شایان آفس سے آیا تو شہوار لاونچ میں بیٹھی تھی شایان کی طرف اسکی پیٹھ تھی وہ مسکراتا ہوا آگے آیا اور اسکے کان کے قریب آکر بولا
“ہیلو سوئیٹی” شہوار اچانک اس حملے سے ڈر گئی اور صوفے سے اچھل کر کھڑی ہوگئی
“کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے ڈرا کر رکھ دیا معصوم سی بچی کو اگر مجھے ہارٹ اٹیک ہوجاتا تو؟ شہوار نے پہلے زور زور سے دو تین سانس لی پھر بولی تو شایان کی ہنسی نکل گئی
“یار تم اتنی معصوم کیوں ہو”شایان مسکراتا ہوا اسکی طرف بڑھا شہوار اسکا موڈ محسوس کر کے فورا سیڑھیوں کی طرف بھاگی پر شایان سے بچنا کہاں ممکن تھا
“چھوڑیں شایان کوئی آجائیگا نا” شہوار کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا بولے۔کبھی کبھی اسکو شایان کی دیوانگی سے خوف محسوس ہوتا تھا
“آپ میرے لئے آج چاکلیٹ نہیں لائے؟” شہوار نے اسکا موڈ چینج کرنا چاہا
“بالکل لایا ہوں پہلے مجھے اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کر پلاؤ”شایان اسکو پیار کر کے چھوڑتے ہوئے بولا
“اوکے”وہ بولتے ہوئے کچن کی جانب چل دی
__________________
“حوریہ؟” فیضان حوریہ کے کمرے میں آیا وہ پڑھ رہی تھی اب ان میں اچھی خاصی انڈر اسٹینڈنگ ہوگئی تھی
“جی” حوریہ نے سر اٹھا کر جواب دیا لیکن فیضان کی پٹیوں میں جکڑا ہاتھ دیکھ کر چونک گئی
” کیا ہوا فیضی” وہ پریشانی سے بولی
” کچھ نہیں مجھے دادی کے کمرے سے پین کلر لادو”
فیضان اسکے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولا
” ہوا کیا ہے فیضی بتائیں تو سہی” حوریہ روہانسی ہوگئی
“ایکسیڈنٹ” فیضان کے جواب پر حوریہ نے بے اختیار چیخ روکنے کیلئے منہ پر ہاتھ رکھ لیا
“حوریہ میں ٹھیک ہوں جانی بس تم شہوار کو مت بتانا وہ ویسے ہی ایکسیڈنٹ کے نام سے خوف کھاتی ہے”فیضان اس کو اپنے پاس بٹھاتے ہوئے بولا اور حوریہ کا ضبط جواب دے گیا فیضان نے اسکو اپنے ساتھ لگالیا اور حوریہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی
“حوریہ تمہارے رونے سے تکلیف ہورہی ہے مجھے میں سمجھا تم بہادر ہو اب تم بھی رو رہی ہو تو آئندہ کبھی اپنی تکلیف نہیں بتاؤں گا”فیضان اسکا سر سہلاتے ہوئے بولا اور ساتھ ہی اسکے آنسو پوچھ کر اسکو اپنے سے الگ کیا اور کندھوں سے تھام کر آنکھوں میں دیکھتے ہوا بولا
“میری جان بہت بہادر ہے نا؟” حوریہ نے نظریں جھکالیں وہ اسکو کیسے بتاتی کہ محبت میں بہادر سے بہادر سے انسان بھی کمزور پڑ جاتا ہے لیکن اسکو فیضان کا مان رکھنا تھا اسلئے اثبات میں سر ہلا دیا
“تو پھر جاؤ پین کلر کے کر آجاو میں ادھر ہی بیٹھا ہوں” حوریہ فورا اٹھ کر باہر گئی اور دوائی کے ساتھ جوس بھی لے آئی
فیضان اسکے بیڈ پر آنکھیں موند کر لیٹا ہوا تھا اسکو فیضان کا اپنا پن اچھا لگا تھا
“فیضی” حوریہ نے ہولے سے پکارا
“ہوں” فیضان نے آنکھیں کھولیں اور سامنے کھڑی حوریہ کے ہاتھ سے جوس لے لیا ساتھ دوائی بھی کھالی
“میں سر دبادوں”حوریہ نے اسکے پاس بیٹھتے ہوئے استحقاق سے پوچھا
اور فیضان گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر اسکی طرف دیکھ کر مسکرایا اور اپنا رخ الٹا کر کے اسکی گود میں لیٹ گیا
“دبادو” مسکراتے ہوئے بولا اور حوریہ کے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی
حوریہ ہولے ہولے دبا رہی تھی فیضان کی کب آنکھ لگی اسکو پتہ نہیں چلا جب وہ اٹھا تو رات کے دو بج رہے تھے اور حوریہ ابھی بھی اسکا سر دبا رہی تھی
“ارے حوری اٹھا تو دیتی تم۔مسلسل دو گھنٹے سے میرا سر دبارہی ہو” فیضان اٹھتے ہوئے حیرانی سے بولا
“اچھا دو گھنٹے ہوگئے؟” حوریہ نے معصومیت سے کہا فیضان مسکرادیا اف اللہ کتنی دیوانی ہے یہ لڑکی اور حوریہ کو ساتھ لگالیا
“پتہ ہے حوری جب میرے اگزیمس ہوتے تھے تو میرے سر میں بہت درد ہوتا تھا ماما ایسے ہی دباتی تھیں اور میں کب سوجاتا مجھے پتہ ہی نہیں لگتا تھا” وہ حوریہ کو اداس مسکراہٹ کے ساتھ بتا رہا تھا اور حوریہ جانتی تھی یہ ٹاپک اسکیلئے اذیت کا باعث ہے
“اچھا اب آپ آرام کریں اور شہوار سے ملے نہیں ناراض ہوگی وہ” حوریہ نے موضوع بدلا
“ہاں میں پہلے گیا تھا لیکن شکر وہ سورہی تھی ورنہ آسمان سر پر اٹھالیتی” وہ ہنستے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا
“چلو تم بھی سوجاو اور تھینکس میری جان” وہ حوریہ کو ماتھے پر بوسہ دے کر چلا گیا اور حوریہ خوامخواہ مسکرادی
____________________
“بھیا!!” فیضان کے آنے سے چلے ہی شہوار سو چکی تھی اسلئے اب اسکے کمرے میں آئی
“کیا ہوا گڑیا؟” فیضان نے فل سلیوس پہنی ہوئی تھیں اسلئے اسکا زخم۔نظر نہیں آرہا تھا
“آپ کل دیر سے کیوں آئے تھے؟” شہوار اسکے پاس بیٹھتی ہوئی بولی
“میں اپنے ٹائم پر آیا تھا آپ جلدی سوگئی تھیں” فیضان اسکے سر پر چپت لگاتے ہوئے بولا
“شہوار ادھر دیکھو” فیضان نے اسکی ٹھوڑی اپنے طرف کی
“جی”
“مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے تم کچھ کہنا چاہتی ہو؟” وہ بھی بھائی تھا اسکی رگ رگ سے واقف تھا
“آج مما کی برتھ ڈے ہے” وہ اداسی سے بولی
“گڑیا تم بھول کیوں نہیں جاتی اب وہ نہیں ہیں انکی برتھ ڈے آنے کا فائدہ” یاد اسکو بھی بہت آتی تھی جب تک ماما تھیں وہ دونوں ہر سال سر پرائز ضرور دیتے تھے اور سارا پلین فیضان اور مصطفی مل کر بناتے تھے لیکن اب وہ شہوار کو دکھی نہیں دیکھ سکتا تھا اب تو اسکی زندگی میں شایان تھا اسکی محبت تھی اب اسکو وہ خوش دیکھنا چاہتا تھا
“نہیں بھولا جاتا مجھ سے”شہوار رونے والی ہوگئی تھی
“ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا بھیا” شہوار اس سے اکثر یہ بات کہتی تھی اور آج پھر
“ہمیں اللہ کی رضا پر راضی رہنا چاہئیے شہوار” ہمیشہ کی طرح اسکا جواب آج بھی یہی تھا
“چلو اٹھو یونی نہیں جانا؟”وہ اسکو اس ٹاپک سے ہٹانا چاہتا تھا
“جانا ہے ہاں آپکو ایک بات بتاؤں” وہ کل سے فیضان کو بات بتانا چاہتی تھی مگر اسکو یاد نہیں رہا اب اچانک یاد آنے پر بولی
“ہاں بولو”فیضان ہمہ تن گوش ہوا
“یونی میں ایک نیو میم آئی ہیں بھیا کل جب وہ attendance لے رہی تھیں انہوں نے میرا نام لے کر پوچھا میں کون ہوں میں نے ہاتھ کھڑا کیا تو مجھے دیکھ کر مسکرادیں” شہوار حیرت سے بتا رہی تھی
“تو کیا ہوا تم اچھی لگی ہوگی انکو” فیضان مسکراتے ہوئے بولا
“اچھی تو تب لگتی نا جب انہوں نے مجھے دیکھا ہوتا مگر دیکھے بغیر attendance لی پھر میرے نام پر رک کر پوچھا تھا” شہوار اب بھی کنفیوژ تھی
“ارے تمہارا نام بھی تو unique ہے نا انکو نام اچھا لگ گیا ہوگا”فیضان نے اسکو کنفیوژن سے باہر نکالا
“ہاں ہو سکتا ہے” شہوار نے بھی اتفاق کرلیا
“پاگل پہلے بھی کہا ہے اتنی اتنی سی باتوں کو سر پر سوار نہیں کیا کرو” فیضان اسکے سر پر ہلکی سی چپت لگاتے ہوئے بولا اور وہ مسکرادی
________________
حوریہ اور شہوار یونی پہنچے تو شہوار ایک دم پریشان ہوگئی
“کیا ہوا؟” حوریہ اسکو پریشان دیکھ کر بولی
“یار میں اسائنمنٹ لانا بھول گئی اب میرا پہلا امپریشن ہی مسز زبیر پر غلط پڑے گا” وہ روہانسے انداز میں بولی
“اوہ اب کیا ہوگا شہوار” حوریہ بھی پریشان ہوگئی
“ایسا کرو میرا لے لو نام اپنا لکھ لو میں بولوں گی کہ میں گھر پر بھول گئی” وہ شہوار کو پریشان نہیں دیکھ سکتی تھی
” نہیں تم نے اتنی محنت سے بنایا ہوگا چلو کلاس میں میں میم۔سے بات کرلوں گی” شہوار کہتے ہوئے آگے بڑھ گئی
“شہوار سنو!!” حوریہ کی آواز پر پیچھے مڑ کر دیکھا وہ اسکی طرف آتے ہوئے بولی
” ایک کام کرو بات کرنی ہی ہے تو انکے آفس میں جاکر کرلو تاکہ اگر ڈانٹ پڑنی بھی ہو تو تم اکیلی ہوگی نا” حوریہ کے کہنے پر وہ سر ہلاتے ہوئے دم درود کرتے ہوئے آفس کی جانب چل ری۔
“مے آئی کم۔ان میم” وہ مسز زبیر کے روم میں داخل ہوکر کانپتی آواز میں اجازت لینے لگی۔
“یس” میم نے بنا دیکھے اجازت دی۔وہ اندر آچکی تھی لیکن اسکی چپ محسوس کر کے میں نے سر اٹھایا تو وہ ڈری ہوئی کھڑی تھی
“اوووہ سوئی۔۔شہوار کیسی ہو؟” وہ کچھ بولنے والی تھیں کر چپ ہوگئیں
“جی ٹھیک” جھکے سر کے ساتھ جواب دیا
“کچھ کہنا تھا؟” میم نے اسکو چپ دیکھ کر پوچھا
“وہ وہ مم میں اسائنمنٹ لانا بھول گئی” وہ ہکلاتے ہوئے بولی
“اوکے یو مے گو ناؤ” میم کا لہجہ ایک دم چینج ہوگیا اس نے سر اٹھا کر دیکھا اور ٹھٹھک گئی انکی گردن پہ تل تھا وہ کہیں کھو گئی
“یس” اسکو اپنی طرف دیکھتا پاکر میم نے پوچھا
“نہیں کچھ نہیں” شہوار آفس سے بھاگ گئی اور میم ڈیسک پر سر رکھ کر رودیں۔ کتنے سالوں بعد اسکو دیکھ رہی تھیں وہ اب بھی ویسی ہی تھی۔
“کیا ہوا مسز زبیر آج کلاس نہیں لینی؟” میم فرحانہ نے انکو مسلسل بیٹھے دیکھ کر تعجب سے پوچھا
“نہیں میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے”وہ جان بوجھ کر نہیں جارہی تھیں انکو لگتا تھا اب گئیں تو ضبط کھو بیٹھیں گی
“ارے کیا ہوا آپکی طبیعت کو ابھی تو آپ کی برتھ ڈے کی سیلیبیریشن بھی کرنی ہے” میم فرحانہ انکا موڈ ٹھیک کرنا چاہ رہی تھیں
” نہیں کل کرلیں گے میں سر سے پوچھ کر گھر جارہی ہوں” وہ اپنا بیگ اٹھا کر آفس سے باہر چلی گئیں اور میم فرحانہ حیرت سے دروازہ کی جانب تکتی رہ گئیں
__________________
“مما یہ آپ کیا کہ رہی ہیں؟” شایان انکی بات سن کر غصے سے صوفے سے ہی اٹھ گیا
” میں نے کہ دیا تمہیں بینش سے شادی کرنا ہوگی”سمیہ بیگم نے اٹل لہجے میں کہا
“نہیں میں نہیں کرسکتا” وہ نفی میں سر ہلا کر جانے لگا
“ٹھیک ہے تمہارے پاس دو دن کا ٹائم ہے اچھی طرح سوچ لو اور ہاں جواب ہاں میں ہونا چاہئیے ورنہ میری موت کے ذمہ دار تم ہوگے” سمیہ بیگم نے ٹھنڈے لہجے میں کہا
“ماما آپ اپنی خواہش کے پیچھے اپنے بیٹے کی خوشیوں کا باب بند کر رہی ہیں؟” شایان کے لہجہ میں دکھ ہی دکھ تھا
” میری جان تمہاری خوشی ہی تو چاہتی ہوں تم شہوار کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتے نجانے دن بھر کہاں رہتی ہے اور ہر وقت گھر سے باہر رہنے کا شوق لگا رہتا ہے۔۔۔” تائی کے لہجے میں واضح نفرت تھی
” بسسس اب ایک لفظ بھی نہیں وہ میری بیوی ہے اسکی بارے میں ایک لفظ بھی نہیں سنوں گا” شایان قطعی لہجہ میں بولا
“ہونہہ چڑھ گیا نا اسکے عشق کا بھوت ماں کے سامنے زبان کھلوادی نا اس منحوس نے یاد رکھو شایان تم دو دن میں مجھے جواب دو ورنہ نتیجہ کے ذمہ دار تم ہوگے” وہ غصے سے کہتے ہوئی چلی گئیں اور شایان کی رگیں تن گئیں وہ سر پکڑ کر صوفے پر بیٹھ گیا
“ہائے شانی” دس منٹ بعد شہوار کی آواز آئی اس نے کوئی جواب نہیں دیا
” کیا ہوا آپکو” وہ اسکے پاس بیٹھ کر پوچھنے لگی شایان نے نفی میں سر ہلا دیا
“بتائیں نا کیا ہوا” شہوار ضد کرنے لگی اس سے شایان کا یہ روپ برداشت نہیں ہوتا تھا
“شہوار پلیز ابھی اکیلا چھوڑدو مجھے” شایان نے کس لہجے میں کہا شہوار کو خود بھی سمجھ نہیں آرہا تھا
“کوئی پریشانی ہے؟” شہوار کو پتہ نہیں کیوں اس سے اب ڈر لگ رہا تھا
“میں نے کہا نا اکیلا چھوڑدو اردو سمجھ نہیں آتی کیا؟” شایان کو خوامخواہ غصہ آنے لگا شہوار خاموشی سے اٹھ کر اپنے روم میں چلی گئی
__________________
“اللہ پاک ایسا کیوں ہو رہا ہے میری خوشیوں کی مدت اتنی کم کیوں ہے مجھ سے خوشیاں کیوں جلد روٹھ جاتی ہیں۔۔۔؟؟” شہوار اپنے کمرے کی بالکونی سے آسمان کی طرف منہ کر کے اللہ سے شکوے کر رہی تھی گالوں پر آنسوؤں کی لڑیاں تھیں شایان کے رویہ نے اسے بہت دکھ دیا تھا
“شہوار” فیضان اسکے کمرے میں آیا تو شہوار کو بالکونی میں کھڑا پاکر وہیں آگیا لیکن جب اسکا چہرہ اپنی جانب کیا تو ٹھٹھک گیا
“کیا ہوا شہوار رو کیوں رہی ہو” یہ کہنے کی دیر تھی شہوار فیضان کے سینے سے لگ کر رو دی فیضان نے رونے دیا اسکو تاکہ اسکا دل ہلکا ہوجائے
“اب بتاؤ کیا ہوا ہے؟” جب وہ کافی رو چکی تھی تو فیضان نے اپنے الگ کرکے پوچھا
“کچھ نہیں”
“تم مجھ سے کچھ نہیں چھپا سکتی پتہ ہے نا” فیضان نے تھوڑی سے پکڑ کر کہا
“ماما کی یاد آرہی ہے” شہوار نے کہا
“اصل بات بتاؤ گڑیا ماما کی یاد تمہیں آج سے پہلے اتنی شدت سے تو نہیں آئی” فیضان چونکتے ہوئے بولا
“تائی نے کچھ کہا ہے” فیضان نے قیاس کیا
” نہیں” نفی میں سر ہلایا
“پھر” فیضان نے کہا
“آپ بیٹھیں پھر بتاتی ہوں” وہ جانتی تھی فیضان ابھی آفس سے آیا تھا اور مستقل کھڑا تھا
فیضان بیڈ پر بیٹھ گیا اور اپنے ساتھ اسکو بھی بٹھایا
“اب بتاؤ” فیضان نے نرمی سے کہا
” بھیا ماما کی گردن پر تل تھا؟” شہوار نے پوچھا اور فیضان اسکی غیر متوقع سوال سن کر شاک۔رہ گیا
“ہاں تھا پھر” فیضان نے کہا
“مسز زبیر کے بھی ہے” شہوار منمنائی
“شہوار تم کیوں یقین نہیں کرتی ماما بابا اب نہیں ہیں مر چکے ہیں وہ۔۔۔ کہاں سے آجائیں گے وہ؟” فیضان کو اسکی دماغی حالات پر شبہ ہونے لگا “آپ کے پاس ماما کی پکچر ہے؟” شہوار نے کہا
” ہاں” فیضان نے سوچتے ہوئے کہا
“دکھائیں” شہوار کے ذہن میں انکے نقش تھے لیکن واضح تصویر نہیں تھی ہاں البتہ انکی عادتیں اور باتیں یاد تھیں
فیضان نے پکچر دکھائی جو آخری دن اس نے ماما بابا کی ایک ساتھ کھینچی تھی
“یہ تو چینج ہیں” شہوار منمنائی
“ہاں تو میں بھی یہی کہ رہا ہوں ماما بابا کہاں سے آجائیں گے دنیا میں کچھ لوگ ہوتے ہیں جنکی ایک جیسی عادتیں ہوتی ہیں پاگل لڑکی” فیضان نے اسکے سر پر ہلکی چپت لگائی
” پر انکے پاس جاکر عجیب اپنائیت ہوتی ہے بھیا” وہ اب بھی یقین نہیں کر رہی تھی
” اچھا تم فضول سوچیں چھوڑو سوجاو بس” فیضان اسکو کیا کر اپنے کمرے میں آگیا اور شہوار کی باتوں کو سوچنے لگا
“کل ملوں گا اسکی میم سے” وہ ارادہ کرتے ہوئے لیٹ گیا
______________________
” سنیں” مسز زبیر اپنے شوہر سے مخاطب ہوئیں
” ہوں” وہ متوجہ ہوئے
“میری یونی میں ایک لڑکی ہے” مسز زبیر نے بات کا آغاز کیا
” تو” زبیر مصطفی کو انکی باتوں پر حیرت ہورہی تھی
” وہ شہوار مصطفی ہے ہماری بیٹی” مسز زبیر کہنے کے ساتھ ہی رو پڑیں
” کیا کہ رہی ہو وہ اس شہر میں کیسے آسکتے ہیں ہم تو انکو بہت ڈھونڈ چکے ہیں”
مصطفی صاحب چونکے
” لیکن وہ وہی ہے اسکو دیکھ کر میری ممتا جاگتی ہے اسکو سینے سے لگانے کا دل کرتا ہے” وہ روئے جارہی تھیں
“اسکا نام ایک جیسا ہے اسلیئے تمہیں ایسا محسوس ہوتا ہوگا ہم کہاں اتنے خوش نصیب ہیں کہ ہمیں عرصے بعد خوشیاں مل جائیں تم سوجاو طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے” مصطفی صاحب نے ٹوٹے دل دکھ سے کہا اور لائٹس بند کر دیں اور دونوں ایک دوسرے سے چھپ کر آنکھوں میں رکے آنسوؤں کی سمندر بہانے لگے