(Last Updated On: )
کربِ اندوہِ نہانی کم ہے
میری آشفتہ بیانی کم ہے
خط میں پوشیدہ ہیں ساری باتیں
اور پیغام زبانی کم ہے
نعمتِ حرفِ غنا ہے پھر بھی
میرے دریا کی روانی کم ہے
اپنے ساحل پہ پہنچ جاؤں گا
راہ آسان گرانی کم ہے