعہ ثابت ہوا جس کی مثال نہ اس سے پہلے مسلم فکر کی تاریخ میں ملتی ہے اور نہ اس کے بعد کئی صدیوں تک دیکھنے میں آئی۔ اس ’’مقدمے‘‘ میں اس نے بتایا کہ مؤرخ کا کام گزرے ہوئے واقعات کو محض بیان کر دینا ہی نہیں ہے بل کہ اسے یہ بھی بتانا چاہیے کہ ان واقعات کے پس پردہ عوامل کیا تھے، اور ان عوامل کے درمیان کس طرح کا منطقی ربط تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ان عوامل اور رجحانات کو سامنے رکھ کر ایک ذہین مؤرخ آنے والے واقعات کی بھی ایک حد تک پیش گوئی کر سکتا ہے۔ پھر اس نے اپنے اس فلسفۂ تاریخ کی روشنی میں اپنا فلسفۂ عمرانیات قائم کیا۔ اس نے اُن عوامل کی نشان دہی کی جو انسانی گروہوں یا قوموں کے نمود و ارتقا اور پھر ان کے انحطاط کے پیچھے کارفرما ہوتے ہیں۔ اسی ضمن میں اس نے بتایا کہ افراد کی طرح قوموں کی بھی ایک طبعی عمر ہوتی ہے، جو شباب، کہولت اور بڑھاپے سے گزر کر بالآخر اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔
ابن خلدون کے ان افکار میں ایک نئی روح کی جو لہریں پائی گئیں انھیں نہ اس کے معاصرین نے اور نہ اس کے معاً بعد آنے والی نسلوں نے کوئی زیادہ محسوس کیا۔ اس کے ان افکار و تصورات نے البتہ اس کے بعض ذہین شاگردوں کو متاثر کیا، اور مقریزی اور سخاوی جیسے علما اور دانش ور پندرھویں صدی میں ابن خلدون کی تاریخی فکر سے فیض یاب ہوتے رہے۔ لیکن اس کے بعد ایک طویل عرصے تک اس ضمن میں خاموشی چھائی رہی۔
ابن خلدون کو پھر سے دریافت کرنے کا عمل سولھویں صدی میں کہیں جا کر شروع ہوا۔ سترھویں صدی میں اس میں کچھ حرکت اور زندگی کے آثار دیکھنے میں آئے۔ اس صدی کے آغازمیں شمالی افریقہ کے ایک سکالر مقّری نے ابن خلدون کے افکار سے خاصی رہ نمائی حاصل کی۔ لیکن اسے صحیح طور پر سمجھنے کے لیے کچھ اور لوگ درکار تھے، جو رومن لوگوں کی طرح سیاسیات میں دل چسپی رکھتے تھے۔ چناں چہ ان کی ذہنی و فکری دل چسپیوں کا مرکز تاریخ تھی۔ یہ لوگ عثمانی ترک تھے، جن کے دانش ور اور سیاسی مدّبر ابن خلدون کے افکار اور اس کی تصانیف میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر دل چسپی لینے لگے۔اٹھارویں صدی کا پورا عرصہ متعدد ترک دانش وروں اور سکالروں کی دل چسپی سب سے زیادہ ابن خلدون میں رہی۔ ان میں سے بعض لوگوں نے یہ بھی کیا کہ اس کی تصانیف کے متعدد مخطوطے مختلف کتب خانوں سے ڈھونڈ کر ترکی میں لائے، اپنے استفادے کی خاطر انھیں ایڈٹ کیا اور ان کی نقلیں کروا کر دوسروں کو مہیّا کیں۔
انیسویں صدی کے آغاز سے ابن خلدون کے مطالعے میں ترکوں کے ساتھ یورپ کے سکالر بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ ابن خلدون کے زمانے کے کئی صدیوں بعد یورپی مغرب میں جب کچھ نئے افکار و نظریات بحث مباحثے کا موضوع بنے تو انھیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہ افکار و نظریات کوئی نئے نہیں تھے بل کہ بہت پہلے، چودھویں صدی میں، شمال مغربی افریقہ کے ایک عرب باشندے نے ان کا ذکر اذکار کیا تھا اور ان کی بنیاد پر اپنی تاریخ کے ’’مقدمے‘‘ میں ایک نئی سائنس کی بنیاد رکھی تھی۔ ابن خلدون کی یہ ایک دوسری دریافت تھی جس کا سہرا اہل یورپ کے سَر ہے۔ انھوں نے ایک صدی سے زیادہ عرصہ اس کی تاریخ کے اس عظیم الشان ’’مقدمے‘‘ کے مطالعے اور تجزیہ میں صرف کیا، اور اس میں پیش کئے جانے والے فلسفے کو اپنی بحث کا موضوع بنائے رکھا۔
مغرب میں یہ سب کچھ ہو رہا تھا، اور اس کے اپنے وطن مشرق میں اس بارے میں بالکل خاموشی تھی۔ البتہ ۱۹۳۲ء میں جب ابن خلدون کی پیدائش پر چھہ سو سال پورے ہونے کو آئے تو عرب لوگ جاگ پڑے، اور مغرب میں اس پر جو کام ہو رہا تھا اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے انھوں نے فیصلہ کیا کہ ابن خلدون کی شایان شان طریقے پر یاد منائی جائے اور اس کی تصانیف کو شائع کرکے عرب دنیا میں پھیلایا جائے۔ چناں چہ اس غرض سے انھوں نے اس کے وطن تیونس، اور پھر اس کے آخری زمانے کے مسکن مصر میں جلسے اور کانفرنسیں منعقد کیں۔ ان میں اس کے چھوڑے ہوئے علمی و فکری ورثے کو بحث مباحثے کا موضوع بنایا، اور پھر ان سارے مباحث کو جمع کرکے شائع کیا۔ اس طرح ابن خلدون ترکی سے یورپ اور یورپ سے ہوتا ہوا بالآخر اپنے وطن عرب میں پہنچ گیا۔
یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ ہم مشرق والوں کے علم و فن کا کوئی خزینہ یا کوئی شخصیت پہلے اہلِ مغرب نے دریافت کی۔ انھوں نے اس کی قدروقیمت پہچانی اور اس کے بارے میں اپنے جائزے اور مطالعے پیش کیے۔ پھر وہ معلومات ہم اہل مشرق تک پہنچیں اور ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ہمارے ہاں علم و فن کا یہ خزانہ موجود تھا اور ہمیں اس کی خبر نہ تھی۔ اس کی بڑی مثال عربی کے داستانی ادب کا عظیم شاہ کار ’’الف لیلہ‘‘۱ ہے جسے فرانس کے موسیوگلان نے دریافت کیا اور اس کے مختلف اجزا مشرق کے کتب خانوں سے بہم پہنچا کر اٹھارویں صدی کے اوائل میں اس کا ایک نسخہ تیار کیا۔ پھر فرانسیسی میں اس کا ایک خوب صورت ترجمہ کرکے اسے پورے یورپ میں پھیلا دیا۔ لیکن اٹھارویں صدی تک مشرق میں ’’الف لیلہ‘‘ بہ دستور حالتِ گم نامی میں تھی۔ مشرق میں الف لیلہ کی باقاعدہ دریافت اہل مغرب ہی کے ذریعے عمل میں آئی جو مصر پر نپولین کے حملے کے بعد مشرق کے ملکوں میں آنے جانے لگے تھے۔ ان کی زبانی عرب دنیا یہ سُن کر حیران رہ گئی کہ ان کے پاس عربی لوک داستانوں کا اتنا بڑا ذخیرہ موجود تھا جسے مغرب والوں نے ڈھونڈ نکالا اور مشرق کو اس کی خبر ہی نہیں تھی۔۲
اسی طرح صحابہؓ کے حالات میں ایک ضخیم کتاب ’’طبقات ابن سعد‘‘ ہے جس کے بارے میں علامہ شبلی نعمانی اپنے مقالے میں بتاتے ہیں۳ کہ اس کتاب کے نسخوں کو بہم پہنچانے میں، جس کا پورا نسخہ قسطنطنیہ اور قاہرہ کے کتب خانوں میں بھی نہیں پایا جاتا تھا، جرمنی کے ایک مشہور فاضل پروفیسر ساخو نے حد درجہ مشقت جھیلی۔ اس کے اس کام کے مصارف کے لیے شہنشاہ جرمنی نے (اُس زمانے کے) پورے ایک لاکھ روپے شاہی خزانہ سے عطا کیے۔ یہ کتاب جو بارہ ضخیم جلدوں میں شائع ہوئی، اس کی پہلی جلد علامہ شبلی نے دیکھی تھی۔ جب کہ باقی جلدیں اس وقت بھی زیرطبع تھیں۔
ابن خلدون سے جب بالآخر اہلِ عرب آشنا ہوئے تو اس پر علمی کاموں کا آغاز ہوگیا۔ اس ضمن میں مصر کے ڈاکٹر طہٰ حسین نے پیرس کی سوربون یونی ورسٹی میں اس کے عمرانی فلسفے پر اپنا تھیسس پیش کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اسی طرح ایک دوسرے فاضل محمد عبداللہ عثمان نے’’ابن خلدون… اس کی حیات اور تصانیف‘‘ کے موضوع پر ایک عمدہ کتاب انگریزی زبان میں لکھی، اور اس طرح یہ سلسلہ چل پڑا۔
ابن خلدون کا تعلق عرب کے کس علاقے سے تھا؟ اور اس کا شجرۂ نسب کہاں تک پہنچتا ہے؟ اس بارے میں ابن خلدون نے ہمیں جو معلومات بہم پہنچائی ہیں ان کے مطابق اس کے خاندان کا تعلق جنوبی عرب کے علاقے حضرموت کے ایک یمنی قبیلے سے تھا۔ اس قبیلے کے سلسلۂ نسب کی کڑیاں اوپر جا کر ملوکِ کندہ سے ملتی تھیں، جو اسلام سے پہلے پورے حضرموت پر برسراقتدار تھے۔ اس خاندان کا مورثِ اعلیٰ خالد وہ پہلا شخص تھا جو یمن سے ہجرت کرکے ہسپانیہ پر مسلمانوں کی فتح کے ابتدائی برسوں میں اندلس چلا گیا، اور آٹھویں صدی عیسوی میں وہ پہلے قرمونہ میں جا بسا جو قرطبہ، اشبیلیہ اور غرناطہ کی تکون کے اندر کہیں واقع تھا۔ ہسپانیہ میں ایک رواج کے مطابق اس کا نام خالد سے خلدون ہوگیا (جیسے زید سے زیدون، بدر سے بدرون وغیرہ) اور آگے پورا خاندان اسی نام سے موسوم ہوا۔ کچھ عرصہ گزرنے پر بعد کی نسلوں کے لوگ اشبیلیہ چلے گئے۔ تاریخی اعتبار سے اس خاندان میں ایک نمایاں نام کریب کا ملتا ہے، جس نے اموی خاندان کے خلاف بغاوت کی اور اشبیلیہ میں نیم آزاد حکومت قائم کر لی۔ گیارھویں صدی کے وسط میں بنو خلدون اشبیلیہ کے فکری اور سیاسی رہ نما تسلیم کیے جاتے تھے۔
تیرھویں صدی کے آغاز میں ہسپانیہ کے الموحّدون کی مملکت کا شیرازہ بکھر گیا، اور عیسائی طاقتیں قرطبہ، اشبیلیہ اور غرناطہ کی تکون کے اندر مداخلت کرنے لگیں۔ بنوخلدون نے جب شہر کی پُرخطر صورتِ حال دیکھی تو ۱۲۴۸ء میں اشبیلیہ کے فتح ہونے سے پہلے ہی اسے چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا، اور سمندر عبور کر کے شمال مغربی افریقہ کے محفوظ اور پرامن ماحول میں جا بسے۔ یہاں بنو حفص کا خاندان حکم ران تھا۔ انھوں نے بعض رشتہ داریوں کی وجہ سے ہسپانیہ سے آنے والے بنوخلدون کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔
ابن خلدون شمال مغربی افریقہ کے ملک تیونس میں ۱۳۳۲ عیسوی میں پیدا ہوا۔ اس کی ابتدائی تعلیم اس وقت کے دستور کے مطابق ہوئی اور اس نے اپنے زمانے کے مجوّزہ نصاب پر پورا عبور حاصل کر لیا۔ اس نے پہلے قرآن کریم حفظ کیا اور اس کو ساتوں قرأتوں کے ساتھ پڑھا۔ احادیث میں اس نے مُوطّا امام مالک اور صحیح مسلم کی تو تکمیل کی، لیکن صحیح بخاری کے چند اجزا تک ہی اس کی رسائی ہو سکی۔ لغت اور نحو کے علوم میں اس نے دست رس حاصل کی، اور ادبیات کے سلسلے میں اس کا اپنا بیان ہے کہ عربی ادب و شعر کے کلاسیکی مجموعے کتاب الاغانی کا بڑا حصہ اس کو ازبَر تھا۔ اس بیان پر البتہ لوگوں نے زیادہ اعتبار نہیں کیا کہ کتاب الاغانی بہت ضخیم کتاب ہے (آج کے زمانے میں یہ بیس جلدوں میں آتی ہے)۔
ہسپانیہ کی طرف سے جو مہاجر آ آ کر شمال مغربی افریقہ میں بس رہے تھے ان کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ یہ لو گ مقامی باشندوں کے مقابلے میں ایک مختلف قسم کا گروہ تھے۔ بہت مہذّب اور بہتر ذہنی سطح کے حامل! ان ہسپانوی مہاجروں نے شمال مغربی افریقہ کی ثقافتی زندگی پر جو اثرات مرتب کیے ان کا ابن خلدون اپنے ’’مقدمے‘‘ میں بار بار ذکر کرتا ہے اور ہسپانیہ کی برتری اور اس کی تہذیب کے خالص اور بے مَیل ہونے پر زور دیتا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اپنے خاندان کے ہسپانیہ چھوڑنے کے تقریباً ایک سو سال بعد بھی ابن خلدون اپنے آپ کو ذہنی طور پر اُس شان دار تہذیب کا ایک بچھڑا ہوا فرد سمجھتا تھا۔
شمال مغربی افریقہ میں اُس وقت تین مملکتیں نمایاں اور اپنی اپنی جگہ طاقت کے مراکز تھیں۔ تیونس میں بنوحفص کا خاندان، جن کے زیرسایہ بنوخلدون رہ رہے تھے۔ آگے الجزائر (وسطی افریقہ) میں بنوعبدالودود! تلمسان اور بجایہ ان کے بڑے شہر تھے۔ اس سے اور آگے مراکش (مغربی افریقہ) جہاں مرینی خاندان کی حکم رانی تھی اور فاس (Fez) ان کا بڑا شہر تھا۔ ابن خلدون مختلف اوقات میں ان تمام حکومتوں کے درباروں کے ساتھ وابستہ رہا اور ان کے ہاں اس نے مختلف عہدوں پر کام کیا۔ چناں چہ وہ کاتبِ علامات (Stamp Master) کے معمولی عہدے سے ترقی کرتے کرتے حاجب، خطیب، کاتب السّر (سیکرٹری)، سفیر، وزیر اور قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) کے اونچے مناصب تک پہنچا۔ شمال مغربی افریقہ کے یہ حکم ران ایک دوسرے کے ساتھ عموماً برسرِپیکار رہتے تھے۔ جہاں کسی حکم ران نے دوسرے کو کم زور سمجھا اسی پر چڑھائی کر دی اور اس کے ملک پر قابض ہوگئے۔
اپنی زندگی کے حالات کے بارے میں ابن خلدون نے اپنے سوانح نگاروں کی مشکل یوں آسان کر دی کہ اپنے بعد آنے والوں کے لیے اس نے ایک ایسی خود نوشت لکھ چھوڑی ہے جو اس کی زندگی کے حالات بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کرتی ہے اور ان کے تاریخی پس نظر کو بھی اُجاگر کرتی جاتی ہے۔ اپنی بعض خامیوں کے باوجود (مثلاً یہ کہ اس میں ابن خلدون کے بچپن کے حالات کا کوئی ذکر نہیں ہے) یہ سوانح بہت جامع اور وسیع الاطراف ہے۔ یہ اس کی ’’تاریخ‘‘ کا آخری حصہ ہے، جس طرح ’’مقدمہ‘‘ اس کی ’’تاریخ‘‘ کا پہلا حصہ ہے۔
جیسا کہ ہم آگے دیکھیں گے ابن خلدون کی زندگی کے دو نمایاں ادوار ہمارے سامنے آتے ہیں۔
ایک وہ جو (۱۳۳۲ء سے ۱۳۸۲ء تک ) شمال مغربی افریقہ کی مذکورہ بالا ریاستوں میں گزرا اور دوسرا وہ جو ۱۳۸۲ء سے ۱۴۰۶ء میں اس کی وفات تک) مصر میں گزرا۔ زندگی کے ان دونوں ادوار میں اس کو دو دو سانحے پیش آئے۔ پہلے دور میں سال ۱۳۴۸ء میں جب وہ سولہ سال کا تھا، اس علاقے میں طاعون کی ایک بڑی وبا پھوٹی، جس میں اس کے متعدد اساتذہ اور شیوخ، اور اس کے ماں باپ لقمۂ اجل ہوگئے۔ دوسرا سانحہ اس کے ادیب اور شاعر دوست لسان الدین الخطیب کے سیاسی قتل کا تھا۔ دوسرے دور میں، جب مصر میں آئے ہوئے اسے کچھ عرصہ ہوا تھا اس کے اہل خانہ (بیوی اور پانچ بیٹیاں)۴جو تیونس سے ایک جہاز میں قاہرہ کی طرف آ رہے تھے اسکندریہ کے قریب ایک حادثے میں جہاز کے ساتھ ہی غرق ہوگئے، اور گھر کا سارا اثاثہ بھی ان کے ساتھ ہی ڈوب گیا۔ دوسرا سانحہ تو نہیں البتہ اہم واقعہ اس زمانے میں تاتاری فاتح تیمورلنگ سے ابن خلدون کی ملاقات کا ہے۔ امیر تیمور نے ان دنوں دمشق کا محاصرہ کر رکھا تھا اور اس محاصرے کے دوران میں ابن خلدون کو اس کے ہاں بھیجا گیا۔ وہ اس کے ہاں رہا اور تاتاری امیر نے اِس عالم اور دانش ور کے ساتھ کافی باتیں کیں، جن کا ذکر آگے آئے گا۔
ابن خلدون کی زندگی کے حالات ایسی بھول بھلیاں (Labyrinth) ہیں کہ اگر آپ ایک دفعہ ان کی تفصیلات میں چلے جائیں تو واپسی کا راستہ مشکل سے ہی ملے گا۔ یہ حالات کوئی زیادہ دل چسپ اور جاذبِ توجہ بھی نہیں ہیں۔ انھیں پڑھتے ہوئے ایک ایسا شخص ہمارے سامنے آتا ہے جس کا مطمحِ نظر پوری زندگی میں افریقہ اور مصر کے درباروں میں اونچے مناصب پر پہنچنا اور طاقت اور اختیار کے لیے تگ و دو کرنا ہے۔ اس میں ذمہ داری اور وفاشعاری کی سخت کمی ہے۔ چناں چہ اس کی وابستگی اور مدح و ستائش کے محور وقت اور موقع کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ آج اگر اس کے مراسم ابن اسحاق حنفی اور حسن بن عمر کے ساتھ ہیں تو کل ان کا حریف اور دشمن اس کا ممدوح ٹھہرے گا، اس لیے کہ ایک تو وہ طاقت ور ہے، دوسرے اس کے ہاں اسے اونچی عمدہ اور بہتر پوزیشن ملنے کی امید ہے۔ درباروں میں رہتے ہوئے وہ دھڑے بندیاں بھی کرتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ اکثر حاسدوں کی سازشوں کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنے اس رویے کی پاداش میں وہ دو مرتبہ جیل کی ہوا بھی کھا آتا ہے لیکن یہ حوادث اس کے حوصلے کو پست نہیں کر سکتے اور وہ ہر دفعہ اپنی قابلیت اور علمی تفوّق کی بہ دولت پھر سے سرکار دربار میں اثرورسوخ حاصل کر لیتا ہے۔
ابن خلدون ابھی بنوحفص کے ہاں تیونس میں تھا جب مراکش کے مرینی سلطان ابو عنان نے تیونس پر چڑھائی کر دی۔ اس مہم میں وہ کچھ علما اور دانش ور بھی اپنے ساتھ لایا۔ ابن خلدون نے اس موقع سے فائد اٹھاتے ہوئے ان علما اور دانش وروں کے ساتھ روابط قائم کیے اور ان کی راہ نمائی میں اپنی تعلیم کا معیار بلند کیا۔ اس کے بعد بعض سیاسی حالات کی وجہ سے ابن خلدون تیونس کو چھوڑ کر ایک عرصے تک ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک چپ چاپ سفر کرتا رہا۔ تا آں کہ وہ امیر مراکش ابوعنان کے ہاں جا نکلا۔ ابوعنان نے پہلے تو اسے اپنے درباری علما کے گروہ میں شامل کیا، پھر کچھ عرصے بعد ۱۳۵۵ء میں اپنے کاتب (سیکرٹری) کے عہدے پر مامور کر دیا۔ مراکش کی مرینی سلطنت میں ابن خلدون نے اپنی زندگی کے آٹھ اہم سال گزارے۔ اس عرصے میں اس نے جہاں سرکاری امور سرانجام دیے وہاں علما اور شیوخ کی ایک بڑی جماعت کے علم و دانش سے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا، جو قیروان، غرناطہ اور تلمسان کی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل تھے۔ اس طرح اس نے فقہی اور دینی نیز تاریخی، ادبی اور فلسفیانہ علوم میں اپنے علم کو ٹھوس بنیادوں پر قائم کر دیا۔
اسی عرصے میں اس کی ملاقات غرناطہ سے بھاگ کر آئے ہوئے سلطان محمد الخامس اور اس کے شاعر اور ادیب وزیر لسان الدین الخطیب سے ہوئی۔ ابن خلدون نے سلطان کی بہ حالی کے لیے کام یاب جدوجہد کی اور ان دونوں کے ساتھ اس کی دوستی کی بنیاد پڑگئی۔
یہاں مراکش میں ابومنان نے بجایہ کے امیر ابوعبداللہ کو فاس میں قید کر رکھا تھا۔ ابن خلدون نے اس سے راہ و رسم پیدا کی اور چوری چھپے اس کی رہائی اور مخلصی کا منصوبہ تیار کیا۔ اس شرط پر کہ اگر یہ کام یاب ہوگیا تو امیر بجایہ برسراقتدار آکر اس کو وزارت کا عہدہ سونپ دے گا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ سازش کام یاب نہ ہو سکی اور اس کی پاداش میں ابن خلدون کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ وہ ابوعنان کے انتقال تک اکیس ماہ قید رہا۔
اس کے بعد حالات نے کروٹ لی اور ابن خلدون ۱۳۶۲ء میں زندگی میں پہلی بار اپنے آبا و اجداد کے وطن اور اپنے خوابوں کی سرزمین ہسپانیہ میں جا نکلا۔ یہاں غرناطہ میں اس وقت اس کے دوست سلطان محمد الخامس کی حکومت بہ حال ہو چکی تھی چناں چہ سلطان نے اس کا پُرتپاک خیرمقدم کیا اور وزارت کا منصب اس کے سپرد کیا۔ یہاں ابن خلدون کی شاعر اور ادیب لسان الدین الخطیب کے ساتھ دوستی اور زیادہ گہری ہوگئی۔
دوسرے ہی سال سلطان محمد نے ابن خلدون کو قشتالیہ کے حکم ران سفّاک پیدرو (Pedro the Tyrant) کے دربار میں سفیر بنا کر بھیجا۔ پیدرو ابن خلدون کی غیرمعمولی شخصیت اور قابلیت سے بہت متاثر ہوا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس کے ہاں اشبیلیہ میں رہ جائے۔ اپنا مطلب حاصل کرنے کے لیے اس نے اسے یہ لالچ دیا کہ اگر وہ یہاں رہنے کا فیصلہ کر لے تو پیدرو اس کی تمام جائداد جس پر کبھی اس کے آبا و اجداد کا قبضہ تھا اسے واپس کر دے گا۔ لیکن ابن خلدون نے بلطائف الحِیل اس کی یہ پیش کش قبول کرنے سے معذرت کر لی۔
ابن خلدون کا یہ فیصلہ بعض لوگوں کی سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب زندگی میں اس کا مطمحِ نظر سرکار دربار میں اثرورسوخ اور اعلیٰ مناصب کا حصول تھا تو ایسی دعوت کو اس نے کیوں ٹھکرا دیا جس سے اسے پیدرو کے دربار میں اونچی پوزیشن ملنے کے علاوہ آبائی جائداد بھی اپنی مالی منفعتوں کے ساتھ، ہاتھ آنی تھی۔ یہاں اصل میں معاملہ ایک عیسائی حکم ران کے دیے ہوئے لالچ کو قبول کرنے کا تھا، جب کہ ان دنوں عیسائی اور مسلمان حکومتیں ہسپانیہ میں ایک دوسرے کی حریف تھیں۔ یہاں ابن خلدون کی دینی حمیت آڑے آئی اور اس نے ایک عیسائی بادشاہ کی دی ہوئی ترغیب قبول کرنا گوارا نہ کیا۔
غرناطہ میں دو سال رہنے کے بعد ابن خلدون نے محسوس کیا کہ اس کے حاسد پیدا ہوگئے ہیں اور انھوں نے اس کے خلاف شکایتوں اور سازشوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ چناں چہ سلطان اور اس کے وزیر لسان الدین کے کان بھرے جانے لگے ہیں، جس کی وجہ سے ان لوگوں کا اس کے ساتھ وہ پہلے کا سا رویہ نہیں رہا۔ یہ دیکھتے ہوئے ابن خلدون غرناطہ چھوڑنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں اس کے پرانے دوست امیر عبداللہ نے (جو ابو عنان کی موت کے بعد اب آزاد ہوچکا تھا) اسے بجایہ آنے کی دعوت دی۔ بجایہ پہنچنے پر ابن خلدون کا شان دار استقبال ہوا۔ حکومت کے اہل کار گھوڑوں پر اس کے خیرمقدم کے لیے آئے۔ عام لوگوں کا یہ حال تھا کہ اس کی دست بوسی کے لیے ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے۔ یہاں پہنچ کر ابن خلدون نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔ اس کے بعد کا، سات سال کا، عرصہ (۱۳۶۵ء سے ۱۳۷۲ء) اس نے بجایہ، بسکرہ اور تلمسان آنے جانے میں گزارا۔
ابو عبداللہ اپنے حریف ابنِ عم ابوالعباس کے مقابلے میں اپنی حکومت کو سنبھال کر رکھنے میں دشواری محسوس کرنے لگا۔ اس کے بگڑتے ہوئے حالات کو دیکھتے ہوئے ابن خلدون نے پیش کش کی کہ وہ بجایہ کے کوہستانی علاقہ میں جاکر بربر قبائل سے ملے اور ان سے ٹیکس وصول کرنے کا خطرناک کام انجام دے۔ یہ رقم ابوعبداللہ کی حکومت کو اقتصادی طور پر قائم رکھنے کے لیے اشد ضروری تھی۔ بربر قبائل میں رہ کر ابن خلدون نے قبائلی زندگی اور ان کے اخلاق و عادات کا قریب سے مطالعہ کیا۔ ۱۳۶۶ء میں جب سلطان ابوعبداللہ کا انتقال ہوگیا تو ابن خلدون اس کی اولاد کے لیے کام کرنے پر اپنے آپ کو آمادہ نہ کر سکا۔ ان کی مایوس کن حالت کو دیکھتے ہوئے اس نے ابوعبداللہ کے حریف ابنِ عم ابوالعباس کے ہاں جانے کا فیصلہ کیا، تاکہ وہ اپنی گرتی ہوئی ساکھ سنبھال سکے۔
اس سے اگلے آٹھ یا نو سال ابن خلدون کے طوفانی کیریئر کے لیے بہت نازک اور اہم تھے۔ انھی سالوں میں اس نے شمال مغربی افریقہ کی سیاسی زندگی میں ایک اہم اور خود مختار کردار ادا کیا۔ ابوالعباس کے ہاں کچھ عرصہ گزارنے پر اس نے محسوس کیا کہ اس حکم ران کے سامنے اس کی پوزیشن کچھ غیر یقینی سی ہے۔ چناں چہ وہ اس کو بھی چھوڑ کر چل دیا۔ اس کے بعد تلمسان کے حاکم ابوحمّو نے جو اس کے دوست حاکمِ بجایہ ابوعبداللہ کا داماد تھا اسے اپنے ہاں آنے کی دعوت دی اور اسے اپنا وزیراعظم بنانے کی پیش کش کی، لیکن ابن خلدون نے جو اب تک اونچے حکومتی عہدوں اور ان سے وابستہ مکروفریب اور چال بازیوں سے دل برداشتہ ہوچکا تھا۔ اس پیش کش کو قبول نہ کیا، اور اس کی ایک وجہ یہ بتائی کہ اس نے اپنے علمی کاموں سے اب تک کافی غفلت برت لی تھی، اور اب اس کی خواہش تھی کہ وہ امن و سکون کے ساتھ علمی اور تحقیقی کام کرے۔
تلمسان کو چھوڑنے کے بعد ابن خلدون اولادِ عارف کے ہاں آکے ٹھہرا جو زغبہ قبائل کا ایک خاندان تھا۔ یہاں اس نے اپنے اہل خانہ کو بھی بلا لیا۔ اولادِ عارف نے اس خاندان کو اپنی حفاظت میں قلعۂ سلامہ میں ٹھہرایا۔ یہاں ابن خلدون نے تین سال سے زیادہ عرصہ آرام اور خاموشی میں گزارا۔ یہیں اس نے اپنی تاریخ لکھنے کا آغاز کیا۵۔ وہ بتاتا ہے کہ ’’نومبر ۱۳۷۷ء میں مَیں نے تاریخ کا ’’مقدمہ‘‘ مکمل کیا، اس غیرمعمولی اسلوبِ اظہار سے جو میری اس مراجعت اور گوشہ نشینی نے میرے اندر اِلقا کیا، کہ الفاظ اور خیالات میرے ذہن میں ہجوم کرکے آتے جاتے تھے اور میں انھیں لکھتا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ (صرف پانچ ماہ میں) یہ تخلیق مکمل ہوگئی۔‘‘ اپنی تاریخ کو مکمل کرنے میں ابن خلدون کو مزیدچار سال لگ گئے جن میں اس نے اپنے کام کی تکمیل کے لیے تیونس کے کتب خانوں سے بھرپور فائد اٹھایا۔
اب ہم یہاں شمال مغربی افریقہ میں گزارے ہوئے ابن خلدون کے باقی ماندہ ایام کے ذکر کو نظرانداز کرتے ہیں۔ اب تک اس کی زندگی کے جو حالات قارئین کے سامنے آئے ان سے انھوں نے یہ اندازہ لگایا ہوگا کہ اس کی زندگی عموماً کس نہج پر گزری، اور زندگی میں جو مقصد اس کے سامنے تھا اس میں وہ کب اور کہاں تک کام یاب ہوا، اور کیسے بعض موقعوں پر وہ ناخوش گوار حالات میں سے گزرا۔
ابن خلدون کے ساتھ اب ہم مصر چلتے ہیں، اور وہاں اس کی تقرریوں اور عہدوں سے متعلق تفصیلات کو چھوڑ کر ایک خاص واقعے کا ذرا تفصیل سے ذکر کریں گے، جس کا تعلق منگول فاتح تیمورلنگ کے ساتھ اس کے رابطے اور ملاقاتوں سے ہے۔
مصر جانے کے لیے ابن خلدون نے حاکم ابوالعبّاس سے حج پر جانے کی اجازت طلب کی (حج کا بہانہ اُن دنوں بہت چلتا تھا) جو دستور کے مطابق اسے دی گئی۔ اکتوبر ۱۳۸۲ء میں ابن خلدون اسکندریہ جانے کے لیے جہاز پر سوار ہوا لیکن اس کے اہلِ خانہ (غالباً) یرغمال کے طور پر تیونس میں رہ گئے۔ سمندر پر چالیس دن گزارنے کے بعد وہ دسمبر ۱۳۸۲ء میں اسکندریہ پہنچا اور بہ جائے مکّہ معظمہ جانے کے وہیں مصر میں اُتر گیا۔ جنوری ۱۳۸۳ء میں وہ قاہرہ چلا آیا۔ یہاں اس وقت مملوک بادشاہوں کی حکومت تھی جو خوش حال اور سیاسی طور پر نسبتاً مستحکم تھی۔ اس وقت المِلک الظاہر برقوق مصر کا حکم ران تھا۔ اُس تک ابن خلدون کی شہرت پہنچ چکی تھی، اس لیے اس نے اس کی بڑی قدر افزائی کی، اور اسے مختلف موقعوں پر پروفیسر، صدرِ کلّیہ اور قاضی کے عہدوں پر تعینات کیا۔ برقوق نے جب اسے مالکی فقہ کا قاضی القضاۃ مقرر کیا تو اس نے ملک میں رائج رشوت ستانی اور بدعنوانی کا قلع قمع کرنے کی ٹھانی اور اس سلسلے میں نالائق مفتیوں اور جاہل قانونی مشیروں کو نکال پھینکنا چاہا لیکن ان اقدامات کی وجہ سے وہ غیر ہردل عزیز ہوگیا۔ اس کی مخالفت بڑھنے لگی۔ نتیجہ یہ کہ وہ ایک سال سے بھی کم عرصہ قاضی کے عہدے پر رہ سکا۔ وہ مخالفوں کی ان ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرنا چاہتا تھا، لیکن اسی زمانے میں اس کے ساتھ وہ سانحہ پیش آگیا جس میں تیونس سے آنے والے اس کے بیوی بچے مع اپنے اثاث البیت کے اسکندریہ کے قریب جہاز کے ساتھ ہی ڈوب گئے۔ یہ اکتوبر نومبر ۱۳۸۴ء کا واقعہ ہے۔
کچھ عرصے بعد برقوق نے انتقال کیا اور اس کی جگہ اس کا جواں سال بیٹا فرج تخت نشین ہوا۔ اسی زمانے میں تاتاری لشکر منگول امیر تیمور کی قیادت میں مصر جانے کے لیے دمشق کی فصیلوں پر دستک دینے لگا۔ مصری فوج کوشاہ فرج کی سربراہی میں دمشق جانا ہوا، تاکہ اسے تیموری حملے سے محفوظ رکھے۔ ابن خلدون اگرچہ اب شاہ کی ملازمت میں نہیں تھا، تاہم اسے بھی مجبور کرکے ساتھ لے جایا گیا۔ دسمبر۱۴۰۰ء میں یہ لوگ محاصرے میں آئے ہوئے شہر دمشق میں پہنچ گئے۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں میں فرج اور اس کے مشیروں کو اطلاع ملی کہ ان کے پیچھے مصر میں بغاوت کا منصوبہ باندھا جا رہا ہے۔ یہ سُنتے ہی یہ لوگ تو فی الفور واپس چلے گئے۔ اب دمشق کے محصور شہر میں لوگوں کے علاوہ ایک طرف فوج تھی اور دوسری طرف قاضی اور فقہا تھے جن میں ابن خلدون بھی شامل تھا۔ فقہا اور علما چاہتے تھے کہ فاتح تیمور کے ساتھ بات کرکے اس سے شہر کے لیے امان طلب کریں۔ لیکن فوجی عہدے دار اس بات پر بہ ضد تھے کہ ’’ہمیں آنے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے، اور ہتھیار نہیں ڈالنے چاہئیں‘‘۔ تاہم علما اور قاضی صاحبان فوج کو راضی کرکے کسی طرح امیر تیمور سے مل آئے۔ تیمور نے کشادہ دلی سے ان کا استقبال کیا، ان کے لیے امان نامے لکھے اور ان کے ساتھ یہ طے ہوا کہ دوسرے دن شہر کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور تیمور کی طرف سے ایک امیر شہر میں داخل ہوکر دارالامارت میں قیام کرے گا اور اس کے باشندوں پر حکومت کرے گا۔ تیمور نے ان علما اور فقہا سے ابن خلدون کے متعلق پوچھا اور یہ جان کر وہ شہر میں موجود ہے اسے اپنی طرف بھیجنے کے لیے کہا۔ اب مسئلہ وہی تھا کہ قلعے کا دروازے کھلے بغیر ابن خلدون باہر کیسے جا سکتا تھا۔ چناں چہ اسے بھی علما اور مشائخ کی طرح رسیوں کے ذریعے قلعے کی فصیل سے نیچے اتارا گیا، اور وہاں سے وہ امیر تیمور سے ملنے کے لیے اس کے کیمپ میں جا پہنچا۔ امیر تیمور سے پہلی ملاقات کا احوال ہم ابن خلدون کی اپنی زبان سے سنتے ہیں ۔ کہتا ہے:
’’جب میں اس سے ملا تھا اور اس کے پاس پہنچنے کے لیے فصیلِ قلعہ سے لٹکایا گیا تھا… اس وقت میرے ایک دوست نے جو اپنی سابقہ واقفیت کی بنا پر اُن لوگوں کے رسم و رواج کو خوب جانتا تھا مجھے مشورہ دیا کہ میں کوئی تحفہ اس کی خدمت میں لے جاؤں، خواہ وہ کتنا ہی کم قیمت کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ ان کے فرماں رواؤں سے ملاقات کرنے کی یہ ایک مقررّہ رسم ہے۔ لہٰذا میں نے کتب فروشوں کے بازار سے قرآن مجید کا ایک نہایت خوب صورت نسخہ، ایک نفیس جائے نماز، ایک نسخہ البوصیری کے مشہور قصیدہ بردہ کا جو آں حضرتؐ کی مدح میں ہے، اور مصر کی اعلیٰ درجے کی مٹھائیوں کے چار ڈبے خریدے۔ میں ان تحائف کو لے کر اس کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ اس وقت قصرالابلق کی دربارگاہ میں بیٹھا ہوا تھا۔
جب اس نے مجھے آتے دیکھا تو کھڑا ہوگیا، اور مجھے اپنے دائیں طرف بیٹھنے کا اشارہ کیا، جہاں میں ایک نشست پر بیٹھ گیا… تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد میں اس کے سامنے پہنچ گیا اور ان تحائف کی جانب اشارہ کیا جو میرے ملازموں کے ہاتھوں میں تھے۔ میں نے انھیں نیچے رکھوایا اور وہ میری طرف متوجہ ہوا۔ پھر میں نے مصحف کو کھول کے سامنے کیا۔ جب اس نے دیکھا تو بہ عجلت تمام اٹھایا اور اسے اپنے سَرپر رکھ لیا۔ پھر میں نے قصیدہ بردہ اس کی خدمت میں پیش کیا۔ اس نے اس کے بارے میں اور اس کے مصنف کے بارے میں مجھ سے سوالات کیے۔ اور مجھے جو کچھ معلوم تھا میں نے بیان کر دیا۔ پھرمیں نے اس کی خدمت میں جائے نماز پیش کی جسے اس نے لیا اور چوما۔ پھر میں نے اس کے سامنے مٹھائیوں کے ڈبے رکھے اور اس نے رسم کے مطابق ازراہِ اخلاق ایک ڈبے میں سے ذرا سی مٹھائی لے کر کھائی اور ڈبے کی باقی ماندہ مٹھائی حاضرین دربار میں تقسیم کر دی۔ اس نے یہ سب تحائف قبول کر لیے اور ان پر اپنی پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ اس کے بعد اس نے ایک خاص فقیہ اور متبحرعالم عبدالجبار کو طلب کیا، تاکہ وہ ہم دونوں کے درمیان ترجمانی کے فرائض ادا کرے۔‘‘
اس ملاقات میں ابن خلدون کی ایک درخواست پر تیمور نے اس سے کہا کہ شہر سے نقل مکانی کر کے لشکر گاہ میں آ جائے اور اس کے پاس قیام کرے، وہ ان شاء اللہ اس کی بڑی سے بڑی خواہش پوری کر دے گا۔ ابن خلدون کا بیان ہے کہ اس پر میں نے اس کا شکریہ ادا کیا، اسے دُعا دی اور کہا ’’میری ایک اور درخواست بھی ہے۔‘‘ اس نے پوچھا ’’وہ کیا ہے‘‘ میں نے جواب دیا! یہ معلمینِ قرآن، یہ معتمدین، یہ دفتری عہدے دار اور عُمال جنھیں سلطانِ مصر اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے، ان کے لیے امان نامہ چاہتا ہوں، تاکہ وہ اسے ضرورت پڑنے پر دکھا کر اپنا بچاؤ کر سکیں۔ اس نے کاتب کو حکم دیا ’’ان کے لیے اس قسم کا امان نامہ تحریر کردو۔‘‘
ابن خلدون ۱۰ جنوری ۱۴۰۱ء کو تیمور سے پہلی بار ملا تھا۔ اس کے بعد اس فاتح کے ساتھ اس کا تعلق اسی سال فروری کے آخر تک رہا، اور اس دوران میں ان کے درمیان کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ ابن خلدون نے تیمور کے ساتھ جو ربط رکھا تو اس سے اس کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ دنیا کے فاتح اور تاریخ کے بڑے صورت گر کس طرح کی شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ دوسری طرف تیمور جو دنیا کو فتح کرنے نکلا تھا جانتا تھا کہ ابن خلدون جیسے وسیع النظر اور تجربہ رکھنے والے شخص کی اس کے دربار میں موجودگی اس کے لیے کتنی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ چناں چہ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے ابن خلدون سے شمال مغربی افریقہ کے ملکوں کے جغرافیائی اور سیاسی حالات کے بارے میں کرید کرید کر سوالات کیے اور اس کے جواب سننے کے بعد اس سے کہا کہ وہ اس کے لیے ان علاقوں کا مفصل بیان قلم بند کر دے۔ اس کی نیت دراصل یہ تھی کہ ان کا منگولی زبان میں ترجمہ کر کے اپنی اور اپنے فوجی مشیروں کی راہ نمائی کے کام میں لائے۔ ابن خلدون نے تیمور کے ہاں اپنے قیام کے زمانے میں ایک مفصل رسالہ اس موضوع پر لکھ کے دے دیا۔ لیکن جب وہ کچھ عرصہ بعدبہ حفاظت مصر پہنچ گیا تو اپنے ضمیر کی خلش دور کرنے کے لیے اس نے اتنا ہی طویل رسالہ شمال مغربی افریقہ کے حکم ران (غالباً فاس میں مرینی حاکم) کے نام لکھ کر بھیجا، یہ بتانے کے لیے کہ تاتاری کس قسم کے لوگ ہیں اور کس ارادے سے اپنے ملک سے نکلے ہوئے ہیں، اور ان کا امیر تیمور کس طرح کی شخصیت کا مالک ہے۔ مقصد یہ تھا کہ شمال مغربی افریقہ کی ریاستیں تاتاری پیش قدمی کے خطرے سے آگاہ رہیں۔
ابن خلدون ابھی تیمور کے ہاں قیام پذیر تھا جب اس فاتح نے پوری شدت کے ساتھ قلعے کا محاصرہ کیا۔ اس کے سامنے منجنیقیں اور آگ اور پتھر برسانے والی مشینیں اور شگاف ڈالنے والی توپیں نصب کر دیں۔ اہل قلعہ پر محاصرہ سخت تر ہوتا گیا اوراس کی دیواریں ہر طرف سے گرنے لگیں۔ اس پر ان لوگوں نے جو اس کی حفاظت پر مامور تھے امان طلب کی، جن میں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو سلطان مصر کی ملازمت میں رہ چکے تھے اور ایسے بھی تھے جنھیں وہ اپنے پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ تیمور نے ان کو امان دے دی اور وہ اس کے حضور میں لائے گئے۔ شہر کے باشندوں سے اس نے عقوبت دے دے کر بہت سا روپیہ حاصل کیا، اور ساتھ ہی وہ تمام املاک اور گھوڑے اور خیمے بھی اپنے قبضے میں لے لیے جنھیں سلطان مصر اپنے پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ اس کے بعد اس نے اجازت دے دی کہ شہر کے باشندوں کے مکانات لوٹ لیے جائیں اور ان کا تمام سازوسامان اور مال و متاع چھین لیا جائے، اور گھروں میں دیواروں اور چھتوں کو آگ لگا دی جائے۔ یہ آگ جلتی رہی یہاں تک کہ وہ جامع مسجد تک پہنچ گئی۔ ابن خلدون نے یہ سب کچھ دیکھ کر اتنا کہا کہ یہ فعل بے حد بزدلانہ اور قابل نفرت ہے، لیکن انسانی امور خدا کی دستِ تصّرف میں ہیں، وہ اپنی مخلوق کے ساتھ جیسا چاہتا ہے سلوک کرتا ہے اور اپنی شہنشاہی میں جس طرح سے چاہتا ہے حکم کرتا ہے۔
تیمور کے ساتھ اپنی آخری ملاقات کا ذکر ابن خلدون ان الفاظ میں کرتا ہے:
’’جب تیمور کے سفر کا زمانہ قریب آیا اور اس نے دمشق چھوڑنے کا ارادہ کرلیا تو میں ایک دن اس کی خدمت میں حاضر ہوا۔ باہمی سلام و دُعا کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوا اور کہا ’’کیا تمھارے پاس کوئی خچر ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’ہاں‘‘ اس نے کہا ’’کیا وہ اچھا ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’ہاں‘‘ اس نے کہا ’’کیا تم اسے فروخت کرو گے؟ میں تم سے اسے خریدنا چاہتا ہوں‘‘ میں نے جواب دیا ’’اﷲ آپ کو نصرت عطا فرمائے مجھ جیسا آدمی آپ جیسے آدمی کے ساتھ خرید و فروخت نہیں کر سکتا۔ البتہ میں اظہار عقیدت کے طور پر اسے آپ کی خدمت میں پیش کیے دیتا ہوں۔‘‘ اس نے کہا ’’ میرا مطلب محض یہ تھا کہ میں تمھیں اس کا صلہ فیاضی سے دوں…‘‘
وہ خاموش ہوگیا اور ساتھ ہی میں بھی۔ دربار میں میری موجودگی کے دوران میں خچر اس کے پاس لایا گیا اور پھر میں نے اسے نہیں دیکھا۔‘‘
اس ملاقات کے بعد تیمور نے ابن خلدون کو اپنے اہل و عیال میں اور اپنے لوگوں میں واپس جانے کی اجازت دے دی۔
مارچ ۱۴۰۱ء میں ابن خلدون پانچ چھہ ماہ کی غیر حاضری کے بعد مصر واپس آیا۔ سوائے اُن تاریخوں کے جن میں وہ قاضی کے عہدے پر تعینات ہوا اور پھر سے علاحدہ کر دیا گیا ہم اس کی زندگی کے آخری پانچ سالوں کے متعلق بہت کم جانتے ہیں۔ وہ اپریل ۱۴۰۱ء میں تیسری بار قاضی مقرر ہوا اور مارچ ۱۴۰۲ء میں سبک دوش کر دیا گیا۔ پھر جولائی ۱۴۰۲ء میں وہ قاضی تعینات ہوا اور ستمبر ۱۴۰۳ء میں علاحدہ کر دیا گیا۔ اس کی اگلی تقرری ۱۱ فروری ۱۴۰۵ء کو ہوئی اور اس دفعہ اس کی مدت ملازمت مئی ۱۴۰۵ء کے آخر تک رہی۔ اس کی آخری تعیناتی مارچ ۱۴۰۶ء میں ہوئی اور اس کے کچھ ہی دن بعد بدھ ۱۷ مارچ ۱۴۰۶ء کو موت نے اچانک اسے اپنے عہدے سے سبک دوش کر دیا۔ وہ قاہرہ کے بابِ نصر کے باہر صوفی قبرستان میں دفن ہوا۔
مشرق اور مغرب میں ابن خلدون کی ساری شہرت اس کے ’’مقدمے‘‘ کی وجہ سے ہے۔ جن دنوں میں عربی زبان و ادب کا مطالعہ کر رہا تھا، میں نے مولانا مسعود عالم ندوی کے ایک مختصر سے رسالے ’’عربوں کی قومی تحریک‘‘ میں ان کی ایک تحریر دیکھی جس میں انھوں نے لبنان کے بُستانی خاندان کی (جو مذہباً عیسائی تھا) عربی زبان و ادب کی جلیل القدر خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’’سلیمان بستانی نے ہومر کی ایلیڈ کا عربی نظم میں کام یاب ترجمہ کیا جو ’’الیاذہ ہومیروس‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ سلیمان بستانی کا لکھا ہوا الیاذہ کا مقدمہ عربی زبان میں ابن خلدون کے مقدمے کے بعد دوسرا مقدمہ شمار کیا جا سکتا ہے۔‘‘ مولانا مسعود عالم کی یہ رائے پڑھ کر، جو ایک لحاظ سے میرے ہادی اور مرشد تھے، میں نے عربی میں’’ مُقدمہ ابن خلدون‘‘ کی تلاش شروع کردی، اور بالآخر اسے حاصل کرنے میں کام یاب ہوگیا۔
جہاں تک عربی ادب کا تعلق ہے ابن خلدون کا ’’مقدمہ‘‘ ادب نہیں ہے، اس لیے کہ اس کی زبان و بیان میں وہ صفائی وہ بلاغت اور وہ حُسنِ ادا نہیں ہے جو عربی کے قدیم و جدید ادبا کی تحریروں میں پایا جاتا ہے۔ مقدمے کی عبارت میں طولِ کلام بھی ہے، تکرار بھی ہے، اور بعض جگہوں میں الجھاؤ بھی ہے۔ یوں سمجھیے کہ یہ ایک فلسفی کی عبارت ہے جس کا مقصد اپنا مافی الضمیر پوری طرح بیان کر دینا ہے۔ اس سے اسے کوئی غرض نہیں کہ عبارت میں اختصار کا حسن اور ادبی چاشنی پیدا ہوئی یا نہیں۔ پوری تاریخ میں بہت کم فلسفی ایسے ہوئے ہیں جن کی تحریر سہل اور ادبی خوبیوں کی حامل ہو۔ پھر ابنِ خلدون کی اپنی لفظیات ہیں اور اپنی خاص اصطلاحات ہیں جن کا مفہوم اس کے زمانے میں تو آسانی سے سمجھا جا سکتا تھا، لیکن آج کل ان کا صحیح مفہوم جاننے کے لیے ’’مقدمے‘‘ کو بار بار اور سیاق و سباق کو سامنے رکھ کر بہ غور پڑھنے کی ضرورت ہے۔ یہ مفہوم بغیر اس کاوش کے آج کل بڑے بڑوں کی سمجھ میں نہیں آتا اور وہ ابن خلدون کا مدّعا جاننے میں عجیب و غریب غلطیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اس کی ایک مثال لفظ ’’عصبیۃ‘‘ ہے جو وہ اپنے مقدمے اور اپنی تاریخ میں جگہ جگہ استعمال کرتا ہے۔ ابن خلدون نے یہ لفظ ’’گروہی شعور‘‘ کے معنوں میں استعمال کیا ہے، یعنی ایک گروہ یا ایک قبیلے کا وہ شعور جو انھیں ایک دوسرے کے ساتھ باندھ کر رکھتا ہے اور ان کی اجتماعی قوت کا باعث ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں لفظ عُصَبۃ گروہ کے معنوں میں آیا ہے۔ اخوان یوسف اپنے آپ کو عصبۃ (یعنی جتھا) کہتے تھے۔ چناں چہ لفظ ’’عصبیۃ‘‘ ابن خلدون کے ہاں مثبت معنوں میں استعمال ہوتا ہے، اُن منفی معنوں میں نہیں جو ہمارے ہاں اردو لفظ عصبیت کے لیے جاتے ہیں، یعنی تعصّب (Bias) اور بے جا طرف داری ! لیکن ہمارے ادیبِ شہیر اور عظیم دانش ور جنابِ جمیل الدین عالی بے چارے ابن خلدون پر برس پڑے ہیں۶ کہ اس نے اپنے ’’مقدمے‘‘ میں عصبیت کی اتنی تحسین کی ہے اور اس کی اہمیت جتائی ہے۔ فرماتے ہیں: ’’خاکم بدہن مجھے حیرت ہے کہ ابن خلدون جیسے زیرک عالم نے عصبیت کو اجاگر ہی اجاگر کیا، اس کے کم اور ختم کرنے کی قدرت اور امکانات پر کوئی ’’اصلاحی‘‘ کوئی تبلیغی فکر و تحریر آمیز نہیں کی۔‘‘ (Sic) کہتے ہیں ’’مجھے اپنے کالج کے زمانے سے اپنی انتہائی کم علمی کے باوجود ’’مقدمے‘‘ کے بنیادی موقفِ عصبیت سے اس وقت بھی اختلاف پیدا ہُوا اور اتنی عمر کے باوجود آج بھی ہے۔ ‘‘ بے