شہوار اسٹیج پر حوریہ کے پاس چلی گئی
“تمہیں پتہ تھا”وہ اسکے کان میں گھس کر اچانک بولی تو حوریہ اچانک حملے سے ڈر گئی
“شہوار میں دلہن بنی ہوئی ہوں گھر جاکر بتاؤں گی”حوریہ جھنجلا کر بولی
“تم ڈفر بات نہیں کرنا مجھ سے”شہوار غصے سے کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی
______________________
گھر آکر شہوار کو سب گھیرے بیٹھے تھے
“کیسا لگا سرپرائیز ؟” اریبہ اسکے بیڈ پر دھرم سے بیٹھتے ہوئی بولی
“چپ کرو سب کے سب مجھ سے کوئی بات نہ کرے کچھ پتہ بھی کتنا شرمندہ ہوئی میں ؟؟” شہوار کو اپنی فیضان کے سامنے کہی ہوئی بات نہیں بھولتی تھی
“اسمیں شرمندگی کی کیا بات بھلا؟” ارسلان بولا
“بھئی میری بہن نے نا سمجھی میں شایان صاحب کے سامنے اقرار محبت کرلیا” فیضان نے اسکو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولا
“آپ آپ آف بھیا آپ تو بالکل بات نہ کریں مجھ سے” شہوار اسکا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹا کر بولی
سب اسکی حرکتوں اور غصے پر ہنس رہے تھے تب شایان کمرے میں آگیا
“کیا ہوا کون جوکر بنا ہوا ہے جو تم لوگ ہنس رہے ہو؟” شایان ان سب کو ہنستا دیکھ کر حیرانی سے بولا
“آپکی بیوی”اریبہ نے زور آواز سے بولا اور شہوار شایان کی آنے پر فیضان کے قریب گھس گئی۔
“ہائے شانی بھائی شہوار کو پلین بتادیں” کاشان نے کہا تو شایان نے شہوار کی طرف دیکھا اب وہ اسکی تھی وہ اسکو نظر بھر کے دیکھنا چاہتا تھا پر ہائے یہ ظالم لوگ موقع ہی نہیں دیتے تھے
“بھئی دیکھو ہوا یہ تھا کہ ایک دن شہوار بی بی جلدی سو گئی تھیں شایان بھائی نے دادی کے سامنے شہوار سے شادی کی خواہش ظاہر کردی تھی پھر دادی نے پورے گھر کو اپنے کمرے میں بلایا علاوہ بڑی تائی اور بینش آپی کے وہ دونوں ویسے بھی شاپنگ کرنے گئی ہوئی تھیں پھر دادی نے سب سے مشورہ مانگا بڑے تایا نے کہا کہ عین نکاح کے وقت ان دونوں کا بھی نکاح کریں گے اور تائی کو بھی اسی وقت بتا دیں گے تاکہ وہ کچھ نہ بول سکیں اس طرح آپ بی بی اور شایان بھائی رشتہ زوجیت میں بندھ گئے” کاشان نے کہانی سنائی جسپر سب مسکرا رہے تھے اور شہوار شایان کی بے تابانہ نظروں سے نروس ہورہی تھی۔
حوریہ فیضان کو دیکھ رہی تھی ایک دم فیضان نے بھی اپنی نظریں اٹھائیں اور دونوں کی نظریں ملیں تو حوریہ نے فورا نظریں جھکالیں جسپر فیضان مسکرا دیا یہ لڑکی اسکو بہت پیاری ہوگئی تھی۔
“چلو بھی میں جارہا ہوں سونے میری بیگم تو آتی ہی نہیں ہے”حمزہ نے بے چارگی سے کہا تو سب مسکرا دیے
“تو آپ چلے جائیں نا”اریبہ نے دہائی دی
“ہائے تمہاری ظالم بہن ہے بھی تو دادی کے کمرے میں”اسکے انداز پر سبکی ہنسی نکل گئی
“میں بھی چلی سونے”حوریہ فیضان کی نظروں سے گھبرا کر اٹھ گئی باقی سب بھی چلے گئے
“آپ بھی چلیں بیٹا ادھر کہاں رکے ہیں یاد رہے ابھی شادی نہیں ہوئی”فیضان شایان کو بولا جسکا اٹھنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آرہا تھا
“ابے جا نا”شایان فیضان کو کمرے سے باہر نکال کر دروازہ لاک کر کے شہوار کے پاس آیا اور اسکو کندھے سے تھام کر اسکا رخ اپنی طرف کیا
“خوش ہو سوئیٹی” مسکرا کر پوچھا
“جی بہت” جھکی نظروں سے جواب دیا گیا
“شہوار ماما بہت کچھ بولیں گی لیکن میری خاطر ابھی کچھ دن برداشت کرلینا میں آہستہ آہستہ انکو منا لوں گا اوکے؟” وہ جانتا تھا کہ شہوار اندر سے پریشان بھی ہے
“اگر وہ نہیں مانیں تو”شہوار نے ڈرتے ڈرتے پوچھا
“مان جائیں گی تم بھی دعا کرو میں بھی دلوں کو پلٹنے والی اللہ کی ذات ہے میں یقین سے کہ سکتا ہوں ایک دن انکے دل میں تمہاری قدر ضرور آئیگی”شایان اسکو تسلی دیتے ہوئے بولا
“جی”شہوار مسکرادی
“گڈ نائٹ لو یو سوئٹ ہارٹ” شایان اسکے ماتھے پر بوسہ دیکر چلا گیا اور شہوار اسکے لمس کو ہی محسوس کرتی رہ گئی ایک پیارا احساس اسکے دل میں اتر آیا دنیا میں بھائی کے علاوہ بھی ایک شخص ہے جو اس سے بے پناہ محبت کرتا ہے ایک دم اسکو اپنا آپ معتبر لگنے لگا
___________________
“آپ نے فیصلہ کرلیا اور وہ ہوگیا میں اپنی بہن کو زبان دے چکی تھی کہ بینش کو میں اپنی بہو بناؤں گی”بڑی تائی ہال سے واپس آکر تایا پر چیخ رہی تھیں
“آہستہ بولو مجھے میرے بیٹے کی خوشی عزیز ہے”تایا نے سخت لہجے میں کہا
“وہ میرا بھی بیٹا ہے جیسے آپکا حق ہے ویسا ہی میرا بھی حق ہے”تائی مسلسل تایا کا دماغ کھارہی تھیں اب تایا کا ضبط جواب دے گیا
“اب ایک لفظ بھی اور کہا تو بھول جاؤں گا تم ایک عورت اور میری بیوی ہو”تایا کا لہجہ بہت سختی لیے ہوئے تھا تائی خاموش ہوگئیں لیکن انکا ذہن شیطانی منصوبے بنانے لگا تھا
جب انکی بہن کی شادی مصطفی کے بجائے احمر سے ہوئی تو انکی بہن پر زندگی تنگ ہوگئی احمر انکو نا بیوی کی حیثیت دیتا نا انکو پیسے دیتا بینش کی پیدایش کے بعد سمیہ بیگم نے اسکو اپنی بہو بنانے کا اپنی بہن سے وعدہ کرلیا تاکہ انکا کچھ بوجھ ہلکا کرسکیں اب اچانک شایان کا نکاح وہ بھی شہوار سے ان کی برداشت سے باہر تھا
__________________
دروازہ کی دستک پر حوریہ نے دروازہ کھولا تو سامنے کھڑے فیضان کو دیکھ کر حیران رہ گئی آج سے پہلے وہ اسکے کمرے میں نہیں آیا تھا
:ایسے مت دیکھو انسان ہی ہوں کوئی غیر مخلوق نہیں”حوریہ کے مسلسل دیکھنے پر فیضان نے مسکراتے ہوئے کہا
“آآآپ”حوریہ نے کچھ کہنے کیلئے لب کھولے ہی تھے کہ فیضان نے کہا
“اندر آنے دو کیا سزا دینے کا ارادہ ہے؟”فیضان نے مسکراتے ہوئے کہا تو حوریہ سائیڈ پر ہوگئی فیضان اندر آیا
“خوش ہو؟” فیضان نے اس سے پوچھا
“جی” حوریہ فقط اتنا ہی کہ پائی
“پیاری لگ رہی تھی اپنے نام کی طرح” فیضان نے مسکراتے ہوئے کہا
(انکو کیا ہوگیا یہ ایسے تو نہیں تھے) حوریہ نے دل میں سوچا وہ نروس ہوئے جارہی تھی
“مجھے وہ اسکیچس والی ڈائری دو جو آپ نے میری محبت میں بنائے تھے”فیضان نے کہنے پر حوریہ شرم سے پانی پانی ہوگئی
“نہیں”
“کیوں نہیں”
“پلیز نا” حوریہ نے بے چارگی سے کہا
“اوکے”فیضان جانے لگا حوریہ گھبرا گئی
“فیضان” اسکے لبوں سے بطور استحقاق اپنا نام سن کر فیضان کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ آئی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا حوریہ ڈائری آگے بڑھا رہی تھی
“تھینکس” فیضان ڈائری تھامتے ہوئے مسکرا کر بولا
“جانتی ہو شہوار کے علاوہ مجھے کس لڑکی سے پیار ہے؟” فیضان نے سنجیدگی سے کہا تو حوریہ کے سر پر بم پھٹا
“کس سے؟” حوریہ کی آواز دور کہیں سے آئی
فیضان اسکا ہاتھ پکڑ کر شیشے کے سامنے لے گیا اسکے پیچھے آکر کندھوں سے تھام کر شیشے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا
“اس لڑکی سے” حوریہ بے اختیار مسکرادی
“چلتا ہوں اپنی شکل کے کارٹون بھی دیکھنے ہیں” وہ ڈائری اسکے سامنے لہراتے ہوئے بولا
“میں نے کارٹون نہیں بنائے”حوریہ اپنی ڈرائینگ کے بارے میں ایسا سن کر ہتھے سے اکھڑ گئی فیضان نے قہقہہ لگایا اور اسکے بال بگاڑتا گڈ نائٹ کہتا ہوا چلا گیا۔
__________________
“بینش” سمیہ بیگم اسکے کمرے میں داخل ہوئیں تو وہ اوندھی لیٹی ہوئے تھی
“کیا ہوا بینش” سمیہ بیگم نے فکرمندی سے کہا
” خالہ جانی آپ مجھ سے پیار کرتی ہیں نا” وہ اٹھ کر انکے گلے گئی
“ہاں بیٹا یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے”انہوں نے اسکو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا
“خالی جانی میں شایان سے محبت کرتی ہوں لیکن اس سے شہوار سے نکاح کرلیا میں مر جاؤں گی” بینش نے کہا تو سمیہ بیگم کو شہوار سے مزید نفرت ہونے لگی
“تم فکر نہیں کرو میں کرواؤں گی تمہاری اس سے شادی وہ میرا بیٹا ہے میری بات ضرور مانے گا”انہوں نے اسکو تسلی دی
“میں جانتی ہوں آپ میری خواہش ضرور پوری کریں گی”بینش نے انکو پیار کیا اور الگ ہوگئی
” چلو اب ناشتہ کرنے آؤ”
“جی میں چینج کر کے آئی” تائی چلی گئیں
“فیضان تمہارے تھپڑ کی قیمت بہت مہنگی ہے” وہ اسکے تصور سے مخاطب ہوئی اور مسکراتے ہوئے واش چلی گئی
“شایان مجھے میری نانی کے گھر چھوڑ دو پھر اپنے آفس سے واپسی پر لے لینا” وہ سب ناشتہ کر رہے تھے جب بینش نے نیا شوشہ چھوڑا شہوار نے بے اختیار پہلو بدلا شایان نے محسوس نہیں کیا تھا
” ٹھیک ہے” شایان نے اثبات میں جواب دیا
پھر وہ بینش کو لے کر چلا گیا اور شہوار منہ تکتی رہ گئی
_______________
رات کے وقت شایان جب بینش کو ساتھ لایا تو شہوار اسوقت گارڈن میں ٹہل رہی تھی
“تھینک یو سو مچ شایان” بینش شہوار کو دیکھ چکی تھی اسی لئے اسکے سامنے شایان کو تھینکس بولنا ضروری سمجھا
“پلیژر”شایان نے مسکرا کر جواب دیا شہوار نے رخ پھیر لیا
“ارے شہوار کیسی ہو”بینش جان بوجھ کر اس سے مخاطب ہوئی شہوار اندر تک جل گئی
“ٹھیک ہوں” فقط اتنا ہی کہا اور روم کی جانب چل دی
مسلسل دستک پر بھی شہوار نے جب دروازہ نہ کھولا تو شایان اندر آگیا وہ اوندھے منہ لیٹی ہوئی تھی
“شہوار کیا ہوا”وہ پریشانی سے گویا ہوا
“کچھ نہیں آپ جائیں یہاں سے”شہوار لیٹے لیٹے بولی
شایان نے آگے بڑھ کر اسکا منہ اپنی جانب کیا اور اسکو مسکرا کر دیکھنے لگا
“بتاؤ سوئیٹ ہارٹ کیا غلطی سرزرد ہوگئی مجھ سے؟شایان پیار سے دیکھتے ہوئے بولا
“کہاں گئے تھے آپ بینش آپی کو لے کر”شہوار نے شکوہ کیا
“ارے میں تو بس چھوڑنے گیا اور لے کر آگیا بس”
“آپ ان سے مسکرا مسکرا کر بھی بات کر رہے تھے”ایک اور شکوہ کیا
“کب بات کی”شایان حیران ہوا تھا
“انکے تھینکس کے جواب میں آپ نے انکو ہلیژر اتنے مسکرا کر کہا تھا” شہوار کے معصومانہ انداز پر شایان کو اسپر بے انتہا پیار آیا اور اسکو اپنی بانہوں میں چھپالیا اور شہوار اسکے سینے سے سر رکھ کر ساری ناراضگی بھول گئی
“چاکلیٹ کھاؤ گی؟” شایان جانتا تھا اسکو چاکلیٹ بہت پسند ہے اور ہر روز اسکیلئے ایک چاکلیٹ ضرور لاتا تھا
“دیں” وہ ہاتھ پھیلا کر بولی تو شایان نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا
“چاکلیٹ دیں ہاتھ نہیں”وہ ہنستے ہوئے بولی
“یہ زیادہ مزے کا ہے”شہوار اسکی بات سے نروس ہونے لگی
“آپ دے رہے ہیں یا ہوجاوں واپس ناراض؟”
“یہ لو پاگل لڑکی”شایان نے اسکو جیب سے نکال۔کر چاکلیٹ دے دی وہ مسکرادی تب فیضان اندر داخل ہوا
“تم۔کچھ زیادہ ہی اس کمرے میں نہیں پائے جاتے”فیضان نے ابرو اچکا کر بولا
“میں کمرے میں ہوتا ہوں کم از کم تمہاری طرح چھت پر کھلم کھلا اظہار نہیں کر رہا ہوتا”شایان کی بات پر فیضان نے اسکے کاندھے پر ایک مکہ جڑ دیا
کل جب وہ رات کو چھت پر گیا تو حوریہ وہاں پہلے سے تھی تو وہ دونوں باتیں کرنے لگ گئے اور شایان نے دیکھ لیا تب سے اب تک۔اسکا ریکارڈ لگا رہا تھا
“کیا بھائی آپ چھت پر حوریہ سے باتیں کرتے ہیں” شہوار نے حیرانی سے پوچھا کیونکہ یہ اسکی عادتوں کے خلاف تھا
“نہیں گڑیا وہ تو حوریہ خود آگئی تھی میں تو بس۔۔۔”فیضان سر کھجا کر صفائی دینے لگا
“ہاں میں تو بہت شریف ہوں”شایان نے اسکی طرف سے جملہ مکمل کیا جسپر ایک اور مکہ کھایا
“ہاں اسمیں کوئی شک نہیں میرے بھائی بہت شریف ہیں حوریہ خود ہی آئی ہوگی وہ ویسے بھی بہت بے شرم ہے”شہوار ہنستے ہوئے بولی کیونکہ حوریہ کی عادتوں سے شہوار اچھی طرح واقف تھی وہ بہت رومینٹک لڑکی تھی
“کیا بولا تم نے”پیچھے سے حوریہ کی آواز آئی تو شہوار گڑبراگئی
“یہی کی ماشاءاللہ اللہ نظر بد سے بچائے حوریہ بہت ہی اچھی لڑکی ہے شرمیلی ہے بہت زیادہ اور رومینس کی تو اسپیلنگ بھی نہیں آتی وغیرہ وغیرہ”شہوار کے انداز پر فیضان اور شایان کے ساتھ حوریہ بھی ہنس دی
_____________
“تم شہوار سے بہت پیار کرتے ہو نا” فیضان لاونچ میں بیٹھا تھا تب اچانک بینش آئی اور ڈائریکٹ یہ سوال کیا
“ہاں تو بہن ہے میری” فیضان نے روکھے انداز میں جواب دیا
“اسکےدکھ سے تمہیں تکلیف تو ہوگی”بینش نجانے ایسی باتیں کیوں کر رہی تھی فیضان کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا
“مجھے فضول باتیں کرنے کا شوق نہیں” اس سے پہلے کہ بینش اسکو مزید الجھن میں ڈالتی فیضان اٹھ کر چلا گیا
“مجھے اگنور کرنے کی قیمت بھی چکانی ہے تمہیں فیضان صاحب” وہ دل میں سوچتے ہوئے زہریلے انداز میں مسکرادی
_________________
چھٹیاں ختم ہوگئی تھیں پھوپھو اپنی فیملی سمیت واپس اپنے سسرال چلی گئی تھیں جس سے گھر بھی سنا سنا ہوگیا تھا
حمزہ اور کاشان اور بڑے تایا بھی لندن چلے گئے البتہ چھوٹے تایا ابھی یہیں تھے۔حوریہ اور شہوار کی یونی بھی اسٹارٹ ہوگئی تھی
“جلدی چلو شہوار آج پہلا دن ہے اور ایک نئی میم آئی ہیں انہی کا پہلا پیریڈ ہے ہم کہیں لیٹ نہ ہوجائیں”حوریہ جلدی جلدی ناشتہ کرتے ہوئے بولی
“تمہیں کیسے پتہ” شہوار نے حیرانی سے پوچھا
“فضہ نے بتایا تھا” وہ پرنسپل کی بیٹی تھی
” اوہ اچھا چلو جلدی شایان کو میں بلاتی ہوں رکو”وہ کہتے ہوئے شایان کے کمرے کی جانب چل دی اور حوریہ مسکرا کر اسکیلئے اسکی دائمی خوشیوں کی دعا مانگنے لگی
“شایان جلدی چلیں نا میرا پیریڈ مس ہوجائیگا میم پر غلط امپریشن پڑے گا”وہ اسکے کمرے میں آکر شور مچانے لگی
“آرہا ہوں بھئی کہاں تو محترمہ میرے ساتھ جانے پر راضی نہیں ہوتی تھیں اور اب اتنی بے تابی”شایان چھیڑنے سے باز نہیں آیا
“مائنڈ اٹ آپکیلئے بے تابی نہیں اپنی کلاس کیلئے ہے”شہوار نے اسکی خوش فہمی دور کرنا ضروری سمجھا
” ہائے ظالمہ تھوڑی خوش فہمی میں تو رہنے دیا کرو”شایان اسکے قریب آکر بولا
“چلیں”اسکو ریڈی دیکھ کر وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر دروازہ کی طرف لے جانے لگی
“رکو” شایان کے کہنے پر اسکو رکنا پڑا
“اب کیا” شہوار نے آبرو اچکا کر پوچھا
تب شایان نے آگے بڑھ کر اسکے ماتھے پر بوسہ دیا اور بولا
“یہ” شہوار اسکی دیوانگی پر مسکرادی اور دونوں کمرے سے باہر نکل گئے جہاں حوریہ انکا انتظار کر رہی تھی
_______________
“شہوار جلدی چلو”وہ دونوں کالج پہنچ گئیں اور اب کلاس میں جارہی تھیں اور ان کے آنے سے پہلے مسز زبیر کلاس میں آچکی تھیں
“مے آئی کم ان میم”حوریہ نے کہا تو میں نے دیکھے بغیر سر ہلادیا اور حاضری لینے لگیں
“شہوار مصطفی” نام پکارا اور ٹھٹھک کر رک گئیں
“پریزنٹ مس”
“کون ہیں یہ”میم نے سر اٹھا کر پوچھا
“یس آئی ایم”شہوار نے ہاتھ کھڑا کر کے کہا اور مسکرادیں شہوار انکی اس حرکت پر حیران نظروں سے حوریہ کی طرف دیکھنے لگی جس نے بھی لا علمی کا اظہار کر کے کندھے اچکا دئیے