شہریار نے اسکے دونوں بازو پکڑ کر ایک طرف دھکا دیا اور کھوکلا قہقہہ لگاتے ہوئے بولا۔”راستہ چھوڑو”
آپ نے شراب پی ہے؟”وہ ان کے قریب ہو گئی۔
“تم۔۔۔۔۔تم تو تھرڈ کلاس نشہ کرتی ہو’میں نے تو قیمتی نشہ کیا ہے”وہ ہنستے ہنستے اندر آکر بستر پر گر گئے۔
حنا نے جلدی سے ان کے جوتے اتارے بمشکل کوٹ اتار کر ٹائی ڈھیلی کی اور کمبل اوڑھا دیا۔وہ بے خبر سوتے رہے اور حنا تمام رات ان کے پہلو میں بیٹھی آنسو بہاتی رہی۔صبح اسنے ٹی بیڈ سائیڑ ٹیبل پر لاکر رکھی تو وہ افسردگی سے مسکرادیے۔
“کیا ضرورت تھی رات بھر آنسو بہانے کی”انکا لہجہ کٹیلا تھا۔
آپ نے رات کو شراب پی تھی۔کیوں پی آپ نے؟” وہ ایک دم دیوانوں کی طرح الجھ پڑی۔شہریار نے سختی سے اسکی کلائیاں تھام لیں اور سختی سے بولے۔
“اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو’تم عورت ہو کر نشہ کر سکتی ہو تو میں مرد ہو کر کسی محفل میں شراب نہیں پی سکتا۔حنا میری اور اس گھر کی بربادی کی ذمہ دار تم ہو صرف تم۔” وہ ٹہر کر کرخت لہجے میں بول رہے تھے۔
“میں بہت بری ہوں شہریار۔بہت بری۔” حنا دونوں ہاتھ چھڑا کر رو پڑی۔
“حنا اب بھی وقت ہے کچھ نہیں گیا۔میں نے کل محض اس لیے شراب کو پہلی بار حلق سےاتارا تھا کہ میں تمہیں یہ بتانا چاہتا تھا کہ نشہ انسان کو کتنا مختلف بنا دیتا ہے اسے اسکی سطح سے کتنا گرا دیتا ہے۔میں نے تمہیں سبق سکھانے کے لیے پہلی بار یہ گناھ کیا ہے میری جان’اب بھی مان جائو۔اور کتنا گناھگار بنائوگی مجھے”وہ بچوں کی طرح رو پڑے۔
اسی روز شہریار کی والدہ بہو اور بیٹے سے ملنے آگئیں۔ان دونوں کی آپس کی جھڑپوں کی خبر پڑوس والوں کو ہو چکی تھی۔ان کے کانوں میں بھی داستانیں انڈیل دی گئیں۔خالہ نے سر پیٹ لیا۔دونوں کو علیحدگی میں بٹھا کر حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کی مگر وہ خوبصورتی سے ٹال گئے۔خالہ کو اچھی طرح یاد تھا کہ شادی کے ابتدائی دنوں میں انکی بھی اپنے میاں سے کھٹ پٹ رہتی تھی۔ان کے میاں تیز مزاج تھے اور خالہ بھی لاڈوں میں پلی تھیں دونوں ایک دوسرے کو دبانے کے چکر میں گھنٹوں چونچیں لڑاتے تھے۔بچے پیدا ہو جانے کے بعد خالہ خود بہ خود دب گئیں۔انہوں نے دوسرے ہی روز حنا کے ساتھ لیا اور لیڈی ڈاکٹر کے پاس جا پہنچیں۔
ڈاکٹر نےاسکا اچھی طرح معائنہ کیا اور خالہ بی سے علیحدگی میں بولی۔”آپکی بہو نشے کی عادی ہے۔اسکی جسمانی قوتیں زائل ہو چکی ہیں۔یہ بچہ پیدا نہیں کر سکے گی۔نشے نے اسکے اعضا بیکار کر دیے ہیں پہلے اسکا نشہ چھڑانے کا علاج کرائو۔”
خالہ بی دم بخود رہ گئیں۔ان کے پائوں تلے سے زمین سرک گئی تھی۔سات پشتوں سے ان کے خاندان میں کسی مرد نے نشہ نہیں کیا تھا۔وہ غم و غصے سے پاگل ہو گئیں۔شہریار سر جھکائے ان کی تلخ و ترش باتیں سنتا رہا جن کی تان یہاں آ کر ٹوٹی کہ میں ایک منٹ اسے اپنے پاس نہیں رکھوں گی۔موئی بانجھ بیمار اور نشئی عورت کا اس گھر میں کیا کام۔
انہوں نے شہریار کو دوسری شادی کا الٹی میٹم دے دیا مگر شہریار نے چلتے چلتے صاف کہہ دیا کہ میں حنا کو نہیں چھوڑ سکتا۔
حنا نے سنا تو اسکا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔اس نے ایک دن جھکی جھکی پلکوں سے کہا۔”شہریار!آپ دوسری شادی کر لیں۔”
شہریار نے اسے گہری نظروں سے دیکھا اور بولا۔”اگر تم مجھے واقعی خوش دیکھنا چاہتی ہو تو مارفیا لگوانا چھوڑ دو۔مجھے اولاد نہیں تمہاری محبت چاہیے۔تم میری زندگی جنت بنا سکتی ہو۔”
شہریار کہہ کر چلے گئے۔ان کے لہجے کے درد کو حنا نے پوری طرح محسوس کیا تھا مگر جب اس پر نزع جیسا عالم طاری ہوگیاتو اسکے ہاتھ پیر مارفیا کے لیے تڑپ اٹھے۔
شام کو شہریار چپ چاپ بیڈ پر آکر لیٹ گئے۔حنا دھیرے دھیرے آکر ان کے قریب بیٹھ گئی۔وہ سمجھ گئے کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے۔کروٹ بدل کر پوچھا۔”کیا بات ہے؟”
“شہریار! مجھے طلاق چاہیے۔میں نے تمہیں ذہنی طور پر کبھی قبول نہیں کیا اور یہی میرے نشہ کرنے کی وجہ ہے۔”الفاظ تھے کہ شیشے کی کرچیاں شہریار کے دل کو چیرتی روح میں پیوست ہو گئیں
“خوب تو محترمہ ابھی بھی نشے میں ہیں”شہریار نے خود فریبی کا سہارا لینا چاہا۔
“نہیں شہریار میں نشے میں نہیں ہوں۔آج میں تمہیں اپنے دل کی بات بتا رہی ہوں۔میں شادی سے پہلے کسی اور کو پسند کرتی تھی اگر خالہ مجھے نہ مانگ لیتیں تو شاید۔۔۔۔۔۔خیر جو ہوا سو ہوا مگر میں اس نشے کو نہیں چھوڑ سکتی’مجھے طلاق دے دو”حنا یہ جھوٹ بولتے وقت پوری جان سے لرز رہی تھی۔
شہریار نے حیرت اور دکھ سے اس دھان پان سی لڑکی کو دیکھا جو ان کے دل کو کچلنے کا تہیہ کیے ہوئے تھی۔
انہوں نے کہا”حنا دیکھو جان!جہاں تک تمہاری سابقہ محبت کا تعلق ہے تو میں اس جھانسے میں ہرگز نہیں آئوں گا۔تم نے دنیا میں صرف ایک ہی شے سے محبت کی ہے اور وہ ہے مارفیا کا انجیکشن۔یہی میرا سب سے بڑا رقیب ہے اور اسی کے لیے تم مجھے ٹھکرا رہی ہو۔بولو کیا یہ جھوٹ ہے؟”
ان کی آواز شدت غم سے کانپ رہی تھی۔
حنا نے کہا۔”شہریار بس اب کچھ نہ بولو۔ہاں میں مارفیا نہیں چھوڑ سکتی مجھے تم نے کوئی سکون نہیں دیا۔مجھے مارفیا نے پناہ دی ہے’میں اسے نہیں چھوڑ سکتی’مجھے طلاق چاہیے اور طلاق ابھی اور اسی وقت”حنا نے ہتھیار نہ ڈالنے کی قسم کھالی تھی۔
“تمہیں یہاں کیا تکلیف ہے۔روز تو نشہ کرتی ہو اور تمہیں کیا چاہیے بولو؟”
“مجھے طلاق چاہیے شہریار صرف طلاق۔اگر آپ مجھے واقعی خوش دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنی اور میری خوشی کی خاطر مجھے طلاق دے دیں۔”اس نے رکے رکے لہجے میں بات پوری کی۔
“میری خوشی کی بھی خوب کہی”شہریار نے طنز کیا”آپ کو میری خوشی کا بھی احساس ہو گیا ہے۔تو سن لیجیے میری خوشی یہ ہے کہ آپ ہمیشہ یہیں رہیں”شہریار نے آنکھیں بند کر لیں اور وہ خاموشی سے ناخون کھرچتی رہی۔
شاید یہ جھگڑا روز اٹھتا مگر قدرت نے حنا کو ایک موقع مہیا کر دیا۔حمید الدین پر دل کا دورہ پڑا۔دوسرے دن ان کو خبر آگئی۔حنا پنڈی چلی گئی۔حمید الدین جاں بر نہ ہو سکے۔شہریار نے اسکی بہت دل جوئی کی مگر ساتھ چلنے پر اسرار کیا تو اڑ گئی’کہنے لگی آپ چلے جائیے میں فی الحال امی کے پاس رہوں گی’وہ بے اولاد ہیں تنہا کیسے رہیں گی۔
شہریار چلے آئے اور حنا نے انہیں طلاق کے لیے عدالتی نوٹس بھیج دیا۔وہ اگلے ہی روز اس کے سامنے کھڑے تھے۔
“تم نے بھجوایا ہے؟”شہریار نے نوٹس اسکے سامنے رکھ دیا۔
“ہاں شہریار!ابو کی وجہ سے میں کھل کر بات نہیں کر سکتی تھی مگر اب میں صاف صاف کہہ رہی ہوں کہ مجھے ابو کی جایداد کی دیکھ بھال کرنا ہے’میں امی کے ساتھ رہوں گی۔”
“تم یہ سمجھتی ہو کہ مجھسے دور رہ کر خوش رہ سکو گی”شہریار نے کھوئے کھوئے لہجے میں پوچھا۔
“میں نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے”حنا نے دھیمے انداز سے کہا۔
تمہارے پاس ذہن ہی کہاں ہے۔نشے میں ہر فیصلہ کرتی ہو”
شہریار میں بحث کرنا نہیں چاہتی”حنا نے آخری بات کہہ کر خاموشی اختیار کر لی۔
دوسرے روز اسے طلاق نامہ مل گیا۔حنا طڑپ طڑپ کر روئی۔جس نے سنا سر پیٹ لیا۔خالہ بی خوش تھیں بلا سے نجات ملی۔
تنوع کے فقدان کا عذاب
لاہور ایئرپورٹ سے فلائی کرنے والا ہوموپاکیئن دو تین گھنٹے بعد دوبئی یا دوحہ میں اترتا ہے تو ایک مختلف...