سیل فون کان کے ساتھ لگائے گفتگو کرتے موحد کے چہرے پر اتنے رنگ تھے کہ ماہم کچھ لمحوں کے لیے ٹھٹک کر دروازے میں ہی رُک گئی۔کشن گود میں رکھے وہ اتنی محویت کے ساتھ بات میں مگن تھا کہ اُسے گلاس ڈور کو دھکیل کر اندر آتی ماہم کی بھی خبر نہیں ہوسکی۔
’’خیر ہے اتنی دھیمی آواز میں کہاں راز و نیاز میں مصروف ہو۔۔۔؟؟؟‘‘ ماہم کے طنزیہ انداز پر وہ چونکا۔اُس نے سیل فون پر مگن انداز سے ہی ماہم کو سامنے صوفے پر ہاتھ سے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔اُس کے بدلے بدلے ڈھنگ ماہم کے لیے بڑے حیران کن تھے۔ماہم کو بیٹھا کر وہ ابھی بھی بڑے اطمینان سے گپ شپ میں مگن رہا۔اُس کا یہ انداز ماہم کو سلگاگیا ۔اُس نے بمشکل خود کو مشتعل ہونے سے روکا۔
’’عائشہ کہاں ہے۔۔۔؟؟؟‘‘ ماہم نے قدرے ناگواری سے اُس کی مصروفیت میں خلل ڈالا۔
’’ایک منٹ۔۔۔‘‘اُس نے سیل فون پر دوسری جانب موجود شخصیت سے معذرت کی۔’’عائشہ اور ماما تو گھر نہیں ہیں۔۔۔‘‘ موحد کا انداز سراسر ٹرخانے والا تھا۔ماہم کو گویا کسی نے کھینچ کر پتھر مار دیا ہو۔غصّہ کسی ابال کی طرح خون میں شریانوں کے ساتھ دوڑنے لگا۔
’’میرا خیال ہے کہ تم خاصے مصروف ہو،اس لیے مجھے چلنا چاہیے۔۔۔‘‘ وہ تپ کر کھڑی ہوئی ۔احساس توہین سے اُس کا چہرہ سرخ ہوا۔جب کہ موحد نے ایک دفعہ پھر ہاتھ کے اشارے سے اُسے رکنے کو کہا اور خود فون پر موجود ہستی سے بڑے نرم لہجے میں معذرت کرنے لگا۔
’’ہاں اب بتاؤ ،کہ کیا کہہ رہی ہو۔۔۔؟؟؟‘‘وہ بڑے پر اعتماد انداز سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔ماہم گڑبڑا سی گئی۔
’’میرا خیال ہے کہ تم خاصے بزی تھے،میں نے خوامخواہ تمہیں ڈسٹرب کیا۔۔۔‘‘ماہم کے کچھ جتلاتے ہوئے انداز پر وہ طنزاً مسکرایا۔ ’’ڈسٹرب تو خیر تم نے مجھے نہیں کیا،ویسے بھی تم تو عائشہ سے ملنے آئیں ہونگی ۔اس لیے میرے ڈسٹرب ہونے کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘
’’کیسا چل رہا ہے تمہارا بزنس۔۔۔؟؟؟؟‘‘ماہم نے خود کو سنبھالتے ہوئے فوراً بات کا رخ بدلا۔
’’الحمد اللہ ،بہت شاندار۔۔۔‘‘ماہم کو نہ جانے کیوں اُس کے لہجے میں طنز کی واضح آمیزش محسوس ہوئی۔وہ ہاتھ میں پکڑے ریموٹ کنٹرول سے ٹی وی آن کر تے ہوئے بولا تھا۔ماہم کا دل چاہا کہ وہ فوراً سے بیشتر اٹھ جائے لیکن اب اس طرح سے اچانک اٹھنا بھی عجیب لگ رہا تھا۔
’’بابا نے ایک اور فیکٹری کا بھی سودا کیا ہے میرے لیے۔۔۔‘‘موحد کی بات پر وہ چونکی۔’’یہ سب کچھ سنبھال لو گے۔۔۔‘‘ ماہم کے لہجے میں بھی طنز کی کاٹ تھی۔
’’میں نے کون سا اپنے کندھوں پر رکھ کر سنبھالنا ہے ۔ماشاء اللہ ملازمین کی ایک فوج ہے میرے ساتھ ۔‘‘ موحد کا لہجہ ہی نہیں آنکھیں بھی سلگ رہیں تھیں ۔اُس کا لاتعلق سا انداز ماہم کے لیے ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا۔
’’ویسے بھی بزنس ٹائیکون بننا کو ئی آسان کام نہیں،ٹانگیں نہ سہی ذہن تو اللہ نے دیا ہے ناں۔۔۔‘‘ وہ اپنی سابقہ رو میں بولا ۔جب کہ ماہم نے اس کی اس بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
’’کب تک آ جائے گی عائشہ۔۔۔؟؟؟‘‘ماہم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو ہی گیا۔اُس نے بیزاری سے اپنی رسٹ واچ میں وقت دیکھا۔
’’ماما کے ساتھ کسی بیوٹی سیلون میں گئی ہے اور تم سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ ان پارلرز میں کتنا وقت لگتا ہے۔۔۔‘‘ وہ اُس پر نظریں جمائے بیٹھا تھا ۔اُس کا ہر جملہ ماہم کو اپنے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برستا محسوس ہورہا تھا۔
’’کیا بنا ثمن آپی کے معاملے کا،وہ بیچارا احیان تو اس سارے معاملے میں خوامخواہ ہی پس گیا۔‘‘ موحد نے اُس کے چہرے کے تنے ہوئے نقوش سے حظ اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
’’پتا نہیں کون سے جاہلوں کے خاندان میں پھنس گئیں ہیں میری آپی۔۔۔’’ماہم بھی کھل کر میدان میں اتر آئی اور ویسے بھی وہ زیادہ دیر تک ادھار رکھنے کے قائل نہیں تھی۔اُسے معلوم تھا کہ ثمن آپی کی شادی موحد اور عائشہ کے ننھیال میں ہوئی تھی اس لیے اُس نے اپنی طرف سے خاصا کڑا وار کیا ۔
’’ہاں جاہلوں کے خاندان میں جا کر وہ بھی جاہل بن گئیں ۔۔۔‘‘ موحد دانستہ بلند آواز میں قہقہہ لگا کر ہنسا۔ ماہم کا چہرہ خفت کے احساس سے سرخ ہوا۔’’انتہائی دقیانوسی خیالات کا حامل ہے ان کا سسرال۔کیوں نہیں دیتے آپی کو مارننگ شو کرنے کی اجازت۔۔۔‘‘وہ سیخ پا ہوئی۔
’’ شریف لوگ ہیں بیچارے ،اُن کے ہاں نہیں ہوتے ہونگے ا یسے تماشے۔۔۔‘‘ موحد نے بھی دوبدو جواب دیا۔
’’ایسی بھی کیا شرافت کہ بندہ اپنا گھر ہی خراب کر لے۔ آپی نے خلع کا نوٹس بجھوا دیا ہے انہیں۔۔۔‘‘اُس نے اپنی تیکھی ناک چڑھا کر اطلاع دی تو موحد کا دل جل کر راکھ ہو گیا۔
’’اب بندہ پوچھے کہ ٹی وی پر آنے کا ایسا بھی کیا جنون، کہ اپنا گھر اور بچّہ تک داؤ پر لگا دیا۔۔۔‘‘موحد کے طنز پر وہ بھڑک کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’بات جنون کی نہیں انصر بھائی کی بلاوجہ کی ’’انا‘‘کی ہے۔ ان کے خود ساختہ اصولوں نے ثمن آپی کی زندگی کو عذاب بنا رکھا ہے۔۔۔‘‘ وہ چلتے چلتے بولی ۔
’’ان سارے اصولوں و قوانین سے ثمن آپی شادی سے پہلے بھی بخوبی واقف تھیں۔۔۔‘‘ موحد کے جتاتے ہوئے انداز پر وہ رکی۔
’’ان کی شادی ارینج میرج تھوڑی تھی۔زبردست قسم کے افئیر کے بعد یہ معرکہ سرانجام پایا تھا۔یہ بات تم لوگ کیوں بھول جاتے ہو۔۔۔‘‘ موحد کی آواز بے ساختہ اونچی ہوئی۔ ماہم کو جھٹکا لگا۔اُس نے ایک غصیلی نگاہ بڑے پرسکون انداز میں بیٹھے موحد پر ڈالی اور پاؤں پٹختی ہوئی ان کے گھر سے نکل گئی ۔یہ اُس کے لیے بلاشبہ ایک سخت دن تھا۔اُسے موحد کے سرد اور طنزیہ لہجے سے سخت مایوسی ہوئی۔وہ غصّے سے گیٹ سے نکلی تو باہر ٹی سی ایس والے نمائندے کو عین سامنے کھڑے دیکھ کر ٹھٹک گئی۔
’’آپ عائشہ عبد الرحیم ہیں ۔۔۔‘‘کورئیر کے مخصوص لبا س میں موٹر سائیکل پر بیٹھا نوجوان جھجک کر بولا۔
’’جی۔۔۔‘‘ ماہم نے کچھ سو چ کر اثبات میں سر ہلایا۔
’’یہ آپ کے لیے بکے اور گفٹ پیک ہے۔یہاں سائن کر دیں۔۔۔‘‘اُس کی بات پر ماہم نے بڑی عجلت میں دستخط کر کے سرخ گلابوں کا خوبصورت بکے اور گفٹ پیک وصول کیا۔اُس کے ساتھ ہی اُس نے مڑ کر دیکھا تو چوکیدار اپنے مخصوص کیبن میں نہیں تھا۔کورئیر والا جا چکا تھا۔وہ دھڑکتے دل کے ساتھ یہ چیزیں اٹھائے تیز تیز چلتے ہوئے اپنے بنگلے میں آ گئی جو عائشہ کے گھر کے بالکل سامنے تھا۔اپنے بیڈ روم میں پہنچ کر اُس نے فوراًبیدردی سے رئیپر پھاڑا ۔اندر سے ایک خوبصورت ٹیڈی بئیر نکلا جس کے گلے میں ہار ڈال کر ایک چھوٹا مگر نفیس سا کارڈ ڈالا ہوا تھا۔ماہم نے فورا کارڈ کھولا۔
’’دنیا کی سب سے اچھی لڑکی کے لیے،جو مجھ سے نہ جانے کیوں خفا ہو گئی ہے۔۔۔‘‘ اس فقرے کے نیچے بھیجنے والے نے اپنا نام علی لکھا ہوا تھا۔پھول،کارڈ ،گفٹ یہ ساری چیزیں ماہم کا سکون درہم برہم کر گئیں۔ اُس نے اپنے اندر ایک الاؤ سا بھڑکتا محسوس کیا۔جس کے شعلے اُسے اپنے دل کی طرف لپکتے ہوئے محسوس ہوئے۔اُسے معلوم تھا کہ یہ سب چیزیں کہاں سے آئیں ہیں ۔وہ شخص جو اس کے دل و دوما غ پر بُری طرح سے قابض ہو گیا تھا۔
’’ماہم منصور کی زندگی میں شکست نام کا کوئی لفظ نہیں۔۔۔‘‘وہ ایک ہی نقطے پر نگاہ جمائے اب بالکل سنجیدگی سے پلاننگ میں مصروف تھی۔
* * *
’’ڈاکٹر خاور، یہ محبت انسان کو اتنا خوار کیوں کرتی ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ڈاکٹر زویا نے آج ہمت کر کے یہ سوال کر ہی لیا تھا۔وہ دونوں آج بڑی فرصت سے ڈاکٹرز روم میں بیٹھے کافی سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔آج ماہم کی رات کی ڈیوٹی تھی اور اُس نے افطاری بھی ہسپتا ل میں ہی کی تھی۔اس وقت رات کے گیارہ بج رہے تھے۔
’’مائی ڈئیر محبت نہیں ،بلکہ یک طرفہ محبت انسان کو خوار کرتی ہے۔انسان ون وے آخر کب تک چل سکتا ہے۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے تھوڑا سا محتاط انداز اپنایا۔ڈاکٹر زویا کی اکثر باتیں اب انہیں جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر نے لگیں تھیں۔
’’مجھے ایسے لگتا ہے کہ جیسے میں کسی صحرا میں سراب کے پیچھے بھاگ رہی ہوں۔میراحلق خشک اور ٹانگیں اب مزیدچلنے سے انکاری ہو گئیں ہیں۔۔۔‘‘وہ آج حد درجہ آزردہ تھیں۔ان کی آنکھوں میں موجود ہلکی سی نمی ڈاکٹر خاور کو تاسف میں مبتلا کر گئی۔
’’زویا،آپ واپس چلی جائیں اپنے والدین کے پاس،یہ آپ کے حق میں بہتر ہوگا۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے دل پر جبر کر کے وہ مشورہ اُسے دے ہی دیا جو وہ کافی عرصے سے اُس کی دل آزاری کے خوف سے نہیں دے پا رہے تھے۔
’’وہ کیوں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ زویا نے شکوہ کناں نگاہوں سے انہیں دیکھا۔
’’دیکھیں ،آپ کے والدین کا پاکستان میں شفٹ ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ۔آپ نے اپنی میڈیکل کی تعلیم باہر سے حاصل کی اور اب اسپیشلائزیشن بھی وہیں سے مکمل کریں تو زیادہ بہتر ہے۔‘‘ڈاکٹر خاور نے بہت سنبھل کر گفتگو کا آغاز کیا۔
’’آپ کو اچھی طرح سے علم ہے ڈاکٹر خاور کہ میں پاکستان آپ کی وجہ سے آئی ہوں۔۔۔‘‘اعتراف کا لمحہ آ چکا تھا۔
’’میں آپ کو بہت پہلے سے بتا چکا ہوں کہ میری زندگی میں فی الحال میرے پروفیشن کے علاوہ کسی اور چیز کی گنجائش نہیں نکلتی۔۔۔‘‘انہوں نے صاف گوئی سے کہا۔زویا نے بھی شاید آج ان کے ڈھکے چھپے انداز کو نہ سمجھنے کی قسم کھا رکھی تھی۔
’’خاور مجھے ایک بات بتائیں۔۔۔‘‘اُس کی بات پر وہ چونکے۔’’مجھ میں کس چیز کی کمی ہے۔۔۔‘‘ زویا کے لہجے میں ٹوٹے ہوئے شیشوں جیسی چبھن تھی۔وہ عجیب سی نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھی جن پر کسی بھی چیز کا اثر نہیں ہوتا تھا۔کئی دفعہ تو زویا کو لگتا کہ وہ اُس کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی دماغی طور پر کہیں اور ہوتے۔
’’میں نے کب کہا کہ کمی آپ میں ہے۔۔۔‘‘ انہوں نے سنجیدگی سے اپنے سامنے بیٹھی نازک سی لڑکی کو دیکھا جو لگتا تھا کہ کسی بھی لمحے رو دے گی۔
’’پھر آپ مجھے بار بار مسترد کیوں کرتے ہیں۔۔۔‘‘زویا کے سوال پر ایک ناگواری کی لہر ان کے چہرے پر ابھری۔
’’اللہ مجھے معاف کرے زویا،میں کون ہوتا ہوں کسی کو رد کرنے والا۔۔۔‘‘ان کے لہجے میں ہلکی سی خفگی در آئی۔’’ زندگی میں ساری اچھی چیزیں سب کے لیے نہیں ہوتیں۔میری زندگی گذارنے کی اپنی ترجیحات ہیں ۔جس میں ابھی ایسی کسی چیز کی گنجائش نہیں نکلتی۔۔۔‘‘اُس کے چہرے پر پھیلی زردی کو دیکھ کر ڈاکٹر خاور نے اپنا لہجہ نرم کیا۔
’’میں آپ کا انتظار کر سکتی ہوں۔۔۔‘‘ڈاکٹر زویا نے بھی آج ڈھٹائی کی انتہاء کر دی۔
’’لیکن میں آپ کو ایسی کوئی انتظار کی ڈور نہیں تھما سکتا ،کیونکہ میں جب بھی شادی کا فیصلہ کروں گا تو اُس لڑکی کا تعلق کم از کم میڈیکل کے شعبے سے نہیں ہوگا۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے آج کھل کر اُسے اپنے خیالات سے آگاہ کر ہی دیا ۔یہ بات سن کر زویا کا چہرہ تاریک ہوا۔وہ ششدر سی نگاہوں سے ان کا سپاٹ چہرہ دیکھنے لگی ۔وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ خاور کے ذہن میں اپنی شریک حیات کے حوالے سے کچھ مخصوص قسم کے نظریات ہونگے۔وہ جو ان کے ساتھ انڈراسٹیڈنگ کا دعوی کرتی تھی اس بات کے جواب میں کافی دیر تک بول ہی نہیں سکی اور جب بولی تو ڈاکٹر خاور کو دھچکا لگا۔
’’کہیں آپ کو اپنی پیشنٹ سکینہ اللہ دتّا سے محبت تو نہیں ہو گئی۔۔۔‘‘ اس وقت انتہائی بے تکی بات پر ڈاکٹر خاور کو سخت غصّہ آیا لیکن وہ پی گئے۔زویا کا یہی بچگانہ انداز ان کو بُرا لگتا تھا ۔
’’کیوں ،اُس سے محبت کرنا گناہ ہے کیا۔۔۔‘‘ وہ تھوڑا سا تلخ ہوئے تو زویا کو اپنے حلق میں کوئی چیز پھنستی ہوئی محسوس ہوئی۔اُس نے بڑی مشکل سے کھینچ کر سانس لیا۔
’’آپ کے انتخاب پر مجھے ہنسی آ رہی ہے۔آپ کے ٹیسٹ کو کیا ہو گیا ڈاکٹر خاور۔۔۔‘‘ وہ بڑی جلدی بدگمان ہوئی۔اُس کے اشتعال انگیز جملے پر ڈاکٹر خاور نے بمشکل خود پر ضبط کیا جب کہ وہ طنزیہ انداز سے کہہ رہی تھی۔
’’میں بھی حیران تھی کہ آپ پورے وارڈ میں سب سے زیادہ اُسے کیوں اہمیت دیتے ہیں۔۔۔‘‘ڈاکٹر زویا کی آنکھوں سے شعلے نکلے۔’’اُس کے لیے خصوصی طور پر ٹی وی منگوایا گیا،مختلف مقابلہ جات میں اپنی گاڑی پر لے کر جاتے رہے۔اُس سے اصرار کر کر کے غزلیں سنی جاتیں تھیں۔واہ ڈاکٹر خاور واہ سچ کہتے ہیں سیانے کہ محبت اندھی ہوتی ہے۔‘‘زویا کا لہجہ،الفاظ اور زہریلی مسکراہٹ ان کے ضبط کے پیمانے کو چھلکا ہی گئی۔
’’اسٹاپ اٹ زویا،نو مور ۔۔۔‘‘ وہ ایک دم جھٹکے سے کھڑے ہوئے اور انگلی اٹھا کر زویا کو وارننگ دی۔اُن کا چہرہ سرخ اور لہجہ سرد ہوا۔’’ایک لفظ بھی مزیدمت کہیے گا۔۔۔‘‘ان کے چہرہ کسی چٹان کی مانند پتھریلا نظر آ رہا تھا زویا کا چہرہ سپید پڑ گیا۔ایک سخت سی نگاہ اُس پر ڈال کر وہ کمرے سے نکل گئے۔وہ تیزی سے پارکنگ کی طرف جارہے تھے جب انہوں نے لان میں ایک پول کے پاس سکینہ اور سسٹر ماریہ کو دیکھا۔ان کے پاس سے گذرتے ہوئے ان کے قدم خود بخود سست ہو گئے۔سکینہ بڑے جذب اور عقیدت بھرے انداز کے ساتھ آنکھیں بند کیے سلطان باہو کا کلام گانے میں مگن تھی۔
اُس کے سانولے چہرے پر اس وقت اتنی روشنی اور پاکیزگی تھی کہ ڈاکٹر خاور کئی لمحوں تک ٹکٹکی باندھے اُسے دیکھتے رہے۔ اپنے چہرے پر نگاہوں کا ارتکاز محسوس کر کے سکینہ نے آنکھیں کھولیں تو سامنے ڈاکٹر خاور کو دیکھ کر گھبراہٹ کا شکار ہوئی۔وہ آج بہت ہی عجیب سی نگاہوں سے اُس پر نظریں جمائے ہوئے اپنی جگہ ساکت کھڑے تھے۔
’’ڈاکٹر صاحب،آئیں یہاں بیٹھ جائیں۔۔۔‘‘ سسٹر ماریہ بڑے عجلت بھرے انداز سے بینچ سے اٹھیں اور انہیں احتراماً بیٹھنے کا اشارہ کیا۔وہ ایک دم ہی ہوش کی دنیا میں آئے ۔’’آپ لوگ اس وقت یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔۔‘‘
’’کچھ نہیں ڈاکٹر صاحب سکینہ کے امّاں ابّا تو سو گئے تھے۔اس کو گھٹن ہو رہی تھی اس لیے میں اسے لان میں لے آئی۔۔۔‘‘ سسٹر ماریہ نے گھبرا کر وضاحت دی۔اُس کی ویسے بھی سکینہ سے دوستی کافی گہری ہو گئی تھی۔
’’اٹس ۔او کے آپ یہاں سے جائیں ،میں کچھ دیر کے لیے سکینہ کے پاس بیٹھوں گا۔۔۔‘‘انہیں نہ جانے کیا ہوا جو یہ فرمائش کر بیٹھے۔سسٹر ماریہ نے تعجب بھرے انداز سے انہیں دیکھا جو اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہے تھے۔وہ کچھ لمحوں کے توقف کے بعد اندر کی جانب بڑھ گئیں۔
’’سکینہ کوئی اچھی سی چیز سناؤ،جو تھکے ہوئے اعصاب کو پرسکون کر دے۔۔۔‘‘ انہوں نے پارکنگ کی طرف غصّے سے جاتیں ڈاکٹر زویا کو دیکھ کر بلا ارادہ کہا۔ان کی اس فرمائش پر سکینہ کا دل بے قابو ہوا۔وہ کچھ پل سخت بے یقینی سے ڈاکٹر خاور کو دیکھتی رہی جو آج بہت مختلف روپ میں اُس کے سامنے تھے۔
’’الف اللہ ، چنبے دی بوٹی، میرے مر شد من وچ لائی ہو۔۔۔‘‘ سکینہ نے بالکل بے اختیاری کے عالم میں لے اٹھائی۔اُس کی آوازنے ڈاکٹر زویا کے قدم جکڑ لیے ۔اُس نے بے ساختہ مڑ کر دیکھا۔ سامنے سکینہ آنکھیں بند کیے کسی اور ہی دنیا میں پہنچی ہوئی تھی جب کے اس کے بالکل سامنے براجمان ڈاکٹر خاور بڑی عقیدت بھری نگاہوں سے ٹکٹکی باندھے سکینہ کا سانولاچہرہ دیکھنے میں مگن تھے۔زویا کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
’’اللہ کرئے مر جائے یہ بدصورت چڑیل۔۔۔‘‘ ڈاکٹر زویا نے نفرت کی انتہاء پر پہنچتے ہوئے بڑے دل سے سکینہ کوبد دعا دی۔
* * *
’’سکینہ کی ماں تیرا کیا خیال ہے کہ اس دفعہ عید پر اپنی دھی رانی کا نکاح نہ کردیں۔۔۔‘‘اللہ دتّا کی بات پر جمیلہ مائی پر شادی مرگ طاری ہوگی۔وہ دونوں اس وقت سارا سامان باندھے پنڈ جانے کے لیے تیار تھے۔ رات کی ٹرین سے ان کی بکنگ ہو چکی تھی۔اس وقت سکینہ کو اسٹاف نرس فزیو تھراپسٹ کے پاس لے کر گئی ہوئی تھی۔
’’سکینہ کے ابّا کیا جاجی کی بے بے مان گئی۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی بے تابی سے اٹھ کر اللہ دتّا کے پاس آ گئی۔جو صوفہ کم بیڈ پر آنکھیں بند کیے کسی گہری سوچ میں تھا۔
’’اُس کی بے بے کا تو پتا نہیں ،لیکن اللہ رکھے نے مجھے تسلی دی ہے کہ پاء جی آپ بے فکر رہیں۔۔۔‘‘ اللہ دتے نے اپنے چھوٹے بھائی اللہ رکھے کی رائے بتا کر جمیلہ مائی کو مطمئن کرنا چاہا جس کے چہرہ اس بات پر بجھ سا گیا۔
’’اللہ خیر سکھ رکھے۔میری دھی کے حصّے کی خوشیاں اُسے ضرور ملیں گی۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کو تسلی دینے کے لیے سکینہ کے ابّے نے بڑے پریقین انداز سے کہا۔
’’انشاء اللہ۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کے دل سے بے ساختہ نکلا۔
’’جاجی تو ماشاء اللہ بہت خوش دِکھائی دیتا ہے۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی نے خوشدلی سے تبصرہ کیا اور اگلے ہی لمحے ایک سوچ اُسے پریشان کر گئی۔ ’’سکینہ کے ابّا،مجھے مائی رحمتے نے فون کر کے بتایا ہے کہ جاجی کی بے بے آجکل تعویز گنڈوں کے چکروں میں ہے۔۔۔‘‘
’’تعویز ،گنڈے۔۔۔‘‘ اللہ دتاّ چونک کر الجھن بھرے انداز سے اپنی بیوی کو دیکھنے لگا۔’’وہ کیوں۔۔۔؟؟؟‘‘
’’وہ اس رشتے سے خوش جو نہیں ہے ،کہتی ہے کہ جاجی کا تعویزوں سے ذہن پھیر دے گی۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کی بات پر اللہ دتّے نے تاسف بھرے انداز سے دیکھا۔
’’سکینہ کی ماں،کیسی باتیں کرتی ہے۔تو ان تعویز گنڈوں کے چکروں میں کہاں سے آ گئی۔۔۔؟؟؟‘‘ اپنے شوہر کی بات پر وہ ایک دم شرمندہ ہوئی۔’’جادو تو برحق ہے ناں۔۔۔‘‘ اُس نے دلیل دی تو اللہ دتے نے تاسف بھرے انداز سے اپنی بیوی کا چہرہ دیکھا۔
’’ سکینہ کی ماں،بے شک جادو برحق ہے لیکن اپنے ذہن میں ہمیشہ یہ سوچ رکھ،کہ جو کرتا ہے،اللہ کرتا ہے اور اللہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے۔ اس میں کسی جادو ،وادو کاکوئی کمال نہیں،اور اللہ کوئی بچّہ تھوڑی ہے جسے لوگ انگلی پکڑ کر جس طرف لے جانا چاہیں لے جائیں،یہ سب کمزور عقیدے کی نشانیاں ہیں۔جو اچھائی اس نے تیری قسمت میں لکھ دی ہے وہ تجھے مل کر ہی رہے گی ،اور جو برائی تیرا مقدر ہے اُسے دعا کے علاوہ کوئی چیز نہیں بدل سکتی۔بس اپنا ایمان پختہ رکھ۔۔۔‘‘ اللہ دتے کے سنجیدہ انداز پر جمیلہ مائی پر گھڑوں پانی پڑ گیا
’’سکینہ کے ابّا،میں بھی انسان ہوں اور اولاد کی محبت مجھے بھی کمزورکر سکتی ہے۔ایسے ہی تو اولاد کو آزمائش نہیں کہا گیا۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی افسردہ ہوئی۔
’’چل تو اپنا دل چھوٹا نہ کر۔۔۔‘‘ وہ نرم ہوا۔ ’’اللہ سے رحم کی توقع رکھا کر،وہ انسان کو وہی دیتا ہے جس کی انسان کو امید ہوتی ہے۔۔۔‘‘ وہ ٹھنڈی سانس لے کر وضو کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ جمیلہ مائی نے انتہائی محبت سے اپنے شریک حیات کا چہرہ دیکھا۔
’’سکینہ کے ابّا۔۔۔‘‘جمیلہ مائی کی پکار پر اُس نے مڑ کر دیکھا۔
’’میری دھی جب بالکل ٹھیک ہو جائے گی تو میں اُسے ڈاکٹر نہ سہی لیکن نرس ضرور بناؤں گی۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کی معصوم سی خواہش پر وہ بے ساختہ ہنس پڑا۔
’’بھلیے لوکے،ابھی اس کے ویاہ کے بارے میں فکرمند ہو رہی تھی ۔اب تو اُسے نرس بنانے پر تُل گئی ہے۔۔۔‘‘ اُس نے جان بوجھ کر اُسے چھیڑا۔
’’نرس تو وہ شادی کے بعد بھی بن سکتی ہے ناں۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کی بات پر اللہ دتا مسکرایا۔’’مجھے کیا پتا،یہ سب پڑھے لکھے لوگوں کی باتیں ہیں،بس دعا کر کہ اپنی دھی رانی کو اللہ صحت یاب کر دے،ساری چیزیں صحت کے ساتھ ہی چنگی لگتی ہیں۔۔۔‘‘
’’تائی کیا بات ہے،اکیلے اکیلے کیوں مسکرا رہی ہے۔۔۔‘‘جاجی افطاری کا سامان لے کر اندر آیا تو جمیلہ مائی کو مسکراتے دیکھ کر تجسّس بھرے انداز سے بولا۔’’اکیلے اکیلے تو نہیں ابھی سکینہ کا ابّا بھی یہیں تھا۔نماز پڑھنے مسجد میں گیا ہے۔‘‘
’’تائی سکینہ کہاں گئی۔۔۔؟؟؟‘‘ جاجی نے متلاشی نگاہوں سے دائیں بائیں دیکھاتو جمیلہ مائی نے سادگی سے کہا۔’’وہ ڈاکٹرنی صاحبہ کے پاس گئی ہے ورزش کرنے۔۔۔‘‘
’’تائی یہ اپنی سکینہ نے آجکل غصّہ کرنا کم نہیں کر دیا۔۔۔‘‘جاجی کے شرارت بھرے انداز پر وہ ہنس دیں۔
’’غصّہ کم نہیں کیا،بس اپنے ابّے کا لحاظ کر جاتی ہے۔اُس کے سامنے بولتی بند ہو جاتی ہے اُس کی۔۔۔‘‘جمیلہ مائی کی صاف گوئی پر جاجی نے بڑا جاندار قہقہہ لگایا۔
’’اس کا مطلب ہے تائی کے مجھے مستقبل میں تائے کو اپنے ساتھ ہی گھر میں رکھ لینا چاہیے۔۔۔‘‘دوپٹے کے پلو سے اپنا چہرہ خشک کرتی جمیلہ مائی بڑے دل سے مسکرائی۔اُسے اپنی دھی کے خوشگوار مستقبل سے جڑی ہلکی سی سوچ بھی گھنٹوں خوش رکھنے کے لیے کافی ہوتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ وہ شام افطاری تک بلاوجہ مسکراتی رہی۔
* * *
عائشہ ننگے پاؤں کارپٹ پر چلتے چلتے دیوا رکے پاس لگے کیلنڈر کے پاس آ کر رک گئی۔ اُس کے چہرے پر بڑی تلخ سی مسکراہٹ پھیلی۔اُس دشمن جاں سے بات کیے ہوئے ایک مہینے سے زائد کا عرصہ ہو گیا تھا۔اُس نے غصّے میں آ کر جو اسے کال یا ٹیکسٹ نہ کرنے کا میسیج کیا تھا۔اُس کے بعد بالکل خاموشی چھا گئی تھی۔اُس نے بھی دوسری جانب دوبارہ رابطہ نہ کرنے کی شاید کوئی قسم کھا لی تھی۔
’’آخر وہ لڑکی کون ہو سکتی ہے جو اس کے ساتھ ہسپتال میں تھی۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اس سوال کے جواب میں دماغ میں جو سوچ اُبھرتی تھی۔وہ چاہتے ہوئے بھی اُس کے متعلق سوچنا نہیں چاہتی تھی۔اُس نے اپنی گیلی ہوتی ہوئی آنکھوں کو سختی سے رگڑا اور بیگ اٹھا کر اپنے بیڈ روم سے نکل آئی۔
’’عائشہ کہاں جارہی ہو۔۔۔‘‘ماما نے شاید اُسے کچن کی کھڑکی سے باہر جاتے دیکھا تھا ۔اس لیے پیچھے سے پکار لیا۔
’’کہیں نہیں ماما،بس یہ تھوڑا سا سینٹورس مال کی طرف جا رہی ہوں۔۔۔‘‘اُس نے مختصراً جواب دیا لیکن ماما کے اگلے سوال نے اُسے کوفت میں مبتلا کیا۔’’کیا ماہم کے ساتھ جارہی ہو۔؟؟؟؟‘‘
’’نہیں ماما،وہ آجکل پتا نہیں کن چکروں میں ہے۔۔۔‘‘اُس نے بیزاری سے اپنے سامنے کھڑی ماما کو دیکھا جن کی کھوجتی نگاہوں پر وہ کچھ مضطرب ہوئی۔انہیں نہ جانے کس انہونی کا احساس ہوا جو وہ فوراً بولیں۔’’میں ساتھ چلوں تمہارے۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’کم آن ماما۔۔۔!!!‘‘وہ جھنجھلائی۔’’آپ تو تیار ہونے میں پورا گھنٹہ لگا دیں گی اور میں اُس وقت تک واپس بھی آ جاؤں گی۔۔۔‘‘
’’یہ رات کے نو بجے کیا کرنے جانا ہے تم نے اکیلے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماما تھوڑا سا فکرمند ہوئیں تو عائشہ نے آگے بڑھ کر ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ایک لمبی سانس فضا میں خارج کی۔’’ماما میں اس سے بھی زیادہ دیر سے گھر آتی رہی ہوں ،لیکن آپ کبھی ایسے پریشان نہیں ہوئیں۔آج کیا ہو گیا ہے۔۔۔؟؟؟‘‘ اُس کے نرم انداز پر وہ کچھ ڈھیلی پڑ گئیں۔’’پتا نہیں بیٹا ایسے ہی دل کچھ پریشان سا ہے ۔اس لیے کہہ دیا۔۔۔‘‘
’’چلیں پھر میں نہیں جاتی۔۔۔‘‘وہ بڑے اطمینان سے سامنے پڑے صوفے پربیٹھ گئی۔
’’ارے نہیں بیٹا،میں نے ایسا کب کہا۔۔۔‘‘ ماما کو ایک دم شرمندگی ہوئی۔’’کیا کوئی خاص چیز لینے جانا تھا۔۔۔‘‘
’’ماما خاص کا تو پتا نہیں ،موحد بھائی نے ایک غریب معذور لڑکی کے لیے عید کی شاپنگ کا کہا تھا۔وہ ہی کرنے جا رہی تھی۔‘‘عائشہ کی اطلاع پر ان کو جھٹکا لگا۔
’’معذور لڑکی۔۔۔؟؟؟؟وہ کہاں سے مل گئی موحد کو۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ایک فطری سی پریشانی نے ان کا گھیراؤ کیا۔’’کیا وہ وہی ہے جس سے موحد فون پر باتیں کرتا ہے۔۔۔‘‘
’’نو ماما۔۔۔‘‘ عائشہ ہنسی۔ ’’وہ لڑکی تو اچھی خاصی ٹھیک ٹھاک ہے ۔اپنے پیروں پر چلتی ہے۔۔۔‘‘
’’تمہیں کس نے بتایا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ بے صبری سے بولیں۔
’’چوکیدار بابا نے یونہی ذکر کیا تھا کہ عائشہ بی بی آپ کی کوئی دوست ملنے آئیں تھیں جب ہم ناران گئے تھے۔آپ تو ملیں نہیں لیکن موحد صاحب کے ساتھ وہ کافی دیر بیٹھیں رہیں ہیں لان میں۔۔۔‘‘عائشہ کے انکشاف پر ماما کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔’’تم نے پوچھا موحد سے ؟؟؟؟‘‘
’’جی بتا رہے تھے کہ ان ہی کی کوئی دوست تھی۔۔۔‘‘ عائشہ نے مزے سے بتایا۔اُس کا موڈ خاصا بہتر ہو گیا تھا۔
’’بہت چالاک نکلا یہ موحد،ہمیں بھی ملوا دیتا۔۔۔‘‘ انہوں نے منہ بناتے ہوئے کہا تو عائشہ مسکرا دی۔’’لیکن اُس معذور لڑکی کو کس چکر میں عیدی بجھوائی جا رہی ہے۔۔۔‘‘ انہیں یاد آیا تووہ تھوڑا سا جھنجھلائیں۔
’’ماما آپ کو پتا تو ہے کہ خدمت خلق کے جراثیم ہم دونوں بہن بھائیوں کو جینز میں ملے ہیں ۔وہ لڑکی اُسی ڈاکٹر کی پیشنٹ ہے جس کے پاس موحد آجکل جا رہا ہے۔‘‘ عائشہ نے تفصیل سے بتایا تو انہوں نے سکون کا سانس لیا۔
’’اور تو کوئی بات نہیں ہے ناں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ ابھی بھی مشکوک تھیں۔ اُن کے اس انداز پر عائشہ مسکرا دی۔’’یہ نہ ہو کہ وہ کل کو اُسی لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر گھر لے آئے کہ ماما ان سے ملیں یہ ہے آپ کی ہونے والی بہو۔۔۔‘‘
’’اگر ایسا بھی ہو جائے تو اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔۔۔‘‘وہ مزے سے بولی۔جب کہ اس بات پر ماما کو تو لگتا تھا کہ پتنگے لگ گئے۔’’دماغ ٹھیک ہے تم دونوں کا،دنیا سے انوکھی اولاد ہے میری۔کان کھول کر سن لو اور بتا دینا اپنے بھائی کو میں اس گھر میں کوئی اور وہیل چئیر برداشت نہیں کروں گی۔‘‘وہ پاؤں پٹختی ہوئیں اندر چلی گئیں جب کہ عائشہ کو ان کی بات سے خاصا صدمہ پہنچا۔
’’واہ میرے مولا،انسان کتنا خود غرض ہے اپنی اولاد کے لیے ہر لحاظ سے مکمل چیز چاہتا ہے اور دوسروں کے لیے اُسے اپنی اپاہج اولاد کا اتنا بڑا نقص بھی نظر نہیں آتا۔۔۔‘‘وہ دل ہی دل میں کڑھتی ہوئی پورچ تک آئی اور گاڑی اسٹارٹ کی۔وہ ابھی مین روڈ پر ہی آئی تھی کہ سیل فون پر رامس علی کی کال نے اُسے اپنی طرف متوجہ کیا۔
’’مدر ٹریسا ،اب کہاں خدمت خلق میں مصروف ہیں۔۔۔؟؟؟؟‘‘اُس کی چہکتی ہوئی آواز نے عائشہ کے اندر چھائی کثافت کو دور کیا۔
’’سینٹورس مال جانے کا ارادہ ہے۔۔۔‘‘ عائشہ نے گاڑی کو تیسرے گئیر میں ڈالتے ہوئے جواب دیا۔
’’ہوں ،موجیں ہو رہی ہیں۔۔۔‘‘وہ ہنسا۔عائشہ کو اُس کی قوت ارادی پر حیرت ہوئی۔وہ خود کو بہت جلد نارمل لائف کی طرف لانے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’موجیں تو نہیں ،بس تھوڑی بہت شاپنگ کا ارادہ تھا۔۔۔‘‘ اُس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’میں خود بھی بلیو ائیریا میں ہوں۔ماما کی کل برتھ ڈے ہے ،کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ ان کے لیے کیا کروں۔۔۔‘‘اُس نے اپنی الجھن کا اظہار کیا۔
’’کچھ بھی لے لو،خواتین کے لیے کچھ لینا ہوتوبہت چوائس ہوتی ہے۔۔۔‘‘ عائشہ نے سگنل پر کھڑے ہونے کے لیے کلچ دبا کر بریک پر پاؤں رکھا۔
’’مثلاً۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ ابھی بھی کنفیوژ تھا۔
’’کوئی سوٹ، بیگ،جیولری یا پرفیوم۔۔۔‘‘اُس نے ایک ہی سانس میں کئی چیزیں گنوائیں تو دوسری جانب وہ بے ساختہ ہنس پڑا۔’’یہی تو سمجھ نہیں آرہا ناں کہ کون سا لوں،ساری چیزیں ایک جیسی لگ رہی ہیں۔۔۔‘‘
’’حد ہو گئی ہے بھئی۔۔۔‘‘عائشہ کے لہجے میں مصنوعی برہمی چھلکی۔’’تمہاری کوئی بہن نہیں ہے کیا۔۔۔‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘ وہ مزے سے بولا تو عائشہ کو اس کی مشکل کااب درست اندازہ ہوا۔’’ایسا کرو کہ بلیو ایریا سے سیدھے ’’سینٹورس‘‘آ جاؤ،میں کچھ مدد کر دیتی ہوں۔۔۔‘‘ اُس کی آفر پر دوسری جانب وہ کھل اٹھا۔اُس نے مروتاً بھی انکار نہیں کیا۔’’او ۔کے میرا انتظار کرو۔۔۔‘‘
’’اُف لگتا ہے کہ سارا شہر ہی یہاں اکھٹا ہے۔۔۔‘‘ویک اینڈ ہونے کی وجہ سے پارکنگ میں بھی خاصا رش تھا۔ اُسے بمشکل جگہ ملی ۔گاڑی لاک کر کے وہ مال کی طرف بڑھی۔ فضا میں نم آلود ہواؤں نے اس کا استقبال کیا۔ اپنے بالوں میں لاپرواہی سے ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ اندر داخل ہوئی۔ گراؤنڈ فلور میں کافی رش تھا۔ رامس کے انتظار میں ایک کارنر پر بنی فوڈ شاپ کے خوبصورت صوفے پر بیٹھ گئی۔ برٹنی اسپئیرزکے گانے کی خوبصورت دھن بج رہی تھی ۔وہ الیکٹر ک سیڑھیوں سے اترتے مختلف لوگوں کو دیکھنے لگی۔
’’کیا لوگ واقعی ہی اتنے خوش ہوتے ہیں ،جتنے نظر آتے ہیں۔۔۔‘‘ہنستے مسکراتے لوگوں کو دیکھتے ہوئے وہ سوچنے لگی۔ ایک دم ہی اس کی نظرایک منظر پر پڑی۔اُسے جھٹکا لگا۔حیرت اور بے یقینی کی زیادتی سے وہ سامنے الیکٹرک سیڑھیوں سے اترتے اُس خوش باش کپل کو کھڑے ہو کر دیکھنے لگی۔
اُسے حقیقتاً سوواٹ کا جھٹکا لگا۔دکھ،غم،بے یقینی اور صدمے کے تاثرات سے اُس کے چہرے کے زاوئیے بگڑ سے گئے۔ دل کرب کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتا گیا۔وہ دھم سے دوبارہ سنگل صوفے پر بیٹھ گئی۔ اُس کی گمان کی آخری سرحدوں پر بھی کہیں نہیں تھا کہ وہ آج علی کے ساتھ ہنستی مسکراتی ماہم کو دیکھے گی جو اپنے سارے ہتھیاروں سے لیس سارے جہان پر بجلیاں گراتی پھر رہی تھی۔کسی بات پر ہنستے ہوئے اُس نے بے ساختہ اپنا ہاتھ علی کے بازو پر رکھا تھا۔وہ دونوں اس کی موجودگی سے لاعلم تھے۔
’’واٹ اے بیوٹی فل اینڈ پرفیکیٹ کپل۔۔۔‘‘ عائشہ کے بالکل سامنے دو ٹین ایجز لڑکیاں لیمن سلش کے گلاس میں اسٹرا گھماتی ہوئی ان دونوں پر بلند آواز پر تبصرہ کر رہی تھیں۔ عائشہ کو یوں لگا کہ جیسے کسی نے اُسے سینٹورس کی بلند عمارت سے بڑا زور دار دھکاّ دے دیا ہو۔آنسوؤں کی ایک پتلی سی لکیر اُس کی دونوں آنکھوں سے نکل کر پورے چہرے پر پھیلتی گئی۔
* * *
(صائمہ اکرم چوہدری کا یہ دلچسپ ناول ابھی جاری ہے، باقی واقعات اگلی قسط میں پڑھیے)
’یہ ماہم کچھ عجیب سی نہیں ہوگئی۔۔۔‘‘ماما نے اس کے تندور بنے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھتے ہوئے اچانک کہا۔وہ پچھلی رات سے سخت بخار میں جل بھن رہی تھی۔پتا نہیں اندر کون سا آگ کا آلاؤ تھا جو سرد ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
’’صبح مجھے گیٹ پر ملی تھی اور میں نے اُسے تمہاری بیماری کا بھی بتایا ،لیکن اُس نے سارا دن ہو گیا ،ایک دفعہ جھانکنے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی۔‘‘ماما کا الجھن بھرا انداز پاس بیٹھے موحد کو سلگا گیا۔تبھی وہ طنزیہ لہجے میں گویا ہوا۔۔۔
’’وہ کون سا ڈاکٹر لگی ہوئی ہے جو آپ اُسے صبح سے یاد کیے جا رہی ہیں۔۔۔‘‘ موحد نے گو دمیں رکھا اخبار ایک دفعہ پھر اٹھا لیا۔اُس کی تیوری کے گہرے بل اس کے خراب موڈ کی نشاندہی کر رہے تھے۔عائشہ کی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے وہ آج فیکٹری بھی نہیں گیا تھا۔
’’پھر بھی اتنی اچھی دوست ہے وہ عائشہ کی۔۔۔‘‘ماما کی سادگی پر وہ بُری طرح چڑااور ہاتھ میں پکڑا اخبار عائشہ کے بیڈ پر پھینک دیا۔’’آپ ایسا کریں کہ ابھی ماہم کے گھر جائیں اور وہاں جاکر یہ بھاشن سنا آئیں جو آپ کئی گھنٹوں سے مجھے اور عائشہ کو سنا رہی ہیں۔۔۔‘‘
’’کیا ہو گیا ہے موحد،اس میں اتنا خفا ہونے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔‘‘ماما نے حیرت کی زیادتی سے آنکھیں پھیلائیں۔
’’ظاہر ہے جب آپ ایک ہی ٹاپک پر با ت کر کر کے اگلے کے دماغ کی لسی بنائیں گی تو اُسے غصّہ نہیں آئے گا کیا۔۔۔‘‘وہ بُری طرح جھنجھلایا۔’’اب ایسی کون سی وہ نواب زادی لگیں ہوئیں ہیں جن کی تیمارداری نہ کرنے کا دکھ آپ کو کھائے جارہا ہے۔۔۔‘‘اُس کے تیز بولنے پر ماما چپ کر گئیں۔
’’آپ دونوں نے اگر لڑنا ہے تو پلیز میرے سرہانے بیٹھ کر یہ کارنامہ مت سر انجام دیں۔‘‘عائشہ کی نقاہت زدہ آواز میں بیزاری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اُس نے بمشکل آنکھیں کھول کر ماما اور موحد کو دیکھا جو اب خفگی سے قدرے رخ موڑے بیٹھے تھے۔
’’میں نے تو بس ایک بات کی تھی۔۔۔‘‘
’’ماما،پلیز لیو دس ٹاپک ناؤ۔۔۔‘‘ موحد نے باقاعدہ ہاتھ جوڑے تو وہ شکایتی نگاہوں سے عائشہ کو دیکھنے لگیں۔کمرے میں چبھنے والی خاموشی نے بڑی عجلت میں اپنا ڈیرہ جما لیا۔
’’میں تمہارے لیے دلیہ بنواتی ہوں۔۔۔‘‘ماما ناراضگی کے اظہار کے طور پر کچن چلی گئیں۔
’’دماغ خراب ہو گیا ہے ماہم کا۔۔۔‘‘ماما کے باہر نکلتے ہی موحد نے عائشہ کو مخاطب کیا۔’’اس قدر فضول اور بے تکی باتیں کرنے لگی ہے کہ دماغ کھولنے لگتا ہے۔ ‘‘عائشہ نے اس کی بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔اُس کاتواپنادماغ بھی کل سے ماؤف تھا۔رہ رہ کر وہ سین یاد آرہا تھا جس میں ماہم نے ہنستے ہوئے علی کے بازو پر اپنا ہاتھ رکھا تھا۔
’’عائشہ۔۔۔‘‘موحد نے فکرمندی سے اس کا ماتھا چھوا۔حدت پہلے کی نسبت خاصی کم ہو گئی تھی۔
’’یہ بیٹھے بیٹھائے تم نے کیسے طبیعت خراب کر لی،ابھی کل صبح تک تو بالکل ٹھیک ٹھاک تھیں۔۔۔‘‘اُس کا لہجہ نرم ہوا۔
’’پتا نہیں بھائی۔۔۔‘‘وہ بمشکل گویا ہوئی۔’’مجھے خود نہیں پتا۔۔۔‘‘اُس نے نقاہت سے آنکھیں بند کر لیں۔ویسے بھی آنسو آجکل ہر وقت نکلنے کو بے تاب رہتے تھے۔
’’عائشہ کوئی اور مسئلہ تو نہیں۔۔۔‘‘ موحد اُس کی کمزور اور زردشکل دیکھ کر ٹھٹک سا گیا۔ اُسے کسی غیر معمولی بات کا احساس ہوا۔
’’کچھ نہیں ہے بھائی ،پلیز مجھے تنگ نہ کریں۔۔۔‘‘اُس نے اتنی لجاجت سے کہا کہ موحد کے ہونٹوں پر ایک دم چپ لگ گئی۔’’مجھے سونے دیں۔۔۔‘‘اُس نے نروٹھے پن سے کہا تووہ خاموشی سے اپنی وہیل چئیر سمیت باہر نکل آیا۔
’’ماما عائشہ کے کمرے میں مت جائیے گا،وہ سو رہی ہے۔۔۔‘‘اُس نے سنجیدگی سے ماما کو کہا جو دلیے کا پیالہ اٹھائے اس کے کمرے کی طرف جا رہیں تھیں۔
’’اتنی جلدی۔۔۔‘‘ماما کو موحد کا لہجہ غیر معمولی سنجیدہ لگا تو وہ وہیں کھڑی رہ گئیں۔
’’ماما عائشہ کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے کیا؟؟؟‘‘ ماما نے چونک کر اُسے دیکھا۔ وہ بُری طرح الجھا ہوا تھا۔
’’پتا نہیں بیٹا،لیکن کافی دنوں سے وہ مجھے کچھ ٹینس سی لگ رہی ہے۔۔۔‘‘ماما کی بات پر ایک گہری سوچ کا تاثر اُس کے چہرے پر ابھرا۔اگلے ہی لمحے وہ دونوں لاؤنج میں بیٹھے اپنی ساری ناراضگی بھلائے عائشہ کے متعلق گفت و شنید میں مگن ہو گئے۔
* * *
ہر لفظ میں اک جہاں آباد ہے
قابلِ احترام اساتذۂ کرام!تیسری تدریسِ اُردو کانفرنس کے انعقاد پر”پاکستانی تنظیمِ اساتذہ برائے تدریسِ اُردو“ کو دلی مبارک باد۔ آپ...