جمیلہ مائی نے پنڈ پہنچتے ہی اپنے پورے گھر کومٹی اور گارے کا لیپ کر کے چمکا کر رکھ دیا تھا۔ عید الفطر کا تیسرا دن تھا اور صبح سے گھر میں مہمانوں کی آمد و رفت تھی۔آدھا پنڈ تو صرف سکینہ کو دیکھنے کے لیے پورے ذوق و شوق سے آرہا تھا۔اکثر لوگ تو یہ کام روزانہ کی بنیادوں پر باقاعدگی سے کر رہے تھے۔
آج صبح سے کافی گرمی تھی۔ اللہ دتّے نے پورے صحن میں چھڑکاؤ کر کے چارپائیاں بچھا دی تھیں۔جمیلہ مائی نے اندر سے کھیس اور گاؤ تکیے لا کر رکھ دیے۔ بان کی چارپائی پر سکینہ انتہائی بیزاری سے نیم دراز تھی۔
’’امّاں ہم اسلام آباد واپس کب جائیں گے۔۔۔‘‘سکینہ نے مٹی کی پرات میں ہل ہل کر آٹا گوندھتی جمیلہ مائی کو مخاطب کیا۔’’ دھی رانی اتنی جلدی کیوں۔۔۔؟؟؟‘‘پنڈ میں آ کر جمیلہ مائی کا موڈ خاصا خوشگوار ہو گیا تھا ۔اس کی اور سکینہ کی روزانہ ہونے والی جھڑپوں میں بھی تعطل آگیا تھا۔
’’یہ اتنی جلدی ہے کیا۔۔۔‘‘سکینہ نے اکتاہٹ سے کہا۔’’پورے دس دن ہو گئے ہیں ہمیں،اتنی سخت گرمی ہے یہاں۔۔۔‘‘ اُس کی نازک مزاجی پر جمیلہ مائی بے ساختہ ہنس پڑی۔’’آ لینے دے تیرے ابّے کو ،بتاؤں گی کہ تیری دھی شہرن ہو گئی ہے۔۔۔‘‘
’’بات شہری ہونے کی نہیں ہے امّاں۔۔۔‘‘ سکینہ نے اکتاہٹ سے سبزی کی ٹوکری پر چڑھے مرغوں کی فوج کو دیکھا۔جنہوں نے ٹھونگیں مار کر کچھ سبزی نیچے زمین پر گرا دی تھی۔
’’پھر کیا مسئلہ ہے۔۔۔‘‘؟ جمیلہ مائی نے نلکا چلا کر پانی نکالا اور ہاتھ دھونے لگی۔
’’یہ جو ہر روز جلوس مجھے دیکھنے آ جاتا ہے ناں مجھے اس سے کوفت ہوتی ہے۔۔۔‘‘سکینہ نے اصل بات اگل ہی دی۔امّاں کا نلکے کی ہتھی پر جما ہاتھ وہیں کا وہیں رہ گیا۔
’’نی سکینہ سارے پنڈ کے لوگ تجھ سے پیا ر کرتے ہیں اور تیرا آگے سے نخرا ہی نہیں مان۔۔۔‘‘امّاں اپنے ململ کے دوپٹے سے ہاتھ صاف کرتی ہوئی چارپائی پر آن بیٹھی۔
’’کوئی محبت وحبت نہیں کرتے وہ۔۔۔‘‘سکینہ کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوئیں۔’’مذاق اڑاتے ہیں میرا،ایک دوسرے کہ کہنیاں مار ما ر کر اشارے کرتے ہیں جو تجھے نظر نہیں آتے ۔‘‘ سکینہ تو گویا پھٹ ہی پڑی جب کہ جمیلہ مائی بھی کافی لمحوں تک بول ہی نہیں پائی۔
’’ایویں وہم ہے تیرا۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے نظریں چرائیں اور اٹھ کر چولہا جلانے لگی۔
’’جمیلہ آپا کیا بنا رہی ہو رات کے کھانے میں۔۔۔‘‘صحن کی چھوٹی دیوار کے دوسری طرف ہمسائی کا چہرہ نمودار ہوا۔ سکینہ نے اپنی آنکھوں پر دوپٹہ رکھ لیا۔
’’کچھ نہیں شریفاں ،دیسی مرغا بنایا تھا سکینہ کے لیے،اُس کو دیسی ککڑ کا شوربہ بہت پسند ہے،تو سنا۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’خیر ہے آپا،بڑے دیسی مرغے کھلا کر اپنی دھی کی جان بنا رہی ہو۔۔۔‘‘شریفاں کی بات پر امّاں نے مسکراتے ہوئے ہاتھ میں پکڑی لکڑی چولہے میں لگائی اور پھونکیں مارنے لگی۔
’’یہ اپنی سکینہ آج شام ڈھلنے سے پہلے ہی سو گئی۔۔۔‘‘ شریفاں نے تجسس بھرے انداز سے پوچھا تو امّاں نے چونک کر سکینہ کو دیکھا جو سونے کی اداکاری بہت عمدہ کر رہی تھی۔
’’ہاں بس نمانی کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی نے یونہی بہانہ کیا۔
’’اے آپا۔۔۔‘‘ ہمسائی نے تھوڑا سا رازدانہ انداز اختیار کیا۔’’کیا یہ بات درست ہے کہ تو اس دفعہ سکینہ کا شگن کرنے آئی ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’تجھے کس نے کہا۔۔۔؟؟؟؟‘‘امّاں نے چولہے میں پھونکیں مارنے کا مشغلہ عارضی طور پر ملتوی کیا اور کن اکھیوں سے سکینہ کو دیکھا جو بالکل ساکت لیٹی تھی۔
’’اے مجھے کس نے کہنا تھا۔۔۔‘‘شریفاں نے ناک پر انگلی رکھی۔’’پورے پنڈ میں رولا پڑا ہوا ہے۔۔۔‘‘اپنی ہمسائی کے منہ سے یہ بات سن کر جمیلہ مائی کو بہت عجیب لگا۔
’’اور پتا ہے،جاجی کی بے بے تو پنڈ کے ہر گھر میں جا کر اپنا رونا رو رہی ہے۔۔۔‘‘ شریفاں کا لہجہ کچھ دھیما ہوا۔ جمیلہ مائی گھبرا کر دیوار کے پاس آ گئی اتنا تو اُسے بھی پتا تھا کہ اُس کی دیورانی کا مزاج خاصا اکھڑا اکھڑا سا ہے۔سکینہ کو بھی وہ بس کھڑے کھڑے دیکھنے آئی تھی۔
’’کیا کہہ رہی ہے وہ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ جمیلہ مائی نے دھڑکتے دل سے پوچھا۔
’’یہی کہ پاء اللہ دتاّ نے اُس کے میاں پر زور ڈال کے اُس کے پتّر کو زبردستی قربانی کا بکرا بنا دیا ہے۔ورنہ سکینہ کبڑی سے کون شادی کرتا۔۔۔‘‘ شریفاں بی بی کے منہ سے نکلنے والی تلخ بات پر جمیلہ مائی کے ساتھ ساتھ سکینہ کے دل کو بھی گھونسا سا لگا۔
’’ہر کسی کے گھر میں کہتی ہے کہ جمیلہ نے اُس کے جاجی کو تعویز گھول کے پلا دیے ہیں تبھی اُسے سکینہ کا کُب نظر نہیں آتا۔۔۔‘‘شریفاں بی بی میں بھی شاید شرافت نام کو نہیں تھی تبھی وہ بے تکلفی سے اتنے زہریلے جملے جوں کا توں ماں بیٹی کے سامنے کہے جارہی تھی۔
’’میری سکینہ ،انشاء اللہ اپریشن کے بعد بالکل ٹھیک ٹھاک ہو جائے گی۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی ہمسائی کی سار ی باتوں کے جواب میں بس اتنا ہی کہہ سکی۔
’’تو آپا پھر سکینہ کے شگن بھی اپریشن کے بعد کر لینا،ہتھیلی پر سرسوں کیوں جما رہی ہو۔۔۔‘‘ ہمسائی نے چسکہ لینے کے انداز میں کہا تو جمیلہ مائی نے بھی دل پر جبر کر کے کہہ دیا۔
’’ابھی تو خود ہمارے گھر میں کچیّ پکّی سی بات تھی پتا نہیں پنڈ والوں نے کہاں سے پوری داستان گھڑ لی۔‘‘
’’خیر آپا ،اب داستان تو نہ کہو۔۔۔‘‘وہ منہ پر دوپٹہ رکھ کر ہنسی۔’’کوئی نہ کوئی تو جاجی والی بات میں سچائی ہوگی،ایویں تو نہیں وہ شوہدابھاگ بھاگ کر ہسپتال جاتا۔‘‘
’’دیکھ شریفاں ،بیٹیوں والی ماؤں کو ایسی باتیں کرنا زیب نہیں دیتا۔۔۔‘‘جمیلہ مائی دوبارا اپنی پیڑھی پر آ کر بیٹھ گئی۔اُس کا متحمل انداز اُس کی ہمسائی کو ایک آنکھ نہیں بھایا۔
’’ لو میں نے ایسا کیا کہہ دیا۔۔۔‘‘اُس نے بُرا سا منہ بنایا۔’’بھئی سچ پوچھو تو مجھے لگی لپٹی آتی نہیں جو سچ تھا کہہ دیا،ہم سے جاجی کی بے بے کا رونا نہیں دیکھا جاتا،ہم بھی اولاد والے ہیں۔‘‘شریفاں نے اپنی بات مکمل کر کے فوراً دیوار سے سر نیچے کر لیا۔جمیلہ مائی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’امّاں اب سکون آگیا۔۔۔‘‘سکینہ کے لہجے کی کڑواہٹ اس کی سماعتوں تک پہنچی تو د ل اور زیادہ غمگین ہو گیا۔’’اللہ ہدایت دے ہم سب کو۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے دل ہی دل میں دعا کرتے ہوئے گیلی لکڑیوں کو اور قوت سے پھونکیں مارنا شروع کر دیں۔
’’ہوں۔۔۔لگتا ہے کہ رائٹر صاحبہ کو اپنے گمشدہ لفظ واپس مل گئے ہیں۔۔۔؟؟؟؟نابیہ دبے قدموں اس کے پیچھے آن کھڑی ہوئی تھی۔کچھ دیر اس کے لکھے پیراگراف کو پڑھنے کے بعد اُسے انداز ہ ہو گیا تھا کہ آج ثنائیلہ کی طبیعت لکھنے پر آمادہ ہے۔وہ لکھنے میں اس قدر محو تھی کہ اسے نابیہ کی موجودگی کا احساس تک نہیں ہوا۔
’’اوہ۔۔۔‘‘ وہ چونکی اور بے ساختہ مڑ کر نابیہ کو دیکھا جو اپنے چہرے پر خوشگوار مسکراہٹ سجائے عین پیچھے کھڑی تھی۔
’’یار اللہ پاک نے بہت کرم کیا مجھ پر۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے ایک پرسکون سانس فضا میں خارج کی ’’یقین مانو،دماغ میں خیالات کا ہجوم ہے اور لفظ خود بخود میرے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔‘‘
’’ہوں۔۔۔‘‘ اس کی بات سنتے ہوئے نابیہ مسکرا کر سامنے پلنگ پر بیٹھ گئی۔
’’اس کا مطلب ہے کہ تمہارے قارئین کو ایک دفعہ پھر تمہاری بہترین تحریریں پڑھنے کو ملیں گی۔۔۔‘‘نابیہ کی بات پر ثنائیلہ کھل کر مسکرائی۔
’’پتا نہیں یار،ہر لکھاری کی طرح میری بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ میرا قاری مجھ سے مایوس نہ ہو۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے انکساری سے جواب دیا۔
’’کیا حال ہے تمہارے ہیرو کا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ نابیہ کی بات پر ثنائیلہ کے چہرے پر کئی خوبصورت رنگ بکھرے۔
’’ہیرو صاحب،ماشاء اللہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں،اپنے بزنس میں مصروف۔۔۔‘‘ اُس نے مختصرا بتایا۔
’’کب بھیجیں گے موصوف اپنے گھر والوں کو۔۔۔؟؟؟؟‘‘ نابیہ نے تجسس سے پوچھا۔
’’پتا نہیں یار،ابھی اس موضوع پر بات نہیں ہوئی۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے سادگی سے جواب دیا۔
’’لو یہ کیا بات ہوئی بھلا۔۔۔‘‘ نابیہ نے بُرا سا منہ بنایا۔’’آخر تم لوگ گھنٹوں باتیں کیا کرتے ہو۔۔۔؟؟؟؟
’’اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے شوخی سے اُسے ٹالا اور وہ ٹل بھی گئی۔
’’تم ماہم منصور کے پاس دوبارہ نہیں گئیں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ نابیہ کو اچانک یاد آیا۔
’’نہیں یار،ٹائم ہی نہیں ملا۔اس کی اسسٹنٹ کا بھی درمیان میں ایک دو دفعہ فون آیا تھا۔‘‘ ثنائیلہ ایک دم شرمندہ ہوئی۔
’’ تمہیں ان کے پاس جانا چاہیے تھا مائی ڈئیر۔۔۔‘‘ نابیہ نے اسے زور دے کر کہا۔
’’کل انشاء اللہ جاؤں گی،امّی کو اکیلے چھوڑ کر جانا بھی تو ایک مسئلہ ہے۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے اپنا مسئلہ بتایا تو نابیہ نے چٹکی بجا کر حل بھی نکال دیا۔
’’کوئی مسئلہ نہیں ،تم مجھے کال کر لینا،میں خالہ کے پاس رہ جاؤں گی۔‘‘
’’تھینک یو یار۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے ممنون لہجے میں کہا تو نابیہ نے فوراً انگلی اٹھا کر وارننگ دی۔’’نو سوری،نو تھینکس ،ان فرینڈ شپ۔۔۔‘‘
* * *
’’بی بی جی ،آپ کو بیگم صاحبہ ڈرائینگ روم میں بلا رہی ہیں۔۔۔‘‘ملازمہ کی بات پر عائشہ نے بیزاری سے پوچھا۔’’کیوں ۔۔۔؟؟؟؟
’’جی کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں۔۔۔‘‘ ملازمہ نے اطلاع دے کر سائیڈ میز سے ناشتے کے برتن اٹھانے شروع کر دیے۔ وہ پچھلے ایک ہفتے سے اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی۔ اُسے لوگوں سے وحشت ہوتی تھی۔ اپنا سیل فون تک اُس نے بند کر رکھا تھا۔منہ پر دو چار چھینٹے مار کر اُس نے بالوں میں بے دلی سے برش پھیرا اور پاؤں گھسیٹتی ہوئی ڈرائینگ روم کی طرف چل دی۔
اندر پہلا قدم رکھتے ہی اسے شاک لگا۔وہ اپنی جگہ پر کھڑی کی کھڑی رہ گئی ۔بے یقینی اور حیرت کا ایک سمندر اُس کے چہرے پر بہتا ہوا صاف محسوس ہو رہا تھا۔ وہ سامنے صوفے پر بڑی خوشگوار مسکراہٹ کے ساتھ بیٹھے رامس علی کو دیکھ کر ہکا بکّا رہ گئی۔ اُس کے بالکل پاس موحد اپنی وہیل چئیر پر بیٹھا ہو ا تھا۔
’’ارے عائشہ تم نے کبھی رامس کا گھر میں ذکر ہی نہیں کیا۔۔۔‘‘ماما کی خوش اخلاقی آج عروج پر تھی۔
’’تمہارا سیل فون بند ہونے کی وجہ سے بیچارا پریشانی میں تمہیں ڈھونڈتا ہوا یہاں تک آن پہنچا۔۔۔‘‘ماما لگتا تھا کہ رامس علی سے خوب متاثر ہو چکی تھیں ۔اس لیے ان کے لبوں پر مسکراہٹ اور لہجے میں شرینی کی فراوانی تھی۔
’’کیسی ہیں آپ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ رامس اس کی حیرت سے محظوظ ہوتے ہوئے بولا تھا۔
’’میں اب ٹھیک ہوں۔۔۔‘‘عائشہ خود کو سنبھال کر اب سنگل صوفے پر آن بیٹھی ۔
’’تم لوگ بیٹھو،میں رامس بیٹے کے لیے اچھی سی چائے کا بندوبست کرواتی ہوں۔۔۔‘‘ماما بڑے عجلت بھرے انداز میں کچن کی طرف نکلیں۔
’’آؤ ناں یار کسی دن میرے آفس ،بیٹھ کر گپ شپ کریں گی۔۔۔‘‘موحد کے بے تکلفانہ انداز پر عائشہ کو خوشگوار حیرت ہوئی۔
’’ہاں ضرور۔۔۔‘‘ رامس کھل کر مسکرایا۔
’’یہ تم کیا میری جاسوسی کرتے ہوئے گھر تک آن پہنچے ہو۔۔۔‘‘عائشہ نے ہلکا پھلکا سا طنز کیا۔
’’اُف بہت مشکل کام تھا یہ۔۔۔‘‘وہ ہنسا۔’’آپ تو سیل بند کر کے آرام سے بیٹھ گئی تھیں ۔۔۔‘‘
’’پھر،تم نے کیا ہوائی مخلوق سے مدد لی۔۔۔‘‘؟؟؟؟ عائشہ کے طنز پر وہ قہقہہ لگا کر ہنسا جب کہ موحد کے چہرے پر بھی مسکراہٹ دوڑ گئی۔
’’نہیں۔۔۔‘‘اُس نے بے اختیار نفی میں سر ہلایا۔’’وہ تو کل مجھے جناح سپر میں موحد بھائی مل گئے تو میں نے فوراً آپ کا پوچھاتو پتا چلا کہ آپ ہفتہ بیماری منا رہی ہیں‘‘ اُس نے ہلکے پھلکے انداز میں اصل بات بتائی تو عائشہ نے پرسکون سانس لیا۔
’’بھئی مجھے تو ایک میٹنگ کے لیے نکلنا ہے،اس لیے رامس آپ سے پھر انشاء اللہ تفصیلی ملاقات ہو گی۔‘‘ موحد کے دوستانہ انداز پر رامس مسکرایا۔
’’جی ضرور،میں انشاء اللہ آپ کے آفس میں حاضر ہوں گا۔۔۔‘‘رامس نے انہیں یقین دہانی کروائی تو وہ الوداعی الفاظ کے ساتھ فورا کمرے سے نکل گئے۔
’’آپ نے اُس دن میرے ساتھ خوب ڈرامہ کیا۔۔۔‘‘ رامس کی بات پر عائشہ کے زخم پھرسے ہرے ہو گئے۔
’’اوہ اُس دن۔۔۔‘‘عائشہ چونکی۔’’ایک تو سیل کی بیٹری ڈاؤن ہو گئی اور دوسرے راستے میں گاڑی خراب ہو گئی تھی۔‘‘عائشہ کو بروقت بہانہ مل گیا
’’اُف۔۔۔‘‘ رامس نے مصنوعی صدمے سے اپنا سر پکڑ لیا۔
’’کیوں ،کیا ہوا۔۔۔؟؟؟؟ عائشہ کو اُس کے چہرے کے تاثرات سے کچھ غیر معمولی سا احسا س ہوا۔
’’جھوٹ بولنا بھی ایک آرٹ ہے اور اس کے لیے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں ،لیکن افسو س کہ آپ جیسی اچھی لڑکیوں کو یہ ہنر سیکھنے سے بھی نہیں آ سکتا۔‘‘رامس نے شرارت بھرے لہجے میں کہا تو عائشہ کو کسی گڑ بڑ کا احساس ہوا۔اُس نے سوالیہ نگاہوں سے اُسے دیکھا جو کہہ رہا تھا۔
’’بھئی پارکنگ میں آپ کی گاڑی کے ساتھ ہی تو میں اپنی گاڑی پارک کر کے آیا تھا۔سارے فلور آپ کی تلاش میں چھان کر پارکنگ میں پہنچا تو گاڑی غائب ہو چکی تھی۔‘‘اُس کی بات پر عائشہ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔وہ تو غنیمت رہی کہ ماما چائے کی ٹرالی کے ساتھ آ گئیں۔
’’بھئی رامس کسی دن اپنی ماما کو لے کر آؤ ناں ہمارے ہاں۔۔۔‘‘ماما کی بات پر عائشہ نے کوفت سے پہلو بدلا،ایک تو رامس کی شوخی سے بھرپور نظریں اور دوسرے ماما کی غلط فہمی ،اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کوئی منتر پڑھ کر اس تصویر سے غائب ہو جائے۔
’’جی آنٹی ضرور،انشاء اللہ۔۔۔‘‘رامس نے اپنی پلیٹ میں پزا کا ایک بڑا ٹکڑا ڈالتے ہوئے بے تکلفی سے کہا ۔
’’اور بزنس کیسا چل رہا ہے آپ کا۔۔۔؟؟؟؟ ماما نے اپنی معلومات میں اضافے کے لیے انٹرویو شروع کر دیا ۔جب کہ وہ عائشہ کی بے زاری کو محسوس کر کے محض اسے تنگ کرنے کے لیے ماما کے سوالات کے جواب بڑی تفصیل سے دے رہا تھا اور اُس کی یہ تفصیل ہی تو عائشہ کو اکتاہٹ میں مبتلا کر رہی تھی۔
* * *
’’ہوں۔۔۔‘‘ ماہم نے اپنے سامنے خوش باش بیٹھی مصنفہ کو دلچسپی سے دیکھا۔جو پچھلے ایک گھنٹے سے اُسے اپنی اسٹوری تفصیل سے سنا رہی تھی۔
’’یقین مانیں ،ثنائیلہ یہ میری زندگی کا ایک منفرد کیس ضرورہے لیکن اتنا زیادہ حیران کن بھی نہیں۔۔۔‘‘ ماہم نے بال پوائنٹ اپنی ٹھوڑی پر جماتے ہوئے اطمینان سے کہا۔
’’لیکن میم ،یہ سب کیا تھا۔۔۔؟؟؟؟ثنائیلہ ابھی تک حیرت کے سمندر میں غوطے کھا رہی تھی۔
’’کیا مطلب۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’جو چیزیں میری تخیل میں تھیں وہ میرے سامنے مجسم حقیت بن کر کیسے آ گئیں۔۔۔؟؟؟؟
’’دیکھو ثنائیلہ،زندگی میں ’’زندگی ‘‘سے زیادہ حیرن کن چیز کوئی نہیں اور انسانی ذہن کو اللہ تعالی نے بہت وسعت عطا کی ہے۔بلاشبہ تمہارا تخیل بہت مضبوط تھا لیکن جیسا تم نے سوچا ،زندگی میں ویسا ہی ہوا۔اسے ہم ایک حسین اتفاق سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے ۔۔۔‘‘ماہم نے بڑی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ اُسے تسلی دی۔
’’ہاں ایک اور بات۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماہم کو اچانک یاد آیا،ثنائیلہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
’’ہم اپنے مذہبی نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کہتا ہے کہ تم مجھ سے جیسا گمان رکھو گے،میں تمہیں ویسا ہی دوں گا۔۔۔‘‘ماہم کی دلیل سے اب ثنائیلہ متاثر ہوئی۔
’’پس ،تمہیں اللہ پاک پر یقین تھا اور اللہ نے تمہارے یقین کو مضبوطی بخشی،اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔۔۔‘‘ماہم نے مزید اُسے سمجھایا تو وہ اب کھل کر مسکرائی۔
’’آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ آپ بہت اچھی سائیکلوجسٹ ہی نہیں ،بہت عمدہ انسان بھی ہوں گی۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے فورا تعریف کی ۔ اس کی اس بات پر ماہم تھوڑا سا سنجیدہ ہوئی۔
’’دیکھیں ثنائیلہ،لوگوں کو پرکھنے کے لیے ان کے پروفیشن کو ایک پیمانہ بنانابالکل غلط بات ہے۔۔۔‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ثنائیلہ نے الجھن بھرے انداز میں دیکھا۔
’’آپ نے زندگی میں کبھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ کبھی کبھی اپنے شعبے میں بے پناہ کامیاب لوگ اپنی ذاتی زندگی میں بالکل ایک ناکام زندگی گذار رہے ہوتے ہیں۔اس لیے چیزوں کو مکس اپ نہیں کرنا چاہیے۔ان کو انہی کے رنگ میں سمجھیں تو زندگی میں آپ کی دوسروں سے وابستہ توقعات کے پل کبھی نہیں گرتے۔۔۔‘‘ماہم نے بہت پتے کی بات اُسے بتائی تھی۔
’’ہوں۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے سر ہلایا۔
’’کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ مجھے بہت اچھی سائیکلوجسٹ سمجھتی ہیں،ہیں ناں ۔۔۔‘‘ماہم نے سوالیہ نگاہوں سے اُسے دیکھا تو اُس نے جھٹ میں اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’ہو سکتا ہے کہ میری ذاتی زندگی میں جھانک کر آپ کو بہت مایوسی ہو۔۔۔‘‘ ماہم کی بات نے اُسے الجھن میں مبتلا کیا۔
’’ضروری نہیں کہ ہر ڈاکٹر دکھی انسانیت کا درد سمجھتا ہو اور ہر ڈاکو ظالم ہی ہو،سمجھی میں آئی بات۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے ہلکے پھلکے انداز میں سمجھایا اور اسے اس دفعہ واقعی ہی بات سمجھ میں آ گئی تھی۔
’’ویسے ملواؤ ناں ،اپنے سکندر شاہ کو ہم سے بھی۔۔۔‘‘ ماہم نے اُسے چھیڑنے کی غرض سے کہا۔
’’جی ضرور۔۔۔‘‘ ثنائیلہ بلش ہوئی۔
’’ویسے ،اُسے بھی یہ اسٹوری سنائی کہ نہیں ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ماہم نے اشتیاق بھرے انداز سے دریافت کیا۔
’’جی سنائی تھی۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے مسکرا کر جواب دیا۔’’میرے جذبے کی بھرپور طاقت نے ہی تو اس کے دل کے سارے دروازے کھولے ہیں۔۔۔‘‘
’’ہوں،بیسٹ آف لک۔۔۔‘‘ ماہم نے اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔
’’تھینکس،لیکن میں آپ کو ہمیشہ یاد رکھوں گی۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے خلوص دل سے کہا۔
’’اور میں بھی۔۔۔‘‘ ماہم نے بھی الوداعی مسکراہٹ کے ساتھ اُسے یقین دلایا۔
* * *
’’قسم سے امّاں،اپنے ہسپتال والے کمرے میں آ کر تو مجھے سکون آ گیا ہے۔۔۔‘‘سکینہ نے یہ فقرہ صبح سے کوئی چوتھی دفعہ بولا تھا۔ہر دفعہ جمیلہ مائی اس کی بات پر مسکرا دیتی۔
’’یہاں کم ازکم ،ہر روز ’’چسکے‘‘لے کر میری داستان سننے والے لوگ تو نہیں آتے ناں۔۔۔‘‘ سکینہ کی بات پر جمیلہ مائی کا دل دُکھا۔
’’بس پتّر، دعا کیا کر کہ اللہ پاک ایسی آزمائش میں کسی کو ڈالے ہی ناں ،جو دوسروں کے لیے تفریح کا سامان بنے۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی نے تسبیح کے دانے گراتے ہوئے سکینہ کو آج کا پہلا سبق پڑھایا۔
’’بس امّاں،لوگ سمجھتے ہیں کہ جس آزمائش میں سے کوئی دوسرا گذر رہا ہے،وہ ان پر کبھی آ ہی نہیں سکتی۔۔۔‘‘سکینہ نے اپنی کتابوں کو جھاڑتے ہوئے رنج بھرے لہجے میں کہا۔*
’’اللہ سوہنا،سب پر اپنا کرم ہی رکھے۔ آزمائشوں کی آگ تو ’’حوصلے ‘‘اور’’صبر‘‘کے پانی سے ہی بجھتی ہے پتّر۔۔‘‘جمیلہ مائی نے اٹھ کر کھڑکی کھولی تو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اندر کے ماحول کو تبدیل کر گیا۔
’’شکر ہے سکینہ تم واپس آ گئیں ،یقین کرو،پورا وارڈ ہی مجھے ویران لگ رہا تھا۔۔۔‘‘ سسٹر ماریہ جو ابھی ابھی کمرے میں داخل ہوئیں تھیں ۔سکینہ کو دیکھ کر بے ساختہ خوشی کا اظہار کر نے لگیں۔ ان کی بات پر سکینہ بھی مسکرا دی۔
’’میں نے خود آپ سب لوگوں کو بہت یاد کیا۔۔۔‘‘سکینہ نے بھی فورا بتایا۔
’’ڈاکٹر خاور تو اکثر ہی تمہیں یاد کرتے تھے۔۔۔‘‘نرس نے ڈرپ کا کینولہ پاس کرتے ہوئے سرسری انداز سے بتایا تو سکینہ کا دل ایک عجیب سی لے پر دیوانہ وار رقص کرنے لگا۔
’’ہاں وہ عید والے دن،وہ دونوں بہن بھائی بھی تم سے ملنے آئے تھے۔۔۔‘‘سسٹر ماریہ کی اطلاع پر جمیلہ مائی اور سکینہ دونوں چونکیں۔
’’کون۔۔۔؟؟؟؟‘‘ جمیلہ مائی نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’وہ ہی موحد اور عائشہ۔۔۔‘‘سسٹر ماریہ نے روانی میں بتایا۔’’یقین کریں خالہ دونوں بہن بھائیوں کا بہت بڑا دل ہے۔عید والے دن یہاں موجود سب مریضوں کے لیے پھل فروٹ اور سارے نچلے عملے کو عیدی دے کر گئے تھے۔۔۔‘‘سسٹر ماریہ ان سے خوب متاثر ہو چکی تھی۔اس لیے کھل کر تعریفی پروگرام جاری تھا۔
’’اللہ پاک ان کو اس چیز کا اجر دے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے دل سے دعا کی۔
’’جی خالہ ،اللہ تعالی نے دیا تو سب کو ہی ہے لیکن دوسروں پر خرچ کرنے کی توفیق کسی کسی کو ہی دی ہے۔۔۔‘‘ سسٹرماریہ نے افسردگی سے کہا۔
’’بس بیٹا اللہ کا مال ہے۔جتنا اللہ کے بندوں پر خرچ کرو،وہ دوگنا کر کے واپس کرتا ہے۔اتنی سی بات سمجھ میں آ جائے تو کوئی اپنی تجوریوں کو تالے لگا لگا کر بے سکون نہ ہو۔‘‘ جمیلہ مائی وضو کرنے کے لیے واش روم کی طرف چل پڑی۔ان کے اندر جاتے ہی سسٹر ماریہ سرگوشی کے انداز سے بولی۔
’’بھئی سکینہ وہ بہن بھائی ،تمہارے لیے بھی تحفے دے کر گئے ہیں ،میری الماری میں پڑے ہیں۔۔۔‘‘
’’میرے لیے۔۔۔‘‘ سکینہ تھوڑا سا خوفزدہ ہوئی۔
’’تجھے لا دوں گی،تم امّاں کو نہ بتانا۔۔۔‘‘ سسٹر ماریہ نے اُسے تجویز دی۔
’’نہیں سسٹرماریہ،تو امّاں کے سامنے دے دینا،اگر اسے اچھا لگا تو ٹھیک ،ورنہ خود رکھ لینا۔۔۔‘‘سکینہ کو امّاں سے چھپا کر چیز لینا اچھا نہیں لگا ۔اس لیے جھٹ سے کہہ دیا۔
’’واہ سکینہ،تم تو اپنے پنڈ سے اس دفعہ بڑی سمجھدار ہو کر آئی ہے۔۔۔‘‘ سسٹر ماریہ نے کھلے دل سے تعریف کی۔
’’سارا سارا دن جامن کے درخت کے نیچے لیٹی ابّے کے لمبے لمبے لیکچر جو سنتی تھی۔۔۔‘‘ سکینہ نے ہنس کر بتایا۔
’’اچھا،کیا کہتا تھا تمہارا ابّا۔۔۔‘‘ سسٹر ماریہ اس کی ڈرپ سیٹ کر کے وہیں بیٹھ گئی۔
’’اباّ کہتا تھا کہ سکینہ یہ بیماری تجھے ہر حال میں جھیلنی ہی ہے۔اللہ پاک کا شکر ادا کر کے اس سے مدد مانگے گی تو تجھے وہ آسانی دے گا،لیکن اگر رولا ڈالے گی تویاد رکھ رب کی ہلکی سی ناراضگی کا بوجھ بھی برداشت کرنا،بندے کی بس کی بات نہیں۔۔۔‘‘ سکینہ نے سنجیدگی سے بتایا۔
’’بات تو تمہارے ابّے نے پورے سولہ آنے درست کہی ہے۔۔۔‘‘ سسٹر ماریہ نے فورا تائید کی اور پھر کچھ یاد آنے پر بولی’’بس سکینہ ،اب تو اپنے علاج پر توجہ دے،باقاعدگی سے فزیو تھراپی کروا،تاکہ جلدی جلدی تیرا آپریشن ہو سکے۔۔۔‘‘
’’میرے لیے دعا کرنا سسٹر۔۔۔‘‘سکینہ افسردگی سے مسکرائی تو سسٹر ماریہ نے اس کا ہاتھ گرم جوشی سے دبا کر یقین دہانی کروانے میں دیر نہیں کی۔۔۔
* * *
’’دماغ خراب ہو گیا ہے آ ج کل کی ینگ جنریشن کا۔۔۔‘‘ ماما نے ڈائننگ روم میں داخل ہوتے ہی بلند آواز میں تبصرہ کیا۔ ان کا مزاج ٹھیک ٹھاک برہم تھا۔ فرائیڈ رائس اپنی پلیٹ میں نکالتے ہوئے موحد نے چونک کر انہیں دیکھا۔
’’اب کیا ہوا ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ نے بیزاری سے پوچھا ،وہ ویسے ہی آجکل چڑ چڑے پن کا شکار تھی۔
’’بھئی ثمن نے انصر کو خلع کا نوٹس بجھوادیا۔۔۔‘‘ ماما نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’امّی پرانی خبر ہے یہ۔۔۔‘‘موحد نے بیزاری سے ناک سے مکھی اڑانے والے اسٹائل میں کہا۔
’’نئی خبر یہ ہے کہ انصر نے اُسے جواب میں طلاق بجھوا دی ۔۔۔‘‘ ماما نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے دھماکہ کیا۔
’’واٹ۔۔۔‘‘عائشہ نے ہاتھ میں پکڑا پانی کا گلاس میز پر رکھتے ہوئے ماما کو بے یقینی سے دیکھا ۔جو سخت پریشان دیکھائی دے رہی تھیں۔
’’ثمن آپی تو بے وقوف تھیں ہی،یہ انصر بھائی کو کیا ہوا۔۔۔؟؟؟‘‘عائشہ کو سخت صدمہ ہوا ۔
’’بے وقوف عورتیں ،ایسے ہی اپنے مردوں کا دماغ خراب کرتی ہیں کہ ان کے سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں ماؤف ہو جاتی ہیں۔‘‘ موحد نے تلخ لہجے میں تبصرہ کیا وہ تسلی سے کھانا کھانے میں مگن تھا۔جب کہ عائشہ کی بھوک تو اڑ گئی تھی۔
’’خالہ تو بہت پریشان ہو ں گی۔۔۔‘‘عائشہ کو یاد آیا۔اُسکی ساری بھوک اڑ گئی تھی۔
’’میری بہن بیچاری کا تو بہت بُرا حال ہے۔۔۔‘‘ماما سر پکڑے بیٹھیں تھیں۔
’’فار گاڈ سیک ماما۔۔۔اب آپ اگلے کئی دن تک اس بات کا سوگ نہ مناتی رہیے گا۔‘‘موحد نے صاف گوئی سے کہا۔’’حالانکہ جن کو سوگ منانا چاہیے اور عدت بھی پوری کرنی چاہیے وہ صبح سولہ سنگھار کر کے ٹی وی اسکرین پر ناظرین کا دل بہلا رہی ہونگی۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے بیٹا،لیکن مجھے احیان کی ٹینشن ہے ،اس کا کیا بنے گا۔۔۔‘‘؟؟؟؟ ماما نے تاسف بھرے انداز سے اپنی پریشانی بتائی۔
’’کیوں ،احیان کو کیا مسئلہ ہے، اپنے باپ کے پاس ہے، دادا، دادی، پھپھو سارے رشتے تو ہیں اُس کے پاس۔۔۔‘‘موحد نے دانستہ اپنا لہجہ نرم رکھا۔
’’اگر ،ثمن نے اس کی ملکیت کا دعوی کر دیا تو۔۔۔؟؟؟؟‘‘ماما نے اپنا خدشہ بتایا تو وہ استہزائیہ انداز سے ہنس پڑا۔
’’اُف ماما،کتنی بھولی ہیں آپ۔۔۔‘‘اس کے لہجے میں طنز کی آمیزش تھی۔’’ثمن آپی ٹائپ چیزیں سب سے پہلے اپنے بچوں سے ہی جان چھڑاتی ہیں انہیں لگتا ہے کہ بچے ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔۔۔‘‘موحد کی اس درجہ تلخ لیکن حقیقت پر مبنی بات پر ماما کے ساتھ ساتھ عائشہ کو بھی چپ لگ گئی ۔
’’لیکن بہت بُرا ہوا ہے یہ۔۔۔‘‘عائشہ بمشکل بولی۔
’’جب کہ میرے خیال میں انصر بھائی اور احیان کے لیے بہت اچھا ہوا ہے۔۔۔‘‘ موحد نے اچار گوشت پلیٹ میں ڈالتے ہوئے صاف گوئی سے کہا۔
’’وہ کیسے۔۔۔؟؟؟؟‘‘عائشہ اور ماما کی نگاہوں نے سوال کیا۔
’’دیکھیں ناں،انصر بھائی اب اپنے لیے کچھ اور سوچیں گے اور احیان کو بھی روز روز کے جھگڑوں سے نجات مل جائے گی۔‘‘وہ بڑے سکون سے کھانا کھانے لگا۔
’’لیکن احیان کو ماں تو نہیں ملے گی ناں۔۔۔‘‘ماما کا دکھ کم ہونے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔
’’تو پہلے کون سا اُس پر دن رات ماں کی ممتا نچھاور ہو رہی تھی،دن تو ساراثمن آپی کا گھر سے باہر ہی گذرتا تھا۔‘‘موحد تلخی سے ہنسا۔
’’پھر بھی بیٹا۔۔۔‘‘ ماما افسردہ ہوئیں۔
’’دفع کریں ماما،خالہ سے بھی کہیں کہ خود غرض لوگوں کا زیادہ دیر تک سوگ نہیں مناتے،میں خود بات کروں گا انصر بھائی سے‘‘ اُس نے ٹشو پیپر سے ہاتھ صاف کیے۔
’’عائشہ تم چکر لگا آنا ذرا ماہم کے گھر،دیکھنا وہاں کیا صورتحال ہے۔۔۔‘‘ ماما نے فکرمندی سے کہا
’’کوئی ضرورت نہیں ہے عائشہ۔۔۔‘‘ موحد نے تیزی سے ان کی بات قطع کر کے کہا۔’’یہ اتنا بیمار رہی ہے ،ماہم نے جھانک کر بھی نہیں دیکھا،ہمیں کیاضرورت پڑی ہے۔‘‘وہ بھی بدلحاظ ہوا۔عائشہ بھی پھیکے سے انداز سے مسکرا دی۔
’’ماما،آپ کیوں ٹینشن لے رہی ہیں ،جو چیزیں ماہم یا ثمن آپی اپنی چوائس سے کرتی ہیں ان پر کبھی دکھی نہیں ہوتیں۔‘‘ عائشہ نے سادگی سے انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
’’چلو اپنی خالہ کے ہاں تو چکر لگا آنا ناں۔۔۔‘‘ ماما نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ،ان کی طرف سے ہو آؤں گی۔۔۔‘‘ عائشہ نے انہیں مطمئن کیا۔
* * *
پورے گھر میں موتیا کے پھولوں کی مہک پھیلی ہوئی تھی۔ثنائیلہ صبح دس بجے ہی نابیہ کو اپنے گھر چھوڑ کر ماہم کی طرف نکل گئی تھی۔نابیہ کچھ دیر تو اس کی والدہ کے ساتھ گپ شپ کرتی رہی اور اس کے بعد ان کو میڈیسن دے کر خود ٹی وی پر ایک ڈرامہ دیکھنے لگی۔ثنائیلہ کی امّی ادویات کے زیر اثر سو گئیں تھیں۔ان کے آرام میں خلل پڑھنے کے خوف سے اُس نے ٹی وی بند کر دیا اور بانو قدسیہ کا ایک ناول اٹھا کر باہر صحن میں نکل آئی۔ آسمان گہرے سیاہ بادلوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ وہ پھولوں کی کیاری کے پاس چارپائی بچھا کر لیٹ گئی ۔موتیے کے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو نے پورے ماحول کو معطر بنا رکھا تھا۔وہ بڑے مزے سے ناول سے لطف اندوز ہورہی تھی جب گھر کے دروازے پر بیل ہوئی۔
’’یہ ثنائیلہ کیا اتنی جلدی آ گئی،ابھی تو ایک گھنٹہ ہوا ہے۔۔۔‘‘وہ مختلف سوچوں کے زیر اثر بے دھیانی میں دروازہ کھول گئی۔
’’یہ زبیر انکل کا گھر ہے۔۔۔‘‘ سامنے بلیک پینٹ اور پرپل شرٹ میں ملبوس نوجوان نے سنجیدگی سے دریافت کیا۔اس کی روشن بادامی آنکھیں نابیہ پر جمی ہوئی تھیں۔
’’جی بالکل یہ زبیر صاحب کا ہی گھر ہے۔۔۔‘‘نابیہ نے پراعتماد انداز میں جواب دیتے ہوئے اس کا بغور جائزہ لیا۔وہ اپنے حلیے سے ایک پڑھا لکھا،سلجھا ہوا نوجوان لگ رہا تھا۔
’’ان سے ملاقات ہو سکتی ہے۔۔۔‘‘اُس نے بے چینی سے پوچھا۔
’’جی نہیں۔۔۔‘‘نابیہ نے بڑے آرام سے جواب دیا۔
’’کیوں۔۔۔؟؟؟؟ وہ ایک دم حیران ہوا۔
’’جی ان سے ملاقات کے لیے آپ کو شہر خموشاں جانا پڑے گا،وہ آجکل وہیں ہوتے ہیں۔۔۔‘‘دروازے کے عین درمیان کھڑی وہ لڑکی اُس کے چھکے اڑا رہی تھی۔
’’شہر خموشاں۔۔۔‘‘اُسے فوری طور پر سمجھ ہی نہیں آیا۔’’کیا مطلب۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’مطلب یہ کہ ان کا انتقال ہو چکا ہے۔۔۔‘‘ نابیہ کی اطلاع پر وہ کئی لمحوں تک بول ہی نہیں سکا۔
’’اور ان کا بیٹا شہیر تو ہوگا ناں ۔۔۔‘‘ وہ اس اچانک اطلا ع سے سنبھل کر بولا تو نابیہ کو اندازہ ہوا کہ وہ سارے ہی خاندان سے واقف ہے۔
’’جی شہیر سے ملاقات کے لیے آپ کو کویت جانا پڑے گا۔۔۔‘‘ نئی اطلاع پر اُسے ایک دم پھر دھچکا لگا۔
’’ان کی بیٹی۔۔۔؟؟؟؟؟‘‘ اب کہ اُس نے محتاط انداز سے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا۔جس کا پراعتماد انداز ہی اس کی سب سے بڑی خوبصورتی تھا۔
’’ان کی بیٹی اسلام آباد گئی ہوئی ہیں۔۔۔‘‘ وہ دلکشی سے مسکرائی۔
’’اور پھپھو۔۔۔؟؟؟؟‘‘ سب سے اہم سوال اُس نے سب سے آخر میں کیا تھا۔
’’اوہ تو آپ ثنائیلہ کے وہ والے کزن ہیں ،جو گذشتہ کئی سالوں سے لاپتہ تھے۔۔۔‘‘اُس نے شرارت بھرے لہجے میں کہتے ہوئے اب دروازہ چھوڑا تو اُس شخص نے بھی ایک پرسکون سانس فضا میں خارج کی۔
’’آ جائیے،خالہ میڈیسن لے کر سو رہی ہیں،فورا نہیں اٹھا سکتی،ورنہ ان کی طبیعت خراب ہوجائے گی۔۔۔‘‘اُس نے اُسے اندر آنے کا اشارہ کیا۔
’’اوہ،کیا ہوا ان کو۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ تھوڑا سا فکرمند ہوا اور اب صحن میں رکھی چارپائی پر بیٹھ گیا۔
’’شوگر ،اور ہائی بلڈ پریشر کے علاوہ انجائنا کی تکلیف بھی ہو چکی ہے۔۔۔‘‘نابیہ سامنے کچن میں بڑھ گئی۔پانچ منٹ کے بعد وہ جام شیریں کے ایک جگ اور دو گلاس لیے باہر آئی۔
’’آپ پھپھو کی کیا لگتی ہیں۔۔۔؟؟؟؟‘‘اُس نے سنجیدگی سے پوچھا تو نابیہ چونک گئی۔
’’جی میں ان کی بیٹی ثنائیلہ کی بیسٹ فرینڈ ہوں،نابیہ۔۔۔‘‘ اُس نے گلاس ان کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا تو اُس نے سر ہلادیا۔
’’انکل زبیر کا انتقال کب ہوا،پھپھو کی جب ماما سے بات ہوئی تھی ،انہوں نے تو نہیں بتایا۔‘‘ وہ الجھن بھرے انداز سے گویا ہوا۔
’’کچھ سال پہلے ۔۔۔‘‘نابیہ برآمدے سے موڑھا اٹھا لائی اور اب اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھتے ہوئے بولی۔’’ہو سکتا ہے کہ وہ فون پر یہ بات نہ بتانا چاہتی ہوں۔‘‘ اُس نے بھی محتاط انداز سے جواب دیا۔
’’آپ کے والد اور والدہ نہیں آئیں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ نابیہ نے حیرت سے پوچھا۔
’’ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی،پھر ایڈریس بھی کچھ کنفرم نہیں تھا،اس سے پہلے تو وکیل صاحب ہی آئے تھے۔‘‘ اُس نے تفصیل سے جواب دیتے ہوئے اس صاف ستھرے گھر کو دیکھا۔
’’آپ لوگوں کو ثنائیلہ اور ان کی والدہ سے رابطہ رکھنا چاہیے تھا،انہوں نے بہت مشکل وقت دیکھا ہے۔‘‘ نابیہ نے اُس اجنبی شخص سے شکوہ کیا۔
’’بس ہم لوگوں کے حالات بھی کچھ ایسے ہو گئے تھے۔۔۔‘‘ اُس نے بھی صفائی دیتے ہوئے اس سادہ سی لڑکی کو غو ر سے دیکھا۔
’’میرا خیال ہے کہ میں خالہ کو اٹھا دیتی ہوں۔۔۔‘‘ اُس کی نظروں کے ارتکاز سے گھبرا کر نابیہ نے عجلت بھرے انداز میں کہا۔
’’میرا خیال ہے کہ رہنے دیں،میں کل امّی کے ساتھ ہی چکر لگا لوں گا۔‘‘ وہ نہ جانے کیوں ایک دم کھڑا ہوگیا۔
’’دیکھیں ،آپ خالہ سے مل کر جائیں ،ورنہ وہ مجھ سے خفا ہو جائیں گی۔۔۔‘‘ نابیہ نے گھبرا کر کہا۔
’’آپ میرا یقین رکھیں ،میں دوبارہ آؤں گا،اس وقت ثنائیلہ بھی گھر ہوں گی،تب تفصیلی بات ہو گی۔۔۔‘‘ وہ فورا باہر نکلا۔نابیہ اس کے پیچھے لپکی۔
’’میرا انتظار کیجئے گا۔۔۔‘‘ اُس نے سن گلاسز ٹشو پیپر سے صاف کرتے ہوئے بڑے گہرے لہجے میں کہا ،نابیہ کی دل کی دھڑکنوں میں ارتعاش سابرپا ہوا۔ وہ سامنے گلی میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔جب کہ نابیہ وہیں کھڑی کی کھڑی اُسے جاتے دیکھتی رہ گئی۔
* * *
ظفر اقبال کی شاعری میں فنی اور لسانی خامیاں
ظفر اقبال کی شاعری اردو ادب میں جدیدیت اور انفرادیت کی مثال سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں جدید...