صحافت ایک مقدس پیشہ ہے اور پرانے زمانوں میں صحافی کو معاشرے میں اہم مقام حاصل تھا، صحافی ایمانداری ، فرض شناسی اور سچائی کے علمبردار ہوتے تھے۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے بدلتے ہوئے دور کے مطابق خود کو بدلا تو صحافی کے بھیس میں بہت سے مفاد پرست عناصر اس میدان میں آگئے جن کی وجہ سے صحافت جیسا معزز پیشہ بدنام ہوگیا، مفاد پرست عناصر نے بلیک میلنگ ، کرپشن اور بے ایمانی کے ذریعے دولت کے حصول کو اپنا دین ایمان بنا لیا جس کی وجہ سے وہ عوام کی نظروں میں گر گئے۔ ان حالات میں پرانے صحافیوں کے لئے کام کرنا مشکل تھا ، اس لئے کچھ تو صحافت سے کنارہ کش ہوگئے اور کچھ نے جہاد سمجھ کر ان حالات کا مقابلہ کیا اور پرانی روش برقرار رکھی، محنت اور ایمانداری سے اپنی ذمہ داری پوری کرتے رہے اور صحافت کے شعبہ کی آبرو بنے رہے۔ انہیں چند صحافیوں میں سے ایک معروف نام ڈاکٹر محمود قریشی کا بھی ہے، وہ حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والے صحافی تھے اور اس کے ساتھ ساتھ بہت اچھے شاعر اور نثر نگار بھی تھے۔
ڈاکٹر محمود قریشی ۱۵جنوری ۱۹۵۹ء کو غریب آباد خان پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبائواجداد ہندوستان کی ریاست بھوپال سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔محمود قریشی کے والد جمال احمد قریشی پہلے بینک آف بہاول پور اور بعدازاں NBP خان پور میں ملازمت کرتے رہے۔ ان کی والدہ جہاں افروزبھی پڑھی لکھی خاتون تھیں اور انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ادیب عالم کا کورس کیا تھا اس لئے ادبی ذوق محمود قریشی کو ورثہ میں ملا۔ محمود قریشی نے ہائی سکول خانپور سے میٹرک، ترقی تعلیم کالج سے ایف اے، بی اے بطور پرائیویٹ امیدوار اور جوہر کالج خان پور سے DHMS کی ڈگری حاصل کی۔ وہ حئی سنز شوگر ملزمیں ملازمت بھی کرتے رہے اور صلاح الدین مدیر ہفت روزہ تکبیر سے صحافتی رہنمائی بھی لی اور کافی لمبے عرصہ تک تکبیر اور چٹان لاہور سے منسلک رہے۔علاوہ ازیںمحمود قریشی خان پور سے شائع ہونے والے ادبی وسماجی رسالہ ’’الجوہر‘‘ کے ادارتی پینل میں بھی شامل رہے اور خان پور سے شائع ہونے والے روزنامہ ’’تکمیل پاکستان‘‘ کے ایڈیٹر کے طور پر بھی کام کرتے رہے اور اس کے ادبی صفحہ کے انچارج بھی رہے۔ ماہنامہ ’’ادوار‘‘ خانپور کے مدیر بھی رہے۔
ڈاکٹر محمود قریشی نے انسانی مسائل سے متاثر ہوکر شاعری شروع کی اور ۱۹۷۹ء میں پہلی غزل کہی اور گلزار نادم صابری سے اصلاح لیتے رہے۔ ان کا کلام جنگ ، نقوش،اوراق لاہور،امن کراچی جیسے ادبی جرائد واخبارات میں شائع ہوتا رہا۔ ان کی ۴۰ سے ۵۰ غزلیں ہیں اور کوئی شعری مجموعہ نہیں چھپا۔
ڈاکٹر محمود قریشی خان پور میں ہونے والی علمی وادبی سرگرمیوں کے سرگرم کارکن رہے۔راقم کو ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا’’ خان پور میں ادبی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے بزم فروغ اردو کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے صدر گلزار نادم صابری تھے جبکہ سیکرٹری محمود قریشی تھے، سینئرنائب صدر رفیق راشد تھے۔ بعد میں مقامی زبانوںسرائیکی اور پنجابی کو نمائندگی دینے کے لئے بزم فروغ اردو کا نام تبدیل کرکے بزم فروغ ادب رکھ دیا گیا جس کے تحت مختلف شعراء کے گھروں میں ادبی نشستوں کا انعقاد کیا جاتا تھا، اکثر ادبی نشستوں کی میزبانی گلزارنادم صابری کے حصہ میں آئی۔ بزم فروغ ادب نے متعدد یادگار ادبی مشاعرے وپروگرام بھی کرائے۔ ۱۹۷۸ء میں ریلوے اسٹیڈیم خان پور میں کل پاکستان مشاعرہ ہوا جس میں پاکستان بھر سے بڑے بڑے شعراء شریک ہوئے۔ اسی طرح ہندوستان سے نغمہ نگار حسرت جے پوری اور انو ملک بھی یہاں آتے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ حلقہ ارباب ذوق لاہور کی خان پور میں شاخ قائم ہوئی جس کے کوارڈینیٹر حیدر قریشی تھے جبکہ ان کے معاونین میں آسی خان پوری، حفیظ شاہد، سعید شباب، پروفیسر سید نردوش ترابی شامل تھے، یہ تنظیم بھی تھوڑا عرصہ فعال رہی۔ پروفیسر ایوب ندیم اور نذرخلیق نے بھی مل کر خان پور میںایک ادبی انجمن قائم کی تھی اور ان سب سرگرمیوں کے انسداد کے لئے خواجہ محمد ادریس، رب نواز قریشی اور سلطان محمود ڈاہر نے ’’انجمن انسداد شعرائ‘‘ کا قیام عمل میں لایا جس کا مقصد شعراء کی تذلیل وتحقیر کرنا تھا، وہ مشاعروں میں زبردستی کود پڑتے جس کی وجہ سے کئی شعرا شاعری سے تائب ہوگئے۔ یہ ادبی محافل اور سرگرمیاں ۱۹۹۵ء تک جاری رہیں۔‘‘
محمود قریشی کی غزل میں ہمیں محبت کے سچے جذبوں کا اظہار ملتا ہے، ایک سچے عاشق کی طرح وہ محبوب کے دکھ دینے پر بھی اس کو دعا دینے کی بات کرتے ہیں کیوں کہ محبوب کا گلہ کرنا آداب محبت کے خلاف ہے۔ اس طرح کی ایک غزل کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں
خط وہ لکھتا ہے تو سو نقش بنا دیتا ہے
بے طلب پھولوں کے انبار لگا دیتا ہے
نقش ان مٹ کبھی پانی پہ بناتا ہے اگر
کبھی پتھر کی لکیریں بھی مٹا دیتا ہے
ہاتھ پھیلاتا نہیں تیری محبت کا اسیر
بس تیرے نام کی آواز لگا دیتا ہے
وہ جو محمودؔ مجھے چھوڑ گیا دکھ دے کر
وہ سدا خوش رہے دل اس کو دعا دیتا ہے
مختصر بحر کی غزل کا نمونہ دیکھیں
بام پر اُن کا نکلنا دیکھنا
دل نہ کھو دینا سنبھلنا دیکھنا
لب پہ ان کا نام آ لینے تو دو
پھر میرے دل کا مچلنا دیکھنا
مان جائو گے خدا کو تم بھی دوست
صبح کو سورج کا نکلنا دیکھنا
زلف کردی تم نے گر اپنی دراز
ماہ و انجم کا تڑپنا دیکھنا
موسمِ گل ہے مگر محمود تم
دل نہ دے دینا سنبھلنا دیکھنا
محمود قریشی نے آمریت کا دور بھی دیکھا ہے جب لکھنے پر پابندی لگ جاتی ہے، صرف وہی لکھا جاتا ہے جو حکمرانوں کی منشا ہوتی ہے ، اظہار رائے کی آزادی چھین لی جاتی ہے مگر ان حالات میں بھی محمود قریشی اپنی غزل میں انقلابی پیغام دیتے ہیں اور حق بات کہنے کا درس بھی دیتے نظر آتے ہیں، وہ تعصبتاور نفرت کی بجائے پیارومحبت کے گیت گاتے ہیں اور حق کی خاطر باطل کے سامنے ڈٹ جانے کی بات کرتے ہیں،ان کی غزل کا نمونہ دیکھیں
ظلم انصاف کو، شورش کو امن مت لکھنا
جب بھی لکھنا میرے اے دوست صداقت لکھنا
زرد موسم کو بہاروں سے نہ تشبیہ دینا
آئے گلشن میں قیامت تو قیامت لکھنا
کیسے چھاپے گا غریبوں کے مسائل اخبار
جرم ٹھہرا ہے حقیقت کو حقیقت لکھنا
ہر طرف چھائی ہیں نفرت کی گھٹائیں لیکن
ہم سوچا ہے محبت ہی محبت لکھنا
کوئی بھی خوف یا حالات کی مجبوری ہو
تم تعصب کو نہ ہرگز کبھی الفت لکھنا
چاہتے اوج ہو محمودؔ اگر دنیا میں
شاہ ِ کونین کی اشعار میں مدحت لکھنا
ڈاکٹر محمود قریشی3سال قبل شدید بیمار ہوئے تھے ، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو نئی زندگی دی، اوراس کے بعد وہ دوبارہ صحافتی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے اور جوہر ہومیوپیتھک کالج خان پور میں بطور لیکچرر بھی اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیتے رہے۔ آج 8جون 2020کی صبح برادرم حبیب اللہ خیال کی کال سے ان کی اچانک وفات کا پتہ چلا تو ایسا محسوس ہوا جیسے صحافت کے آسمان کا ایک ستون گرگیا ہو، ہائے اب ہم کہاں سے لائیں گے ان جیسے ایماندار، قابل اور فرض شناس صحافی، وہ چراغ آخر شب تھے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔
پنشنری فوائد کے بارے میں پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ
پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال کا حالیہ فیصلہ میرے سامنے ہے جس میں پنشنری فوائد کے بارے...