شہریار نے اپنی لاہور والی کوٹھی مہر میں لکھ دی تھی۔حنا نے کوٹھی واپس کرنی چاہی تو شہریار نے اسے خط لکھا۔”تم نے آج تک میری ایک بات بھی نہیں مانی ہے خدا کے لیے یہ آخری بات تو مان لو۔”
کتنے سارے برس بیت گئے۔حنا نے ایم اے کرنے کے بعد ایک کالج میں لیکچرار شپ کر لی تھی۔حمید الدین بہت کچھ چھوڑ کر گئے تھے۔لاہور کوٹھی کا کرایہ بھی باقاعدگی سے ملتا تھا۔اسکی سوتیلی ماں کے سلوک میں بھی اب محبت اور نرمی اتر آئی تھی۔دراصل ان کے میکے میں بھی کوئی ایسا نہیں تھا جو بیوگی کے ایام میں انہیں سہارا دیتا۔حنا نے انہیں محبت دی’تحفظ دیا’ویسے بھی اب وہ حنا کی دست نگر تھیں۔دونوں ایک دوسرے کی تنہائیوں کی بہترین رفیق تھیں۔وقت گزاری کے لیے حنا نے ملازمت کر لی تھی۔شہریار کے متعلق اس نے سنا تھا کہ اس نے شادی کر لی تھی۔شہریار کے متعلق اس نے سنا تھا کہ اس نے شادی کر لی ہے اور شاید دو تین بچے بھی ہو گئے ہیں۔کبھی کبھی حنا کا دل چاہتا وہ فیصل آباد جا کر شہریار کو دیکھ آئے۔اس کی بیوی اور بچوں کو دیکھنے کے لیے کئی دفع جی مچلا مگر اپنے آپ سے خوفزدہ تھی’ہمت نہ ہو سکی خالہ بی نے اس سے ہر قسم کے تعلقات توڑ لیے تھے ‘وہ ان سے ملنے کا کیا بہانہ کرتی۔ان دنوں اس کے لاہور والی کوٹھی کے کرایے دار گھر چھوڑ گئے تھے۔کوٹھی مرمت طلب ہو رہی تھی۔حنا نے امی سے کہا کہ کچھ دنوں کے لیے لاہور چلے چلتے ہیں’میں کوٹھی کی مرمت اپنے سامنے کرالوں’بعد میں جانے کیسے کرایہ داروں سے واسطہ پڑے۔دونوں کچھ عرصے کے لیے لاہور آگئیں۔حنا کی یہاں ایک سہیلی رہتی تھی’اس کے شوہر کی مدد سے کوٹھی کی مرمت کا کام شروع ہو گیا۔حنا خود بھی بھاگ دوڑ کرتی رہی۔
ایک شام وہ گورنر ہائوس کے سامنے ٹیکسی رکشا کے انتظار میں کھڑی تھی کہ ایک سفید کرولا سے کسی نے سر نکالا۔گاڑی دس پندرہ منٹ آگے نکل گئی تھی وہ پھر بیک ہوئی۔
“حنا!”ایک جانی پہچانی آواز نے اسے پکارا۔
اس کا دل جیسے سینہ توڑ کر باہر نکلنے کے لیے بے تاب ہوگیا۔اسنے شہریار کو پہچان لیا تھا۔
وہ گاڑی روک کر بے تابی سے اتر آیا”حنا! یہ تم ہی ہو نا۔یہاں کب آئیں آئو میں تمہیں ڈراپ کردوں”شہریار کی آواز میں ہلکی سی لرزش تھی۔اس نے اپنا بازو اس کے کندھے پر رکھ دیا۔وہی پیار بھری اپنائیت’وہی نرم لہجہ’حنا سر سے پائوں تک کانپ اٹھی۔
ان آٹھ نو برسوں میں شہریار کتنا بدل گیا اس کی کنپٹیوں پر سفید بال چمک رہے تھے اور آنکھیں بجھی بجھی تھیں’وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کھینچی چلی گئی۔دونوں گاڑی میں بیٹھے۔ دیر تک خاموش رہے۔حنا کے گلے میں آنسووں کا پھندا پڑ گیا تھا اور شہریار کا چہرہ جذبات کو ضبط کرنے کی کوشش میں سرخ ہو گیا تھا۔
“آپ کیسے ہیں؟”حنا نے بہ مشکل یہ بھونڈا سا سوال کیا اور خود ہی شرمندہ ہو گئی۔
“میں؟میں بہت مزے میں ہوں۔میرے تین بچے ہیں’دو لڑکے ایک لڑکی۔تینوںبہت کیوٹ ہیں۔بیوی بھی نہت پیاری ہے۔مجھے بہت چاہتی ہے”شہریار ایک سانس میں کہہ گیا۔اس کی آواز آنسووں میں بوجھل ہونے لگی تو یک دم خاموش ہو گیا۔
“مجھے خوشی ہے شہریار کہ تم آسودہ ہو’بال بچوں والے ہو”حنا نے جیسے بڑے حوصلے کا ثبوت دیا۔
شہریار نے گہری نظروں سے اسے دیکھا اور ہونٹ چباتے ہوئے بولا”تم سچ سننا چاہتی ہو تو سنو میرے پاس اولاد ہےشہرت ہے دولت ہے مگر میرے اندر ہر وقت کوئی روتا رہتا ہے۔میرے دل میں ہر وقت دھواں سا بھرا رہتا ہے۔تم نے مجھے برباد کر دیا حنا! تم نے مجھے مار ڈالا ہے ظالم۔میری بیوی کہتی ہے میں سوتے میں روتا ہوں۔خود ہی بولتا رہتا ہوں’میرے بچے پوچھتے ہیں پاپا آپ ہمارے ساتھ ہنستے بولتے کیاں نہیں۔انہیں کیا بتائوں کہ ایک خود غرض ظالم عورت نے اپنی خوشیوں’اپنے نشے کی خاطر مجھے غم کے سمندر میں دھکیل دیا”
شہریار کے آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔
حنا سے ضبط نہ ہوا تو وہ رونے لگی۔شہریار نے گاڑی ایک طرف کھڑی کر دی۔
“میں کب سے تم سے ملنے کے لیے بے قرار تھا۔صرف یہ بتانے کے لیے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
شہریار سے فقرہ پورا نہ ہوا اس کی آواز میں لرزش بڑھ گئی تھی’اس نے ایک جھٹکے سے ڈیش بورڈ کھولا۔کانپتے ہاتوں سے ایک ڈبہ نکال کر کھولا۔مارفیا کے انجیکشنز سے بھرا ہوا تھا۔
حنا کے منہ سے گھٹی ہوئی سی چیخ نکل گئی۔
“ہاں خود غرض عورت’تجھے اسی چیز سے محبت تھی’دیکھ میں نی بھی اسے گلے لگا لیا’اب تو تو خوش ہے نہ؟”
“شہریار تم نے یہ کیا کیا؟” حنا کی آنکھوں میں سمندر اتر آیا اور شہریار کا چہرہ ایک دم بھیانک ہو گیا۔
“ظالم عورت تو نے مجھے برباد کر دیا اتر جا۔چلی جا یہاں سے دفع ہو جا”انہوں نے حنا کا بازو پکڑ کر دھکا دیا۔
حنا نے جلدی سے دروازہ کھولا’شہریار پھر گرجے۔
“چلی جا’ میں تجھ سے نفرت کرتا ہوں”
شہریار نے اسکا پرس باہر اچھال دیا۔
“شہریار میری بات تو سنو”
حنا نے آخری التجا کی مگر شہریار نے منہ پھیر لیا اور گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
ماں باپ کی غلطیوں نے’ان کی توجہ نہ دینے نے’اسے گہری کھائی میں دھکیلا تھا۔اس کی اصل سزا گویا اسے اب ملی تھی۔حنا نے روتے روتے اپنا پرس اٹھایا۔کاش وہ ظالم اس کی بات پوری سن لیتا کہ وہ مارفیا کے انجیکشن کب کے چھوڑ چکی ہے۔
طلاق کے بعد اسکا نروس بریک ڈائون ہو گیا تھا۔اس کی ایک سہیلی نے اسے ہسپتال میں داخل کرا دیا تھا وہیں اسکا مارفیا چھڑانے کا علاج ہوا تھا اور اب تو مارفیا کی ننھی ننھی شیشیوں کو دیکھ کر ہی اسے پھریری آ جاتی ہے۔۔۔
ختم شد۔۔۔
روہتاس کے سرکٹے بزرگ حضرت سخی خواص شاہ آف خواص پور
برِّ صغیر، جی ہاں ہمارے والے برِّصغیر میں سن سینتالیس میں کھنچی سرحد کے اِس پار یعنی ہماری طرف کچھ...