میں نے اپنی آنکھوں کو
خوشی کے ایک بھی آنسو سے
بھیگنے نہیں دیا
سارے آنسو دکھ کے ہیں
رفاقت کے
محبت کے
رشتوں کی ریاضت کے
بےفیض گزرے سالوں کے
زردی اوڑھے لمحوں کے
خاکستر جلتی دوپہروں کے
آلام کے، مصائب کے
“اپنے گھر” کی چوکھٹ پر قدم رکھتے ہی
یہ سارے دکھ الگ کیے
اور خوشی کو جی کے دیکھا
زندگی کو پی کے دیکھا
میں نے اپنی آنکھوں کو
خوشی کے ایک بھی آنسو سے
بھیگنے نہیں دیا
بیٹی سے بھی کہہ دیا
اب جو بھی تم جہاں رکھو
جس کونے میں بھی بیٹھو تم
جتنا چاہو گندا کرو
جب جی چاہے سمیٹو تم
جیسے مجھے سمیٹا ہے
مجھے سنبھال کے رکھا ہے
یہ سب تمہارا اپنا ہے
آنسو غم کے ہوں یا خوشی کے ہوں
دل مٹھی میں لے لیتے ہیں
جینے ہی نہیں دیتے
پہلے ساتھ لیے پھرتے تھے
پامالی اور بے یقینی
اب یقین کا پہلا پھول
آنگن میں کھل اٹھا ہے
سو
میں نے اپنی آنکھوں کو
خوشی کے ایک بھی آنسو سے
بھیگنے نہیں دیا
اختر رضا سلیمی کے ناول جاگے ہیں خواب میں پر ایک نظر
"جاگے ہیں خواب میں" اختر رضا سلیمی کا ناول ہے۔ اس ناول کا لوکیل ٹیکسلا، ایبٹ آباد ، بالا کوٹ،...