پاکستان کے وڈیروں اور جاگیردار خاندانوں کی اصل تاریخ.
2018ء کے جنرل الیکشن کو ووٹ Vote کرنے سے پہلے برائے مہربانی اس آرٹیکل کو پورا ضرور پڑھیں!!!
پاکستان کے سیاہ و سفید کےمالک موجودہ صاحب اقتدار کے آباو اجداد کی ملک و مذہب سے غداری اور برطانیہ سے اصل وفاداری کی تاریخ…
بھٹو خاندان کا شجرہ نسب یہ ہے. غلام مرتضیٰ بھٹو شاہ نواز بٹھو 1888 تا 1957ء ذوالفقار علی بٹھو 1928 تا 1979ء
نصرت اصفہانی بٹھو شیعہ ایرانی لڑکی جس سے بٹھو نے شادی کی 1929 تا 2011ء نصرت بٹھو کی شہرت ذوالفقار علی بٹھو کی دوسری بیوی کے بطور ہے.
اس کی اولاد بینظیر بٹھو. مرتضیٰ بٹھو. شاہنواز بٹھو. اور صنم بٹھو ہیں نصرت بٹھو نسلاً ایرانی صوبہ کردستان سے تعلق رکھتی تھی 2010ء میں وفات پاگیئں..
1843ء میں چارلس نیپیئر کی قیادت میں انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کر لیا اور یہاں سے دولت کی لوٹ مار کے لئے ایک خاص طبقہ پیدا کیا جس کے ذمے عوام سے ظالمانہ لگان یعنی Tex کی وصولی اور زمینوں پر قبضہ تھا اس سے برصغیر اور سندھ میں وہ طبقہ پیدا ہوا جسے آج وڈیرا سردار اور جاگیردار کہا جاتاہے انگریزوں کی انہی مہربانیوں سے بٹھو خاندان آج بھی برصغیر کے امیر ترین خاندانوں میں شمار ہوتاہے.
برصغیر کے انہی غدار خاندانوں کی مدد سے انگریز اگلے 90 سال میں برصغیر کی ایک ہزار ملین سٹرلنگ پاونڈ دولت اور بےپناہ وسائل لوٹ کر برطانیہ منتقل کرنے میں کامیاب رہے جس سے اس خطے یعنی پاکستان اور ہندوستان میں غربت اور ثقافتی محرومی کی فضا پیدا ہوئی اور آج بھی قائم ہے خدا بخش خان اور اس کے بیٹے میر مرتضیٰ خان بٹھو نے انگریزوں اور ان کے حامی سندھی وڈیروں کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن باری باری سب وفات پاگئے اس کے بعد میر مرتضی خان کے بیٹے شاہ نواز بٹھو نے انگریزوں سے مفاہمت کی اور سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا جس سے بٹھو خاندان کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوا انگریزوں نے اسے بہت نوازا اور وہ کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہا شاہنواز بٹھو 1888 تا 1957ء برطانوی راج میں لاڑکانہ سندھ موجودہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے واحد سیاست دان تھے.
سر شاہ نواز بٹھو مشیر اعلیٰ حکومت بمبئی اور جوناگڑھ کی مسلم ریاست میں دیوان تھے وہ انگریزوں کی بمبئی پریزیڈنسی کا وزیر بھی رہا ان کو برطانیہ سے وفاداری اور ملک و قوم سے غداری کی وجہ سے پہلے سی آئی ای اور بعد ازاں برطانیہ کی طرف سے سر کا خطاب دیا گیا بٹھو خاندان سندھ میں برطانوی غاصبانہ قبضے کو مستحکم رکھنے میں ایک اہم غدار خاندان تھا بھٹو خاندان نے سندھ پر انگریزوں کا قبضہ مستحکم رکھنے کے لئے اور عوام پہ اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لئے سندھ کے پیروں کا استعمال کیا.
یہ خاندان سندھ کا ایک جاگیردار خاندان تھا جو راجپوت نسل سے تعلق رکھتا تھا اس خاندان کے ابتدائی افراد جیسا کہ محمد بخش بٹھو نے انگریزوں کے خلاف مزاہمت کی لیکن بعد کی ساری نسلیں غدار ثابت ہوئیں اور اس پر اس خاندان کے کئی افراد کو برطانیہ کی طرف سے. سر. نواب. بہادر. کے خطاب دیے گئے
اس خاندان کو ملک و قوم سے غداری کے سلسلے میں بیشمار زمینیں دی گئیں. جو سندھ کے غریب مزدوروں سے لوٹی گئیں تھیں. ایک وقت تھا کہ یہ خاندان اڑھائی لاکھ ایکڑ رقبے کا مالک تھا جو انگریز دور اور اس کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت کی صورت میں ملک و قوم کا استحصال کرتا رہا اور آج تک اس خاندان کا شمار پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتاہے جس کی دولت کا اندازہ کئی ملین ڈالرز میں ہوتاہے اور سکھر جیکب آباد عملا ان کی ریاست شمار ہوتے ہیں ان کے بڑے ملک و قوم سے غداری کرکے برطانیہ سے انعامات نہ پاتے تو آج اس خاندان کو کوئی نہ جانتا.
یہاں تک کہ یہ خاندان جو حقیقی طور پہ انگریز دور میں تالپوروں کی جگہ برطانیہ کی طرف سے وفاداری کے صلے میں آگے لایا گیا برطانیہ کی مہربانیوں سے اب بھی نہ صرف سندھ بلکہ پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں شمار ہوتاہے اور یہ دولت وہ تھی جو انگریزوں نے برصغیر کے غریب طبقے لوٹ کر اپنے ان غداروں میں تقسیم کی. حال یہ تھا کہ خود ایک انگریز مصنف ڈیوڈ چیزمین کی کتاب Landlord power in Rurad Indebtedness In colonial Sindh ( 1865. 1901) کے مطابق سندھ میں وڈیرے سیاہ و سفید کے مالک تھے اور ان کو برطانیہ کی طرف سے اپنے علاقوں میں بینچ مجسٹریٹ کی حیثیت حاصل تھی کہ وہ جیسے چاہیں غریب عوام کو ظلم کی چکی میں پیس کے رکھیں لیکن برطانیہ کے وفادار رہیں اور اس بدلے میں انہیں برطانیہ سے سر. نواب. خان . بہادر. کے خطاب اور غریب طبقے سے لوٹی گئیں زمینیں ملتی تھیں جس سے نسل در نسل ان کی مالی و سیاسی طاقت میں اضافہ ہوتا گیا اور یہ چند خاندان آج تک برصغیر میں علیٰ عہدوں پہ قابض ہیں اور غریب عوام پہ ظلم جو انگریز نے شروع کیا آج تک جاری ہے..
انگریز کے ان وفاداروں اور ملک و مذہب کے ان غداروں میں وڈیرو غلام قدیر درکھان. میر عبدالحسین خان. تالپور. کے اجداد غلام رسول جتوئی. جو انگریز کی مہربانی سے آج بھی سندھ میں اعلیٰ حیثیت رکھتاہے
بٹھو خاندان کے الله بخش بٹھو شامل تھے اور یہ عوامی میٹنگ میں انگریز افسروں کے ساتھ کرسی نشین ہوتے تھے پاکستان بننے کے بعد اس سیاست کے میدان میں بہت سے ایسے افراد بھی آنکلے جو ان انگریز کے بنائے ہوئے گھرانوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے لیکن انہوں نے سیاست کے گُر اور چالبازیاں ایسی سیکھیں کہ بڑے بڑے پرانے جعلساز سیاسی گھرانوں کو شکست دے کر اس ملک کی سیاست کے مختار بن گئے.
حضرت بہاوالدین ذکریا ملتانی کا خاندان خود کو مخدوم کہلواتا ہے یعنی وہ خاندان کہ جس کا ہر فرد خدمت کئے جانے کے لائق ہو.
مگر تاریخ گواہی دیتی ہے کہ یہ خاندان ماضی میں غاصبین ملک کی والہانہ خدمت کے لئے کوشاں اور گامزن رہا ہے یہ لوگ ایک طرف اولیاء کے مزارات مقدسہ کے گدی نشین اور مخدوم بن کر لوگوں کی خدمات و عطیات سمیٹتے رہے. اور دوسری طرف گوروں کو اپنا مخدوم بنا کر قتال ملت میں ان کے حلیف بن کر صلے میں جاگیریں لیتے رہے ہیں. سیاسی خاندانوں کے بارے میں حقائق سے پردہ اٹھانے والی تصنیف ( سیاست کےفرعون) کے مصنف جناب وکیل انجم لکھتے ہیں. سکھوں کے ابتدائی دور میں موجودہ شاہ محمود قریشی کے ہم نام لکڑ دادا شاہ محمود قریشی اس خاندان کے سربرہ اور درگاہ کا گدی نشین تھے سکھوں کے نامور حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کے باقاعدہ برسر اقتدار آنے سے پہلے ہی یہ مخدوم کافی زمینوں کے مالک بن چکے تھے اور ان کا شمار ملک کے امیرترین خاندانوں میں ہوتا تھا مابعد 1819ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ملتان شہر کو فتح کیا تو انہوں نے مخدوموں کی عزت و تکریم کے پیش نظر انہیں ساڑھے تین ہزار روپے مالیت کی جاگیر عطا کی.
وکیل انجم لکھتے ہیں کہ جب 1847ء میں جب سکھوں کی حکومت لڑکھڑانے لگی تو تاجدار برطانیہ کے انگریزوں نے مطلع سیاست پر یونین جیک کا جھنڈا گاڑ دیا. تو مخدوم شاہ محمود نے اس زمانے میں انگریز سرکار عالیہ کو جو خفیہ خبریں دیں وہ ان مخدوموں کے نئے آقا گوروں کیلئے انتہائی مفید و مددگار ثابت ہوئیں.
جب انگریز نے پنجاب پر پوری طرح قبضہ کرلیا تو انہوں نے شاہ محمود کو اعلیٰ خدمات کے معاوضے میں ایک ہزار مالیت کی جاگیر اور تا زندگی سترہ سو روپے پینشن مقرر کرنے کے علاوہ ایک پورا گاوں ان کے حوالے کردیا گیا.
وکیل انجم مزید لکھتے ہیں 1757 کی جنگ آْزادی کے خونی ہنگاموں میں جب ہندوستان کے کچلے ہوئے عوام نے برطانوی استعمار کے خلاف زندگی اور موت کی حدود کو توڑتے ہوئے آخری جدوجہد کی تو اس نازک مرحلے پر شاہ محمود نے انگریز سرکار دولت مدار کی مستحسن خدمت انجام دی.
وہ انگریز کمشنر کو ہر ایک قابل ذکر واقعہ کی اطلاح بڑی مستعدی سے دیتے رہے اپنی وفاداری کا مزید ثبوت دینے کے لِئے انہوں نے سرکاری فوج میں بیس ہزار سوار اور کافی پیادے بھنیٹ چڑھائے سرکار کے اس یار وفارار نے اس امداد کے علاوہ 25 سواروں ایک پلٹن بناکر کرنل ہملٹن کے ہمرہ باغیوں یعنی مجاہدین کی سرکوبی کے لئے روانہ کی اور انگریز آقاوں کے ساتھ مل کر مجاہدین کے ساتھ خود لڑایاں لڑیں شاہ محمود کی اس عملی امداد نے انگریزوں کی قوت بڑھانے میں اتنا کام نہیں کیا جتنا ایک مذہبی راہنما کی حیثیت سے ان کے ساتھ تعاون نے اثر کیا جب مسلمانوں نے دیکھا کہ ایک بڑا مذہبی راہنما انگریزوں کی امداد کر رہاہے تو ان کے جذبات ٹھنڈے پڑ گئے جس کا جدوجہد آزادی پر بہت اثر پڑا. ان خدمات جلیلہ کے معاوضے میں تیس ہزار نقد کے علاوہ اٹھارہ سو روپے مالیت کی جاگیر اور آٹھ کنوں پر مشتمل زمین بھی سرکار برطانیہ کی طرف سے عطا کی گئیں.
لکڑ دادا شاہ محمود قریشی 1869 ء میں وفات پا گئے تو ان کے بعد ان کا بیٹا بہاول بخش حضرت شاہ رکن اور حضرت بہاودین کے مزارات کا سجادہ نشین بنا. دلچسپ بات یہ ہے کہ جید اولیا الله کے اس گدی نشین بہاول بخش کی دستار بندی ایک انگریز ڈپٹی کمشنر کے ہاتھو بڑے شان و شوکت سے ہوئی. احباب یاد رہے کہ جب انگریزوں اور افغانوں کے مابین جنگ تو اس جنگ میں تو انگریزوں کو عبرتناک شکست ہوئی اس جنگ میں بھی جہاں ایک طرف مجاہدین اسلام آج پاکستان کے علاقے میں واقعہ پہاڑوں میں افغانوں کے ہمرہ انگریزوں کے خلاف لڑ رہے تھے تو دوسری طرف جید اولیاء کے گدی نشین انگریزوں کا ساتھ دے کر امت مسلمہ سے غداری کے عوض وہ انگریز سے اپنی خدمات کا صلہ وصول کر رہے تھے اس جنگ میں نقل و حمل کیلئے بہاول دین بخش نے اونٹوں کا ایک دستہ بھی افغان جنگ میں انگریز سرکار کی خدمت میں پیش کیا تھا. مابعد انہی خدمات کے صلہ میں 1877 میں بہاول دین بخش کو آنریری مجسٹریٹ مقرر کیا گیا.
اور کچھ عرصہ بعد وہ ملتان میونسپل کمیٹی کے ممبر بنا دیے گئے اور انہیں صوبائی درباری کی نشست بھی الاٹ ہوگئی بہاول بخش کی افغان جنگ میں انگریزوں کے لئے پیش کی گئی خدمات کو سراہنے کیلئے 1880 میں لاہور میں ایک شاندار شاہی دربار لگایا گیاتھا.
احباب قابل غور ہے کہ شاہ محمود قریشی کے آباو اجداد اور مرزا غلام احمد قادیانی کے خاندان انگریزوں کی ایجنٹی کا کردار کم و بیش ایک جیسا رہاہے. دونوں نے برصغیر میں انگریزوں کے خلاف مسلم مزاحمت کو کچلنے اور گوروں کا تسلط مضبوط کرنے میں ہر مدد فراہم کرکے گوروں کے کارندوں کا کردار بخوبی نبھایا اس خاندان کی طرف سے انگریزوں کا ساتھ دینے اور قوم سے غداری کا زمانہ بھی وہی ہے جس دور میں انگریزوں کا ایک اور خود کاشتہ پودا مرزا غلام احمد قادیانی انگریزوں کے خلاف آزادی و اسلامی جہاد کی مخالفت میں مغربی برانڈ دجالی نظریات کی تشہیر کرکے اپنے گورے آقاوں کی نمک حلالی کا حق ادا کررہا تھا.
درگاہ شاہ رکن الدین عالم. کے آج کے سجادہ نشین شاہ محمود قریشی صاحب بھی گوروں کے دست راست اپنے آباو اجداد کے نقش قدم پر گامزن ہیں کچھ تعجب نہیں کہ موصوف کبھی شرم و حیا کے پیکر پیر صاحب بن کر اپنی مریدنیوں کے سر پر دست شفقت دراز فرماتے نظر آتے ہیں اور کبھی سر سے شرم و حیا اتار کر اسلام اور پاکستان کی دوشمن شراب کے نشے میں بدمست ہنری کلنٹن کے ساتھ سر سے سر جوڑے عاشقانہ مزاج دکھا کر امت مسلمہ کے سر شرم سے جھکا دیتے ہیں. صرف پاکستانی پریس ہی میں نہیں بلکہ مغربی پریس میں بھی بےشمار ایسی تصاویر شائع ہوچکی ہیں کہ موصوف کو مغربی دوروں میں اکثر شراب کی محفلوں میں جام لہراتے دیکھا جاتا رہاہے. عوام کیسے بھول سکتے ہیں کہ یہی شاہ محمود قریشی کبھی پیپلزپارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں شامل ہوجاتے ہیں پھر پنجاب کی وزارت اعلی نہ ملنے پر فوری طور پر پیپلز پارٹی میں واپس لوٹ گئے تھے.
اور حسب دستور سیاست ایک بار پھر ہوس اقتدار میں عمران خان کی مقبولیت دیکھتے ہوئے ایک محفوظ و مقبول پلیٹ فارم کی تلاش میں ایک چڑھتے سورج کے پجاری بنے ہیں. باکل اسی طرح جیسے ان کے آباو اجداد اپنے سابقہ آقا و سکھوں کی طاقت دم توڑتے ہی ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور انگریزوں کے ساتھ جا ملے.
قوم کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ 1857 ء کی جنگ میں غداری کرنے والے بابا شاہ محمود قریشی ہو یا اکیسویں صدی میں پرویز مشرف اور زرداری مافیہ کا حصہ اور امریکہ کا خادم بن کر ملک و ملت کے سودے کرنے والا موجودہ شاہ محمود قریشی یہ لوگ نسل در نسل انگریز کے غلام ابن غلام اور غدار ہیں قوم کے افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایسے نا عاقبت اندیش اور ضمیر فروش افراد ملک کی ہر ایک سیاسی جماعت میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں.
بہاول پور میں آباد عربی نزاد قبیلے عباسی کے نواب. نواب آف بہاول پور نے انگریز کے ساتھ وفاداری نبھائی. لہٰذا انگریز سرکار نے پاکستان کے قیام تک بہاول پور کی ریاست کا والی عربی نزاد قبیلے قریشی کے سربراہ اور گدی نشین شاہ محمود نے رائے احمد کھرل کی انگریزوں کے خلاف پنجاب کی آزادی کی تحریک میں انگریز کمشنر کو مقامی آبادی کی بے چینی کے متعلق معلومات اور اطلاعات پہنچائیں اور سرکاری فوج کی مدد کیلئے 25 سو سواروں کی ایک ملتانی پلٹن تیار کرکے دی.
لہٰذا انگریزوں نے اس خدمت کے عوض اسے قیمتی جاگیر نقد انعام اور آٹھ کنویں زمین عطا کی.
ملتان میں آباد عربی نزاد قبیلے گیلانی کے سربراہ اور گدی نشین مخدوم سید نور شاہ نے انگریز کا ساتھ دیا لہٰذا انگریز سرکار نے اس خدمت کے عوض خلعت اور سند سے نوازا اور بعد میں کاسہ لیسی کے صلے گیلانی خاندان کو جاگیریں بھی ملیں.. ملتان میں آباد پٹھان قبیلے کے گردیزی خاندان نے انگریز سرکار کا پورا ساتھ دیا. لہٰذا انگریز سرکار نے انگریز کی مدد کرنے کے صلے میں جاگیریں عطا کیں. خان گڑھ میں آباد پٹھان قبیلے کے نوابذدگان کے جد امجد اللہ داد خان نے انگریزوں کے خلاف تحریک چلانے والوں کو کچلنے میں انگریزوں کا بھرپور ساتھ دیا. لہٰذا انگریز نے اس خدمت کے عوض اسے دو بار خصوصی خلعت دی اور انعام میں جاگیریں عطا کیں. نوابزادہ نصرالله ان کی اولاد سے تھے.
قصور میں آباد پٹھان قبیلے ممدوٹ نے انگریز کا ساتھ دیا. چنانچہ اس خاندان کو قیمتی جاگیر اور عہدے دیے گئے. عیسیٰ خیل میں آباد پٹھان قبیلے کے نیازیوں نے انگریز کا بھرپور ساتھ دیا. چنانچہ اس خاندان کو قیمتی جاگیر اور اعلیٰ منصب دیے گئے. راجن پور میں آباد بلوچ قبیلے مزاری کے سردار امام بخش مزاری نے کھل کر انگریزوں کا ساتھ دیا.
انگریز سرکار نے انگریز کی مدد کرنے کے صلے میں اسے سر کا خطاب دیا اور جاگیریں عطا کیں راجن پور میں آباد بلوچ قبیلے دریشک کے سردار بجاران خان دریشک نے انگریزوں کے خلاف تحریک چلانے والوں کے خلاف لڑنے کے لئے دریشکوں کا ایک خصوصی دستہ انگریزوں کے پاس بھیجا انگریز سرکار نے انگریز کی مدد کے صلے میں دریشکوں کو جاگیریں عطا کیں.
مکھڈ شریف کے عربی نزاد پیروں نے انگریز کا پورا ساتھ دیا. چنانچہ اس خاندان کو قیمتی جاگیریں اور عہدے دیے گئے. لاہور میں آباد اہل تشیع ایرانی نسل قزلباش سردار علی رضا نے ایک گھڑ سوار دستہ تیار کرکے جنگ آزادی میں لڑنے والے مسلمان اور ہندو سپاہیوں کے خلاف انگریزوں کو بھیجا اس دستے کے ساتھ علی رضا کا بھائی محمد تقی خان تھا جو مجاہدوں کے ساتھ لڑائی میں مارا گیا قزلباشوں کو جنگ کے بعد خطاب سند وظیفے اور 147 دیہات کی تعلقہ داری سونپ دی گئی. لاہور کے کلاں شیخ خاندان کے سربراہ شیخ امام دین نے جنگ آزادی میں 200 دستے خصوصی طور پر دہلی بھجوائے جنہوں نے خریت پسندوں کا خون بہایا انہی خدمات کے بدلے انگریز نے ان کو بہت بڑی جاگیر بخشی. گوجرانوالہ کے چٹھہ خاندان کے جان محمد نے 1857ء میں انگریز کا ساتھ دیا. اس خاندان کو قیمتی جاگیر اور عہدے ملے. سرگودھا کے ٹوانوں کے گھڑ سواروں نے دہلی کی تسخیر میں بہادری کے خوب جوہر دکھائے چنانچہ انہیں خطاب پینشن اور لمبی چوڑی جاگیر ملی. خانیوال کے ڈاھوں نے انگریز کا ساتھ دیا اس خاندان کو بھی قیمتی جاگیر اور منصب ملے. کالا باغ کے نوابوں نے انگریز کا بھرپور ساتھ دیا چنانچہ اس خاندان کو عہدے اور جاگیریں ملی.
پنجابیوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ شہیدوں کے ساتھ غداری کی وجہ سے انگریز دور میں سربلند ہونے والوں کی اولاد آج بھی ممتاز اور معزز ہے.
جھنگ کے سیال سردار بھی کسی سے پیچھے نہ رہے انہوں نے انگریز فوج کی مدد کے لئے ایک فوج بھیجی جس کے عوض ان کو جاگیر ملی .
اس قسم کے غدارانہ خدمات کیلئے انگریز نے نونوں پنڈ دادن خان کے کھوکھروں. جودھروں. گھیبوں. خانوں. مکھڈ شریف کے پیروں. عوانوں کالاباغ کے نوابوں. عیسیٰ خیل کے نیازیوں اور کئی دوسرے سر کرداہ خاندانوں کو عزت خطاب وظیفے اور وسیع جاگیریں عطا ہوئیں پاکستانیوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ شہیدوں کے ساتھ غداری کی وجہ سے انگریز دور میں سربلند ہونے والوں کی اولاد آج بھی ممتاز اور معزز ہے . برصغیر میں قدم جمانے کے لئے انگریزوں نے یہاں کے وڈیروں جاگیرداروں نوابوں شہزادوں. سوّل پولیس اور آرمی سروس کے ممبران پر مسلسل نوازشات کے ذریعے وفاداری یقینی بنائی. نتیجاً یہ مراعات یافتہ لوگ انگریزوں سے بھی زیادہ انگریزوں کے وفادار ثابت ہوئے پھر ان کے ذریعہ سے انگریزوں نے بقیہ عوام کو قابو میں رکھا. اب انگریزوں نے ان لوگوں کو ترغیب دی کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھائیں یہ کلاسز طویل عرصے سے انگریزوں کی سروس میں تھے اور ان کی مراعات یافتہ بھی تھے لہٰذا وفاداری کے لحاظ سے بھی قابل اعتماد تھے انگریزوں کی سرپرستی انہیں خوب راس آئی اور خوب ترقی کی ان لوگوں کی اولادوں کو فوج میں لانے کا مقصد ان کلاسز کی مسلسل وفاداری یقینی بنانی تھی. اس لئے انگریزوں نے ان کے بچوں کے لئے خصوصی کا بندوبست کیا ان کیلئے چیفس کالج جیسے کئی ایلیٹ تعلیمی ادارے کھولے.
ملٹری اور کیڈٹ کالجز اسی دور میں متعارف کروائے گئے ان ایلیٹ تعلیمی اداروں میں سرداروں جاگیرداروں اور نوابوں وغیرہ کے بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی بلکہ انہیں چھوٹی عمر میں ہی ان تعلیمی اداروں کی نرسری برانچز میں داخل کیا جاتا تھا. جہاں انگریز آیائیں ان کی تربیت کرتیں. بلوچ سرداروں میں مری. بگٹی . مزاری اور دیگر اہم قبائل کے بچوں کو بچپن میں ہی داخل کیا جاتا تھا. اسی پالیسی کے تحت دی گئی بلکہ اعلی تعلیم کے لئے انہیں انگلینڈ بھی بھیجا گیا. ایسے لوگوں کو تعلیم دینے سے انگریزوں کو دو اہم فائدے ہوتے تھے. ایک تو ان لوگوں نے انگریزی علم اپنے اپنے میں بلند رکھا. جس سے انگریزوں کو کسی قسم کی بغاوت کا خطرہ نہ رہا.
دوسرا اس دور میں تحریک آزادی زور پکڑ رہی تھی اور یہ لوگ تحریک آزادی کے سخت مخالف تھے. ان انگریزی سکولوں کے تعلیم یافتہ نوابزدگان کی وجہ سے انگریز سامراج کو سہارا ملا. یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے انگریز سے بھی پہلے اپنے دیس کے قوم پرستوں کا مقابلہ کیا. اگر ان لوگوں کا بس چلتا تو برصغیر کو کبھی آزاد نہ ہونے دیتے. برصغیر میں برطانوی اقتدار کی توسیع کے دوران بلوچ سرداروں کو نواب کے خطاب کی پیشکش کرتے ہوئے انکی حمایت حاصل کی اور یوں برطانوی اپنی نئی ریاست کی مغربی سرحد میں نو آبادیاتی کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے . برصغیر کی تقسیم کے بعد یہی طرز عمل پاکستان کے وڈیروں جاگیراروں کو ورثہ میں ملا. سادہ الفاظ میں یوں کہا جاسکتاہے کہ پاکستان میں حکمرانی چھلانگ لگا کر ان رواتی جاگیرداروں اور وڈیروں کے ہاتھ آئی.
کب تک یہ قوم سوتی رہے گی????
اندازِ بیاں اگرچے میرا شوخ نہیں.
شاید کہ تیرے دل میں اُترجائے میری بات.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“